آخری سیڑھی کا مسافر ۔۔۔ شموئل احمد

’’پہچانا…؟‘‘ شانے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بے حد آہستہ سے اس نے یکایک سرگوشیوں کے انداز میں پوچھا تو میری آنکھیں اس کے چہرے پر روشنائی کے دھبّے کی طرح پھیل گئیں۔ اس کے بال کھچڑی ہو رہے تھے۔ آنکھیں دھنسی ہوئی تھیں اور گال ٹین کے خالی ڈبّوں کی طرح پچکے ہوئے تھے۔ اگرچہ اس کے چہرے پر مجھے شناسائی کی ایسی کوئی واضح تحریر نظر نہیں آ سکی تھی۔ پھر بھی مجھے ایسا ضرور محسوس ہوا کہ میں نے اس کو کہیں دیکھا ہے۔ تب میں نے اس کے چہرے کے خدوخال کو پڑھنے کی کوشش کی۔ مجھے لگا اس نے چہرے کا کوئی اہم حصہ بڑی چالاکی سے مجھ سے چھپا لیا ہے۔ مجھے خاموش دیکھ کر وہ مسکرایا تو اس کی یہ مسکراہٹ مجھے سو فی صدی جانی پہچانی لگی۔ در اصل وہ مسکرایا نہیں تھا بلکہ اس نے مسکرانے کی ایک انتہائی فضول سی کوشش کی تھی اور مسکرانے کی اس چالاک سازش سے میں اچھی طرح واقف ہوں۔ بات یہ ہے کہ اگر آپ نے مستقل ٹوٹتے ہوئے چہرے دیکھے ہیں اور ان چہروں کے مسکراتے رہنے کی ایک بے کار سی سازش سے واقف ہیں تو میرا مطلب سمجھ گئے ہوں گے۔

’’تم نہیں پہچانو گے۔۔۔۔۔۔‘‘ اس نے مسکرانے کی پھر وہی فضول سی کوشش کی۔ پھر زور سے ہنسا اور اس کی یہ ہنسی بھی مجھے جانی پہچانی لگی کیوں کہ بہ ظاہر وہ ہنسا تھا لیکن ہنسنے جیسی کوئی آواز مجھے سنائی نہیں پڑ سکی تھی۔

میں نے ایک بار پھر اس کے چہرے کو ٹٹولنے کی کوشش کی، تب وہ اور زور سے ہنسا۔

’’فضول ہے۔ تم بیتے دن کا کوئی قصہ نہیں پڑھ سکتے۔‘‘

’’لیکن میں تمہیں جانتا ہوں۔ تم وہی ہونا جس نے بادبان جب بھی کھولے تو ہوائیں مخالف ہو گئیں اور تم نے کہا ہوائیں ہمیشہ اسی طرح مخالف رہی ہیں۔‘‘

اس کے چہرے پر اعتراف کی جھلک دیکھنے کے لیے میں اس کے قریب جھکا۔ اس کی آنکھیں ایک لمحہ کے لیے دھوپ میں کسی شیشے کی طرح چمکیں تو مجھے لگا وہ کچھ یاد کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور اب میں اس کے چہرے کو پڑھ لوں گا لیکن پھر یکایک اس کی آنکھیں بیتے موسم کی طرح ہر چمک سے خالی تھیں۔

’’اب میں خود کے ہونے کا بوجھ لیے نہیں چل رہا ہوں۔‘‘

’’ہاہاہا…یہ تمہارا وہم ہے۔‘‘ میں نے زور کا قہقہہ لگایا۔

اس کے چہرے کا رنگ ایک لمحے کے لیے بدلا۔ مجھے لگا اب اس کے چہرے پر بیتے لمحوں کا ایک ایک نقش ابھر آئے گا اور اس کے چہرے کا وہ ٹوٹا ہوا حصہ جو بڑی چالاکی سے سب سے چھپائے پھرتا ہے، کھل کر سامنے آ جائے گا اور پھر میں اس سے پوچھوں گا کہ اگر وہ خود کے ہونے کا کوئی بوجھ نہیں لیے چل رہا ہے تو یہ زخموں کے نشانات کیا معنی رکھتے ہیں؟‘‘

در اصل میں اسے اچھی طرح سے جانتا ہوں۔ مجھے یاد ہے ایک بار کسی اونچائی پر چڑھتے ہوئے وہ یکایک پھسل کر گر پڑا تھا۔ اس کے قریب بھیڑ اکٹھی ہو گئی تھی اور سبھوں نے اس کے اس طرح گرنے پر اظہار افسوس کیا تھا۔ تب اس نے پیچھے کی طرف مڑ کر دیکھتے ہوئے کہا تھا کہ یہ کیا کم ہے کہ وہ کچھ دور چلا ہے اور پھر مسکراتے ہوئے آگے بڑھ گیا تھا تو اس کی چال میں ہلکی سی لنگڑاہٹ کا احساس ہوا تھا لیکن مجھے یقین تھا کہ خود اس کو اپنی اس لنگڑاہٹ کا کوئی احساس نہیں ہے۔ اس دن اس نے یہ بات بھی کہی تھی کہ نوکیلی چٹانیں اس کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتی ہیں اور اگر دور تک ریگ زار ہیں تو وہ اپنی راہ الگ بنا لے گا لیکن ایک بار وہ ٹھیک منزل پر لڑ کھڑا گیا تھا اور جب دور تک ریگ زار ہی ریگ زار تھے تو آسمان اس کو جھوٹی کہانی کا سلسلہ لگا تھا اور اس دن اس نے پوچھا تھا کہ وہ راستے کیسے ہیں جہاں پہلی سیڑھی ہی منزل بن جاتی ہے۔ اس دن اس کے چہرے پر زخم کا ایک گہرا نشان ابھر آیا تھا۔

’’تمہیں یاد ہے، ایک بار تم گر پڑے تھے؟‘‘ میں نے پوچھا۔

’’مجھے یاد نہیں ہے کہ میں کب گرا ہوں۔ بس اتنا معلوم ہے کہ میں چلتا رہتا ہوں۔ چلنا ایک فطری عمل ہے اور گرنا ایک حادثہ اور سارے حادثوں کے ذمہ دار ہم خود ہیں۔‘‘

’’لیکن گرنے کی اذیتیں کوئی کیسے بھول سکتا ہے؟‘‘

’’یہی تو المیہ ہے کہ گرنے کی اذیتیں بھی ہمیں اٹھانی پڑتی ہیں۔ ہمارا گرنا ہمارے چلتے رہنے سے وابستہ ہے اور ہمارا کرب یہ ہے کہ ہم چلتے رہنے کے عمل سے گریز نہیں کر سکتے۔‘‘

وہ کچھ دیر کے لیے چپ ہوا تو میں نے اس کو غور سے دیکھا۔ مجھے اچھی طرح یاد تھا ایک بار اس سے ایک بے حد پیچ دار موڑ پر ملاقات ہوئی تھی۔ وہاں سے ایک گہری ندی کا سلسلہ شروع ہوتا تھا۔ ندی کی دوسری طرف مجھے بھی جانا تھا اور میں آسانی سے چلا گیا تھا۔ ہوائیں موافق تھیں لیکن جب وہ پانی میں اترا تو ہوائیں مخالف ہو گئی تھیں اور اس کو واپس لوٹنا پڑا تھا اور تب اس نے کہا تھا کہ ہوائیں ہمیشہ اسی طرح مخالف رہی ہیں اور اس کے چہرے پر زخم کا نیا نشان ابھر آیا تھا۔ ایک بار میں اس کے گھر بھی گیا تھا اور مجھے وہاں ایک عجیب گھٹن اور سیلن کا احساس ہوا تھا۔ مجھے حیرت ہوئی تھی کہ وہ اس سرد کمرے میں سانس کیسے لیتا ہے؟ اس کے کمرے کی کھڑکیاں اگرچہ کھلی تھیں لیکن باہر تاریکی اور سناٹے کے سوا کچھ نہیں تھا۔ اس دن ایک دریچے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس نے بتایا تھا کہ دھوپ کی ایک پتلی سی کرن اندر آتی ہے اور میں نے دیکھا تھا جہاں وہ پتلی سی کرن پڑتی تھی اس جگہ دیوار کا رنگ سبزی مائل ہو گیا تھا۔ اس نے یہ بھی کہا تھا کہ اس کرن کے اشارے پر وہ ایک نئے سفر کا آغاز کر رہا ہے۔ تب میں نے اسے مبارک باد دی تھی اور امید ظاہر کی تھی کہ جب وہ اپنی سانسوں میں دھوپ کی خوشبو رچا کر آئے گا تو اس سے سبز موسم کے قصے سنوں گا لیکن جب وہ واپس آیا تھا تو اس کے چہرے پر دھوپ کی کوئی تمازت نہیں تھی اور میں سمجھ گیا تھا کہ ہوائیں اس بار بھی …۔

’’چلو کہیں چلتے ہیں۔‘‘ اس نے کہا۔

’’کہاں؟‘‘

’’کہیں بھی۔ منزل کی تلاش نہیں ہے۔‘‘

’’پھر یہ چلنا کیا معنی رکھتا ہے؟‘‘

’’معنی؟ منزل کی تلاش بھی کیا معنی رکھتی ہے؟ منزل کی تلاش ایک فضول وہم ہے اور چلتے رہنے کا عمل بھی ایک مہمل عمل ہے اورا المیہ یہ ہے کہ ہم چلتے رہنے کے عمل سے گریز نہیں کر سکتے۔‘‘

کچھ دیر بعد میں نے محسوس کیا کہ وہ مجھے اپنے گھر کی طرف لے جا رہا تھا۔ تب میں نے دیکھا یہ وہی کمرہ تھالیکن اب اس کی کھڑکیاں بند تھیں اور ان پر کائی جمی ہوئی تھی اور دیواروں پر جہاں مجھے سبز رنگ کے دھبے نظر آئے تھے وہاں ناخن کی خراشیں تھیں، ان پر زردی چھائی ہوئی تھی۔

’’جانتے ہو اب تمہیں میرے چہرے پر زخم کا نشان کیوں نظر نہیں آتا؟‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’میں اب ماضی سے بندھا ہوا نہیں ہوں اور نہ ہی میری نظر مستقبل پر ہے۔ میں بس چلتا رہتا ہوں۔‘‘

میں نے دیکھا، اس دریچے پر جس سے دھوپ کی پتلی سی کرن آتی تھی، مکڑی نے جالے بن دیے تھے۔

پھر اس نے کہا۔

وقت ایک مہمل تناؤ ہے اور یہ جو ماضی اور مستقبل کی فصیلیں وقت نے ہمارے ارد گرد کھینچ رکھی ہیں ان فصیلوں میں کتّے کی طرح ہانپتے ہوئے ہم ایک انتہائی مہمل سی چیز ہیں۔ اگر ہم اپنے سفر میں مڑ کر نہیں دیکھیں کہ کتنی دور چلے ہیں اور نہ ہی یہ کہ آگے کتنی دور چلنا ہے تو یہ فصیلیں گر جاتی ہیں اور تب وقت کیا معنی رکھتا ہے۔۔۔۔ اور منزل کیا معنی رکھتی ہے؟‘‘

پھر بہت دن تک میری اس سے ملاقات نہیں ہو سکی تھی۔ ایک دن اس سے ملنے کی میں نے عجیب سی خواہش محسوس کی۔ اس کے گھر گیا تو اس دریچے پر مکڑی کے جالے ٹوٹے ہوئے تھے اور دھوپ کی ایک پتلی سی کرن اندر آ رہی تھی۔ شاید نئے اطراف میں گیا تھا۔ پھر کچھ دنوں بعد مجھے معلوم ہوا کہ اس بار وہ ٹھیک آخری سیڑھی پر آ کر رک گیا ہے۔ مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ اس آخری سیڑھی پر کوئی رکاوٹ نہیں تھی۔ ہوائیں موافق تھیں۔ منزل بانہیں پھیلائے پکار رہی تھی۔ ایسے میں اس کا آخری سیڑھی پر رکے رہنا بے حد عجیب لگ رہا تھا۔ اس سے ملاقات ہوئی تو میں حیران رہ گیا۔ اس کے چہرے پر زخموں کے اَن گنت نشان تھے۔ تب میں نے زور کا قہقہہ لگایا۔

’’میں نے کہا تھا نا کہ ایک ذرا سی کھڑکھڑاہٹ ہو گی اور تم ہواؤں کے فریب میں آ جاؤ گے۔‘‘

وہ چپ رہا۔

’’کیوں آخری سیڑھی پر رک کیوں گئے؟‘‘

’’میں خود کے ہونے کا بوجھ محسوس کر رہا ہوں اور جب تک خود کے ہونے کا بوجھ ہے ماضی بھی ہے، مستقبل بھی ہے اور زخموں کا سلسلہ بھی …۔‘‘

’’پھر تم یہاں تک آئے کیوں؟‘‘

’’چلنا ایک فطری عمل ہے۔ ہم چلنے سے گریز نہیں کر سکتے۔‘‘

’’در اصل تمہیں اس آخری سیڑھی پر گرنے کا خد شہ ہے اور اس کا احساس بھی کہ اس بار آخری سیڑھی پر لڑکھڑانے کی اذیت تم برداشت نہیں کر سکو گے۔‘‘

وہ مسکرایا۔

’’گرنا معنی نہیں رکھتا۔ منزل پر پہنچنا بھی معنی نہیں رکھتا۔ دونوں حادثے ہیں۔‘‘

’’پھر کیا معنی رکھتا ہے؟‘‘

’’خود کے ہونے کا بوجھ معنی رکھتا ہے۔۔۔۔۔۔ ایک مہمل اور فضول معنی۔ اور جس دن اس بوجھ سے چھٹکارہ مل جائے گا سمجھ لو پہلی سیڑھی منزل ہو جائے گی۔‘‘

کچھ دنوں بعد اس کے متعلق مجھے ایک خبر معلوم ہوئی۔ میں نے سنا آگے بڑھنے کے بجائے وہ آخری سیڑھی سے خود بخود واپس لوٹ گیا تھا۔

کہنے والے کہتے ہیں اس کے چہرے پر زخم کا کوئی نشان نہیں ہے۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے