تین افسانچے ۔۔۔ جاوید نہال حشمی

 

غلاف

 

”سعدیہ، وقت نکال کر ذرا کھڑکی اور دروازوں کے پردے تبدیل کر دینا۔ آج شام نوشین کو دیکھنے لڑکے والے آ رہے ہیں۔“ بشریٰ بیگم نے اپنی بڑی بیٹی سے کہا۔

”پرانے پردے باتھ روم کی بالٹی میں رکھ دوں گی؟“

”نہیں، ابھی اتنے گندے نہیں ہوئے کہ دھونا پڑے۔ بس تہہ کر کے ٹیبل کے نیچے رکھ دینا۔ مہمانوں کے جاتے ہی انہیں پھر سے لگانا ہے۔“ انہوں نے کہا۔

”تو پھر بدلنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟“ سعدیہ نے سوال کیا۔

”فالتو بحث نہ کر۔ جتنا کہا جائے بس اتنا کر۔“ بشریٰ بیگم نے جھنجھلاتے ہوئے کہا اور کچن کی طرف بڑھ گئیں۔

”اور ہاں سن، نئے پردے لگانے کے بعد بستر پر بھی نئے بیڈ شیٹ بچھا دینا۔“ انہوں نے کچن سے پھر آواز دی۔

”استعمال شدہ بیڈ شیٹ بھی تہہ کر کے الگ رکھ دوں؟“ سعدیہ نے کچن کے دروازے پر آ کر پوچھا۔

”اسے ہٹانے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ بس اوپر سے نیا والا بچھا دے۔ اور تکیوں پر بھی پرانے دھاری دار غلاف کے اوپر نئے پھول دار غلاف چڑھا دینا۔ دو تین گھنٹوں میں گندے نہیں ہو جائیں گے۔ ان کے جاتے ہی اتار کر واپس الماری میں رکھ دئیے جائیں گے۔“

سعدیہ مڑنے ہی والی تھی کہ انہوں نے پھر کہا:

”اور ایک بات۔“ ان کی نظریں نوشین پر ٹکی تھیں جو برا سا منہ بنائے دیر سے خاموش بیٹھی سب کچھ دیکھ رہی تھی۔ چہرے پر سخت بیزاری اور آنکھوں میں شدید احتجاج کے آثار نمایاں تھے۔

”مہمانوں کے آنے کے بعد اسے تیار کرنا تمہاری ذمہ داری ہے۔ اس کی ایک نہ سننا۔ خوب اچھی طرح میک اپ کرنا۔ اور اسے سمجھا دینا کہ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی رونی صورت بنا کر ان کے سامنے نہ جائے…صرف ڈگری اور صلاحیت پر بات بنتی تو کب کا رشتہ پکا ہو چکا ہوتا۔“ آخری جملہ کہتے وقت ان کی آواز بڑبڑاہٹ میں تبدیل ہو گئی تھی۔

شام کو جب سعدیہ، نوشین کے چہرے پر پاؤڈر لگا رہی تھی، نوشین نے اپنی داہنی ہتھیلی کی پشت پر دیکھا۔

اسے جلد پر رنگ برنگی متوازی دھاریاں نظر آئیں۔

دروازے پر دستک ہوئی اور …

ایکشن …. کہیں سے اس کے کانوں میں آواز گونجی، اور اس نے یکلخت خود کو مسکرانے کے لئے تیار کر لیا!!

٭٭٭

 

 

 

 

بائی فوکل

 

سیٹی سینٹر دہشت گردی معاملہ میں چار مسلم نوجوان با عزت بری…

”شکر ہے اس ملک میں عدلیہ کا ابھی تک بھگوا کرن نہیں ہوا اور انصاف کا خون ہونے سے رہ گیا، ورنہ کیا حکومت، کیا بیوروکریسی اور کیا میڈیا، سبھی سالے مسلم دشمنی پر اُتر آئے ہیں۔“

سلطان گنج بم دھماکہ کے کلیدی ملزم اجئے رستوگی ناکافی ثبوتوں کی بنا پر با عزت بری…

”سالے سب ملے ہوئے ہیں۔ تفتیش ٹیم کے افسروں نے خود ہی ثبوت مٹا دیئے ہوں گے اور صرف کمزور شہادتوں کو عدالت میں پیش کیا ہو گا۔ اور پھر ججوں کو بھی تو اپنی جان پیاری ہوتی ہے۔“

٭٭٭

 

 

 

بے جوڑ

 

”آخر شبانہ میں کیا خرابی ہے؟ اتنی خوبصورت ہے…“

”کوالیفکیشن دیکھی؟ صرف میٹرک…میں ڈبل ایم اے …کوئی جوڑ بھی تو ہونا چاہئے۔“

”تو پھر حنا کو کیوں رجکٹ کیا؟ پوسٹ گریجویٹ ہے، ایم فل کر رہی ہے …“

”شکل دیکھی ہے؟ دوستوں کو دعوت پر گھر بلانے سے قبل کئی بار سوچنا پڑے گا۔“

”تم نے کوئی دیکھی ہے؟“

”ہاں، وجاہت مرزا کی بیٹی غزالہ…نہایت خوبصورت …سنا ہے سی اے کر رہی ہے۔ مجھے بہت پسند ہے۔ میرا پیغام لے کر وہاں جاؤ …“

”نہیں جا سکتا۔“

”مگر کیوں؟“

”کیوں کہ وہ آل ریڈی تمہیں رجکٹ کر چکی ہے!“

٭‎٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے