شیکسپئیر اور میں ۔۔۔ ضیاء محی الدین

 

آپ کا سوال ہے کہ شیکسپئیر کا مقام میری نظر میں کیا ہے؟ اول تو یہ کہ شیکسپئیر کوئی نظریاتی مسئلہ نہیں کہ کسی صدی میں اس کا مقام ڈھونڈنے کی کوشش کی جائے۔

شیکسپئیر ایک مصنف تھا، ایک لیکھک تھا، گلوب تھیٹر میں ایک اداکار منشی کی حیثیت سے نوکر تھا۔ جس سے یہ توقع کی جاتی تھی کہ وہ اپنی کمپنی کے اخراجات اور فنی لوازمات کو سامنے رکھتے ہوئے ایسے کھیل لکھے کہ وہ دیکھنے والوں کے لیے تفریح کا سامان ہوں۔

مجھے شیکسپیئر سے اس لیے لگاؤ نہیں کہ وہ دنیا کے عظیم ترین مصنفوں میں سے ہے، اس لیے بھی نہیں کہ وہ آفاقی مفکر ہے، بلکہ اس لیے کہ وہ میری غمخواری کرتا ہے، مجھے سہارا دیتا ہے، میری پژمردگی کو دور کرتا ہے، مجھے اپنے آپ سے باہر نکال دیتا ہے۔ میں جب اس کے پاس جاتا ہوں، وہ میری ہمت بڑھاتا ہے۔

The quality of mercy is not strain’d,

It droppeth as the gentle rain from heaven

Upon the place beneath: it is twice blest;

It blesseth him that gives and him that takes:

‘Tis mightiest in the mightiest: it becomes

The throned monarch better than his crown;

His sceptre shows the force of temporal power,

The attribute to awe and majesty,

Wherein doth sit the dread and fear of kings;

But mercy is above this sceptred sway;

It is enthroned in the hearts of kings,

It is an attribute to God himself;

 

مجھے شیکسپیئر پڑھتے ہوئے آج بھی وہ سنسنی محسوس ہوتی ہے، جو میری ریڑھ کی ہڈی کو کچھ دیر کے لیے جھنجھنا دیتی ہے۔ یہ میرا وہ ذاتی پیمانہ ہے، جس سے میں گویا وجدانی اور غیر وجدانی چیزوں میں تمیز کرتا ہوں۔

بہت بڑھیا گورکھ کلیان سنتے ہوئے بھی کبھی کبھی یہ جھنجھناہٹ محسوس کرتا ہوں۔ اس کے بہت سے کھیل میں نے کئی بار پڑھے ہوں گے، مگر ہر بار جیسے ہی میں شروع کرتا ہوں اس کے کردار صفوں سے اٹھ کر باہر نکل آتے ہیں اور سٹیج پر بیٹھنا، چلنا پھرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اور کیسے کردار، ہیملٹ، اوتھیلو، میلولیو، شیلاک، لیئر، انجیلو۔ اداکار کے لیے جوش و خروش کا چیلنج۔ شیکسپئیر کا یہ ایک ایسا کمال ہے کہ اس نے ایسے کردار تخلیق کیے کہ چھوٹا بڑا ہر اداکار ان کو اپنانا چاہتا ہے۔ ان پہ اپنی چھاپ ثبت کرنا چاہتا ہے، لیکن اس نبرد آزمائی میں بیشتر اوقات اداکار ہی پچھاڑ کھاتا ہے۔

وہ ہر عہد میں اداکاروں کی کارکردگی کے اعلیٰ معیار کا سب سے بڑا پیمانہ ہے اور یہ بات صرف انگریزی بولنے والے ملکوں تک محدود نہیں۔ روس میں یا اٹلی میں، یا مصر میں، یا یونان میں، تقریباً ہر جگہ اداکار اس کوشش میں رہتے ہیں کہ وہ شیکسپئیر کے مسلمہ کرداروں کو خوبی سے انجام دیں۔ اور کچھ نہ ہو تو کم از کم ان کو گرفت میں لینے کی کوشش کریں۔ یونانی المیوں کو سنبھالنا بھی کم ہمتی کا کام نہیں، مگر یونانی المیے میں تمام کردار ایک طرح سے غیر انسانی اور مافوق الفطرت ہوتے ہیں۔

شیکسپئیر کے کھیل کے تمام افراد جیتے جاگتے انسان ہیں، جن پر حالات اور ماحول کا تھپیڑا پڑتا ہے۔ ذرا غور کیجیے کہ تقریباً چار سو سال ہونے کو آئے، شیکسپئیر کے ڈرامے مسلسل سٹیج پر ہو رہے ہیں اور سوائے سترہویں صدی کی چند دہائیوں کے اس تسلسل میں کوئی فرق نہیں آیا۔

کوئی رکاوٹ نہیں ہوئی اور یہ بات محض روایت نہیں۔ اس میں یہ لازم ہے کہ ہر عہد اور ہر دور میں شیکسپئیر کے کھیل لوگوں کے احساسات کو جذباتی، روحانی اور جمالیاتی غذا پہنچاتے رہے ہیں۔ کچھ ایسی بات بھی ہے کہ اس کے افکار اور مفہوم ہر دور میں ایک نیا جنم لے لیتے ہیں۔

آپ نے کبھی دھیان کیا کہ انگریزی میں کتنی کہاوتیں، کتنے فقرے، کتنے بول ہیں جو بیشتر لوگ استعمال میں لاتے ہیں، بغیر یہ جانے ہوئے کہ یہ شیکسپئیر سے اخذ کیے ہوئے ہیں۔ نصب العین اور مقصد اور زیست اور موت، اور اس طرح کے بلند بانگ جذبات کو بیان کرنا ہو تو کون ہے جو اظہار کے لیے شیکسپئیر کی مدد نہیں لیتا۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ لالچ اور حرص، خباثت اور کمینگی، اور سفلہ پن اور بے شمار دوسری انسانی کمزوریوں کو دیکھنا ہو تو بھی اسی کے ڈراموں کی طرف رجوع کیجیے۔

وہ انسان کو کس کس حال میں دیکھتا ہے، اور انسان کے اندر جو کھوکھلا پن ہے، اس کی کس خوبصورتی سے وضاحت کرتا ہے۔

میں امتحان میں دیئے ہوئے پرچوں کے جوابوں ایسی باتیں نہیں کرنا چاہتا کہ 50 برس کی عمر سے پہلے پہلے وہ اتنا کچھ لکھ گیا، اس کے بعد اپنے گاؤں واپس چلا گیا یا یہ کہ 36 ڈرامے اس نے ایسے لکھے ہیں جن میں سے بعض تقریباً ساڑھے تین، چار گھنٹے کی مدت کے ہیں۔ یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ ابسن نے شیکسپئیر سے تقریباً دگنی عمر پائی لیکن اتنا کچھ نہ لکھا، لیکن خیر اس سے کچھ ثابت نہیں ہوتا۔ یا یہ کہ شاعری الگ۔ یا یہ کہ گلوب تھیٹر میں منشی گیری کرتے کرتے اس نے زبان و بیان کی ایسی چوٹی سر کی کہ وہاں تک پہنچنے میں اچھوں اچھوں کی سانس پھول گئی۔

سانس سے یاد آیا کہ شیکسپئیر کا کوئی پارٹ کرتے ہوئے جس قدر سانس کی ضرورت پڑتی ہے، وہ شاید ہی کسی اور ڈراما نویس کے کام میں پڑے۔ میں اس لیے بھی کہتا ہوں کہ شیکسپئیر معراج ہے ایک ایکٹر کے کام کی۔ اسے ادا کرنے کے لیے جسمانی چابکدستی اور توازن اور تیاری کی بھی اتنی ہی ضرورت ہے، جتنی ذہنی لگن اور حافظے کی کشادگی کی۔ شیکسپئیر کا ٹکڑا بولتے ہوئے اگر آپ کی سانس اکھڑی، یا غلط جگہ پر آپ نے سانس لی، تو فقرے کی لے اور نغمگی تو خیر ٹوٹے گی، اس کے معنی اور متن میں بھی فرق آ سکتا ہے۔

میں اس کا قائل نہیں ہوں کہ ایک اداکار کو روزانہ اتنی ورزش اور کسرت کرنی چاہیے، وہ تو کسی آڑھتی کو بھی کرنی چاہیے۔ اگر آپ کو ڈنڈ پیلنے کا شوق ہے، اسے ضرور پورا کیجیے۔ آپ کا ڈاکٹر بھی آپ سے خوش رہے گا۔ لیکن پہلی فرصت میں شیکسپئیر کا کوئی پیرا پڑھ کے، اس کو سمجھ کر ذہن میں بٹھا لیجیے اور اس پہ کچھ عرصہ ریاض کیجیے تو آپ کے فن میں جلا آنے کے امکانات روشن رہتے ہیں۔ ایک زمانے میں میں نے لکھا تھا،

“Shakespeare is the god of my ideology”

مجھے کسی صحرائی جزیرے میں اگر ایک کتاب کی اجازت ہو تو وہ شیکسپئیر کا مجموعہ ہو گا۔ اس کے بعد کوئی اور کرم کرنا چاہے اور غالب کے خطوط کی تین جلدیں بھی شامل کر دے تو عنایت ہو گی۔

 

ایکسپریس اردو

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے