سکون ۔۔۔ توصیف بریلوی

مجھے اُس کمرے میں رہتے ہوئے زیادہ وقت نہیں گزرا تھا لیکن اتنی بات سمجھ میں آ گئی تھی کہ چین و سکون میسر نہیں آنے والا۔ محلے کے زیادہ تر گھروں میں تو ایسا لگتا ہی نہیں تھا کہ ان میں کوئی رہتا بھی ہو۔ جس بالائی منزل کے کمرے میں مَیں کرائے دار تھا اس کے داہنے ہاتھ کی گلی کی طرف کھلنے والی کھڑکی سے ٹھیک سامنے والے گھر میں انسان کم اور بلیاں زیادہ تھیں۔ بوڑھے انکل جب صبح صبح ان کو گوشت کے چھچھڑے ڈالتے تو ساری بلیاں اپنی اپنی پونچھ اوپر کی طرف کھڑی کر لیتیں اور اپنی مرغوب غذا پر ٹوٹ پڑتیں۔ یہ سب دیکھ دیکھ کر انکل کی چھوٹی بیٹی انعم جو نوجوان تو تھی ہی ساتھ ہی شوخ اور Cute بھی، محظوظ ہوتی تھی۔ انعم کی امّی کبھی کبھی اس کے پڑھائی میں دل نہ لگانے پر ناراض ہوتیں۔ باقی گھروں میں بھی کچھ ایسا ہی ماحول تھا یعنی بہت کم افراد دکھائی دیتے۔ یہاں تک کہ مکان مالکن کا کنبہ بھی جو کہ نیچے رہتا تھا۔ مکان مالکن آنٹی سے بھی کبھی کبھی ہی سلام و کلام ہو پاتا تھا۔ واقعی سب بہت سیدھے سادے اور مہذب تھے۔ سارے محلے کا دردِ سر تو بس ایک ہی گھر تھا انعم کے برابر والا گھر، جو میری کھڑکی سے ۴۵ ڈگری Clock-wise گھومنے پر دکھائی دیتا تھا۔ اس میں تین تنگ کمرے اور بیچ میں چھوٹا سا صحن تھا۔ ان تینوں کمروں میں تین بھائی اپنے اپنے کنبے کے ساتھ رہتے تھے۔ گھر میں ڈھیر سارے بچے بھی تھے۔ کون سے کس کے تھے اور کُل کتنے تھے یہ کبھی مجھے معلوم ہی نہیں ہو سکا اور شاید اس کی ضرورت بھی نہیں تھی۔ بچے کھیل کھیل میں اتنا شور مچاتے کہ قیلولہ کیا ہوتا ہے یہ تو میں بھول ہی گیا تھا۔ پورے محلے میں مارے مارے پھرتے تھے۔ اسکول بھی کبھی کبھی ہی جاتے دکھائی دیتے۔ بڑی بی یعنی ان تینوں بھائیوں میں سب سے بڑے والے کی بیوی اور باقی دو عورتوں کی جیٹھانی صحن میں ہی چولہے سے کھانا پکاتی جبکہ دونوں دیورانیاں LPG سے۔ بڑی بی جتنی کالی اور بد شکل تھی اتنی ہی موٹی بھی۔ میں اس کو دل ہی دل میں ’مُٹکی‘ کہتا تھا۔ اس کا شوہر بیچارہ سوکھ کر چھوہارا ہو چکا تھا۔ شوہر کے گھر آتے ہی بڑی بی کا اس سے لڑنا جھگڑنا لازمی تھا۔ اتنے عرصے میں کوئی ایسا دن نہیں گزرا تھا جس دن دونوں میاں بیوی میں لڑائی نہ ہوئی ہو۔ کبھی کبھی غصے کے مارے بڑی بی کا شوہر مغلظات بکتا ہوا تالا کارخانے کا رخ کرتا نظر آتا جہاں سے کچھ ہی دیر پہلے دن بھر کے بعد آیا ہوا ہوتا تھا۔

دُشنام طرازی کے معاملے میں اس عورت کی زبان اتنی رواں تھی کہ خدا گواہ ہے آج تک میں نے اتنی فصیح، جدید اور Technical گالیاں نہیں سنی تھیں۔ عام طور پر لوگ ماں اور بہن والی گالی کے علاوہ ایک خاص قسم کی گالی سے واقف ہوتے ہی ہیں لیکن اس عورت نے جدید کاری سے کام لے کر نئی نئی گالیاں از خود ایجاد کر رکھی تھیں جن کا ذکر کرنے کا دل تو بہت کر رہا ہے لیکن …خیر جانے دیجیئے۔ گھر میں کسی بچے سے بغیر گالی کے بات کرنا اس کی شرست میں داخل ہی نہیں تھا اور اس کے ہاتھ میں جو کچھ بھی آ جاتا مثلاً چمٹا، پھونکنی یا کچھ نہیں تو چپّل ہی فوراً مار دیتی تھی۔ اس عورت کو یہ توفیق کبھی نہیں ہوئی کہ اپنے بچوں کے سر پر پیار اور شفقت سے ہاتھ رکھتی۔ وہ تو اپنی بیٹی کو بھی گالیاں دینے سے دریغ نہیں کرتی تھی۔ اس کی چھتر چھایا میں دونوں دیورانیاں بھی کافی تربیت لے چکی تھیں لیکن بڑی بی تو آخر بڑی بی ہی تھی۔ ایک دو بار ایسا ہوا کہ دونوں دیورانیاں ایک طرف ہوتے ہوئے بھی بڑی بی نے دونوں کی بولتی بند کر دی تھی۔ اس لیے انھوں نے بڑی بی کے سامنے ہتھیار ڈال دئے تھے۔

رمضان کی آمد آمد تھی۔ جس روز چاند کا دیدار ہونے والا تھا اسی دن بڑی بی اور میری رہائش کی میں گلی کے تھوڑا آگے والے گھر میں رہنے والی آنٹی میں زبردست لڑائی ٹھن گئی۔ ہوا یوں کہ پڑوس والی آنٹی کے گھر کی بالائی منزل نئی نئی تعمیر ہوئی تھی جس کا زینہ باہر گلی سے تھا۔ بس پھر کیا تھا مُٹکی یعنی بڑی بی کے بچوں کو موقع مل گیا وہ اپنے سارے چچیرے بھائی بہنوں کو بھی ساتھ لے گئے اور چھت پر خوب کودا پھاندی شروع کی۔ آنٹی نے نیچے سے بارہا سمجھایا کہ بچوں ابھی چھت کی چہار دیواری نہیں ہوئی ہے گر جاؤ گے لیکن بچے کب ماننے والے تھے۔ آخر کار آنٹی کی بیٹی اوپر گئی اور بچوں کو ڈرانے کے لئے اینٹ کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا اٹھایا اور کہا جلدی بھاگو نہیں تو مار دوں گی۔ پتہ نہیں کیسے وہ ٹکڑا ایک بچے کے لگ گیا اور خون چھلک آیا وہ روتا ہوا سیدھے گھر گیا اور پھر کچھ ہی دیر میں …گالیوں کا وہ سیلاب آیا کہ اللہ کی پناہ۔ آنٹی اور ان کی بیٹی دروازہ بند کئے خاموشی سے اندر ہی دبکی رہیں اور مُٹکی یعنی بڑی بی گھنٹہ بھر سے زیادہ دیر تک گالیاں دیتی رہی۔ وہ اکیلی نہیں تھی، اس کی دونوں دیورانیاں بھی بخوبی اس کا ساتھ نبھا رہی تھیں۔ کسی طرح آنٹی نے ہمت جٹا کر بس اتنا کہا- ’’بھئی بچے بھی بہت ہیں‘‘ باہر سے بڑی بی نے کہا- ’’رنڈی …باہر نکل تب تجھے بتاؤں۔ بچے جادھا ہیں تو تیرے باپ کا کیا جاتا ہے۔ تجھ میں دم ہی نہیں تھی بچے پیدا کرنے کی تبھی تو ایک لڑکی لیے پڑی ہے۔ ہرامجادی کہیں کی…!‘‘ اندھیرا ہونے لگا تھا شاید مُٹکی کو کھانا بنانے کی فکر لاحق ہوئی ہو گی تبھی اپنی دیورانیوں اور بچوں سمیت واپس آ گئی۔ اگلے دن مردوں کے کام پر جانے کے بعد پھر آنٹی کے گھر پر دھاوا بولا گیا اور گالی گلوج کا بازار گرم ہوا۔ میں کسی کام سے باہر نکلا تو دیکھا تینوں دیورانی جیٹھانی ہاتھ پھینک پھینک کر جدید گالیوں کے نشتر چلا رہی تھیں۔ مزے کی بات یہ تھی کہ آج آنٹی بھی اپنے دروازے پر کھڑی لڑ رہی تھیں اور تھوڑے تھورے وقفے کے بعد ایک آدھ ذرا مہذب اور کلاسکل گالی مثلاً کتیا، حرامزادی یا کُٹنی وغیرہ دے دیتی تھیں۔ میں چپ چاپ اپنا سر نیچے ڈالے وہاں سے گزر گیا۔ تیسرے دن بھی جب وہی ڈرامہ پیش آیا تب میری مکان مالکن، ان کو بھی میں آنٹی ہی کہتا تھا، دو ڈنڈے لے کر گلی میں گئیں۔ ایک ڈنڈا بڑی بی کے پاس پھینکا اور دوسرا پڑوس والی آنٹی کے پاس اور کہا- ’’دونوں لوگ اس سے لڑئیے اور ہم پولیس کو فون کر کے ابھی بلاتے ہیں۔ آج دوسرا روزہ ہے لیکن آپ لوگوں کی لڑائی ختم ہونے میں نہیں آ رہی ہے۔ اللہ کا خوف ہی نہیں ہے۔ شرم آنی چاہئے آپ لوگوں کو۔‘‘ خیر…دونوں پارٹیوں میں پہلے پڑوس والی آنٹی کو شرم آئی اور وہ اندر چلی گئیں۔ اس کے بعد مُٹکی بھی بک بکا کر چلی گئی شاید اسے بھی تھوڑی سی شرم یا رمضان کا خیال آیا ہو گا۔ میں کھڑکی کے پاس بیٹھا تھا۔ اس دن پتا چلا کہ مُٹکی کی دیورانی کے لڑکے کو وہ اینٹ کا ٹکڑا لگا تھا۔ لڑائی میں مُٹکی شاید اس لیے پیش پیش رہی کیونکہ اس کام میں وہ ماہر تھی۔ تین دن کی لڑائی میں آخری دو دن مُٹکی ہی اپنی دیورانیوں کو اکسا اکسا کر لے جاتی رہی اور تینوں گھر سے ہی گالیاں دیتی ہوئی نکلتیں اور آنٹی کے گھر پر ہلّا بولتیں۔ محلے کے سارے گھر مُٹکی اور اس کے بچوں سے بیزار ہو چکے تھے۔

ایک رات جب مٹکی کا شوہر آیا تو وہ اس سے بہت پیار سے پیش آئی۔ میں کھڑکی کے پاس بیٹھا کچھ پڑھ رہا تھا۔ دونوں نے چولہے کے پاس ہی کھانا کھایا اور پھر کمرے میں چلے گئے۔ بچے شاید پہلے ہی کھا کر سو گئے تھے۔ تھوڑی دیر بعد تُو تُو میں میں کی آوازیں کمرے میں بلند ہوئیں اور بڑی بی باہر آ گئی۔ اس کا شوہر بھی پیچھے سے باہر آیا، پہلے تو اس نے ڈنڈا لے کر بڑی بی پر خوب ہاتھ صاف کیا اور اس کے بعد خود پر کیروسین ڈال کر ماچس ڈھونڈنے لگا۔ اتنا کرنا تھا کہ مُٹکی یعنی بڑی بی نے کہرام مچا دیا۔ وہ ایسا چیخی کہ پورا محلہ گھر میں جمع ہو گیا۔ اس کا شوہر اپنے بدن میں آگ لگا لینے پر مصر تھا۔ لوگوں نے اسے پکڑنا چاہا لیکن وہ تخت کے نیچے گھس گیا۔ پتہ نہیں اسے کیا ہو گیا تھا بڑی مشکل سے اسے انعم کے ابّو نے باہر نکالا اور وہ کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد رات میں ہی تالا کار خانے چلا گیا۔

۲۹واں روزہ تھا۔ عید کے چاند کا سبھی کو بے صبری سے انتظار تھا، بالخصوص بچوں کو۔ عصر سے ذرا پہلے کا وقت تھا کہ ایک ہٹّا کٹّا نوجوان بڑی بی کے آنگن میں چارپائی پر بیٹھا نظر آیا۔ سارے بچے اسے چاچا، چاچا کہہ کر خوش ہو رہے تھے۔ اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ یہ ان تین بھائیوں کا سب سے چھوٹا بھائی تھا۔ یہ بھی پتہ چلا کہ جناب دہلی میں کام کرتے ہیں۔ تینوں بھابیاں خاطر مدارات میں لگی ہوئی تھیں لیکن مُٹکی کچھ زیادہ ہی خدمت کر رہی تھی۔ آخر وہ بڑی بھابی جو تھی۔ بچے چار پائی کے چاروں طرف ہو ہلّا کر رہے تھے اور اپنے چاچا کو ٹِک ٹِکی باندھے دیکھ رہے تھے۔ ساتھ ہی امیدوار بھی تھے کہ چاچا ان کے لیے ضرور دہلی سے کچھ نہ کچھ لائے ہوں گے۔ خیر…تحائف تقسیم ہوئے۔ چاند کا دیدار ہوا اور بچے گلیوں میں شور مچانے لگے کل عید ہے …کل عید ہے …۔ عید والے دن بھی اس عورت کی گالیاں نہیں تھمیں۔ نہ تو اس نے عید کا خیال کیا اور نہ ہی دہلی سے آئے ہوئے اپنے دیور کا۔

سہ پہر کا وقت ختم ہوا چاہتا تھا۔ بچے گلیوں میں گلا پھاڑ پھاڑ کر کھیل رہے تھے۔ دونوں دیورانیاں کہیں گئی ہوئی تھیں۔ مُٹکی بھی دکھائی نہیں دے رہی تھی شاید اپنے کمرے میں تھی لیکن اس کا دیور…؟ وہ شاید کہیں باہر گیا ہو گا۔ میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ تبھی مُٹکی کے کمرے کا دروازہ کھلا اور اس کا دیور شرٹ پہنتا ہوا باہر آیا۔ دروازے کا جو حصّہ کھلا تھا اس میں سے میں نے دیکھا مُٹکی تخت سے اٹھی اور ایک تکیہ اس کے پیروں کے پاس گرا۔

جب بچے جی بھر کر کھیل چکے تو گھر پر آ گئے۔ مُٹکی نے خلاف معمول کسی کو کوئی گالی نہیں دی بلکہ بڑے پیار سے پیش آ رہی تھی۔ ممتا آج اس کی آنکھوں سے چھلکی پڑ رہی تھی۔ اتنی دور سے بھی اس کی آنکھوں میں ممتا کے ڈورے صاف دکھائی دے رہے تھے۔ دن رات گالیاں دینے والی وہ عورت بڑی ہشاش بشاش نظر آ رہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں چمک اور چہرے پر سکون تھا۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے