غزلیں ۔۔۔ امجد اسلام امجد

جیسے میں دیکھتا ہوں لوگ نہیں دیکھتے ہیں

ظلم ہوتا ہے کہیں اور کہیں دیکھتے ہیں

 

تیر آیا تھا جدھر سے، یہ مرے شہر کے لوگ

کتنے سادا ہیں کہ مرہم بھی وہیں دیکھتے ہیں

 

کیا ہوا وقت کا دعویٰ کہ ہر اک اگلے برس

ہم اسے اور حسیں اور حسیں دیکھتے ہیں

 

اس گلی میں ہمیں یوں ہی تو نہیں دل کی تلاش

جس جگہ کھوئے کوئی چیز وہیں دیکھتے ہیں

 

شاید اس بار ملے کوئی بشارت امجدؔ

آئیے پھر سے مقدر کی جبیں دیکھتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

عشق کی ٹیسیں جو مضراب رگ جاں ہو گئیں

روح کی مد ہوش بیداری کا ساماں ہو گئیں

 

پیار کی میٹھی نظر سے تو نے جب دیکھا مجھے

تلخیاں سب زندگی کی لطف ساماں ہو گئیں

 

اب لب رنگیں پہ نوریں مسکراہٹ کیا کہوں

بجلیاں گویا شفق زاروں میں رقصاں ہو گئیں

 

ماجرائے شوق کی بے با کیاں ان پر نثار

ہائے وہ آنکھیں جو ضبط غم میں گریاں ہو گئیں

 

چھا گئیں دشواریوں پر میری سہل انگاریاں

مشکلوں کا اک خیال آیا کہ آساں ہو گئیں ​

٭٭٭

 

 

 

 

کہاں آ کے رکنے تھے راستے کہاں موڑ تھا، اسے بھول جا

وہ جو مل گیا اسے یاد رکھ جو نہیں ملا، اسے بھول جا

 

وہ ترے نصیب کی بارشیں کسی اور چھت پہ برس گئیں

دلِ بے خبر مری بات سن، اسے بھول جا، اسے بھول جا

 

میں تو گم تھا تیرے ہی دھیان میں تری آس تیرے گمان میں

صبا کہہ گئی مرے کان میں مرے ساتھ آ، اسے بھول جا

 

کسی آنکھ میں نہیں اشکِ غم ترے بعد کچھ بھی نہیں ہے کم

تجھے زندگی نے بھلا دیا تو بھی مسکرا، اسے بھول جا

 

کہیں چاک جاں کا رفو نہیں کسی آستیں پہ لہو نہیں

کہ شہیدِ راہِ ملال کا نہیں خوں بہا، اسے بھول جا

 

کیوں اٹا ہوا ہے غبار میں غم زندگی کے فشار میں

وہ جو درد تھا ترے بخت میں سو وہ ہو گیا، اسے بھول جا

 

تجھے چاند بن کے ملا تھا جو ترے ساحلوں پہ کھلا تھا جو

وہ تھا ایک دریا وصال کا سو اتر گیا، اسے بھول جا

٭٭٭

 

 

 

 

شمعِ غزل کی لَو بن جائے، ایسا مصرعہ ہو تو کہو

اِک اِک حرف میں سوچ کی خوشبو، دل کا اُجالا ہو تو کہو

 

رازِ محبت کہنے والے لوگ تو لاکھوں ملتے ہیں

رازِ محبت رکھنے والا ہم سا دیکھا ہو تو کہو!

 

کون گواہی دے گا اُٹھ کر جھوٹوں کی اس بستی میں

سچ کی قیمت دے سکنے کا تم میں یارا ہو تو کہو!

 

ویسے تو ہر شخص کے دل میں ایک کہانی ہوتی ہے

ہجر کا لاوا، غم کا سلیقہ۔ درد کا لہجہ ہو تو کہو

 

امجد صاحب آپ نے بھی تو دُنیا گھوم کے دیکھی ہے

ایسی آنکھیں ہیں تو بتاؤ! ایسا چہرا ہو تو کہو!

٭٭٭

 

 

 

 

 

نکل کے حلقۂ شام و سحر سے جائیں کہیں

زمیں کے ساتھ نہ مل جائیں یہ خلائیں کہیں!

 

سفر کی رات ہے پچھلی کہانیاں نہ کہو

رُتوں کے ساتھ پلٹتی ہیں کب ہوائیں کہیں!

 

فضا میں تیرتے رہتے ہیں نقش سے کیا کیا

مجھے تلاش نہ کرتی ہوں یہ بلائیں کہیں!

 

ہوا ہے تیز، چراغِ وفا کا ذِکر تو کیا

طنابیں خیمۂ جاں کی نہ ٹوٹ جائیں کہیں!

 

میں اوس بن کے گُلِ حرف پر چمکتا ہوں

نکلنے والا ہے سُورج، مجھے چھپائیں کہیں!

 

مرے وُجود پہ اُتری ہیں لفظ کی صورت

بھٹک رہی تھیں خلاؤں میں یہ صدائیں کہیں

 

ہوا کا لمس ہے پاؤں میں بیڑیوں کی طرح

شفق کی آنچ سے آنکھیں پگھل نہ جائیں کہیں!

 

رُکا ہوا ہے ستاروں کا کارواں امجد

چراغ اپنے لہو سے ہی اَب جلائیں کہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہاتھ پہ ہاتھ دھَرے بیٹھے ہیں، فرصت کتنی ہے

پھر بھی تیرے دیوانوں کی شہرت کتنی ہے!

 

سورج گھر سے نکل چکا تھا کرنیں تیز کیے

شبنم گُل سے پوچھ رہی تھی ”مہلت کتنی ہے!“

 

بے مقصد سب لوگ مُسلسل بولتے رہتے ہیں

شہر میں دیکھو سناٹے کی دہشت کتنی ہے!

 

لفظ تو سب کے اِک جیسے ہیں، کیسے بات کھلے؟

دُنیا داری کتنی ہے اور چاہت کتنی ہے!

 

سپنے بیچنے آ تو گئے ہو، لیکن دیکھ تو لو

دُنیا کے بازار میں ان کی قیمت کتنی ہے!

 

دیکھ غزالِ رم خوردہ کی پھیلی آنکھوں میں

ہم کیسے بتلائیں دل میں وحشت کتنی ہے!

 

ایک ادھورا وعدہ اُس کا، ایک شکستہ دل

لُٹ بھی گئی تو شہرِ وفا کی دولت کتنی ہے!

 

میں ساحل ہوں امجد اور وہ دریا جیسا ہے

کتنی دُوری ہے دونوں میں، قربت کتنی ہے

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے