میں کیوں لکھتا ہوں؟ ۔۔۔ ابن کنول

آہستہ آہستہ خوف بڑھتا جا رہا تھا جس کی وجہ سے میرا دل کسی مشین کی مانند دھڑکنے لگا تھا۔ مجھے اس دھڑکن کی آواز صاف سنائی دے رہی تھی۔ میں نے چاروں طرف نگاہ دوڑائی عجیب وحشت کا عالم تھا۔ میرا جسم لرز رہا تھا، مجھے ایسا لگا میرے دماغ کی رگیں پھٹ جائیں گی۔ میرا بدن ریزہ ریزہ ہو کر بکھر جائے گا۔ اس ہیبت ناک ماحول سے بچنے کے لئے میں نے اپنی آنکھیں بند کر لیں، لیکن میرے اندر کی آنکھیں کھُلی ہوئی تھیں، مجھے سب کچھ دکھائی دے رہا تھا، میری بے چینی اور زیادہ بڑھ گئی تھی اور اسی عالم میں میں گھر کی طرف بھا گا شاید دیواروں کے اندر خود کو قید کر کے کچھ سکون ملے۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی میں نے تمام کھڑ کی، دروازے بند کر لئے تاکہ اُن تمام خوفناک مناظر کو نہ دیکھ سکوں۔ لیکن کمرے میں تیز روشنی کے باوجود مجھے اندھیرا محسوس ہو رہا تھا، مجھے ایسا لگا جیسے دیواریں ہل رہی ہیں، کھڑکی دروازے چیخ رہی ہیں اور کھُلنا چاہتے ہیں۔ اسی حالت میں بستر پر لیٹ گیا اور نہ جانے کب نیند کی آغوش میں چلا گیا۔

پھر یوں ہوا کہ ایک سفید ریش بزرگ میرے قریب آئے، میرے سر پر ہاتھ پھیرا، میں فوراً ہی انہیں پہچان گیا اور لپٹ گیا وہ میرے نا نا تھے۔ انہوں نے انتہائی محبت و شفقت سے مجھ سے پو چھا

’’تم اتنے پریشان کیوں ہو؟‘‘

’’معلوم نہیں‘‘ میں نے آہستہ سے کہا میں سہما ہوا تھا

’’لیکن میں جانتا ہوں۔ تمہاری پریشانی کی وجہ‘‘

اُن کی یہ بات سن کر میں حیران ہوا

’’آپ کیسے جانتے ہیں؟ میری بے چینی کی وجہ کیا ہے؟‘‘

’’تمہارے اندر ایک طوفان اُبل رہا ہے۔ تم باہر کے ماحول سے خوفزدہ ہو‘‘ نانا نے پیار سے کہا

’’ہاں میرے اندر ایک آتش فشاں پھٹنے کے لئے بے قرار ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ میں ایک دن بکھر جاؤں گا‘‘ میں نے ڈرتے ڈرتے کہا

’’نہیں ایسا نہیں ہو گا۔ تمہیں یاد ہے جب تم بہت چھو ٹے تھے، چاندنی رات میں میں نے تمہیں اور تمہارے بھائیوں کو ایک کہانی سنائی تھی۔ ایک شاہزادہ تھا، خواب میں ایک خو بصورت شاہزادی کو دیکھ کر گھر سے نکل پڑا، جنگل جنگل، دریا دریا اور اونچے اونچے پہاڑوں سے گزر کر ایک طلسم میں جا پھنسا لیکن پھر مشکلات کا دور ختم ہوا اور انجام بخیر ہوا، اُسے خوشیاں نصیب ہوئی۔‘‘

مجھے سب کچھ یاد آ گیا نانا ہر روز گھر کے بڑے سے آنگن میں نیم کے درخت کے نیچے اونچے اونچے پایوں والی چار پائی پر لیٹ کر کہانیاں سنایا کرتے تھے۔ میں نے نانا سے پو چھا

’’لیکن میری ان پریشانیوں کا، میرے اندر کے اس طوفان کا ان کہانیوں سے کیا رشتہ ہے؟‘‘

’’بہت گہرا رشتہ ہے۔ میری کہانیوں کے شاہزادے طلسمات میں گرفتار تھے۔ آج تم اُس طلسم میں پھنسے ہوئے ہو‘‘

’’لیکن اس طلسم سے نکلنے کا راستہ کیا ہے؟ طریقہ کیا ہے؟‘‘

میں نے دریافت کیا انہوں نے ایک بار میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور فرمایا

’’کل جب تم چھوٹے تھے تو تمہیں کہانیاں سُن کر سکون ملتا تھا آج تم کہانیاں بیان کرو، تمہارے اندر کا طوفان تھم جائے گا‘‘اتنا کہہ کر انہوں نے میری پیشانی کو بوسہ دیا اور غائب ہو گئے۔ میں گھبرا کر بستر سے اٹھ بیٹھا، کمرے میں روشنی اب بھی پھیلی ہوئی تھی۔ میں نے دیکھا میز پر رکھے ہوئے کو رے کاغذ ہوا سے پھڑپھڑا رہے تھے اور برابر رکھا ہوا قلم بے چین تھا۔ میں نے فوراً قلم اُٹھا لیا، کاغذ کو سیاہ کر دیا۔ آہستہ آہستہ طوفان تھم سا گیا، آتش فشاں خاموش ہو گیا، کھڑکی دروازوں نے چیخنا بند کر دیا۔ میں نے آسمان کی طرف نگاہ اُٹھائی میرے نانا بادلوں کے بیچ کھڑے مسکرا رہے تھے۔ انہوں نے مجھے راستہ دکھا دیا تھا، انہوں نے کہانی بیان کرنے کا فن سکھا دیا۔ بچپن میں میں کہانیاں سننے کے لئے بے چین رہتا تھا، بڑے ہو کر کہانیاں سنا کر سکون ملتا تھا۔

سچ ہے اسی طرح میرا کہانی سے رشتہ قائم ہوا، میں نے کہانی بیان کرنے کا فن اپنے بزرگوں سے سیکھا، کہانی میرے آس پاس گھومتی تھی، کبھی میں اُسے پکڑنے کے لئے بھاگتا تھا اور کبھی وہ مجھے اپنی گرفت میں لے لیتی تھی۔ کوئی بھی کہانی کار خود کہانی نہیں لکھتا کہانی خود اپنے آپ کو لکھواتی ہے، کہانی کار کو قلم اٹھا نے کے لئے مجبور کرتی ہے، وہ اس وقت تک کہانی کار کے دل و دماغ پر وار کرتی رہتی ہے جب تک صفحۂ قرطاس پر نہیں سما جاتی۔

بظاہر ایک کہانی کار اپنی تسکین کے لئے کہا نی لکھتا ہے، لیکن اصلاً صرف اپنے لئے نہیں سب کے لئے کہانی لکھتا ہے، جس طرح ایک ماں پہلے اپنے بچے کو دیکھ کر بار بار خوش ہوتی ہے پھر سب کے سامنے پیش کر کے مسرّت محسوس کرتی ہے۔ میں جب کہا نی لکھتا ہوں تو لکھنے کے بعد بار بار پڑھ کر پہلے اپنے اندر کے طوفان کو شانت کرتا ہوں پھر دوسروں کے سامنے بیان کر کے تسکین پاتا ہوں۔

ایک دن یوں ہوا کہ جب میں تنہائی میں بیٹھا لکھ رہا تھا میرا بیٹا میرے پاس آیا اور کہنے لگا:

’’ابّا آپ ہر وقت کیا لکھتے ہیں؟‘‘

میں نے اس معصوم کی طرف دیکھا اور کہا:

’’میں کہانی لکھ رہا ہوں‘‘

’’کہانی؟‘‘ اس نے چونک کر کہا ’’کہانی تو چڑیا اور چڑے کی ہوتی ہے۔ جو نانی ماں سناتی ہیں۔ کیا آپ چڑیا اور چڑے کی کہانی لکھ رہے ہیں؟‘‘

’’نہیں میں شیر اور آدمی کی کہانی لکھ رہا ہوں۔ شیر جو آدمی سے ڈرتا ہے۔‘‘ میرا بیٹا مسکرایا اور میرا مذاق اڑاتے ہوئے معصومانہ انداز میں کہنے لگا۔

’’آپ جھوٹ لکھ رہے ہیں۔ شیر کسی سے نہیں ڈرتا۔ وہ تو جنگل کا راجا ہے‘‘

’’جاؤ اپنی نانی سے کہانی سنو۔ جب تم بڑے ہو جاؤ گے تو سمجھو گے‘‘

وہ چلا گیا اُسی وقت میرا ایک دوست اسلم کمرے میں داخل ہوا اور کہنے لگا۔

’’یار بچّے کو کیا بہکا رہے ہو، شیر، شیر ہوتا ہے‘‘

میں نے اسلم کو بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا

’’تم نے وہ کہانی نہیں سُنی جس میں شیر اپنے بچّے کو نصیحت کرتا ہے کہ جنگل میں کسی سے نہیں ڈرنا اس لئے کہ تم جنگل کے راجا ہو لیکن آدمی سے بچ کر رہنا وہ انتہائی خطرناک مخلوق ہے‘‘

اسلم میری اس بات پر ہنسا اور پو چھنے لگا:

’’تم کہانیاں کیوں لکھتے ہو؟‘‘

اُس کے اِس سوال پر میں اُسے غور سے دیکھا اور کہا

’’میں دنیا کو آئینہ دکھا نا چاہتا ہوں دنیا جو بہت خوبصورت ہے لیکن آدمی کی شر پسندی نے اسے جہنم بنا دیا ہے‘‘۔

’’کیا تمہارے کہانیاں لکھنے سے دنیا جنّت بن جائے گی‘‘

’’نہیں۔ لیکن میں خود سے شرمندہ نہیں رہوں گا۔ اس لئے کہ میں برائی کو دیکھ کر خاموش نہیں ہوں۔ کسی نہ کسی طرح اس کا اظہار کرتا ہوں‘‘

میں جذباتی ہو گیا تھا اسلم نے پھر کہا

’’لیکن اس دور کے ہر انسان کو بُرائی دیکھ کر غصہ کیوں نہیں آتا؟‘‘

’’ہر چیز کی زیادتی احساس کو مار دیتی ہے، یہی وجہ ہے کہ آج کا انسان بُرائی کو پہچانتے ہوئے بھی بُرا محسوس نہیں کرتا، آدمی آدمی سے لڑتا ہے۔ زمین کے لئے، زن کے لئے، زر کے لئے، عصمتیں لٹتی رہتی ہیں، بچے بوڑھے قتل ہوتے رہتے ہیں، سڑکوں پر لوگ تڑپ تڑپ کر جان دے دیتے ہیں اور لوگ انجان بن کر گذر جاتے ہیں۔ لیکن میں انجان نہیں بن پا تا اور کچھ کر بھی نہیں سکتا اس لئے کہانیاں لکھتا ہوں۔ کہانیاں میرے غصّہ کا اظہار ہیں، کہانیاں میری نفرت کو ظاہر کرتی ہیں، کہانیاں میرے احساس کو بیان کرتی ہیں، کہانیاں لکھ کر میں محسوس کرتا ہوں کے شاید میں نے دنیا میں اپنی مو جود گی اور ذمہ داری کا تھوڑا سا حق ادا کر دیا‘‘۔

اسلم بالکل خاموشی سے سن رہا تھا کہنے لگا:

’’تم سچ کہتے ہو۔ ہم سب بے حس ہو چکے ہیں، ہماری آنکھیں دیکھ نہیں پاتیں۔ ہمارے کان سُن نہیں سکتے۔‘‘

’’نہیں۔ ایسا نہیں ہے۔ سب دیکھ سکتے ہیں۔ سب سُن سکتے ہیں لیکن جان بوجھ کر دیکھنا نہیں چا ہتے۔ سُننا نہیں چاہتے۔ سنو! میں تمہیں اپنی کہانیوں کے کچھ حصّے سناتا ہوں۔ شاید تم سمجھ پاؤ کہ میں کہانیاں کیوں لکھتا ہوں —

’’جب وہ خوفناک آوازیں نکالتا ہوا ہجوم بستی کے نزدیک آیا تو انہوں نے آگ برساتی ہوئی مشعلوں کو مکانوں کے اوپر پہنچا دیا اور چلانے لگے

’’مارو۔ ختم کر دو۔ بھاگو۔ چھوڑو۔ یہ زمین ہماری ہے۔ یہاں صرف ہم رہیں گے۔ ہماری زمین خالی کرو۔‘‘

۔۔ ذرا سی دیر میں پوری بستی جل کر راکھ میں تبدیل ہو گئی اور ایسا شمشان بن گئی جہاں زندہ لوگوں کی ارتھیاں جلائی گئی ہوں۔،،

(تیسری دنیا کے لوگ)

’’آئے دن بادشاہ کے خلاف جلسے ہوتے اور جلوس نکلتے۔ حکمراں طبقہ اس سے پریشان تھا۔ ایک دن اتفاق سے میں بادشاہ تک پہنچ گیا۔ بادشاہ نے مجھ سے مشورہ طلب کیا۔ میں نے کہا اگر اس ملک میں رہنے والی قوموں کو آپس میں لڑوا دیا جائے تو ان کا ذہن حکومت کی کمزوریوں کی جانب سے ہٹ جائے گا۔ بادشاہ کو یہ تجویز پسند آئی، اس نے یہ ذمہ داری بھی میرے سُپرد کی۔ پھر میں اس ملک کے شہروں میں گھومتا رہا اور سو چتا رہا کہ کس طرح قو می یک جہتی کو ختم کیا جائے۔ بالآخر میں کامیاب ہوا۔ میں نے قوموں کے دلوں میں ایک دوسرے کے لئے نفرت کا زہر بھر دیا اور جب وہ اُگلا تو پورے ملک میں فرقہ وارانہ فسادات پھیل گئے۔ یک جہتی ٹوٹ گئی، جو لوگ ہم نوالہ اور ہم پیالہ تھے وہ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو گئے۔ رعایا کا سکون ختم ہوا لیکن بادشاہ کا عیش و آرام لوٹ آیا کیونکہ اب لوگ بادشاہ کے بجائے ایک دوسرے پر کیچڑ اُچھال رہے تھے‘‘۔ (وارث)

’’بالآخر سفر کی تیاریاں شروع ہو گئیں۔۔۔۔ کوئی سمجھا رہا تھا

’’دیکھو بچّوں کو ٹرین سے نیچے نہیں اُترنے دینا‘‘

کوئی کہہ رہا تھا ’’بھئی رات وات میں کھڑکیاں بند رکھنا، آج کل حالات ایسے نہیں ہیں کہ بے فکری سے سفر کیا جا سکے۔ آخر دہشت گرد ٹرین پر رات میں ہی حملہ کرتے ہیں‘‘

کسی نے مشورہ دیا ’’دیکھو راستے میں کسی کو اپنے نام نہیں بتانا۔ پچھلے مہینے جو ٹرین روک کر کچھ لوگوں کو مارا تھا تو پہلے ان کے نام ریزرویشن چارٹ میں دیکھ لئے تھے ویسے موقع ملے تو دو تین اسٹیشن نکلنے کے بعد وہ چارٹ ہی وہاں سے ہٹا دینا، پھر تو اس کی ضرورت بھی نہیں رہتی‘‘

کسی نے ایک اور دور اندیشانہ بات کہی ’’ریزرویشن میں اگر تم مجہول نام لکھاتے تو زیادہ اچھا رہتا جیسے پنکی، گڈی، ٹونی‘‘

ان سب باتوں سے اس کی بیوی کے دل میں خوف کی پرچھائیاں گہری ہوتی جا رہی تھیں اور اِس کا اظہار اُس نے اِس طرح دبے الفاظ میں کیا تھا

’’میرا تو دل گھبرا رہا ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہم اگلے سال چلیں‘‘ (سفر)

’’پھر ایک دن یوں ہوا کہ بہت سویرے بڑی تعداد میں مسلح فوج نے بستی کو گھیر لیا اور جبراً گھروں کو خالی کرا دیا۔ گھروں کے خالی ہوتے ہی بلڈوزروں کی کرخت آوازیں سنائی دیں اور تھوڑی دیر میں ان دل شکن آوازوں کے ڈھیروں کے نیچے ارمانوں کے محل چکنا چور ہو گئے وہ سب اپنے ٹوٹے پھوٹے سامان کے ڈھیروں پر کھڑے اپنی بے گھری کا تماشا دیکھتے رہے۔ فوج مزاحمت کرنے والوں کے سینوں کی طرف بندوقوں کا رخ کئے کھڑی تھی وہیں کچھ دور پر ایک شخص اپنے ٹرانزسٹر پر یہ گیت سن رہا تھا ” اب کوئی گلشن نہ اُجڑے اب وطن آزاد ہے‘‘

(سوئٹ ہوم)

’’کیا کچھ اور سننا چاہو گے‘‘ میں نے اسلم سے سوال کیا

’’نہیں بس کرو۔ مجھ میں اتنی قوت نہیں‘‘ اسلم کا کرب اس کے چہرے پر اُبھر آیا۔ میں نے اس سے معلوم کیا

’’شاید تم سمجھ گئے ہو گے میں کیوں لکھتا ہوں۔ میں اپنے احساسات کو الفاظ دینے کی کوشش کرتا ہوں۔ واقعات اور حادثات چہار جانب بکھرے ہوئے ہیں۔ ان کا بیان الفاظ چاہتا ہے، میں انہیں الفاظ دے کر رقم کرنا چاہتا ہوں۔ میں اس میں کتنا کامیاب ہوں۔ اس کا فیصلہ تم کرو گے۔ تم سب۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے