اردو میں طفیلی صحافت اور سرقے کا بڑھتا رجحان ۔۔۔ محمد علم اللہ

عنوان میں ’طفیلی صحافت‘ کا لفظ دیکھ کر بہت سے قارئین چونک سکتے ہیں۔ اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ پہلے اس کی تشریح کر دی جائے کہ ’طفیلی صحافت‘ دراصل انگریزی کے ’پیراسائٹ جرنلزم‘ کی اردو ترجمانی ہے۔ جو بایولوجی کے لفظ ’پیراسائٹ‘ سے ماخوذ ہے۔ سائنس میں پیرا سائٹ (طفیلی وجود)اس کیڑے کو کہا جاتا ہے، جو کسی دوسرے نامی وجود کے اندر یا اس سے وابستہ رہ کر گزران کرتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ مفت خور کیڑے دوسرے جسموں میں پرورش پاتے ہیں اور ان ہی سے خوراک حاصل کرتے ہیں، یہ حرکت کرنے، تلاش کرنے، محنت و جستجو کرنے کے عادی نہیں ہوتے۔ لغت میں ’پیراسائٹ‘ کے معنی حرام خور، ٹکر خور، کاسہ لیس، لیموں نچوڑ، طعام تلاش اور ہر دیگی چمچہ کے بھی ہیں۔ (تفصیل کے لیے پروفیسر کلیم الدین احمد کی مرتب کردہ ’جامع انگلش اردو ڈکشنری‘ صفحہ نمبر 249 اور ’آکسفورڈ اردو انگلش ڈکشنری‘ صفحہ نمبر 1187 سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔ آج کی اردو صحافت میں مفت خوری کا رجحان کچھ زیادہ ہی بڑھ گیا ہے اور اس کی وجہ سے جینوین اور معتبر صحافی پریشان ہیں۔ یہ مضمون اسی صورتحال کو پیش کرنے کی ایک کوشش ہے تاکہ قارئین بھی اس حقیقت سے آ گاہ ہو سکیں۔

راقم کو گزشتہ دنوں جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کے طلبہ کی جانب سے منعقدہ ایک پروگرام میں شرکت کا موقع ملا تو دہلی کے کئی معتبر صحافیوں سے ملاقات ہوئی۔ اردو کے ایک سینئر صحافی دوست سے بھی ملاقات رہی۔ باتوں ہی باتوں میں میں نے ان دنوں ان کے قلم میں ٹھہراؤ اور جمود کی بابت دریافت کیا تو وہ درد بھرے انداز میں گویا ہوئے کہ:

’’کیا لکھوں؟ اردو میں مفت اور ٹکر خور صحافیوں کی اس قدر بہتات ہو گئی ہے کہ لکھنے پڑھنے کو جی نہیں چاہتا۔ ایک معیاری مضمون لکھنے کے لیے کتنے جتن کرنے پڑتے ہیں؟ کتنا مطالعہ اور کس قدر ریسرچ کی ضرورت ہوتی ہے؟ وہ ایک ایماندار اور معتبر لکھاری ہی سمجھ سکتا ہے۔ اردو میں لکھنے سے یوں بھی کچھ معاوضہ وغیرہ تو ملتا نہیں۔ اوپر سے آپ کی محنت کو بھی سرقہ کر لیا جائے یا دوسرے کی محنت کو اپنا بنا لیا جائے تو محنت و جستجو کرنے والے پر کیا گزرے گی، آپ اندازہ لگا سکتے ہیں۔ خیال اور نظریہ تو جانے دیجیے لوگ ڈیٹاز اور جملے بلکہ پیراگراف تک اچک لینے اور من و عن نقل کر لینے میں عار محسوس نہیں کرتے اور اس میں چھوٹے نہیں بلکہ بزعم خویش خود کو اردو کا بڑا صحافی کہلوانے والے افراد بھی شامل ہیں۔‘‘(گفتگو پر مبنی)

ابھی میرے دوست کی بات ختم بھی نہ ہوئی تھی کہ اسی درمیان ایک ہندی ویب سائٹ چلانے والے ہمارے دوسرے دوست آ گئے اور انہوں نے بتایا کہ ان کی چیزوں کو دھڑلے سے اردو اخبارات من و عن برسوں سے نقل کر رہے ہیں اور اس سلسلے میں بار بار متوجہ کرنے کے باوجود کریڈٹ دینا تو درکنار وہ ویب سائٹ کا شکریہ ادا کرنا یا اس کا حوالہ تک دینا مناسب نہیں سمجھتے۔ ناچیز نے بھی اس کا بارہا مشاہدہ کیا ہے بلکہ روزنامہ خبریں میں کام کے دوران ہم نے بارہا ایڈیٹر کو دیکھا کہ اس نے کسی ہندی اخبار کے اداریے کو پھاڑا اور آپریٹر کو ٹائپ کرنے کے لیے دے دیا۔

اسی سے ملتی جلتی باتیں اوکھلا سے انگریزی کی ایک ویب سائٹ چلا نے والے صحافی نے بھی بتائیں کہ اوکھلا کے کئی صحافی ان کی ویب سائٹ سے خبریں ترجمہ کر کے اپنے اداروں کو ارسال کر تے ہیں، جن میں باضابطہ وہ اپنا نام بھی ڈال دیتے ہیں اور اس سلسلے میں جب ان سے پوچھ گچھ کی جاتی ہے تو جواب دیتے ہیں ’ارے بھئی سب چلتا ہے‘!۔ ان کے بقول ان صحافیوں کے بارے میں انھوں نے متعلقہ اخبارات کے ذمے داران سے شکایت بھی کی، لیکن وہ ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتے۔

ایسے متعدد شواہد موجود ہیں، جن کے مطابق اردو اخبارات کے کئی مدیر خود اس قسم کی حرکتوں اور غلط کاریوں میں ملوث ہیں اور اسی وجہ سے وہ اپنے نمائندوں کے خلاف کوئی کارروائی کر نے کی ہمت نہیں کر پاتے۔ گزشتہ کئی سالوں سے خصوصاً ’انٹرنیٹ‘ کی آمد کے بعد اس میں کچھ زیادہ ہی اضافہ ہوا۔ انٹرنیٹ کی آزاد فضا نے ایسے عناصر کو خوب پھلنے پھولنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ اس کی وجہ سے حقیقی قلم کاروں کا فقدان جب کہ مفت خور، دیگی چمچہ اور ٹکر خور صحافیوں کی بہتات ہوتی چلی گئی۔ اس سلسلے میں بعض صحافی تو مہارت بلکہ مہارت تامہ رکھتے ہیں۔ ان کی عادت اتنی خراب ہو گئی ہے کہ آپ انھیں لاکھ توجہ دلائیں، وہ اپنی ’عادت شریفہ‘ تبدیل کرنے کے لیے تیار نہیں۔

حال ہی میں دہلی سے نکلنے والے ایک اردو اخبار کے مدیر نے میری کتاب ’مسلم مجلس مشاورت: ایک مختصر تاریخ‘ اشاعت کردہ فاروس میڈیا ہاؤس، دہلی سے من و عن تقریباً تین پیراگراف اپنے مضمون میں شامل کر لیے جب کہ مذکورہ مدیر نے اپنے اُس مضمون کا مرکزی خیال بھی میری کتاب سے ہی اُڑایا یا چرایا تھا۔ اسے توارد کہا جائے یا عمداً خیالات کے سرقہ کا نام دیا جائے، یہ تو اہل نظر ہی زیادہ بہتر بتا سکتے ہیں۔ بہرحال نقل شدہ تین پیراگراف کی موصوف کے مضمون میں بغیر کسی حوالہ کے شمولیت پر میں نے احتجاج درج کراتے ہوئے انہیں میل ارسال کیا کہ آخر انھوں نے ایسا کیوں کیا؟ حوالہ کے ساتھ متذکرہ حصہ کو شامل مضمون کرنے میں مضائقہ کیا تھا؟ لیکن اخلاقی پستی کی انتہا دیکھیے کہ انھوں نے میل کا جواب دینا بھی مناسب نہیں سمجھا۔

ابھی حال ہی میں اردو کے ایک صحافی نے اپنے اخبار کا ایک مکمل صفحہ فیس بک پر اپ لوڈ کیا، جس میں نمایاں طور پر مترجم کا نام تو تھا، لیکن مضمون نگار کا نام غائب تھا۔ مذکورہ مدیر کو فیس بک کے ذریعے ہی توجہ دلائی گئی اور پوچھا گیا کہ آخر یہ کیا ہے؟ کیا ہندی سے اردو میں رسم الخط کی منتقلی کو ترجمہ نگاری کہیں گے؟ اور اگر اسے مترجم کی محنت مان بھی لی جائے تو تخلیق کار سے زیادہ مدیر محترم کا صرف اپنے نام کو نمایاں کرنے کا کیا جواز بنتا ہے؟ حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مترجم کے بجائے اصلی لکھاری کو نمایاں کیا جاتا لیکن یہاں تو معاملہ اس کے بالکل الٹا نظر آ رہا ہے۔ میں جاننا چاہتا ہوں کہ آخر آپ نے صحافت کے کن اصولوں کے تحت تخلیق کار کا نام غائب کرنا مناسب سمجھا؟ موصوف نے معذرت خواہانہ انداز میں کہا کہ ہم سے غلطی ہو گئی۔ آئندہ اس کا خیال رکھا جائے گا، اس کے بعد بھی اگر ان کے اخبار میں ایسی چیزیں دیکھنے کو مل رہی ہیں تو آخر ان کے اس بے حسی پر مبنی رویے کو کیا کہا جا سکتا ہے۔

چند سال قبل ایک بڑے کارپوریٹ روزنامہ کے ادارتی صفحہ پر بھی ایسے ہی معروف ہندی اخبار ’نو بھارت ٹائمز‘ کے کالم نویس کا ایک مضمون اردو کے ایک نامور صحافی کے نام سے شائع ہوا۔ اس بابت اخبار کے مدیر کو اطلاع دی گئی تو وہ یہ ماننے کے لیے تیار ہی نہ ہوئے کہ ان کے ادارے کا کوئی شخص اتنی گھٹیا حرکت کر سکتا ہے، لیکن مدیر موصوف کو ہندی اخبار کے تراشے اور لنک کے ساتھ ثبوت فراہم کیا گیا تو وہ لا جواب ہو گئے اور بغلیں جھانکتے نظر آئے۔ سننے میں آیا ہے کہ بغلیں جھانکنے والے مدیر اور دوسرے کا مضمون چرانے والے صحافی دونوں دہلی میں الگ الگ اخبار کے مالک بھی بن گئے ہیں۔

ایک ہفت روزہ اردو اخبار سے وابستہ سینئر صحافی نے نام نہ شائع کرنے کی شرط پر بتایا کہ ان کے یہاں بیشتر خبریں انگریزی اور ہندی اخبارات کے تراشوں کو بنیاد بنا کر ڈیسک میں تیار کی جاتی ہیں، جن میں فرضی نام ڈال دیا جاتا ہے تاکہ لوگوں کو محسوس ہو کہ اس اخبار کے نمائندے بیرون ممالک میں بھی ہیں۔ ان کے بقول مدیر کی فرمائش پر وہ خود بھی اس قسم کی خبریں بناتے ہیں اور دلچسپی پیدا کرنے کے لیے اپنی طرف سے کچھ فرضی اور من گھڑت باتیں ملا دیتے ہیں تاکہ لوگوں کو اصل کا احساس ہو۔ انھوں نے فلسطین کے بارے میں ایک خبر کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ قاری کو ’سچ‘ کا احساس دلانے کے لیے وہ انٹرنیٹ سے شہروں، گلی، کوچوں اور کلب وغیرہ کا نام نکال لیتے ہیں اور پرانی دلی کی طرح گنجلک اور گھنی آبادی جیسے الفاظ کا تذکرہ کرتے ہوئے اسٹوری تیار کر دیتے ہیں۔ اس سے عام آدمی کو لگتا ہے کہ اسٹوری کے لیے ہمارا نمائندہ بذات خود وہاں موجود تھا اور اس نے براہ راست وہاں سے یہ خبر لکھی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ اس کے لیے وہ بہت سارے بے بنیاد مفروضے بھی قائم کرتے ہیں تاکہ اسٹوری کو مسالے دار بنا سکیں۔

ہندستان کے اردو اخبارات میں پاکستانی صحافیوں کے مضامین خصوصاً بین الاقوامی تناظر میں لکھی جانے والی تحریروں کی چوری کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اس سلسلے میں بعض صحافی تو اتنے دلیر ہیں کہ انٹرنیٹ کے اس عہد میں بھی پاکستان کے بعض قلم کاروں کے مضامین سرقہ کرتے ہوئے اپنے نام سے شائع کروا لیتے ہیں۔ بعض اردو اخبارات کے ذمے داران کی حماقت کی انتہا تب ہوتی ہے، جب وہ پاکستانی قلم کاروں کے ذریعے ہندستانی کشمیر کے حوالے سے لکھی گئی تحریروں کو اپنے اخبارات میں شائع کرتے ہیں۔ ’مقبوضہ کشمیر‘ کی اصطلاح یوں تو ہمارے یہاں پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر کے لیے رائج ہے لیکن بہت بار ہندستان کے اردو اخبارات میں ’مقبوضہ کشمیر‘ ہندستانی کشمیر کے لیے بھی استعمال ہو جاتا ہے۔ یعنی یہ مدیران ایسے مضامین کو ایڈٹ نہیں کرتے اور اس کو ویسے ہی اپنے صفحات میں بلا کسی نوٹ یا شذرہ کے شائع کر دیتے ہیں، جب کہ کچھ ہندی اخبارات کے اداریوں کو دوسرے دن اپنے اخبار کا اداریہ بنا کر چھاپ لیتے ہیں۔ بعض ہندی کے اخبارات انگریزی اور دیگر زبانوں کے اخبارات کا ترجمہ کر کے اپنے اخباروں میں چھاپنے کے بھی عادی ہیں۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ کچھ اخبارات مستقل ہندی اخبارات کے ترجمے ’نہ ہینگ لگے نہ پھٹکری رنگ ہو چوکھا‘ کے مصداق کچھ اس طرح اپنے یہاں نقل کرتے ہیں جیسے کہ یہ اُن کی اپنی اشاعتی تحریر ہو!۔

ابھی کچھ عرصہ قبل تک اردو کے بعض صحافی اپنی تحریروں میں انگریزی مضامین کا تذکرہ کرنا اور اس کا حوالہ دینا اپنے لیے باعث افتخار تصور کرتے تھے، حالانکہ یہ بھی طفیلی صحافت کے ہی زمرے میں آئے گا کہ خود محنت نہیں کرتے اور دوسروں کی تحقیق کو اپنے مضمون میں شامل کر لیتے ہیں یا ترجمہ کر کے اپنا بنا لیتے ہیں، لیکن اب اس کا رواج ختم ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ انٹرنیٹ کی سہولت عام ہونے کے بعد اس سے زیادہ قبیح حرکت شروع ہوئی ہے اور اب یہ عناصر ہندی قلم کاروں کے مضامین کو گوگل کا سہارا لے کر اردو رسم الخط میں تبدیل کر کے بڑی تعداد میں اپنے نام سے شائع کرا رہے ہیں۔

ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مضامین، کالم اور اداریے، جو ایک دانشورانہ اور اعلیٰ سوچ کا نتیجہ ہوتے ہیں اور جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ لوگوں کے افکار اور اذہان کو تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور جو ادارے کی پالیسی کو بھی واضح کرتے ہیں، جب یہاں اس قدر گھپلا اور بد عنوانی ہے تو فیچر یا خبروں کا کیا حال ہوتا ہو گا؟ اس بارے میں کئی معتبر صحافی بتاتے ہیں کہ اردو اخبارات میں ایجنسیوں کے علاوہ ننانوے فیصد سے زیادہ خبریں چوری کی ہوتی ہیں، جو ڈیسک میں بیٹھ کر تیار کی جاتی ہیں، جن میں سے زیادہ تر خبریں ہندی ویب سائٹوں سے اخذ کی جاتی ہیں۔ مشینی ترجمہ کی وجہ سے بعض ایسی فاش غلطیاں دیکھنے کو ملتی ہیں، جنھیں بجا طور پر اردو مدیران کی حماقت، سست روی اور مفت خوری کا نتیجہ قرار دیا جا سکتا ہے۔

اِن مدیران کے اِن ہی رویوں کی وجہ سے اردو میں کہیں گوگل کے سی۔ او۔ سندر پچائی کی خوبصورت پچائی، سماج وادی پارٹی کے سربراہ ’ملائم سنگھ یادو‘ کو ’نرم سنگھ یادو‘، وزیر برائے فروغ انسانی وسائل ’پرکاش جاویڈکر‘ کو ’روشنی جاویڈکر‘، رکن اسمبلی (بی جے پی) ’سنگیت سوم‘ کو ’موسیقی سوم‘، ’راجہ اشرف‘ کو ’بادشاہ اشرف‘ اور’ انکشاف‘ کی جگہ ’خلاصہ‘ لکھا ہوا نظر آ جاتا ہے۔ حیرت تو یہ ہے کہ یو این آئی جیسے معتبر اداروں کی خبروں میں بھی ایسی فاش غلطیاں دیکھنے کو اکثر مل جاتی ہیں۔ ایک طرف یہ شکایت کی جاتی ہے کہ لوگ اردو اخبارات نہیں پڑھتے، دوسری طرف مدیران اور ذمے دارانِ صحافت اخلاقیات کو بالائے طاق رکھ دیتے ہیں اور ہر وہ کام کرنے میں عار محسوس نہیں کرتے، جو اخلاقیات اور صحافیانہ اقدار کے منافی ہے۔ پھر لوگ آپ کا اخبار کیوں پڑھیں گے؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ سب سے زیادہ اخلاقیات کا درس یہی اردو اخبارات دیتے ہیں اور ان کا ہی رویہ قابل مواخذہ ہوتا ہے۔

بد قسمتی سے اردو میں اس جانب نہ تو سنجیدہ طبقہ کو توجہ دینے کی فرصت ہے اور نہ ہی تنقید نگار اور دانشوروں کا طبقہ اس پر بحث کر رہا ہے کہ آخر اس پر لگام کیسے لگائی جائے؟ مغربی مفکرین اس پر عرصے سے غور و فکر کر رہے ہیں اور وہ اس کے حل کے لیے بھی کوشاں ہیں۔ اس سلسلے میں انگریزی میں اگر کوئی ایسی حرکت کرتا ہے تو لوگ اس کا پیچھا کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جاتی ہے۔ ان کے خلاف اخبارات میں مضامین شائع ہوتے ہیں، لیکن اردو میں ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا اور ایسے رویوں کی حوصلہ شکنی کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا جاتا، جس کی وجہ سے اخلاقی حدود کو پار کر جانے والے ایسے افراد مزید حوصلہ مندی کا ثبوت دینے لگتے ہیں، حالانکہ یہ رویہ سرقہ سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ بی بی سی کرنٹ افیئر پروگرام کے میزبان اور معروف ٹیلی ویژن پروڈیوسر ولارڈ فوکسٹن نے اپنے ایک مضمون جو 29 جولائی 2013 کو اسٹیٹس مین میں شائع ہوا، میں اس طفیلی صحافت کو سرقہ سے بھی زیادہ مہلک اور خطرناک قرار دیا تھا۔

فاضل مضمون نگار کہتے ہیں:

’’میرے خیال میں یہ رویہ سرقہ سے بھی زیادہ خطرناک ہے، جس میں لوگ دوسروں کی محنت کو اپنے نام کر لیتے ہیں۔ سائنسی تحقیق کے مطابق طفیلی کیڑا جہاں سے اپنی غذا حاصل کرتا ہے، اُس کو وہ ہلاک نہیں کرتا اور نہ ہی نقصان پہنچاتا ہے لیکن یہاں دیر یا سویر وہ اصل لکھاری ہلاک ہو رہا ہوتا ہے۔ اس میں ایسا ہوتا ہے کہ اصلی قلم کار مال تیار کرتا ہے، جس کا استعمال بغیر کسی محنت کے طفیلی کر لیتے ہیں یعنی کہ تخلیق کار کے لیے کچھ نیا تخلیق کرنا زیادہ مہنگا ہو جاتا ہے بہ نسبت کاسہ لیسوں کے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم ایماندارانہ رویے کے ساتھ صحافیانہ تخلیقیت کو جنم دیں، تاکہ نئے افکار کو تابندگی ملے اور زیادہ سے زیادہ تخلیقیت پروان چڑھے۔ اگر ہم نے ایسا نہیں کیا تو ہم جلد ہی صحافت کو اور بھی قعر مذلت میں دھکیل دیں گے۔‘‘

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے