امجد اسلام امجد سے ایک انٹرویو ۔۔۔ گلزار جاوید

٭ آپ کا اصلی اور پیدائشی نام؟

٭٭ امجد میرا اصلی اور پیدائشی نام ہے اسلام میرے والد صاحب کا نام ہے اس طرح میرا نام امجد اسلام ہے اور امجد میرا تخلص ہے۔

 

٭ یہ تخلص آپ نے کب اور کس کی تحریک پر اختیار کیا؟

٭٭ یہ غالباً نویں، دسویں جماعت کے زمانے میں جب شعر کہنا شروع کیا تو ظاہر ہے کہ اس وقت کی شاعری کم عمری اور کم علمی کی شاعری تھی جو اتنی معیاری نہ تھی بس میر، غالب، فیض احمد فیض جیسے اساتذہ کے تخلص سے متاثر ہو کر خود ہی امجد تخلص رکھ لیا۔

 

٭ اس زمانے کا اپنا کوئی شعر سنائیے؟

٭٭ ابتدائی ایام کی شاعری فنی لحاظ سے اکثر کمزور ہی ہوا کرتی ہے میں بھی جب اپنی ابتدائی شاعری کو یاد کرتا ہوں تو مجھے خود ہنسی آ جاتی ہے۔ اس وقت مجھے فرسٹ ائیر کے زمانے کا ایک شعر یاد آ رہا ہے۔ ؂

ملتے ہیں بے کسوں کو سہارے شراب میں

کھِلتے ہیں آرزوؤں کے ستارے شراب میں

اور عالم یہ تھا کہ اس وقت تک شراب میں نے کسی بھی حالت میں دیکھی تک نہیں تھی۔

 

٭ شاعری تو بقول آپ کے آپ نے نویں، دسویں جماعت میں شروع کر دی تھی۔ آپ کے قلب مضطرب نے پہلی بار کب اپنے ہونے کا احساس دلایا؟

٭٭ میرے خیال میں ’’قلب مضطرب‘‘ کیلنڈر کے حساب سے نہیں چلتا اور نہ ہی ڈائریوں میں مقید ہوتا ہے اور یہ بات بھی عرض کر دوں کہ جو Formative Years ہوتے ہیں ان میں چیزیں اتنی Fluid حالت میں ہوتی ہیں۔ ان کا نک سک واضح نہیں ہوتا۔ اس کا ایک Symptom ہوتا ہے اور Symptom یہ تھا کہ مجھے اپنی بات کہنے کا شوق تھا تو ممکن ہے اندر سے الارم کی گھنٹی بج رہی ہو۔ شکل واضح نہیں تھی بس کبھی میں ڈرامہ لکھتا کبھی نظمیں لکھتا تھا کبھی کوئی مضمون لکھتا تھا مگر میرے خیال میں اس کیفیت کے لئے ’’قلب مضطرب‘‘ کی اصطلاح مناسب نہیں۔

 

٭ میرا خیال ہے ہم پوچھنا یہ چاہتے ہیں کہ شعر کی بنا کیسے پڑی اس کے لئے تحریک کیونکر پیدا ہوئی؟

٭٭ دیکھئے! اس کا ایک سبب تو یہ ہے کہ میرا حافظہ بہت تیز تھا اور دوسرے طالب علموں کی نسبت مجھے پڑھنے لکھنے اور کچھ کرنے کا شوق جنون کی حد تک تھا۔ دوسری وجہ اس کی یہ ہے کہ اس وقت ہمارے پڑوس میں لاہور کی مشہور علمی و ادبی شخصیت آغا بیدار بخت رہتے تھے وہ مجھ سے پیار بھی بہت کرتے تھے جن کے ہاں علوم و فنون کی بے شمار کتب کا ذخیرہ تھا جن سے مجھے بھی فیض حاصل کرنے کا موقع میسر رہا جس کے باعث میرا شعری ذوق پروان چڑھا۔ سکول کے زمانے میں تو اس کی کوئی شکل نہ بن سکی البتہ کالج کے دور میں اس نے اپنا باقاعدہ اظہار شروع کر دیا۔

 

٭ غالباً آپ ہمیں یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ آپ کی شاعری کی ابتداء کسی بھی نوع کی قلبی واردات کا شاخسانہ نہیں؟

٭٭ جی ہاں! بالکل اتنی چھوٹی عمر میں قلبی واردات گزرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

 

٭ ثقہ شعراء کو اکثر زمین ہموار اور ماحول سازگار میسر رہتا ہے جس کے زیر اثر ان کا شعری ذوق پروان چڑھتا اور پختگی کی منازل طے کرتا۔ آپ اپنے گھریلو اور گرد و پیش کے ماحول کے بارے میں کچھ بتائیے؟

٭٭ برادر عزیز! مجھے تو صد فی صد بنجر زمین ہی ملی۔ زمین ہموار ہونا تو دور کی بات ہے ہمارے خاندان میں تو تعلیم کا تصور ہی ناپید تھا۔ جسے آپ Direct Parenthood کہتے ہیں تو میرے ایک چچا کالج کی سطح تک تعلیم حاصل کر سکے تھے۔ دوسرا آدمی فیملی میں میں تھا۔ ابتداء میں دست کاری اور ہمارے دور میں دکانداری اکثر خاندانی پیشہ رہا۔ میری ذات کے حوالے سے یہ کرم نوازی عطیہ خداوندی ہے۔

 

٭ آپ کے ابتدائی مشاغل میں شعر و ادب کے ساتھ کرکٹ کا بڑا ذکر ملتا ہے اگر آپ کو اس دور میں اچھے لیول کی کرکٹ کھیلنے کا موقع مل جاتا تو کیا آج ہماری ملاقات کسی کرکٹر، کوچ یا سلیکٹر سے ہوتی؟

٭٭ اچھے لیول کی کرکٹ کھیلنے کا موقع مجھے ملا بارہ سال کے بعد اسلامیہ کالج کی جس ٹیم نے گورنمنٹ کالج کی ٹیم کو ہرایا۔ اس میں میں بھی شامل تھا۔ آپ جانتے ہیں کہ اس زمانے میں قومی ٹیم کے گیارہ کھلاڑیوں میں سے چھ، سات کا تعلق گورنمنٹ کالج سے ہوا کرتا تھا تو میں سمجھتا ہوں کہ اس زمانے کے لحاظ سے مجھے معیاری کرکٹ کھیلنے کا موقع ملنے کے باوجود کرکٹ پر شعر و ادب کا شوق حاوی ہوتا گیا جس کے اور بھی کئی اسباب ہیں۔

 

٭ مثلاً! کوئی ایک سبب بتائیے؟

٭٭ مثلاً یہ کہ اس دور میں جب پنجاب یونیورسٹی کی ٹیم بنی تو ہمارا اسلامیہ کالج بارہ سال بعد چیمپیئن بنا تھا۔ جس میں میری پرفارمنس بہت عمدہ تھی مگر میری جگہ ایک سی۔ ایس۔ پی، بیوروکریٹ کے بیٹے کو منتخب کر لیا گیا۔ میں ریزرو کھلاڑیوں میں شامل تھا۔ اس زمانے میں یہ میرے لئے زندگی کا بہت بڑا شاک تھا۔ فوری طور پر میں نے بلا ولّا توڑ کر پھینک دیا مگر میں سمجھتا ہوں کہ Ultimately مجھے اس سے بہت فائدہ ہوا۔

 

٭ وہ کیونکر؟

٭٭ میں ایمانداری سے سمجھتا ہوں کہ میرے اندر کرکٹ کا جتنا ٹیلنٹ تھا Middle Order Batsman اور Slow off spinner کے طور پر کھیلتا تھا میرا کرکٹ کا جتنا Potential تھا اس کے مطابق میرے اندر بہت بڑا کرکٹر بننے کی صلاحیت نہیں تھی۔ میں 1965ء میں شروع کر کے 1977 تک کرکٹ سے فارغ ہو چکا ہوتا اور آج بطور کرکٹر میری کوئی شناخت نہ ہوتی جبکہ شعر و ادب کی بدولت گزشتہ پچیس سال سے خداوند کریم نے میری اوقات سے بڑھ کر مجھے عزت اور محبت سے نوازا ہوا ہے۔

 

٭ ابھی آپ نے فرمایا کہ سلیکشن میں نا انصافی پر آپ بہت رنجیدہ ہوئے اور آپ نے بیٹ وغیرہ توڑ ڈالا۔ تو کیا اس ناراضگی کا اظہار آپ نے بذریعہ شاعری بھی کیا۔

٭٭ نہیں جی! اس وقت اور بہت سے موضوع اور مسائل شاعری میں اظہار کے منتظر تھے۔ عرض کرنے والی بات یہ ہے کہ انسان بہت بے صبر واقع ہوا ہے۔ Most of the time ایسا ہوتا ہے کہ تقدیر آپ کے لئے بہتر تدابیر کر رہی ہوتی ہے مگر آپ شکوہ کناں ہوتے ہیں میرے ساتھ بھی یہی ہوا۔

 

٭ ہر آدمی کو جستجو اور کاوش کا حق ہے۔ آپ بھی اپنے ٹیلنٹ کو ہر طرح سے استعمال کرنے کا حق رکھتے ہیں آپ نے ڈھیر ساری اصناف میں قلم کاوشیں کی ہیں مگر آپ کو اپنی شناخت کا کونسا حوالہ پسند ہے؟

٭٭ جیسا کہ میں نے پہلے بھی عرض کیا ہے کہ شاعری میرا بنیادی تعارف ہے اور اب بھی واضح انداز میں بتانا چاہتا ہوں کہ میری سب سے بہتر اور معتبر شناخت اول و آخر شاعری ہے۔

 

٭ ایک Genuine شاعر اور تخلیق کار کا کن صلاحیتوں اور خوبیوں کا مالک ہونا ضروری ہے؟

٭٭ جینوئن تخلیق کار By birthہوتا ہے۔ ایک چیز ہوتی ہے God given Faculty اسے جینٹک والے کوئی نام دیں ’’قدرت اسے فطری طور پر ایسا جوہر ودیعت کرتی ہے۔ اس عطیہ الٰہی کے بعد تخلیق کار کا کام شروع ہوتا ہے کہ وہ اسے کیسے نکھارتا، سنوارتا اور پیش کرتا ہے اور یہ ہی پیشکش کے انداز سے اس کے حقیقی فنکار ہونے کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے ایک چیز کا اضافہ میں یہاں ضرور کرنا چاہوں گا کہ کسی بھی تخلیق کار بالخصوص قلمکار کے لئے مطالعہ اور Positive approach بہت ضروری ہے۔ اپنی سوسائٹی، ماحول اور اپنے لوگوں سے آپ کی جو کمٹ منٹ ہے اس کا حق بروقت اور مناسب انداز میں ادا ہونا بھی ضروری ہے۔

 

٭ کالج کے زمانے میں جب آپ کے اندر کا شاعر ظاہر ہوا تو آپ کے اس شوق میں کون کون لوگ آپ کے ہمسفر تھے اور آج بھی قومی سطح پر آپ کے ہم قدم اور ہم مقام ہیں؟

٭٭ جی! بہت سارے لوگ تھے۔ اس زمانے میں ہمارا جو گروپ تھا۔ اس میں سرمد صہبائی گو وہ ہم سے ایک سال سینئر تھے اور Immediate سینئرز میں اسلم انصاری، ریاض مجید، خورشید رضوی، انور مسعود میرے ہم عصروں میں خالد شریف، ماورا والے، عطاء الحق قاسمی اور ہمارے فوراً بعد کی جنریشن میں سعادت سعید، اجمل نیازی، حسن رضوی، ایوب خاور اور پروین بھی اسی دور میں آئیں اور بھی بہت سے نام ہیں جو اس وقت ذہن میں نہیں آ رہے۔

 

٭ اس تمام سفر میں کوئی آپ کا رقیب سفر بھی تھا۔ مثلاً جس سے مسابقت، رشک یا خدا نخواستہ جیلسی کا سامنا رہا ہو؟

٭٭ آپ کے سوال کے جواب میں زیادہ انکسار یا تکلف سے کام نہیں لوں گا۔ میں آپ کو بتاؤں ابتداء ہی سے میرا رجحان کلاسیک کی جانب تھا اور یہ ہی رغبت میری شاعری کی بنیاد تھی اور اساتذہ کو پڑھنے کے بعد انسان اتنا میچور ہو جاتا ہے کہ ان جیسا ہی بننے کی جستجو میں لگا رہتا ہے میرے خیال میں، میں بھی اپنے ہم عصروں سے زیادہ اساتذہ سے رشک کرتا رہا ہوں۔

 

٭ کچھ لوگ آپ کو آئیڈیالوجی کا شاعر بھی کہتے ہیں؟ اس نشست میں اپنی آئیڈیالوجی پر تفصیل سے روشنی ڈالئے؟

٭٭ مختلف لوگ آئیڈیالوجی کو مختلف مفہوم میں لیتے ہیں۔ مثلاً جب آپ کے Formative Years ہوتے ہیں تو آپ کی سوچ میں شدت ہوتی ہے۔ مسائل کو دیکھنے، سوچنے، سمجھنے اور ان کا حل تلاش کرنے میں آپ کا ایک خاص زاویہ نگاہ ہوتا ہے۔ جوں جوں آپ Grow کرتے ہیں جوں جوں آپ کے اندر ٹھہراؤ، سمجھداری اور بردباری آتی ہے اور آپ انہی مسائل کو بہتر انداز میں حل کرنے کے خواہاں ہوتے ہیں۔ اس سے کچھ لوگ غلط فہمی میں بھی مبتلا ہو جاتے ہیں کہ آپ اپنے راستے سے ہٹ یا بھٹک گئے ہیں مگر ایسا نہیں ہوتا مثال کے طور پر ایک زمانے میں مجھے سوشلزم بہت Haunt کرتا تھا اور تمام مسائل کا حل نظر آتا تھا میں اب بھی سوشلزم کی بہت سی خوبیوں کا قائل ہوں۔ میں خود کو Progressive شاعر تصور کرتا ہوں۔ ایک زمانہ تھا کہ ایوب خان کے خلاف تحریک میں میری نظمیں ’’نصرت‘‘ کے ٹائیٹل پر چھپا کرتی تھیں جس میں عوام کے جذبات کی ترجمانی ہوا کرتی تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ آپ کرسٹلائز ہوتے جاتے ہیں اور آپ کی سوچ میں ٹھہراؤ آ جاتا ہے تو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ آپ کے اندر وہ flare نہیں رہا جو پہلے تھا حالانکہ ایسا نہیں ہے اس کے Surface سے ذرا بلند ہو کر یا تہہ تک پہنچ کر آپ Sophisticated ہو جاتے ہیں آپ کے اندر شدت تو باقی رہتی ہے مگر اس کا انداز بدل جاتا ہے اس میں Depth آ جاتی ہے۔

 

٭ محبت کے بارے میں آپ کا فلسفہ کیا ہے؟

٭٭ میرے عزیز! محبت سے فلسفے کا کوئی تعلق نہیں۔ محبت تو سوچنے، سمجھنے اور کر گزرنے کی چیز ہے۔ in fact محبت کے دو پہلو ہیں۔ ایک محبت وہ ہے جو کسی ذات یا کسی چیز سے براہ راست کی جائے اور دوسری محبت اس رویہ کا نام ہے جو آپ کی ذات میں پائی جاتی ہو۔ محسوس کی جاتی ہو۔ محبت میری ذات میں رویہ کی مانند رواں دواں ہے۔ بعض اوقات کسی ہستی یا نظریہ سے آپ کے رویئے کو Pinpoint کر کے غلط فہمی بھی پیدا کی جاتی ہے میں کسی ذات یا ہستی سے محبت کے خلاف نہیں ہوں لیکن اسے محدود تر کرنے کو مناسب نہیں سمجھتا محبت ایک تسلسل، بہاؤ اور وسیع تر چھتری کے مفہوم کی مانند ہے جو آپ کے عمل سے عیاں ہوتا ہے۔

 

٭ پچھلے کسی سوال میں آپ نے خود کو Progressive شاعر اور بائیں بازو کے نظریات سے متاثر ہونے کا تاثر دیا ہے۔ مگر اب ہمارا خیال ہے کہ آپ خود کو دانستہ ترقی پسندی کے لیبل سے محفوظ رکھنا چاہتے ہیں؟

٭٭ نہیں صاحب! بالکل نہیں میں ببانگ دہل کہتا ہوں کہ میں جتنا ترقی پسند پہلے تھا اتنا ہی آج بھی ہوں لیکن جن لوگوں نے ترقی پسندی کا غلط پراپیگنڈہ کر کے اسے بدنام کیا ہے میں ان سے پہلو تہی کرتا ہوں فکری طور پر میری کمٹ منٹ اب بھی وہی ہے میں سمجھتا ہوں کہ سوشلزم میں بہت سی اچھی باتیں ہیں جنہیں بنی نوع انسان کی فلاح کے لئے استعمال میں لانا چاہئے۔ مگر جس طرح غلط مسلمان اسلام کو بدنام کر رہے ہیں اسی طرح غلط سوشلسٹوں نے بھی سوشلزم کو بدنام کر دیا ہے۔

 

٭ کیا آپ سوشلزم کے ان نکات کی نشاندہی کرنا پسند کرنا کریں گے جن سے آپ بنیادی طور پر متاثر ہیں؟

٭٭ دیکھئے! یہاں بات سوشلزم کی ہو رہی ہے۔ مارکسزم، روس یا چین کی نہیں ہو رہی مثلاً دو تین باتیں سوشلزم میں ایسی ہیں جو پوری انسانیت کا ورثہ ہیں مثلاً اسلام نے آپ کو جو بنیادی انسان کا Concept دیا ہے وہ ہے Equal Right پر مبنی نظام مغرب کے Capitalistic معاشرے میں Human Rights کی جد و جہد کو مختلف حیلوں، بہانوں سے دبایا جا رہا تھا۔ جس کو غالب نے دیو استبداد سے تشبیہہ دی ہے۔ دوسرا انسانی زندگی میں مذہب کی غلط تشریح کر کے اس کا بیجا استعمال کر کے انسانوں کو ان کے حق سے محروم کر دینا اور تیسری چیز جسے ہم آزاد فکر کہتے ہیں جیسے رسول کریمؐ نے فرمایا کہ مزدور کو اس کی مزدوری پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کرو تو اسلام کی بہت سی خوبیوں کو سوشلزم کے بانیوں نے اجاگر کیا جیسے علامہ اقبال نے کارل مارکس کے بارے میں یہ بات کہی ہے

نیست پیغمبر و لیکن در بغل دارد کتاب

کہ یہ آدمی پیغمبر نہیں تھا مگر کتاب اس کے پاس تھی۔ کتنا بڑا رتبہ دیا اسے۔

 

٭ آپ ایک روشن فکر اور روشن خیال صاحب قلم کا درجہ رکھتے ہیں۔ یہ فرمائیے کہ وطن عزیز کی پچاس سالہ عمر میں سے نصف تو مارشل لاؤں کی نذر ہو گئے بقیہ نصف میں سے کچھ مذہبی ٹھیکہ داروں اور دیگر ازموں کے پرچارکوں نے ضائع کر دیئے اس سارے عرصے میں قلمی برادری بالخصوص آپ نے پرچم حق کس حد تک بلند کیا؟

٭٭ کسی بھی سوال کا صحیح جواب تلاش کرنے کے لئے پہلے ہمیں اس کا Premises تلاش کرنا چاہئے۔ پاکستان دنیا کے انتہائی پسماندہ خطہ میں قائم ہوا۔ جو معاشرہ اپنی تخلیقی صلاحیت کو Almost ختم کر چکا تھا ان حالات میں جب ملک قائم ہوا تو خواہش بہت تھی کہ ہم راتوں رات قوموں کی برادری میں نمایاں مقام حاصل کریں لیکن عملی صورتحال یہ ہے کہ کوئی قوم یا معاشرہ اپنے سماجی، سیاسی، تاریخی اور معاشی حالات کے علاوہ اپنے Potential آبادی اور وسائل کو بروئے کار لا کر کوئی مقام حاصل کرتا ہے جبکہ وطن عزیز کے قیام کے وقت ہمارے پاس جذبہ کے سوا تھا کیا۔ چنانچہ گڑبڑ یہ ہوئی ایک تو Deprivation شروع سے تھی کہ ہم نے اپنا سفر مائنس سے شروع کیا اس کے بعد آنے والوں نے پہلے سے موجود خلا پر کرنے کے بجائے نئے خلا پیدا کرنے شروع کر دیئے۔ ہماری Generation نے 1965ء کی جنگ کے ساتھ ہوش سنبھالا ہے جس میں ہر طرف Feudalism کا جبر نمایاں نظر آتا ہے اور سوسائٹی کا ہر طبقہ احساس محرومی کے باعث رو بہ زوال نظر آتا ہے۔ ایسے میں آپ ایک ادیب یا شاعر سے بہت مضبوط کردار کی توقع کیونکر رکھتے ہیں جبکہ آپ کے ہاں زیادہ سے زیادہ Literacy Ratio پندرہ فیصد ہو جس میں سے اکثریت کا منشا روزگار کا حصول ہو اور ادب آپ کے ہاں آخری ترجیح شمار کیا جاتا ہو۔ کتاب کلچر کا فقدان ہو تو ایسے میں آپ ساری ذمہ داری ادیب اور شاعر پر ہی کیوں ڈالتے ہیں۔ وہ بھی ایک زوال پذیر معاشرے کا فرد ہے۔ انسان ہونے کے ناطے وہ بھی خطا کا مرتکب ہو سکتا ہے میں کوئی Excuse پیش نہیں کر رہا بلکہ صورتحال کی وضاحت کر رہا ہوں۔

 

٭ آپ ہمیں مختصر طور پر یہ بتائیے کہ آپ کی برادری (معہ آپ کے) کا کردار اس سارے عرصے میں مثبت رہا یا منفی؟

٭٭ گلزار! بات یہ ہے جس طرح آپ نے دو ٹوک سوال کیا ہے اسی طرح میں بھی دو ٹوک انداز میں کہوں گا کہ اہلِ قلم برادری نے دستیاب حالات میں بہت ہی مثبت کردار ادا کیا ہے۔ اور جہاں تک میری ذات کا سوال ہے تو میرے نظموں کے مجموعے ’’برزخ‘‘ اور میرے ڈرامے میرے گواہی کے لئے کافی ہیں۔

 

٭ ہم شاید اس موضوع پر کچھ دیر بعد آتے مگر آپ نے خود ہی ڈرامے کا ذکر فرمایا۔ یہ فرمائیے! آپ کی شاعری جتنی نفیس، نرم و نازک اور حسین ہے ڈرامے اتنے ہی کرخت اور Loudہوتے ہیں۔ ناظر کو یہ تسلیم کرنے میں بڑی دقت پیش آتی ہے کہ نرم و نفیس جذبات و احساسات کے مالک شاعر امجد اسلام امجد نے یہ ڈرامے کیونکر تحریر کئے ہیں؟

٭٭ بقول آپ کے میری شاعری دل کو موہ لینے والی ہے۔ اسی طرح جو لوگ میرے ڈرامے بیس بیس بار دیکھتے ہیں یقیناً وہ ڈرامے ان لوگوں کے دل بھی موہ لیتے ہوں گے۔ لوگوں کے ساتھ میری Form کا تعلق دو جگہ ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ شاعری میں جو Tender ہے وہ نرم و لطیف جذبات و احساسات ہیں۔ زندگی کی Delicate باتیں ہیں ان کا ایک حسن ہے اور اس حسن کا اظہار ہے۔ ڈرامے میں ایک اور حسن ہے یعنی اس میں انسان کے خارج کا حسن ہے اور شاعری میں باطن کا حسن ہے دنوں کی اپنی اپنی زبان اور پیرایہ اظہار ہیں۔

 

٭ امجد صاحب! ہمارے اور آپ کے نہایت شفیق جناب ممتاز مفتی مرحوم و مغفور اپنے ایک ہمعصر ناول نگار کے متعلق فرمایا کرتے تھے کہ اس نے ایک سکرپٹ ڈرائنگ روم، ایک بیڈ روم، ایک باتھ روم میں اور ایک سٹڈی میں رکھا ہوتا ہے جب جہاں جاتا ہے اس سکرپٹ پر کام شروع کر دیتا ہے تو آپ کے جواب سے ہم یہ سمجھیں کہ آپ کے بھی کئی چہرے ہیں مثلاً آپ شاعری میں بڑے حلیم الطبع اور ڈرامے میں شقی القلب واقع ہوئے ہیں؟

٭٭ نہیں نہیں! ہرگز نہیں! میں بالکل مختلف بات کر رہا ہوں ہر آدمی کی ایک شخصیت اندرونی ہوتی ہے اور ایک بیرونی مثلاً میں دیکھ رہا ہوں سن بھی رہا ہوں جیسے فیض صاحب نے کہا ؂

اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا

تو وہ کیا کہنے کی کوشش کر رہے تھے میں جب شاعری کرتا ہوں تو وہ میری ذات کا اندرونی مسئلہ ہوتی ہے۔ اس میں میں لوگوں کو جوابدہ نہیں ہوں۔ جب میں ڈرامہ لکھتا ہوں تو لوگوں کے دکھ درد اور مسائل شیئر کرنے کے لئے لکھتا ہوں جس طرح کے مسائل ہوں گے اسی طرح کی زبان ہو گی۔ چونکہ ہمارے مسائل تلخ ہیں لہٰذا میرے ڈراموں کی زبان تلخ اور انداز تند ہونا فطری بات ہے۔

 

٭ ابھی آپ نے فیض صاحب کا ذکر کیا۔ فیض احمد فیض بلاشبہ اردو شاعری کا نہایت معتبر نام ہے انہوں نے آپ کو جدت پسندی کی سند عطا کی تھی۔ کیا آپ بجا طور پر اس کے مستحق ہیں یا اور بھی لوگ اس اعزاز کے حقدار ٹھہرتے ہیں؟

٭٭ قطعی نہیں! فیض صاحب نے مجھے جدت پسندی کا ٹھیکیدار کبھی نہیں ٹھہرایا اور بھی بہت سے لوگ اس اعزاز کے بجا طور پر مستحق ہیں۔ میں اپنی ذات کو اس اعزاز کے لئے مکلف نہیں ٹھہراتا۔ میں نے خود بہت سے دوستوں کی تصانیف کے فلیپ میں انہیں جدت طراز رقم کیا ہے۔

 

٭ ایک اور محترم شخصیت ڈاکٹر وحید قریشی صاحب کے بقول آپ فیض اور ندیم کے دائرہ اثر سے نکل نہیں پا رہے اگر کبھی آپ ارادی کوشش کرتے بھی ہیں تو شاعری کی بجائے بقراطی کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔

٭٭ ڈاکٹر صاحب ہمارے بزرگ ہیں انہیں کوئی بھی رائے قائم کرنے کا پورا حق ہے مگر میں یہاں یہ وضاحت کر دوں کہ ڈاکٹر صاحب کی یہ رائے بیس سال پرانی یعنی 1978ء کی ہے جب میرا آغازِ سفر تھا اور صرف دو مجموعے ہی منظرِ عام پر آئے تھے۔ در اصل میں تو کلاسیک شعراء کا پیروکار ہوں جن سے فیض صاحب اور ندیم صاحب بھی بے پناہ متاثر ہیں۔ میر سے لے کر غالب تک تمام کلاسیکی شعراء سے مجھے گہرا شغف ہے اپنے آغاز میں نہ صرف فیض صاحب، قاسمی صاحب بلکہ ن۔ م۔ راشد، مجید امجد، اطہر نفیس اور مظہر النظر سے بھی متاثر رہا ہوں۔

 

٭ ابھی آپ نے اپنے طویل جواب میں راشد صاحب کی Craftsmanship کا بڑا ذکر کیا اور یہ بھی فرمایا کہ ابتدائی ایام میں آپ کی نظموں پر ان کا بڑا اثر تھا۔ سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ آپ کی نظم پر اگر راشد صاحب کا اثر تھا تو غزل میں آپ کس سے متاثر تھے؟

٭٭ غزل کبھی بھی میرا Strong Field نہیں رہا۔ میں بنیادی طور پر ہوں ہی نظم کا شاعر کیونکہ میری طبیعت میں چیزوں کو جوڑ کر اور دائرے میں دیکھنے کا جو رجحان ہے وہ نظم کے لئے زیادہ موزوں ہے کیونکہ میں کوشش کرتا ہوں چیزوں کو Totality میں دیکھنے کی جزئیات اگر اس کے اندر آ جائیں تو بہت خوب میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے ہاں اتنی توانا غزل کہی جا چکی اور کہی جا رہی ہے کہ اگر میں غزل میں چند اشعار ڈھنگ کے کہہ لوں تو اپنے رب کا شکر ادا کرتا ہوں۔

 

٭ تو کیا آپ کے خیال میں ہمارا نظمی ورثہ کسی قدر کمزور ہے؟

٭٭ جی ہاں! جی ہاں! Definitely نظم کی تاریخ ہی سو سال پرانی ہے۔ جس غزل نے مجھے متاثر کیا ہے وہ اٹھارویں صدی سے لے کر بیسویں صدی کے وسط تک کی ہے۔ جس سے میں بہت زیادہ متاثر ہوں اور اس دور میں بڑے بڑے نام آتے ہیں۔ جدید نظم کا کام تو حالی کے زمانے سے شروع ہوا ہے۔ اقبال خاص طرح کے شاعر تھے۔ ترقی پسند تحریک کے دنوں میں جو لوگ نمایاں ہوئے فیض صاحب، میرا جی، ن۔ م۔ راشد انہی لوگوں کے حوالے سے نظمی رجحان عام ہوا اور میں سمجھتا ہوں کہ نظم میں میرے جیسے لکھنے والے کے لئے زیادہ امکانات موجود ہیں۔

 

٭ یعنی آپ کی نظمیہ کاوشیں دانستہ ہیں؟

٭٭ دونوں چیزیں! بنیادی طور پر نیچرل ہیں۔ میری طبیعت میں جو انضباط ہے چیزوں کو اکٹھا کر کے دیکھنے کا وہ مجھے نظم کی طرف لے کر گیا پھر مجھے فوری شہرت بھی ملی اور مجھے خو دبھی احساس ہوا کہ نظم میں میرا لہجہ Establish ہو رہا ہے جبکہ غزل میں نہیں ہو رہا تو میں نے نظم پر زیادہ محنت شروع کر دی۔

 

٭ کچھ اصحاب قلم نے ’’نظیر‘‘ کی روایات کو از سر نو زندہ کرنے کا سہرا بھی آپ کے سر باندھا ہے یہ رائے مروتاً قائم کی گئی یا واقعی آپ نے ’’نظیر‘‘ کو کسی نئے زاویئے سے دریافت کیا؟

٭٭ جن صاحب نے یہ رائے قائم کی ان کی مہربانی ہے وگرنہ میں نے اپنی تنقیدی کتاب میں آٹھ شعراء پر مضامین لکھے اور سبھی کو غیرجانبداری کے آئینے میں پرکھا۔ چونکہ ’’نظیر‘‘ خود غیر روایتی شاعر ہے اس لئے مجھے یہ کریڈٹ دیا گیا حالانکہ پچاس سال میں ’’نظیر‘‘ پر خاصا کام ہوا ہے اور بہت سے لوگوں نے ’’نظیر‘‘ پر بے حد شاندار مضامین لکھے ہیں۔

 

٭ تنقید کا ذکر آیا ہے تو آج کل لکھی جانے والی تنقید کی بابت آپ کی کیا رائے ہے جبکہ تنقید کے نام پر ہم ایک دوسرے کے سہرے اور قصیدے لکھ رہے ہیں۔ آنے والے کل میں آج کی تخلیق اور تنقید کی کیا نمائندہ حیثیت ہو گی؟

٭٭ یہ صورتحال آج نہیں پرانے زمانوں میں بھی ایسا ہی ہوتا تھا جو اپنی دف کا آدمی ہوتا اسے بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا اور مخالف دف کے آدمی کی خوب بھد اڑائی جاتی۔ فرق جو پڑا ہے وہ میڈیا کی وجہ سے پڑا ہے۔ پہلے شاعری جو تھی وہ محدود Activity تھی۔ دوچار اساتذہ اور ان کے شاگرد مل کر مشاعرہ کرتے گفتگو ہوتی تھوڑی بہت تنقید و تنقیص ہوتی۔ اب پچاس، ساٹھ برس سے شاعری اور ادب Surface کے اوپر آ کر آپ کی عام زندگی میں زیادہ دخیل ہو گیا ہے پہلے شاعری پر وہی لوگ اپروچ رکھتے تھے جو نسبتاً پڑھے لکھے اور شہروں میں مقیم ہوتے تھے اب یہ ہے کہ اخبار، ریڈیو، ٹیلی ویژن کی وجہ سے شعر و ادب میں شہرت بہت آ گئی ہے۔ شو بزنس، سیاست اور کرنٹ افیئر کی شخصیات کے ساتھ شاعر و ادیب کو بھی کوریج ملنے لگی ہے اس باعث بہت سے جاہ پرست اور غیر ذمہ دار لوگ بھی شہرت کی ہوس میں اس شعبے سے وابستہ ہو گئے ہیں۔

 

٭ میں آپ سے یہ دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ پرانے زمانے کے ادیب و شاعر جو کرتے تھے ضروری تو نہیں ہم بھی وہی سب کچھ کریں۔ ان کا علم محدود تھا دائرہ کار محدود تھا جبکہ آج کا ادیب، شاعر نقاد اعلیٰ تعلیم یافتہ، روشن دماغ بڑے بڑے عہدوں پر متمکن اور دنیا دیکھئے ہوئے ہے کیا اسے یہ خیال نہیں آتا کہ اس کا یہ عمل اس کی اپنی قلم کاوشوں کے لئے کینسر کی طرح مہلک ہے جو اندر ہی اندر اسے کھوکھلا کئے جا رہا ہے؟

٭٭ دیکھیں! میں آپ سے عرض کروں پرانے زمانے میں بھی ایک مخصوص گروہ تھا جو غیر جانبدار تنقید لکھا کرتا تھا۔ اب بھی وہ لوگ موجود ہیں فرق جو پڑا ہے وہ صرف اتنا ہے کہ آج کی تنقید میں Intellectual honesty کا ریشو کم ہوا ہے۔ میں اس کی وجہ آپ کو بتانے کی کوشش کر رہا ہوں یہ جو ایک دم میڈیا کا Flow آیا ہے اس وجہ سے یہ چیزیں ابھی Settle نہیں ہو پا رہیں لیکن ایک بات میری یاد رکھئے گا تاریخ نے یہ ثابت کیا ہے مثلاً میرؔ کے ’’نکات الشعراء‘‘ میں ایک ہزار شعراء کا ذکر ملتا ہے آج ہم ان میں سے چھ سات سے زیادہ کا نام نہیں جانتے۔ اسی طرح تاریخ کا جو فیصلہ ہے اس میں وہی لوگ بچیں گے جو جینوئن ہیں۔

 

٭ کچھ ایسا ہی دردناک پہلو اعزازات کا ہے۔ کیا آپ سمجھتے ہیں نا اہل، سفارشی اور غیر مستحق لوگوں کو ریوڑیوں کی طرح اعزازات بانٹنے سے ان کی Credibility باقی رہ گئی ہے؟

٭٭ میرے خیال میں یہ بات بھی بہت زیادہ Exaggerate کی گئی ہے۔ یہ بات اس طرح سے نہیں ہے مثلاً میں آپ کو اس کی مثال دیتا ہوں۔ اگر ہم پاکستان بننے کے بعد سے اب تک ادیبوں کو دیئے گئے اعزازات کو Confine کر لیں تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ پانچ فیصد سے زیادہ غلط بخشی نہیں ہوئی اور یہ بھی میں سمجھتا ہوں ہماری صفوں میں غیر ادبی لوگوں کی شمولیت کے باعث ہوا وگرنہ صورتحال اتنی دگرگوں نہیں کہ تمام اعزازات کی Credibility کو مشکوک گردانا جائے۔

 

٭ ایک نہایت اہم سوال آپ کی ذات اور آپ کی سرکاری حیثیت کے حوالے سے ہمارے ذہن میں کلبلا رہا ہے ہمارے عہد میں نہایت معتبر، ثقہ اور سینئر اہل قلم کی موجود گی میں نسبتاً جونیئر اور کم عمر اہل قلم کو اعلیٰ عہدوں پر تعینات کیا جا رہا ہے؟

٭٭ کم عمر سے آپ کی کیا مراد ہے؟

 

٭ کم عمر سے مراد سینئر ترین لوگوں کی موجودگی میں ان کے جونیئرز سے ہے۔ مثلاً…… آپ ہیں۔ افتخار عارف صاحب ہیں، کشور ناہید صاحبہ ہیں، احمد فراز صاحب ہیں۔

٭٭ بھائی خواتین کی عمر زیر بحث نہ لائیں تو بہتر ہے۔ جہاں تک سوال افتخار عارف صاحب کا ہے تو وہ ساٹھ کے پیٹے میں ہیں۔ فراز صاحب ساٹھ سال سے تجاوز کر چکے ہیں۔ جن محترم ادبا اور شعراء کی طرف آپ کا اشارہ ہے وہ تو سرکاری ملازمت کے لئے Qualify ہی نہیں کرتے۔ جہاں تک میرے ادارے کا سوال ہے وہ تو بہت چھوٹا سا ہے۔ اس کی ایسی حیثیت بھی نہیں کہ اسے مثال بنایا جائے۔ اب ہم اکادمی ادبیات کو لیتے ہیں وہ ایک Administrative ادارہ ہے۔ اس کے لئے تو Administrative Capability والا شخص ہی موزوں ہو سکتا ہے۔

 

٭ تو کیا آپ کے خیال میں اکادمی میں Administrative Capability والے لوگ تعینات ہیں؟

٭٭ لگنے چاہیں۔ لیکن جہاں تک اس کی علمی سطح ہے۔ اس کا بورڈ آف گورنر ہے اور اس کے Life Member ہیں اس میں بڑے بڑے صاحب علم و ادب کی نمائندگی ہونی چاہئے۔

 

٭ ابھی آپ نے اپنے ادارے کا ذکر فرمایا۔ ایک تو اس کی ذمہ داری اور کارگزاری پر روشنی ڈالئے اور ایک بات عوام الناس کی اطلاع کے لئے اور فرمائیے کہ اردو اور سائنس کا آپس میں کیا تال میل ہے؟

٭٭ پہلی بات تو یہ ہے کہ مجھے اردو سائنس بورڈ میں کوئی قباحت نظر نہیں آتی یہ جاپانی سائنس بورڈ بھی ہو سکتا ہے اور انگریزی سائنس بورڈ بھی ہو سکتا ہے کہ سائنس کا جو کام کسی زبان میں ہوتا ہے اس کا یہ ادارہ ہے چونکہ اس میں سائنس کا کام اردو میں ہوتا ہے اس لئے اس ادارے کا نام اردو سائنس بورڈ ہے۔ یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ مقتدرہ قومی زبان پہلے اردو سائنس بورڈ ہوا کرتا تھا۔ اردو سائنس بورڈ کا پہلا نام مرکزی اردو بورڈ ہوا کرتا تھا۔ یہ اس نام سے 1983ء تک کام کرتا رہا۔ 1983ء میں مقتدرہ کے قیام کے بعد یہ سوال پیدا ہوا کہ یہ دونوں ادارے ایک ہی طرح کا کام کر رہے ہیں۔ اس لئے ہمارے ادارے کو اردو میں سائنسی کام کرنے کا ذمہ سونپا گیا۔ اور باقی ذمہ داری مقتدرہ قومی زبان کے حصے میں آئی تو ہمارے ادارے کا کام ان اداروں کی معاونت کرنا ہے جہاں اردو میں سائنس پڑھائی جا رہی ہے اور اس ادارے کی مطبوعات کی تعداد پانچ سو ہے۔

 

٭ آپ کے دور میں کتنی مطبوعات کی اشاعت ہوئی؟

٭٭ ویسے تو یہ ادارہ سال میں بارہ پندرہ مطبوعات شائع کرتا ہے چونکہ آزادی کے حوالے سے یہ گولڈن جوبلی سال ہے اور اس میں پچاس مطبوعات شائع کرنے کا پروگرام ہے مگر ابھی تئیس مطبوعات منظر عام پر آ سکی ہیں جن پر پہلے سے کام ہو رہا ہے؟

 

٭ ابتداء میں آپ نے فرمایا تھا کہ آپ کا اصل حوالہ شاعری ہے اور آپ کلاسیکل شعراء سے متاثر ہیں یعنی قیام پاکستان سے قبل کی شاعری تو آپ کی پسندیدہ ٹھہری قیام پاکستان کے بعد پچاس سالہ دور میں علاقائی زبانوں کی آمیزش سے کی گئی اردو شاعری کے معیار اور مستقبل کی بابت آپ کی رائے کیا ہے؟

٭٭ ایک لفظ ’’اردوئے معلی‘‘ مروج ہوا کرتا تھا۔ جس کا اب کوئی وجود نہیں۔ قیام پاکستان کے بعد نہیں بلکہ تیس پینتیس سال قبل ہی علامہ اقبال کے دور میں اردو شمالی ہندوستان میں منتقل ہو گئی تھی اور اردو کا مستقبل اسی سرزمین سے وابستہ ہے۔ اب یہ کیونکر ممکن ہو سکتا ہے کہ پنڈی بھٹیاں کی زبان میں لکھنؤ کا روزمرہ شامل ہو۔ میں نے خود اپنے ڈراموں میں یہاں کے روز مرہ محاورے استعمال کئے ہیں۔ عطاء الحق قاسمی اپنے کالموں میں یہی کام بڑی خوبصورتی سے کر رہا ہے اور بھی بہت سے لکھنے والے یہ کام سرانجام دے رہے ہیں جو الفاظ Develop ہو گئے ہیں انہیں استعمال میں لاؤ ساری دنیا میں یہ ہو رہا ہے۔

 

٭ دیکھئے ہم یہ دریافت کرنا چاہتے ہیں کہ کچھ لوگ اردو زبان میں تخلیق کرتے وقت اکثر سہل پسندی کا شکار ہو کر علاقائی زبانوں کے جو الفاظ استعمال کرتے ہیں اس سے اس زبان پر کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں؟

٭٭ جناب من! میں خود اردو زبان کی حرمت کا بہت قائل ہوں یہ ایک Living body ہے۔ زندہ باڈی Grow کرتی ہے۔ تو اس کی Growth کو Accept کرنا چاہئے اور جو پرانے الفاظ اردو میں مروج ہیں اگر ان سے بہتر الفاظ Develop ہو گئے ہیں تو انہیں استعمال میں لانے میں کوئی مضائقہ نہیں اور آپ کا جو استدلال ہے میرے خیال میں کوئی بھی جینوئن تخلیق کار اس قسم کی حرکت کا مرتکب نہیں ہوتا۔ نالائق بہرحال نالائق ہے جس کے لئے آپ جواب دہ ہیں نہ میں۔

 

٭ امجد بھائی! بات ہو رہی تھی سہل پسندی کی مثال کے طور پر مجھے موزوں الفاظ نہ ملے تو غیر موزوں الفاظ کے بل بوتے پر غزل کہہ ڈالی۔ غزل نہ کہہ سکا تو نظم میں طبع آزمائی کر لی اسی طرح ہائیکو، سہ مصرعی یا آزاد نظم وغیرہ کہہ کر خود کو شاعر منوا لیا؟

٭٭ میں آپ سے عرض کروں جو نالائق ہے وہ پچاس اصناف بھی بدل دے پھر بھی نالائق ہی رہے گا۔ کسی کی نالائقی کو علاقائی زبانوں سے کس طرح منسوب کیا جا سکتا ہے۔ دیکھئے اردو جو ہے یہ مختلف زبانوں کا ملغوبہ ہے جب یہ ہے ہی مکسچر تو اس میں صحت مند الفاظ کا اضافہ میرے خیال میں مثبت عمل ہے۔ اس زبان کے Grow کرنے کے لئے یہ انتہائی ضروری ہے کہ عربی، فارسی، سنسکرت، انگریزی، ڈچ، فرنچ زبانوں کی طرح ہماری علاقائی زبانوں کا تعاون بھی اسے حاصل رہے۔ کوئی بھی صاحب علم Standardکا لفظ دستیاب ہوتے ہوئے Substandard لفظ کو کبھی بھی استعمال نہیں کرے گا۔

 

٭ نظم کے حوالے سے بھی آج کی صورتحال زیادہ خوش کن نہیں اس میں بھی نت نئے تجربات اس کے حسن کو ماند کر رہے ہیں۔ مثلاً آزاد نظم اور نثری نظم وغیرہ

٭٭ بہت سارے لوگ جو شاعری سے نا آشنا ہیں وہ نثری نظم اور آزاد نظم کو گڈمڈ کر دیتے ہیں جو Non Poetryیا بے وزن شاعری ہے۔ ان کے خیال میں یہ آزاد نظم ہے، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ بے وزن شاعری آزاد نظم نہیں ہوتی۔ بے وزن شاعری صرف نثری نظم ہوتی ہے۔ اس لئے ان کے درمیان حد فاصل قائم کر لینی چاہئے۔ گو کہ میں اس بے وزن شاعری کو شاعری تسلیم نہیں کرتا مگر میں ہمیشہ یہی کہتا ہوں کہ ہر آدمی کو اپنا میڈیم استعمال کرنے کا حق ہے۔ جہاں تک آپ کے سوال کے اس حصے کا تعلق ہے جس میں آپ نے سہ مصرعی، ہائیکو اور خواصیاں کا ذکر کیا ہے۔ میرے خیال میں اس کی دو وجہ ہیں۔ ایک تو نئی فورم کی تلاش اور دوسرے یہ کہ جلد شہرت حاصل کرنا۔ تو میرے خیال میں جدت طرازی کے حوالے سے تو یہ جستجو قابل ستائش ہے۔ وقتی شہرت اور نام کمانے کی غرض سے محنت سے جی چرا کر اس طرف آنا ہرگز قابل ستائش نہیں۔ آپ کی گفتگو سے مجھے احساس ہو رہا ہے کہ آپ تحقیق، تنقید اور تخلیق کے باب میں نمبر دو لوگوں کی کاوشوں سے خاصے آزردہ ہیں لیکن میں آپ سے عرض کروں گھبرانے کی چنداں ضرورت نہیں۔ سوسائٹی کے ٹیسٹ سے جب چیزیں گزرتی ہیں تو ان میں صرف اے کلاس چیزیں باقی رہتی ہیں باقی سب وقت کے گرداب میں کھو جاتی ہیں۔ جیسا کہ پہلے ہوتا رہا ہے۔ کیا اچھا شعر ہے محشر بدایونی کا ؂

اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ

جس دیئے میں جان ہو گی وہ دیا رہ جائے گا

 

٭ آپ اپنے سفر ناموں کی بابت کچھ روشنی ڈالیں گے؟

٭٭ بھائی! ابھی تک میرے صرف دو سفر نامے منظر عام پر آئے ہیں جس میں میں نے کوئی محیرالعقول بات کہنے یا کسی دلبر حسینہ کا سہارا لینے کے بجائے کہانی پن کے تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے لوگوں کو اپنی معلومات میں شیئر کیا ہے جسے لوگوں نے سراہا بھی ہے۔

 

٭ آج کل بطور کالم نگار بھی آپ کا بہت چرچا ہے؟

٭٭ نہیں یار! ایسی بھی کوئی بات نہیں اور بہت سے سینئر لوگ یہ کام مجھ سے بہتر طریقے پر انجام دے رہے ہیں۔ میں نے (۸۰) اسی کی دہائی میں بھی کچھ عرصہ کالم نگاری کا شغل اختیار کیا تھا۔ کسی سبب میں اسے جاری نہ رکھ سکا۔ اب قریباً چار پانچ سال سے باقاعدگی سے یہ شغل جاری ہے۔ اس کا ایک فائدہ یہ ہے کہ جو بھی بات آپ کو Haunt کرتی ہے اسے آپ فوری طور پر اپنے قاری سے شیئر کر سکتے ہیں اور خدا کا فضل ہے اسی باعث مجھے Feed Back بھی مل رہا ہے اور اس طرح لوگوں سے Communication بھی ہو رہی ہے۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ میں بھرتی کے کالم نہیں لکھتا جو موضوع مجھے اپیل کرتا ہے اسی پر قلم اٹھاتا ہوں۔

 

٭ کبھی آپ کو ’’ماں بولی‘‘ میں لکھنے کا خیال نہیں آیا؟

٭٭ ضرور آیا جی! بلکہ ابھی جو میری Latest کتاب ہے اس میں میں نے اپنی پنجابی شاعری درج بھی کی ہے اور ساتھ ہی یہ معافی بھی مانگی ہے کہ مجھے اس پر بہت پہلے اور بہت زیادہ لکھنا چاہئے تھا جو میں نہیں لکھ سکا۔

 

٭ ’’ماں بولی‘‘ میں زیادہ نہ لکھنے کی وجہ؟

٭٭ ایک تو ہماری تہذیبی زبان اردو جس میں ہم نے Grow کیا ہے اس کی جو Audience acceptance ہے ایک تو وہ بہت بڑی Motivations ہوتی ہے اور تیسری چیز جس نے مجھے ہمیشہ پریشان کیا ہے وہ پنجابی زبان کا Script ہے یہ ایک بولی ہے جس میں بہت سی باتیں خواہش کے باوجود لکھنا ممکن نہیں ہوتا۔ البتہ مشرقی پنجاب میں ’’گرمکھی‘‘ میں اس کی شکل زیادہ ترقی یافتہ ہے۔ دوسرے یہ کہ ہم سارے لوگوں سے بات کہنا چاہیں تو وہ سب تک نہیں پہنچتی۔ یہ دونوں Drawback میرے راستے کی رکاوٹ رہے مگر میں پھر بھی سمجھتا ہوں کہ یہ معقول جواز نہیں ہے۔ مجھے بہرحال زیادہ لکھنا چاہئے تھا جس کی میں جلد تلافی کرنے کی کوشش کروں گا۔

 

٭ احباب میں آپ کی ’’مزاحیہ حس‘‘ کا بہت چرچا ہے۔ (جس کے ہم بھی قائل ہیں) اس کے باوجود آپ باقاعدہ مزاح کی طرف کیوں نہیں آئے؟

٭٭ ہمارے معاشرے میں تحمل اور برداشت بہت کم ہے۔ اچھے Humour کے لئے بنیادی شرط یہ ہے کہ اس کو سمجھنے اور برداشت کرنے والی سوسائٹی موجود ہو۔ لطیفہ، پھکڑ پن یا جگت کی بات دوسری ہے وہ ہوا میں تحلیل ہو جاتے ہیں مگر سنجیدہ مزاح جو ہے وہ آنسو کی تہہ کے اوپر Travel کرتا ہے جس کے نیچے ایک نمی بھی ہوتی ہے جب آپ ہنستے ہیں تو اس کے پیچھے اس کجی کا غم بھی ہوتا ہے جس کے سبب آپ ہنس رہے ہیں اور اچھے تخلیق کار کے مزاح میں یہ بات نمایاں ہوتی ہے۔ مجھے دقت یہ ہوئی جب میں نے مزاح لکھا تو میں معاشرے کے فرشتوں کا نشانہ بن گیا۔ یعنی میں نے ’’یا نصیب کلینک‘‘ لکھا تو مجھے قانونی چارہ جوئی کا سامنا کرنا پڑا۔ لہٰذا میں نے سنجیدہ مزاح لکھنے کے بجائے اپنے ڈراموں میں ہلکے پھلکے مزاحیہ جملوں سے اپنا رانجھا راضی کیا۔

 

٭ طویل، رنگا رنگ اور بھرپور قلمی کیریئر کے حوالے سے آپ کی ترجیحات اور خواہشات؟

٭٭ گلزار بھائی! میں یہ بات تکلفاً نہیں کہہ رہا میرے اوپر تقدیر اور کاتب تقدیر بہت مہربان رہے ہیں۔ میں نے کبھی اس چیز کی خواہش یا تمنا نہیں کی جس کے لئے Deserve نہ کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے میری محنت کا صلہ میری خواہشوں سے بڑھ کر دیا مگر ایک ملال مجھے ہر وقت بے کل کئے رکھتا ہے کہ میرا معاشرہ، میرا ملک، میری قوم جس کی خوبصورتی کے لئے میں نے بے پناہ خواب دیکھے اور اپنی سی کوششیں بھی کیں اتنا خوبصورت نہیں ہے جتنا خوبصورت میں اسے دیکھنا چاہتا تھا۔ خدا سے دعا ہے کہ وہ اسے میرے خوابوں جتنا خوبصورت بنا دے اور مجھے بھی توفیق بخشے کہ میں اس کے حسن کو سنوارنے، نکھارنے میں بھرپور کردار ادا کر سکوں۔

 

(اپریل ۱۹۹۸ء)

٭٭٭

فیس بک

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے