امجد اسلام امجد! تم کو کہہ رہا ہوں ۔۔۔ منیر فراز

نوٹ: کویت میں احمد فراز کے ساتھ ایک شام منانے کے بعد ہمارا اگلا ہدف دنیائے ادب کے شہرہ آفاق قلم کار امجد اسلام امجد اور مزاح کے صاحب اسلوب شاعر انور مسعود کے ساتھ ایک شام منانے کا تھا یہ پروگرام بھی مجھے آرگنائز کرنا تھا تیاریاں مکمل ہوئیں مجھے حسب سابق، امجد اسلام امجد پر ایک مضمون پڑھنا تھا- پروگرام کی تیاریوں کے بیچوں بیچ جیسے تیسے مضمون مکمل کیا اور سچ بات تو یہ ہے کہ میں اپنے مضمون کے سلسلے میں کچھ کنفیوز تھا- امجد نثر کا بڑا نام اور مجھے قلم پکڑنے تک کا ڈھنگ نہیں، مائک پر پہنچا، جیب سے پرچہ نکالا، وتعز و من تشا، پر صدقہ دینے کا عہد کیا اور مضمون پڑھ دیا- معلوم ہوا کہ صدقہ سو بلاؤں کو ٹال دیتا ہے، اس لئے کہ میرے مضمون کے بعد جب امجد اسلام امجد کو مائک پر آنے کی دعوت دی گئی تو وہ ایک منٹ تاخیر سے مائک پر آئے، مائک پر آتے ہی انہوں نے کہا "خواتین و حضرات ابھی مجھ پر جو مضمون پڑھا گیا، میرے لئے ضروری تھا کہ اس کی تعظیم میں ایک منٹ کی خاموشی اختیار کرتا”

ممکن ہے امجد اسلام امجد کی میرے مضمون کے لئے کہی گئیں یہ لائنیں روایتی ہوں، لیکن میں نے روایتی مضمون نہیں پڑھا، اور جو پڑھا، اس کا عنوان، امجد ہی کے شہرہ آفاق جملہ "کس کو کہہ رہے ہو” جو ان کی ایک ڈرامہ سیریز میں غالباً عابد کاشمیری کا تکیہ کلام تھا، کے وزن پر "تم کو کہہ رہا ہوں” تھا- چند روز قبل اپنے مضامین کی ایک غیر اہم فائل کو دیکھا تو یہ مضمون نظر سے گزرا، تب مجھے اس کا کچھ لطف نہیں آیا تھا لیکن ماہ و سال گزرنے کے بعد آج جب اسے دوبارہ دیکھا تو دل چاہا کہ یہ مضمون آپ سے شیئر کروں – آپ بھی پڑھئے

* * * * *

 

مجھ ایسے طفلان ادب سے اگر کوئی شخص کسی لائیو پروگرام میں امجد اسلام امجد کے فن اور شخصیت پر مضمون پڑھنے کو کہے تو اس کے لئے عافیت اسی میں ہے کہ وہ شخص اگر نوجوان ہے تو گردے، اور اگر ضعیف العمر ہے تو پھر جوڑوں کے درد کا بہانہ بنا کر بات کو ٹال جائے – لیکن چند ناعاقبت اندیش دوستوں کے کہنے میں آ کر اگر کوئی شخص امجد اسلام امجد پر مضمون پڑھنے کا بیعانہ پکڑ لے، تو جس طرح قومی ترانہ کے آغاز میں کہا جاتا ہے کہ آپ پر لازم ہے کہ اس کے احترام میں کھڑے ہو جائیں، بعینہ مضمون پڑھنے والے پر لازم ہے کہ امجد کے فن پر کچھ کہنے سے قبل قبلہ انور مسعود کا وہ قطع اچھی طرح ذہن نشین کر لے جو غالبا انہوں نے بھی کسی ایسی ہی تقریب میں اپنے ساتھ "ہاتھ ہونے ” کے موقع پر کہا ہو گا

کچھ وہ کہہ دے تو پھر کسی سے بھی

کچھ جواباً کہا نہیں جاتا

انورا! احتیاط امجد سے

اس کا جملہ خطا نہیں جاتا

اب جبکہ پیر مغاں استاد انور مسعود جیسے جملہ ساز امجد کے بارے میں کچھ کہنے کے موقع پر جوڑوں کے درد کا بہانہ تلاش کرتے دکھائی دیں تو مجھ جیسا طفل ادب امجد کے سامنے گردے کے درد کا بہانہ نہ کرے تو کیا کرے – بات کیونکہ بگڑ چکی یے اور میں دوستوں کے بہکاوے میں آ کر کچھ کہنے لگا ہوں تو صورت حال یہ ہے کہ امجد جیسے ہفت جہتی فنکار پر اس قدر لکھا، پڑھا، سنا اور برداشت کیا جا چکا ہے کہ میرے لئے ان کے فن پر کوئی نئی بات پیدا کرنا ممکن نہیں، ایسے موقعوں پر میں ہمیشہ ادھر ادھر کی باتیں کر کے ٹائم پورا کر لیا کرتا ہوں – مثل مشہور ہے کہ گیدڑ کی موت آتی یے تو وہ شہر کا رخ کرتا ہے سو آج میں نے بھی امجد اسلام امجد پر مضمون پڑھنے کا ارادہ کر لیا ہے اگر آپ کو کہیں زبان و بیان میں سقم اور میرے چہرے پر ہوائیاں اڑتیں نظر آئیں تو یاد رکھا جائے کہ میرے گردوں میں شدید درد ہے –

بات کچھ یوں ہے کہ جب میں 80ء کی دہائی کے نصف میں کویت آیا تو میرے ہمدم دیرینہ، مرحوم سعید صفدر، جو بعد ازاں نوائے وقت کے ہفت روزہ ” فیملی ” میگزین میں علی سفیان آفاقی کے نائب مدیر رہے، یہاں پہلے ہی سے موجود تھے، انہیں کسی نے بتا دیا تھا کہ نئے رنگروٹوں کی جو کھیپ کل یہاں قومی ایئر لائن کے توسط سے لینڈ ہوئی ہے ان میں منیرفراز نامی شعر و ادب کا ایک ٹلا بھی شامل ہے -یہ میرے دور کے چچا کا ادارہ تھا جس میں میرے ناز نخرے اٹھائے جاتے رہے۔ پہلی تفصیلی ملاقات میں ہی سعید صفدر مرحوم نے ادب و سماج کے حوالے سے میرا انٹرویو مکمل کر کے یہ نتیجہ نکال لیا تھا کہ دنیا کی کوئی طاقت مجھے کویت میں ناکام ہونے سے نہیں بچاسکتی- شاعری کے حوالے سے جب انہوں نے نظموں کی بات کی تو میں نے نظم کے امام نم راشد اور میرا جی کا نام لے دیا لیکن ساتھ یہ بھی بتا دیا کہ ان کی بعض نظمیں زیادہ ہی آزاد ہونے کی وجہ سے مجھے ابلاغ نہیں کرتیں – سعید صفدر کسی ماہر سرجن کی طرح میرے مرض سنتے رہے – جب انہیں یقین ہو گیا کہ میں متعدد لاعلاج بیماریوں میں مبتلا ہوں تو وہ اٹھ کر چلے گئے۔ دوسری صبح میں اپنی سیٹ پر بیٹھا ہوں تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ بغل میں کتاب دبائے چلے آ رہے ہیں انہوں نے دروازہ کھولا، مجھے اچھی طرح یاد ہے وہ ردھم کے ساتھ پڑھتے آ رہے تھے

” تو چلنے سے پہلے ذرا سوچ لینا

ضروری نہیں ہے جو ان دیکھے رستوں کی خبریں سنائے

وہ ان راستوں کا شناسا بھی ہو

کہیں یہ نہ ہو جب سمندر میں تم اس کو ڈھونڈو تو وہ

ساحلوں پہ کھڑا مسکراتا ملے ”

سعید صفدر نظم کا آخری بند پورا کرتے ہوئے کہنے لگے، جن نوجوانوں کے ابھی دودھ کے دانت نہیں ٹوٹے، نظموں کی یہ کتاب ان کے لئے ہے – انہوں نے بغل میں دبایا ہوا شعری مجموعہ میرے سامنے رکھ دیا – یہ امجد کی نظموں کا اولین مجموعہ "برزخ” تھا۔

میں امجد اسلام امجد کا شہرہ آفاق ڈرامہ "وارث” دیکھ چکا تھا جس نے ہمارے سماجی حلقوں میں تہلکہ مچا دیا تھا۔ شہر کے نوجوان وارث کی دیکھا دیکھی اپنی اپنی طاہرہ نقوی کے ساتھ آغا سکندر کے لہجے میں بات کرتے۔ گاوں کے بوڑھے، سیٹھ حشمت کی طرح پگڑیاں باندھنے لگے، جن کی موچھیں ہوتیں وہ انہیں تاو بھی دیتے۔ شعری حوالے سے "برزخ” اگرچہ امجد اسلام امجد سے میری پہلی ملاقات تھی لیکن میں اب ان نظموں پر سوا چار گھنٹے بات کر سکتا ہوں اس لئے کہ ان نظموں میں جمالیاتی شعور اور فن کا ایسا حسین امتزاج موجود ہے کہ آپ اپنی بات پوری کرنے کے بعد پھر کہہ اٹھتے ہیں کہ خواتین و حضرات مجھے فلاں نظم کے حوالے چند باتیں اور کہنی ہیں۔ برزخ کی نظموں نے خیال و فکر سے ہٹ کر مجھے نظم کی ساحرانہ بنت کاری کے حصار میں لے لیا کسی نظم میں ایسا دلکش ردھم میں نے پہلے کبھی محسوس نہیں کیا تھا۔

’وہ جب بھی کالج کی سیڑھیوں سے

سہیلیوں کو لئے اترتی

تو ایسے لگتا تھا جیسے دل میں اتر رہی ہے‘

برزخ کی ساری نظمیں اسی طرح سیڑھیوں کے راستے دل میں اتر گئیں، حافظے میں آ گئیں۔ اور جب والدہ مرحومہ نے پوچھا، پاکستان سے کوئی چیز منگوانی ہے، تو میں نے امجد کا دوسرا شعری مجموعہ "ساتواں در” منگوا لیا۔ محبت کی ایک نظم آپ کو بھی یاد ہو گی

"اگر کبھی میری یاد آئے

تو چاند راتوں کی نرم دلگیر روشنی میں

کسی ستارے کو دیکھ لینا

اگر وہ نخل فلک سے اڑ کر

تمہارے قدموں میں آ گرے تو

یہ جان لینا وہ استعارہ تھا میرے دل کا

اگر نہ آئے

مگر یہ ممکن ہی کس طرح ہے

کہ تم کسی پر نگاہ ڈالو

تو اس کی دیوار جاں نہ ٹوٹے

وہ اپنی ہستی نہ بھول جائے”

یہ امجد کا رومانوی دور تھا۔ برزخ اور وارث کے ساتھ اس کی آمد چونکہ جیمز بانڈ کی طرح دھماکہ خیز تھی چنانچہ وہ جیمز بانڈ ہی کی طرح اس قدر مقبول ہوا کہ اگر وہ تاشقند کے ہوائی اڈے پر اترتا تو لوگ اسے پہچان لیتے، وہ شنگھائی میں ہوتا یا مانٹریال میں، لوگ رک کر اس سے مصافحہ کرتے۔ وہ گھر گھر پہچانا گیا۔ بچے، بوڑھے اور جوان اس کے لکھے ہوئے کرداروں کی زبان ہولنے لگے اور اس کے مکالمے نان بائی کی دکانوں سے لے کر بین الاقوامی ہوائی اڈوں کے وی آئی پی لاؤنج اور جہاز اڑاتے کیپٹن کے کیبنوں میں بولے جانے لگے۔ امجد اگر اپنے لوگوں کے دلوں میں اس قدر دھڑکتا تھا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ اس کی تمام تخلیقی اصناف کی بنیاد محبت ہے اس نے اسی محبت کو بنیاد بنا کر ایسی عظیم نظمیں تخلیق کیں، جو میں سمجھتا ہوں کہ عالمی ادب میں کسی بھی زبان کی کلاسیکل شاعری کے برابر فخر سے رکھی جا سکتی ہیں۔ محبت کے عظیم جذبے کو ان چار لائنوں کے بند میں اس سے زیادہ کیسے خراج پیش کیا جا سکتا ہے کہ

"کوئی زنجیر ہو اس کو محبت توڑ سکتی ہے

کوئی زنجیر ہو

آہن کی، چاندی کی، روایت کی

محبت توڑ سکتی ہے”

تخلیقی جوہر کالج کی سیڑھیوں اور چاند راتوں کی نرم دلگیر روشنی سے نکل کر اگر عالمی ادب کے کلاسک کو چھونے لگے تو میں سمجھتا ہوں کہ تخلیق کار کے لئے بجائے خوش ہونے کے، یہ لمحۂ فکریہ ہے کہ عقیدت و احترام کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر کے بدلے میں اس کے کاندھوں پر کیا ذمہ داری ڈال دی گئی ہے۔

یقیناً امجد اسلام امجد لوگوں کی اس والہانہ عقیدت سے باخبر ہوں گے۔ لیکن بات آگے کی ہے۔ اور وہ یہ کہ سماجی تعمیر کی تمام تر ذمہ داری ایسے تخلیق کاروں کے سر جاتی یے جن کی زبان گھر گھر بولی جانے لگی ہو۔ قدرت ان کے قلم کو ایسی جلا بخشتی ہے کہ بچے، جوان اور بوڑھے ان کے لکھے پر اعتبار کرتے ہیں۔ چنانچہ ان کے لکھے ہوئے کردار جس لہجے میں بات کرتے ہیں، ہمارے ارد گرد وہی ماحول بن جاتا ہے، ہمارے رویے انہی کرداروں کی مانند ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ یہ اس سوسائٹی کے تخلیق کاروں پر منحصر ہے کہ وہ سماجی رویوں کو کس سمت لے جاتے ہیں۔

امجد اسلام امجد بلاشبہ اسی قبیلے کا قلم کار ہے جن کی تخلیق سے سماجی رویے جنم لیتے ہیں۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ امجد نے اپنی ذمہ داری سے راہ فرار اختیار نہیں کی، اس نے شہرت کے جنوں میں اپر سوسائٹی کے گلیمرائزڈ کردار تخلیق کر کے طبقۂ اشرافیہ سے داد لینے کی خواہش نہیں کی بلکہ اپنے سماج کے انتہائی غمناک پہلوؤں پر قلم اٹھایا اور سمندر، وقت، ایندھن اور دکھوں کی چادر اور اس جیسے کئی بے مثال ڈرامے تخلیق کر کے خود کو تعمیری ادب کے غازیوں میں رکھا۔ وہ جیمز بانڈ کی طرح آیا ضرور لیکن رہا ہمیشہ انتھونی کوئن کی طرح، ٹھہرا ٹھہرا لہجہ اور روشن آنکھوں کے ساتھ۔ یہی امجد جیسے تخلیق کاروں کا راستہ ہے وہ اپنی تخلیقی صلاحیت سے خود کو جس مقام پر لے آیا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ اب اس کا قلم اس قوم کی امانت ہے جس کے بوڑھے اس کے سیٹھ حشمت کی طرح پگڑیاں باندھتے ہیں۔ وہ اگر اسی طرح محبت کو بنیاد بنا کر میرے اور آپ کے کردار لکھتا رہے گا تو اس کے مکالمے گھر گھر بولے جائیں گے، وہ تاشقند اور شنگھائی کے ہوائی اڈوں پر پہچانا جاتا رہے گا اور اسی تناظر میں جب ہم ترقی کی منزلیں طے کر کے اپنے سماج کی عمارت کو دیکھیں گے تم ہم نہ سہی، ہماری اگلی نسل انگلی رکھ کر کہے گی ضرور کہ تعمیر وطن میں محبت کی یہ اینٹ امجد اسلام امجد نے رکھی تھی۔

امجد اسلام امجد! ذرا دھیان رکھنا، تمہاری قوم اس جہاز میں بیٹھی ہے جس کے کیپٹن کے کیبن میں تمہارے لکھے مکالمے بولے جا رہے ہیں۔ سفر طویل ہے اور اردگرد کا موسم ناخوشگوار ہے۔ ذرا دھیان رکھنا، امجد اسلام امجد! یہ میں تم سے کہہ رہا ہوں، میرے بوڑھوں کی پگڑیوں کا خیال رکھنا، کالج کی سیڑھیوں سے سہیلیوں کے ساتھ اترنے والی محبتوں کی خیر کے گیت لکھنا، کہیں یہ نہ ہو جب سمندر میں ہم تم کو ڈھونڈیں تو تم ساحلوں پہ کھڑے مسکراتے ملو۔

٭٭٭

24 دسمبر 2004ء کو پڑھا گیا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے