ابنِ کنول صاحب ۔۔۔ ارشاد احمد ارشادؔ

رہا باقی دنیا میں کس کا ہے نام

نہیں ہے کسی کو بھی اس میں کلام

 

ہمیشہ سے ہے جو رہے گا سدا

قدیم اور باقی وہ ہے کبریا

 

وہی سب کا خالق ہے مالک وہی

چلے اس کی رہ پر ہے سالک وہی

 

وہی مارتا ہے جِلائے وہی

بگاڑے وہی اور بنائے وہی

 

کھلیں پھول گلشن میں ہیں بے شمار

سدا ان کا باقی رہا کب نکھار

 

کھلے کھل کے بکھرے فنا ہو گئے

وہ خوش بو بھی آخر یہاں کھو گئے

 

جو آیا ہے دنیا میں ہو گا فنا

رہے گا ہمیشہ ہمیشہ خدا

 

یہی ہے حقیقت ہے فانی جہاں

نہیں کوئی رہتا ہے باقی یہاں

 

قضا ساتھ لاتی ہے یہ زندگی

فنا سنگ آتی ہے یہ زندگی

 

جو آیا ہے دنیا میں وہ جائے گا

مزہ موت کا ہر کوئی پائے گا

 

یہی اک حقیقت ہے گزری جو کل

ہے جس کی خبر سے گیا دل دہل

 

وہ ابنِ کنول تھے جو ناصر کمال

قضا لے گئی ہو گیا انتقال

 

وہ استاد اردو کے ابنِ کنول

گئی لے کے سنگ جن کو اپنے اجل

 

کسی نے نہ سوچا تھا یوں جائیں گے

کبھی بھی نہ پھر لوٹ کر آئیں گے

 

گئے ہیں سبھی کو وہ یوں چھوڑ کر

پلٹ کے نہ دیکھا ہے منہ موڑ کر

 

قضا ایسا آ کے وہ کہتی ہے کیا

سنی اس کی اور ساتھ اس کے ہوا

 

یہی کام ابنِ کنول نے کیا

کسی کی نہ سوچی انھوں نے ذرا

 

قضا کا یہ رائج وہ دستور ہے

کہ ہر ایک اس آگے مجبور ہے

 

چلی اس کے آگے کسی کی کہاں

ہے مجبور بوڑھا ہو بچہ جواں

 

جو آئی وہ لینے تھی ان کو اجل

نہ ٹھہرے جہاں میں وہ پھر ایک پل

 

وہ پل میں ہی بس آں جہانی ہوئے

وہ موجود سے اک کہانی ہوئے

 

گئے تھے علی گڑھ نبھانے جو فرض

اجل آ گئی روح کرنے کو قبض

 

ہوئے با وضو وہ جو پڑھنے کو ظہر

ادا فرض اپنا وہ کرنے کو ظہر

 

خدا کو بھی کچھ اور منظور تھا

جو فہم و گماں سے بہت دور تھا

 

ادا کرنے سے ظہر رہ ہی گئی

قضا ساتھ اپنے انھیں لے گئی

 

پڑا ایک ماتم تھا ہر سو وہاں

رہا ہوش باقی کسی کو کہاں

 

گئے چھوڑ کر ہیں جو ابنِ کنول

کہ آیا ہے غم یہ بہت جاں گسل

 

گیا چھوڑ کر کے وہ اردو کا یار

نہیں ہے کسی کو بھی کچھ اختیار

 

وہ دنیا میں جب تک بھی زندہ رہے

وہ اردو کی خدمت ہی کرتے رہے

 

بہت نیک تھے وہ بہت نرم خو

گئے ہیں جہاں سے بھی وہ با وضو

 

بہت پُر خلوص اور ملنسار تھے

بہت باشعور اور با کردار تھے

 

وہ پیکر تھے لطف اور ایثار کا

وہ پیکر مثالی سے کردار کا

 

وہ استاد ایسے ہو جیسے پدر

رہے شعبۂ اردو کے وہ تھے صدر

 

وہ افسانہ تحقیق خاکے تمام

ادب میں وہ رکھتے تھے اعلا مقام

 

ظریفانہ کافی تھا ان کا مزاج

کہاں لوگ ملتے ہیں ایسے بھی آج

 

غرض اس جہاں سے ہے جو بھی گیا

خلا اس کے جانے سے کب ہے بھرا

 

یہی حال ابنِ کنول کا بھی ہے

وہ اپنے مثالی تو بس آپ تھے

 

بہت یاد آئیں گے ہم کو سدا

کرے مغفرت اور رحمت خدا

 

لکھے کیسے ارشادؔ ان کی صفات

کہ ہستی تھی جن کی ادب کی لغات

٭٭٭

 

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے