اظہار و ترسیل، علاقائی تناظر اور صحافت ۔۔۔ سلمان عبد الصمد

زبان و اظہار نہ صرف انسانی سماج بلکہ مکمل کائناتی نظام کا ناگزیر حصہ ہیں لیکن یہ دونوں اسی وقت مفید ہو سکتے ہیں جب ان میں ترسیل و تفہیم کا عنصر موجود ہو۔ اس لیے میڈیا کے لسانی جائزے سے قبل ابلاغ و اظہار کے لطیف رشتے کو سمجھنا ضروری ہے۔ ماہرین لسانیات نے ساختیاتی نظام کے تئیں زبان کی متعدد قسمیں بیان کیں مگر یہاں دیگر قسموں سے قطع نظر cognative اور expressive ہی موضوعِ بحث ہے۔ cognative وہ طرزِ اظہار ہے جس میں اطلاعاتی مقاصد کی کارفرمائی ہو۔ جب کہ expressive وہ طریقہ کار ہے جس میں اطلاعات سے زیادہ فکری پہلوؤں کا اظہار مقصد ہو۔ سہیل وحید نے پراگ اسکول کے حوالے سے اس کی اچھی وضاحت کی ہے:

’’جب زبان اطلاع کے لیے نہیں بلکہ اظہار کے لیے استعمال کی جا رہی ہو تو اسے شاعرانہ زبان کہتے ہیں۔ اس کے بالکل برخلاف زبان جب ابلاغ کے لیے، اطلاع کے لیے اور آگہی کے لیے استعمال کی جاتی ہے تو صحافتی زبان بن جاتی ہے‘‘۔ (۱)

واقعہ یہ ہے کہ شعری ابہام اور تجریدی افسانوں میں بھی اختصاصی نوعیت کے تفہیمی و ترسیلی انسلاکات ہوتے ہیں، تاہم صحافتی اور شعری اظہار میں بنیادی فرق ’راست ترسیل‘ کا ہے۔ راست ترسیل کے بغیر شعری اظہار مستحسن ہو سکتا ہے۔ ابہام کی وجہ سے تخلیقات میں جمالیاتی عناصر پیدا ہو جاتے ہیں لیکن صحافتی زبان کے لیے ابہام گویا زہر ہے۔ اس کی زبان کا حسن، ابہام و ایہام سے گریز میں ہی پوشیدہ ہے۔ کیونکہ راست بیانیہ یا راست ترسیل ہی اس کا اولین مقصد ہے۔ اس لیے cognative اور expressive کے ذریعے ادبی اور صحافتی زبان کا فرق واضح ہو جاتا ہے۔

لاطینی زبان کے لفظ communico سے communication مشتق ہے۔ جس کا معنی فقط بھیجنا نہیں بلکہ وصول و تبادلہ بھی ہے۔ یعنی اشتراک کی کیفیت سے ہی ترسیلی عمل وجود میں آتا ہے۔ اگر ’’ارسال و ترسیل‘‘ کو عربی قواعد کے تناظر میں دیکھیں تو بات اور بھی واضح ہو جائے گی۔ یوں تو بابِ افعال اور تفعیل میں مشارکت کا زور پایا جاتا ہے، تاہم اِفعال کی بہ نسبت تفعیل میں زور زیادہ ہے۔ ’ارسال‘ باب افعال سے اور’ ترسیل ‘باب تفعیل سے ہے۔ اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ترسیل کا عمل اُسی وقت مکمل ہو گا جب اس میں مشارکت ہو یعنی تبادلے کا عنصر پایا جائے۔ ڈاکٹر جہانگیر وارثی لکھتے ہیں:

’’ترسیل میں ایک مشترکہ علامتی ماحول، سماجی رابطے یعنی اپنے سماج میں جن کے درمیان ہم ایک دوسرے کے ربط میں آتے ہیں، سبھی اس کے دائرے میں آتے ہیں۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ بہت سہل معنوں میں ترسیل، پیغامات، خیالات اور دوسرے کے تئیں رابطے کے تبادلے پر مبنی ہے‘‘۔ (۲)

بلاشبہ ترسیل کا مفہوم اسی وقت پورا ہو گا جب سمجھنے اور سمجھانے والے کے درمیان رشتہ پیدا ہو جائے۔ اب سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ جس طرح انسان دوسرے کو سمجھانے کے لیے زبان کا سہارا لیتا ہے، کیا اسی طرح خود کو سمجھانے کے لیے بھی کوئی طریقہ اختیار کرتا ہے۔ کیا ترسیل کی سطحیں سامنے آتی ہیں؟ ماہرین لسانیات یہ تسلیم کرتے ہیں کہ انسان مادری زبان میں غور و فکر کرتا ہے۔ چناں چہ یہیں سے یہ نکتہ واضح ہوتا ہے کہ انسان کے فکری عمل میں زبان کی شمولیت ہوتی ہے۔

اظہار و ابلاغ کی بحث کے بعد میڈیا کی زبان پر گفتگو ضروری ہے۔ صحافت کی زبان عوامی تفہیم کے پیش نظر تشکیل پاتی ہے۔ اس لیے اسے language of demand کہا جا سکتا ہے۔ صحافیوں کی حیثیت محض خبر رساں کی ہوتی ہے۔ اس لیے وہ خبروں میں واقعاتی سطح پر ترمیم و اضافے کے مجاز ہوتے ہیں اور نہ ہی زبان میں خاص اسلوب اپناتے ہیں۔ گویا ایک صحافی عوامی زبان کرائے پہ لے کر اپنا مواد پیش کرتا ہے یا پھر یہ کہنا بجا ہو گا ہے کہ art اور craftکے درمیان جو فرق ہوتا ہے، وہی میڈیا اورادب کی زبان میں ہے۔ آرٹ میں فن کاری، مرصع سازی اور جدت طرازی کی گنجائش ہوتی ہے تاہم کرافٹ میں مخصوص بندھے ٹکے اصول ہوتے ہیں۔

کرائے کی زبان کی وجہ سے ہی کسی صحافی کا کوئی خاص اسلوب یا طرز قرار نہیں پاتا ہے۔ اس لیے ’نامور، مشہور، بے باک اور کہنہ مشق صحافی‘ کی اصطلاح تو رائج ہے لیکن ’صاحب طرز صحافی‘ یا پھر’ منفرد اسلوب کا حامی صحافی ‘جیسی اصطلاحوں کا استعمال کم ہی نظر آتا ہے۔ ایک ادیب مختلف پیرایوں میں اپنا مواد پیش کر کے صاحب طرز ادیب بن سکتا ہے۔ منفرد اسلوب و آہنگ کے ساتھ اپنی انفرادیت قائم کر سکتا ہے لیکن حد درجہ زبان دانی کا اظہار صحافیوں کے لیے مستحسن نہیں ہو سکتا ہے۔ ترسیل کے وسیع تناظر میں تین قسم کے سامعین و قارئین ہوتے ہیں:

اول: ایک ایسا طبقہ جو پڑھنا تو نہیں جانتا، تاہم زبان سمجھ سکتا ہے۔

دوم : نسبتاً کم پڑھا لکھا طبقہ جو پڑھنے اور سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن لفظیات کی سطح پر کمزور ہے۔

سوم : ایسا طبقہ جو پڑھنے، لکھنے اور سمجھنے کے ساتھ ساتھ لفظیات کا بھی وافر ذخیرہ رکھتا ہے۔

ظاہر ہے یکساں طور پر ان تینوں سے ترسیلی رشتہ قائم کرنا بہت مشکل کام ہے۔ ایک ادیب اپنے فلسفیانہ اسلوب میں جو ادب پیش کرے، وہ مذکورہ تینوں طبقوں میں سے کسی نہ کسی کی سمجھ میں ضرور آئے گا۔ اس طرح اس کی محنت ضائع نہیں ہو گی۔ کیوں کہ تخلیقات سے اسی طبقے کو دل چسپی زیادہ ہو گی جس کے پاس الفاظ بھی ہو ں اور جو سمجھنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہو لیکن صحافت سے مذکورہ تینوں طبقے کا یکساں تعلق ہوتا ہے۔ اس لیے لکھتے وقت ایک صحافی تینوں کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی زبان تیار کرتا ہے تاکہ وہ ہر طبقے سے افہام و تفہیم کر سکے۔ ترسیل کے لحاظ سے اوپر تین قسم کے سامعین و ناظرین کا تجزیہ کیا گیا ہے مگر یہاں دو طبقوں کے مد نظر بھی بات سمجھنا آسان ہے:

’’اخبار پڑھنے والے علما بھی ہوتے ہیں اور عامی بھی۔ جن کا علم برائے نام ہوتا ہے۔ صحافتی زبان کو نہ اتنا دقیق ہونا چاہیے کہ عام آدمی کی سمجھ سے باہر اور نہ ہی اتنا بازاری کہ عالم کو اسے پڑھنے سے گھن آنے لگے۔‘‘ (۳)

عالم اور عامی، دونوں کے مزاج کے مطابق زبان کی تشکیل بہت آسان کام نہیں ہے۔ ادیب ’مخصوص ترسیلی نظام‘ سے تعلق رکھے تو بجا ہے تاہم صحافیوں کے لیے ’مخصوص‘ اور’ عمومی ترسیلی نظام‘  دونوں سے معاملہ کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے یہ کہنا بجا ہے کہ صحافتی زبان بنانے کے لیے حد درجہ حساس اور زمانہ شناس بننا پڑتا ہے۔

زبان کی تبدیلی میں عوامی مذاق اور مزاج کا عمل دخل ہوتا ہے اور عوامی مذاق سے صحافت کا واسطہ ادب کے مقابلے میں پہلے پڑتا ہے۔ اردو زبان کے فروغ و اشاعت میں صوفیا کا جو کردار رہا ہے، اس میں ادبی معاملات سے کہیں زیادہ صحافتی نقطۂ نظر کی شمولیت نظر آتی ہے۔ کیوں کہ صوفیا نے عوامی معاملات سے زیادہ تعلق رکھا ہے۔ گویا صحافتی ترسیل میں بھی لسانی فروغ کا معاملہ چھپا ہوا ہوتا ہے۔

اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ علاقائی الفاظ کی وجہ سے صحافتی زبان میں جو تبدیلی رونما ہوتی ہے اس کا کیا مقام ہے؟ علاقائی اثرات قبول کر لینے سے صحافت کا حسن بڑھ جاتا ہے؟ کیا علاقائی گہرے اثرات کے بغیر ترسیلی نظام میں لسانی حسن پیدا کیا جا سکتا ہے؟ کیا مقامی بولیوں سے زبان کو محفوظ رکھ کر صحافتی عمل کی انجام دہی ہو سکتی ہے؟ ان سوالوں پر غور کرنے سے پہلے ذیل میں چند علاقائی الفاظ کو پیش کرنا مناسب ہے :

 

بنگلور، حیدر آباد، ممبئی اور مہاراشٹر

ہراج۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نیلام

مخلوعہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خامی

شبانہ دعوت۔۔۔۔۔۔۔ رات کی دعوت

تنقیح کرنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ معائنہ کرنا

صحیفہ نگار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نامہ نگار

تحفظات۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ریزرویشن

عہدہ پر قائم رہنا۔۔۔۔۔ پابند عہد ہونا

مالیہ درکار ہے۔۔۔۔۔ رقم درکار ہے

منعقد شدنی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انعقاد

طیرانگاہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہوائی اڈہ

غیر کار کرد عہدہ۔۔۔۔ اعزازی عہدہ

طلایہ گردی۔۔۔۔۔۔۔۔ گشت

فاشعت۔۔۔۔۔۔۔۔ فاشسٹ

معیشت پیمائی۔۔۔۔۔ معیشت کا جائزہ

تشدد فروش۔۔۔۔۔۔ تشدد کرنے والے

سردی چمکنا۔۔۔۔۔۔ سردی کا زیادہ ہونا

ہمراہیوں۔۔۔۔۔۔۔۔ ساتھی

انصاف دلانے۔۔۔۔۔۔ انصاف دلانے ’کے لیے‘

اسٹانڈنگ کمیٹی۔۔۔۔۔۔ اسٹینڈ کمیٹی

زیر گشت۔۔۔۔۔۔۔۔ سرخیوں میں ہونا

زمینات۔۔۔۔۔۔۔۔ زمین کی جمع

پالیسی مدون کرنا۔۔۔ پالیسی بنانا

برقی سربراہ کرنا۔۔۔۔ بجلی پہنچانا

بیاج۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بیج

چامبر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چیمبر

ریالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ریلی

لیاب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیپ

مرچی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مرچ

بد خدمتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اچھی خدمت نہیں کی ہے

حرکیاتی خدمت۔۔۔۔۔ سرگرم خدمت

تشکیل جدید۔۔۔۔۔۔۔۔ تشکیل نو

وزارت امکنہ۔۔۔۔۔۔ شہری ترقی کی وزارت

صورت احوال۔۔۔۔۔ صورت حال

برقی مسدودی۔۔۔۔۔ بجلی کا نہیں آنا

’گرینائٹ؟‘ کی کھدائی روک دی جائے گی؟

وزیر ٹرانسپورٹ فی’ بالے‘؟ لاگت بہت زیادہ ہوتی ہے۔

صدارت اور ’نگرانی‘؟

آف انڈیا کوٹھی پر دو گھنٹے ’دکشا ‘رکھا

 

کشمیر

ناخیز افراد۔۔۔۔۔۔۔ معذور افراد

پسی گرنا۔۔۔۔۔۔۔۔ زمین کھسکنا

چلہ کلاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 21 دسمبر سے 21 جنوری کے ایام

چلہ بچہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 21 دسمبر سے 31 جنوری تک کے ایام

کشمیری وازوان۔ شادی کے خاص پکوان

اسٹیٹ سبجیکٹ۔۔۔۔ خاص ریزیڈنسی پروف (کشمیریوں کے لیے)

میکڈم۔۔۔۔۔۔۔۔ تارکول

ریڈہ فروش۔۔۔۔۔۔ فٹ پاتھ دوکان لگانے والے

گرنیڈ پھینکنا۔۔۔۔۔ نقصان پہنچانے والا کوئی گولا

دھجیاں بکھیرنا۔۔۔۔۔۔ دھجی اڑانا

انتقام گیری کرنا۔۔۔۔ انتقام لینا

نفوس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ افراد

پولس کی جمعیت۔۔۔۔ پولس کی نفری

آئیندہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آئندہ

سیخ پا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چراغ پا

’ عملانا ‘۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عمل میں لانا

سراہنا کرنا۔۔۔۔۔۔۔ تعریف کرنا

جسمانی طور معذور۔۔۔ جسمانی طور پر معذور

اسناد کی اجرائی۔۔۔۔۔ اسناد کا جاری کرنا

فہمائش۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نصیحت

گرڈ سٹیشن۔۔۔۔۔۔۔ بجلی گھر

ٹریفک جامنگ۔۔۔۔ ٹریفک جام

درختاں سفیدہ۔۔۔۔۔۔ سفیدہ کے درخت

اعتراض اٹھانا۔۔۔۔۔ اعتراض کرنا

آخر پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آخر میں

ملاقی ہونا۔۔۔۔۔۔۔ ملاقات کرنا

گاڑیاں درماندہ رہیں۔ پھنسی رہیں

 

بہار

ڈھبری۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چراغ

سٹا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ متصل

ڈوبھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ غیر استعمال تالاب، جہاں بارش /سیلاب کا پانی جمع رہتا ہو

’پکسوں‘ سے دھان کی خریداری ہوئی (سرخی)

چچری پل۔۔۔۔۔۔ لکڑی خصوصاً بانس کی پھٹیوں سے بنے پل

گاڑیوں کی چال بگڑ گئی۔۔ آمد و رفت متاثر ہوئی

لہریا کٹ مارنا۔۔۔۔۔ لہراتے ہوئے بائک چلانا

مہاجن۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مالک

حلف وفا داری۔۔۔۔ حلف برداری

سہ طاقتی بات چیت۔ سہ فریقی بات چیت

ذمے واری۔۔۔۔۔ ذمے داری

فلاحی نظام دکان۔۔۔ ڈیلر کی دکان

چرچہ میں بنا رہنا۔۔۔۔ سرخیوں میں رہنا

دہج دیتے ہوئے۔۔۔ اہمیت دیتے ہوئے

 

کولکاتا:

ان بیاہی۔۔۔۔۔۔۔۔ بن بیاہی

باڑھ مارنا۔۔۔۔۔۔ بوچھاڑ کرنا

حرکیاتی سپاہی۔۔۔۔۔۔ گشتی سپاہی

ریاست گریزی۔۔۔۔ ریاست کے خلاف

غیر متعینہ عرصہ۔۔۔۔۔ غیر متعینہ مدت

 

دہلی اور یوپی:

ٹُن۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شراب پی کر مدہوش ہونا

برسوں۔۔۔۔۔۔۔ سالوں

پچھوا ہوا۔۔۔۔۔۔ پچھیا ہوا (بہار)

گلن و ٹھٹھرن۔۔۔۔ گلنا اور ٹھٹھرنا

ٹرین کی لیٹ لطیفی۔ ٹرین کا لیٹ ہونا

جلوس نکالنا۔۔۔۔۔۔ جلوس برآمد کرنا (حیدرآباد)

بچولیے۔۔۔۔۔۔۔۔ دلال (بہار)

نشتر چبھونے والی سردی۔۔۔۔۔ سخت ٹھنڈ

کٹھارہ گھات۔۔۔۔۔۔۔ سخت بوجھ

مہا گھوٹالہ۔۔۔۔۔۔۔ بڑا گھوٹالہ

پولسیہ اعداد و شمار۔۔۔ پولس کے اعداد و شمار

 

طرز اظہار :

ان الفاظ کی فہرست کے بعد مناسب معلوم ہوتا ہے کہ جملوں کی ساخت سے بھی بحث کی جائے۔ پہلے چند مثالیں جنوبی ہند کے اخبارات سے:

٭ملکارجن کھرگے نے مرکز کی مودی قیادت والی حکومت کو من مانے فیصلے کرنے کا مرتکب قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان فیصلوں سے ملک کا انتظامیہ درہم برہم ہو چکا ہے۔ (منصف :24 دسمبر 2016)

اس میں ’’نظام‘‘ کی جگہ انتظامیہ کا استعمال ہوا ہے۔ اس کے بعد ’’مرکز کی مودی قیادت والی حکومت‘‘ کو ’’مودی کی قیادت والی مرکزی حکومت‘‘ لکھنا زیادہ فصیح ہے۔

٭اعلی قدر کی حامل کرنسی نوٹوں کی تنسیخ کے فیصلے کے تقریباً ایک ہفتہ بعد پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس کا آغاز ہوا۔ (اداریہ، منصف 17 دسمبر 2016)

یہ اداریہ کا پہلا جملہ ہے۔ جس میں انشا پردازی سے نہ صرف ترسیل کا عمل متاثر ہو رہا ہے بلکہ لفظوں کی قدر و منزلت بھی گھٹتی ہوئی نظر آتی ہے، ’اعلی قدر کی حامل کرنسی نوٹوں‘ کی جگہ صرف ’بڑے نوٹ‘ لکھ دینا ہی کافی ہے۔

بہار کے اخبارات سے مثالیں :

٭سب سے حیرت کی بات اس سال یہ رہی کہ ایسے پولیس افسران جس کی وجہ سے محکمہ اور ضلع شرم سے جھک گیا۔

۔۔۔ ایسے پولس افسران ’جن کی وجہ‘ سے محکمہ اور ضلع ’کا سر‘ شرم سے جھک گیا۔

٭اپنی پرائیوٹ گاڑی سے نشے کے دھت میں جا رہے تھے۔

نشے سے دھت اپنی پرائیوٹ گاڑی میں جا رہے تھے۔

٭مزید لوگوں نے ان کے منتخب کو ضروری بتاتے ہوئے۔

ان کے’ انتخاب‘ کو۔۔۔

٭محکمہ تعلیم کے ذرائع کی مانیں تو وہ کہتے ہیں کہ محکمہ انسانی وسائل بہار پٹنہ کے مکتوب کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ جس اسکول میں طلبا کی تعداد سے زیادہ اساتذہ ہیں، وہاں سے زائد اساتذہ کو دوسرے اسکولوں میں جہاں طلبا کے مقابلے میں اساتذہ کم ہیں، وہاں تعینات کیا جانا ہے۔

محکمہ تعلیم ذرائع کے مطابق محکمہ انسانی وسائل پٹنہ نے ایک مکتوب میں کہا کہ متعدد اسکولوں میں طلبا سے زیادہ اساتذہ ہیں۔ اس لیے زیادہ بچے اور کم اساتذہ والے اسکولوں میں اساتذہ کا ٹرانسفر کیا جائے گا۔

٭سمینار سے نہیں روزگار سے جڑنے پر اردو کی ترقی ممکن

سیمینار سے نہیں، روزگار سے اردو کا فروغ ممکن

٭شمع جلا کر سمینار کا ممبر اسمبلی انور عالم اور دیگر حضرات

شمع روشن کر کے سیمینار کا افتتاح کرتے ہوئے ممبر اسمبلی انور عالم اور دیگر افراد۔۔۔

٭تیز رفتار آ رہے ٹرک کی زد میں ایک۔۔۔

تیز رفتار ٹرک کی زد میں

ایسے بہت سے جملے اور الفاظ ہو سکتے ہیں جن پر علاقائی اثرات کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔  علاقائی الفاظ کے کثرتِ استعمال کے تناظر میں کشمیر تمام ریاستوں سے مقدم ہے۔ وہاں موسمی تبدیلی کے لحاظ سے چند الفاظ رائج ہیں جو دوسری جگہ نہیں ہیں۔ جنوبی ہند کے اخبارات کو یہ زعم ہے کہ لے آؤٹ، خبروں کی پیش کش اور زبان و بیان کے لحاظ سے ہم بہت آگے ہیں۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ وہاں کی زبان نہ صرف عربی و فارسی بلکہ انگریزی زدہ ہے۔ وہ بھی ایسی انگریزی کہ جس کا تلفظ انگریزی داں کے یہاں معتبر ہو سکتا ہے اور نہ ہی اردو داں کے نزدیک مقبول۔ ’ریالی، چامبر، بیاٹنگ، لیاب‘ وغیرہ لکھنے اور بولنے میں کون سا لسانی حسن چھپا ہے؟ فقط شمالی ہند کی زبان سے منفرد بنانے کے لیے ساختیاتی نظام میں غیر مہذب چھیڑ چھاڑ میرے خیال سے مناسب نہیں ہے۔

اسی طرح جنوبی ہند کا دعوی ہے کہ ہم ترسیل میں آسانی کے لیے’ وزیر اعظم اور وزیر اعلی‘ کے بجائے ’سی ایم اور پی ایم ‘ لکھتے ہیں، لیکن ’’برقی اجرائی‘‘ کا کیا جواز ہے؟ کیا ’بجلی کا آنا جانا‘ اس سے آسان نہیں ہے؟ کشمیر کے اخبارات پر بھی انگریزی کا غلبہ ہے۔ وہاں تو سرخیوں میں بھی انگریزی الفاظ کا کثرت سے استعمال ملتا ہے۔ حیدرآباد کی طرح ہی انگریزی واحد و جمع کا طریقہ وہاں بھی رائج ہے، لیکن راقم کو ذاتی طور پر جنوبی ہند کے اخبارات کی انگریزی گزیدہ زبان سے کشمیری اخبارات کی زبان زیادہ پسند ہے۔

رہی بات شمالی ہند کے اخبارات کی تو یہاں انگریزی کے مقابلے ہندی کا غلبہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں ایسے جملے ’’وزیر اعلی نے دربھنگہ کا دورہ ’کر‘ جانچ کا حکم دیا‘‘ مل جاتے ہیں۔ یہاں کی سرخیوں میں بھی ہندی لب و لہجہ پایا جاتا ہے۔ مثلاً، ’کوہلی کے بلا نے دکھایا جلوہ‘، ’معیشت کے میدان میں ترقی کر رہا ہے ہندوستان‘، ’سرکار نے چھپا لی ہے کالے دھن کی لسٹ‘ وغیرہ، سے شمالی ہند کے اخبارات کی زبان کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ یہاں کے اخبارات کی خصوصیت جہاں طرزِ اظہار میں آسانی پیدا کرنا ہے، وہیں ترجمہ شدہ خبروں میں عہدے کا نام بھی اردو میں لکھنے کا رواج ہے۔ حالاں کہ حیدر آباد وغیرہ میں عموماً عہدوں کے نام انگلش میں لکھ دیے جاتے ہیں۔

اس کے علاوہ یہ معاملہ بھی توجہ طلب ہے کہ شمالی ہند کے مقابلے جنوب اور کشمیر کے اخباروں میں تجزیاتی عناصر کی شمولیت زیادہ نظر آتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ تجزیاتی عمل سے ’اطلاع‘ مجروح ہوتی ہے اور خبر، مضامین کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ اس کے علاوہ آج خبر لکھنے میں ’الٹا اہرام‘ کا خاص خیال رکھا جاتا ہے مگر جنوبی ہند میں اس پر بھی کم توجہ دی جاتی ہے۔ چنانچہ وہاں کی بے شمار خبروں کی شروعات مضامین کی طرح ہو جاتی ہے۔ پروفیسر شافع قدوائی خبر کی ابتدائیہ کے متعلق اپنی کتاب ’’خبر نگاری‘‘ میں بہترین بحث کی ہے۔ وہاں سے ایک مثال پیش کی جاتی ہے :

’’علی گڑھ، ۲ جولائی۔ مقامی کنیڈی ہاؤس میں آج کل ہند سطح کا تقریری مقابلہ اقوام متحدہ اور عالم امن کے موضوع پر منعقد ہوا جس میں ملک کی ایک درجن سے زائد یونیورسٹیوں کی ٹیموں نے حصہ لیا۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی ٹیم نے اول مقام حاصل کیا۔‘‘ (۴)

شافع قدوائی نے اس ابتدائیہ کو غلط اس لیے کہا ہے کہ خبر کی شروعات مقام سے ہو رہی ہے۔ حالاں کہ یہ مقابلے کی خبر ہے اس لیے نتائج پر زیادہ توجہ دینی چاہیے۔ سچی نظروں سے دیکھیں تو معلوم ہو گا کہ ایسی غلطیاں شمال کے اخبارات سے کہیں زیادہ جنوب کے اخبارات میں ملیں گی۔

اسی طرح لے آؤٹ میں دل کشی کے معاملے میں جنوبی ہند کا نام لیا جاتا ہے مگر وہاں طول طویل خبروں میں بھی پیرا گراف کم ہوتے ہیں۔ بعض اوقات پانچ کالمی خبروں کو کالموں میں منقسم نہیں کیا جاتا ہے۔ اس لیے اخبار کا ’لے آؤٹ ‘کتابی شکل اختیار کر لیتا ہے اور راست ترسیل میں تھوڑی پریشانی ہوتی ہے۔

علاقائی تناظر میں اخبارات کے چند الفاظ اور طرزِ اظہار کی مختلف مثالوں سے متعدد سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ کیاان تبدیلیوں سے ترسیلی نظام پر کوئی منفی اثر پڑتا ہے؟ کیا لفظوں کے انتخاب میں علاقائیت کو ترجیح دینا لسانی حسن کے تئیں مناسب ہے؟ کیا اس عمل سے زبان کا دائرہ وسیع ہوتا ہے؟ ان سوالوں پر گفتگو سے قبل ایک اقتباس:

’’بعض اوقات کسی مخصوص علاقائی اخبار میں علاقائی بولیوں کے الفاظ و محاورات پر ناقدانہ چوٹ کی جاتی ہے مگر صحافتی زبان کے عوامی رشتوں کے نقطۂ نظر سے اگر دیکھا جائے تو یہ رویہ اور عمل غیر مستحسن نہیں ہے۔۔۔ ہندی کے اخبارات میں انگریزی کے علاوہ دوسری علاقائی زبانوں کے الفاظ و محاورات اور ضرب الامثال پوری کثرت کے ساتھ استعمال کیے جاتے ہیں جس کی وجہ سے اس کی ریڈر شپ کا دائرہ وسیع ہوا ہے۔‘‘ (۵)

ترسیلی نقطۂ نظر سے صحافت میں علاقائی الفاظ کی شمولیت کلی طور پر مستحسن نہیں ہے۔ راقم کا خیال ہے کہ علاقائیت مختلف طریقوں سے اثرانداز ہوتی ہے۔ اس لیے چند علاقائی تبدیلیاں مستحسن ہو سکتی ہیں اور چند محل نظر۔ کیوں کہ بہت سی تبدیلیاں ایسی ہیں جن سے نہ صرف اخبارات کو سمجھنے میں پریشانی ہو تی ہے بلکہ زبان کا حسن بھی خاصا متاثر ہو تا ہے۔ چند سطور قبل مختلف ریاستوں کے اخبارات سے جو مثالیں دی گئیں ان میں بہت سے الفاظ ایسے ہیں جن کی ترسیل میں دوسرے علاقے کے اردو بولنے والوں کو یقیناً کافی دقت ہو گی۔ یہاں تک کہ لغات کے سہارے بھی ان الفاظ کا سمجھنا ممکن نہیں ہو پائے گا۔ جب کہ دوسری صورت یہ ہوتی ہے کہ الفاظ تو اردو کے ہی ہوتے ہیں تاہم علاقائی بنیاد پر ان کے استعمال میں کچھ تبدیلی آ جاتی ہے۔ ظاہر ہے اردو لفظوں کے استعمال میں تھوڑی تبدیلی سے ترسیل مجروح نہیں ہوتی ہے لیکن ٹھیٹھ علاقائی الفاظ سے ترسیل کا مسئلہ پریشان کرنے لگ جاتا ہے۔ مثلاً ’پسی گرنا، میکڈم، سربراہ، ہراج، مخلوعہ‘، جیسے الفاظ کا سمجھنا، اس اردو طبقے کے لیے مشکل ہے جو کشمیر یا پھر حیدرآباد سے تعلق نہیں رکھتے۔ ایسی صورت میں زبان کے حسن کا معاملہ تو دور، ترسیلی نظام بھی متاثر ہوتا ہے۔ چنانچہ میرے نظریے سے ایسی علاقائی تبدیلی مستحسن نہیں ہے۔ اس سے زبان کا دائرہ وسیع نہیں بلکہ محدود ہو گا۔

یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ کسی زبان کے اخبار میں اس زبان کے تمام بولنے والوں کا حصہ ہوتا ہے۔ اگر اردو اخبار تمام اردو قارئین کے ساتھ ترسیلی رشتہ قائم نہ کر پائے تو سوال کھڑا ہو سکتا ہے۔ اس لیے ٹھیٹھ علاقائی الفاظ کے برخلاف اخبارات میں اردو کے متبادل الفاظ کا استعمال مستحسن ہو گا۔ کیوں کہ یکساں طور پر علاقائی افراد سمیت تمام اردو برادری کے ساتھ افہام و تفہیم ہو سکے گا۔ یہاں پریہ اقتباس دیکھیں :

’’اگر لکھنے یا کہنے والے کی بات پڑھنے یا سننے والے کی سمجھ میں نہ آئے  یا وہ پوری طرح نہ سمجھے یا غلط سمجھے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ زبان کے استعمال کا مقصد پورا نہیں ہوا۔ یا تو لکھنے یا کہنے والا صحیح اور مناسب الفاظ استعمال نہیں کر سکا یا پھر پڑھنے یا سننے والا ان الفاظ کو سمجھ نہیں سکا۔ ‘‘ (۶)

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خالص علاقائی رنگ ترسیل کے حق میں مضر ہے۔ کیوں کہ گہرے علاقائی الفاظ سے ترسیلی نظام متاثر ہوتا ہے۔ اسی طرح علاقائی الفاظ کا استعمال اسی وقت مناسب ہے جب اردو میں اس کا کوئی متبادل لفظ نہ ہو۔ تاہم اردو الفاظ پر علاقائی الفاظ کو ترجیح دینا بہتر نہیں ہو گا، بلکہ زبان کے ساتھ ناانصافی قرار پائے گی۔ کیونکہ اس طرح اصل اردو ا لفاظ غیر مانوس ہوتے چلے جائیں گے اور علاقائی الفاظ کی بادشاہت قائم ہو تی جائے گی۔ ویسے بھی ہر زبان میں نسبتاً ادب کے، صحافت میں الفاظ کم استعمال ہوتے ہیں۔ اب ظاہر ہے مستعمل کم الفاظ سے بھی نظریں چرائی جانے لگے تو زبان کا کیا حشر ہو گا۔ اردو صحافت میں مستعمل الفاظ پر ایک نظر ڈالنا ضروری ہے:

’’اردو میں کل چون 54 ہزار الفاظ ہیں۔ ان میں سے اردو الفاظ شماری کے لیے گیارہ ہزار الفاظ شماریات (STATISTICS)کے اصولوں کے مطابق چن لیے گئے ہیں۔۔۔ صحافت کی پچاس ہزار الفاظ پر مشتمل عبارت کی شماریاتی چھان بین سے یہ نتیجہ نکلاکہ ارد و اخبارات میں 4331 لفظ استعمال ہوتے ہیں۔ سب سے زیادہ تکرار FREQUENCY کے ساتھ استعمال ہونے والا لفظ ’’کا‘‘ (کے، کی)، اس کے بعد ’’ہونا‘‘ اور اس کے مشتقات کا نمبر آتا ہے۔ اس کا تکرار 3436 بار ہوا ہے۔ ‘‘(۷)

سید ضیا اللہ کے برخلاف سہیل وحید لکھتے ہیں ’’کہا جاتا ہے کہ صحافت کی لغت محض چار سو الفاظ پر مشتمل ہے‘‘ (۸)۔ گویا یہاں دونوں کے اقوال میں تضاد کی کیفیت پیدا ہو رہی ہے۔ اس لیے گہرائی سے سوچنا لازمی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ سہیل وحید نے خبروں کے مد نظر اتنے کم لفظوں کا حوالہ دیا ہو اور سید ضیاء اللہ نے اداریہ اور دیگر موضوعاتی مضامین کو سامنے رکھا ہو۔ اس لیے دونوں کے اعداد و شمار میں فرق نظر آ رہا ہے۔ اس فرق کے باوجود یہ حقیقت مسلم ہے کہ صحافت میں بہت کم الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔ اس لیے اردو الفاظ پر علاقائی الفاظ کو ترجیح دینا مناسب نہیں ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ علاقائی اثرات سے اردو الفاظ کس طرح متاثر ہوتے ہیں یا پھر اس اثر سے لسانی حسن کا معاملہ کیا ہوتا ہے؟ مثلاً: ’تشدد فروش، اگیارہ، آخر پر، ٹریفک جامنگ، ذمہ واری‘ کو سمجھنا تو مشکل نہیں ہے۔ البتہ اس کے کثرتِ استعمال سے زبان کے حسن پر حرف آئے گا۔ الغرض ٹھیٹھ مقامی الفاظ کے استعمال سے ترسیلی نظام بھی متاثر ہوتا ہے اور لسانی حسن بھی مجروح ہوتا ہے۔ جب کہ اردو الفاظ کی معمولی تبدیلی سے ترسیل میں پریشانی تو نہیں ہوتی، البتہ لسانی حسن متاثر ہوتا ہے۔

لب لباب یہ ہے کہ شعری اظہار اور صحافتی ترسیل کے مابین فرق ہے اور اسی فرق کو سامنے رکھتے ہوئے صحافتی زبان کی تشکیل دی جا سکتی ہے۔ صحافت کے ترسیلی نظام میں عامی، کم پڑھا لکھا اور تعلیم یافتہ طبقہ؛ سب برابر کے حصہ دار ہیں۔ اسی بنیاد پر بعض اوقات ادب کی زبان سے صحافتی زبان کی تشکیل قدرے مشکل امر نظر آتی ہے۔ اس کے علاوہ اردو کے متبادل الفاظ سے نظریں چرا کر ٹھیٹھ علاقائی الفاظ کا استعمال کرنا دائرہ زبان کو محدود کرنے جیسا ہو گا۔ پھر اس صورت میں ترسیل کا دائرہ بھی سکڑ جاتا ہے۔ مثلاً، ایک علاقے کا اردو اخبار دوسرے علاقے کے اردو داں کی سمجھ میں نہیں آتا ہے۔

بلاشبہ ٹھیٹھ اور غیر معروف علاقائی الفاظ سے ترسیلی نظام متاثر ہوتا ہے مگر اردو زبان کے الفاظ میں معمولی تبدیلی سے لسانی حسن تو متاثر ہوتا ہے، البتہ ترسیل میں کوئی پریشانی نہیں ہوتی ہے۔ جہاں تک لب و لہجے میں علاقائی اثر کا تعلق ہے تو اس سے ترسیل بھی متاثر ہوتی ہے اور لسانی حسن بھی مجروح ہوتا ہے۔ اس لیے علاقائی الفاظ کا استعمال اسی وقت مستحسن ہو سکتا ہے جب کسی نظامِ فرہنگ کے تحت انھیں اصل زبان میں شامل کر لیا جائے۔ ایک صوبے یا علاقے میں رائج الفاظ کو دوسرے علاقے میں پھیلا نے کی کوشش کی جائے۔ ملک بھر میں پھیلی اکادمیوں اور این جی اوز کو اس طرف توجہ دینی چاہیے۔

علاقائی الفاظ کا کثرتِ استعمال اس عہد میں مناسب ہو سکتا تھا جب ایک خطے کے افراد کو دوسرے خطے کے اخبارات سے کوئی سروکار نہ تھا۔ بہار سے نکلنے والے اخبارات کا حیدر آباد کے لوگوں سے کوئی گہرا ربط نہیں تھا یا پھر یوپی والوں کولکاتا کے اخبارات سے کوئی لینا دینا نہ تھا لیکن آج کی برق رفتار ترقی میں کسی نہ کسی سطح پر ایک کو دوسرے کی ضرورت ہے۔ دوریاں سمٹ گئیں ہیں تو صحافتی معاملات بڑھ گئے ہیں۔ ایک جگہ کے افراد دوسری جگہ کے اخبارات پڑھتے ہیں۔ اس لیے علاقائی زبانوں کے الفاظ کا کثرتِ استعمال اس وقت تک صحیح تھا جب ہم دور تھے مگر آج ہم گلوبل ایج میں جی رہے ہیں تو ایسے الفاظ کا استعمال جو دوسرے سمجھ نہ پائیں، بہتر نہیں ہے۔ آج ہر معاملہ علاقائیت سے آزاد ہو کر اپنا دائرہ وسیع کر رہا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ پھیلتے دائروں پر نظر رکھی جائے تاکہ ایک اخبار سے علاقائی افراد کے ساتھ ساتھ دور دراز کے افراد بھی مستفید ہوں سکے۔

 

حواشی :

(۱) سہیل وحید، صحافتی زبان، اعلی پریس دہلی 1996، ص 36۔

(۲) ایم جے وارثی، زبان و ترسیل :اردو پرنٹ اور برقی میڈیا کا لسانیاتی مطالعہ، این سی پی یو ایل نئی دہلی، 2015، ص 23-24۔

(۳) سید ضیاء اللہ، اردو صحافت :ترجمہ وادارت، کرنا ٹک اردو اکادمی بنگلور 1996، ص 23۔

(۴) شافع قدوائی، خبر نگاری، انٹر نیشنل پرنٹنگ پریس علی گڑھ، ۱۹۸۸، ص ۵۳۔

(۵) مشتاق صدف، اردو صحافت : زبان تکنیک، تناظر، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی 2013، ص 109۔

(۶) مسکین علی حجازی، صحافتی زبان، سنگ میل پبلی کیشنز چوک اردو بازار، لاہور 1984، ص 27۔

(۷) سید ضیاء اللہ، اردو صحافت :ترجمہ و ادارت، کرنا ٹک اردو اکادمی بنگلور 1996، ص 18۔

(۸) سہیل وحید، صحافتی زبان، اعلی پریس دہلی 1996، ص 39

اخبارات :منصف، حیدر آباد/ سالار، بنگلور /سیاست، حیدر آباد/کشمیر عظمی، کشمیر /اڑان، کشمیر/چٹان، کشمیر /اردو ٹائمز، ممبئی /قومی تنظیم، پٹنہ /سہارا، پٹنہ /سہارا، لکھنؤ /اودھ نامہ، لکھنؤ /سہارا، دہلی /انقلاب، پٹنہ /صحافت، دہلی اور لکھنؤ

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے