کنگ آئی چی ۔۔۔ لو شان/ عامر صدیقی

لسین میں واقع شراب کی دوکانیں، چین کے دیگر علاقوں جیسی نہیں ہوتی ہیں۔ ان سب میں مخصوص آہنی کاؤنٹر موجود ہیں، جن کا داخلی دروازہ گلی کی طرف ہوتا ہے، ان پر شراب گرم کرنے کیلئے گرم پانی رکھا جاتا ہے۔ دوپہر میں کام سے فراغت پا جانے کے بعد شام کو لوگ ایک پیالہ شراب خریدتے ہیں۔ بیس سال پہلے اس کے لئے تانبے کے چار سکے دینے پڑتے تھے، لیکن اب دس۔ کاؤنٹر کے برابر میں کھڑے ہو کر گرم شراب پی جاتی ہے اور پھر وہ آرام کرتے ہیں۔ ایک سکے میں بانس کی نرم کونپلوں سے بنے پکوان یا پھر سونف کے پانی میں بھگوئے اور تلے ہوئے مٹر یا پھر بارہ سکوں میں گوشت کا بنا کھانا شراب کے ساتھ لیا جا سکتا ہے۔ لیکن زیادہ تر گاہک چھوٹے کوٹ والے گروہ کے ہوتے ہیں، جن میں سے کچھ ہی اسے خرید پانے کی قدرت رکھتے ہیں۔ صرف لمبے چوغے والے ہی متعلقہ کمرے میں جا کر شراب اور پکوان منگوا کر آرام سے بیٹھ کر اس کا لطف لیتے ہیں۔

بارہ سال کی عمر میں، میں پروسپیرٹی ٹیورن میں، ٹاؤن کے داخلی مقام کے پاس ہی ویٹر کے روپ میں کام کرنے لگا۔ ٹیورن کے نگران نے بتایا کہ میں لمبے چوغے والے گاہکوں کو اشیاء خورد و نوش پیش کرتا ہوا خاصہ مضحکہ خیز دکھائی دیتا تھا، اسی لئے مجھے باہری کمرے کا کام سونپا گیا۔

حالانکہ چھوٹے کوٹ والے گاہک بہت آسانی سے خوش ہو جاتے تھے، لیکن ان میں بھی کچھ مشکلیں کھڑی کر دینے والے ہوتے تھے۔ بوتل سے گلاس میں ڈالتے وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ کر یہ اطمینان کر لینا چاہتے ہیں کہ گلاس کی تلی میں کہیں پہلے سے تو پانی نہیں بھر کے رکھا ہوا ہے۔

یہی بات شراب سے بھرے گلاس کو گرم پانی میں رکھتے وقت بھی ہوتی تھی۔ ایسی کڑی جانچ کی کیفیت میں شراب میں پانی ملانا بہت ہی دشوار عمل تھا۔ اسی لئے چند دنوں کے بعد میرے مالک نے طے کیا کہ میں اس کام کیلئے نا مناسب ہوں۔ خوش نصیبی سے اس نوکری کیلئے کسی بڑے آدمی نے میری سفارش کی تھی، لہذا مجھے نکالا تو نہیں گیا، تاہم شراب گرم کرنے کے اس بے حد پھیکے سیٹھے کام میں لگا دیا گیا۔

اس کے بعد سے میں دن بھر کاؤنٹر کے پیچھے کھڑے رہ کر اپنی ڈیوٹی بجا لاتا تھا۔ حالانکہ میں پوری دل جمعی سے یہ کام کرتا رہا، لیکن اسے میں نے ایک بے حد بیزار کن اور بے مصرف کام پایا۔ میرا مالک کھڑوس تو تھاہی، ساتھ اس کے گاہک بھی پژمردہ طبع ہوتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ میں کبھی ہنس نہیں سکا۔ بس جب کنگ آئی چی، ٹیورن آتا تب میں تھوڑا ہنس بول لیتا تھا۔ یہی ایک سبب تھا کہ وہ آج بھی میرے حافظے میں ہے۔

لمبے چوغے والے گاہکوں میں کنگ ہی اکلوتا ایسا تھا، جو شراب کھڑے کھڑے پیتا تھا۔ وہ جسیم تھا، چہرے پر زخم کا نشان، جو اس کی جھریوں کے بیچ چھپ جاتا تھا۔ لمبی سفید داڑھی بھی اس کے چہرے پر موجود تھی۔ اگرچہ وہ لمبا چوغہ پہنتا تھا، مگر وہ بے حد گندا اور بوسیدہ تھا، یوں لگتا تھا جیسے اسے دس سالوں سے دھویا ہی نہیں گیا ہے۔ اپنی باتوں میں وہ ڈھیر سارے کنفیوشس کے ایسے اقوال بولتا، جسے سمجھ پانا لگ بھگ نا ممکن ہو جاتا تھا۔ چونکہ اس کا خاندانی نام کنگ تھا، اسی لئے اسے کنگ آئی چی کا نام دیا گیا تھا۔ یعنی بچوں کی کاپی میں موجود ابتدائی تین حروف۔

جب بھی وہ دکان میں آتا، سب اس کی طرف دیکھ کر کڑھتے تھے۔ کچھ اس سے پوچھ بھی لیتے۔

’’کنگ آئی چی، تمھارے چہرے پر چوٹ کے کچھ نئے نشان دکھائی دے رہے ہیں، کیا بات ہے!‘‘

ان سب باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے، وہ کاؤنٹر پر آتا، دو گرم شراب کے پیالے اور سونف کے پانی میں بھنے ہوئے مٹر لانے کا حکم دیتا۔ اس کے لئے وہ تانبے کے نو سکوں کی ادائیگی کرتا۔ پیچھے سے بلند آواز میں کوئی اور بھی بول اٹھتا۔

’’تم پھر چوری کر رہے ہو گے۔‘‘

’’کیوں بیکار میں بھلے آدمی کو بدنام کرتے ہو۔‘‘ اپنی آنکھیں چوڑی کرتے ہوئے وہ بول اٹھتا۔

’’ہوں۔۔ بھلا آدمی! ابھی پرسوں ہی تو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ ’’ہو خاندان‘‘ کی کتاب چرانے کی وجہ سے تمھیں الٹا لٹکا کر پیٹا جا رہا تھا!‘‘

کنگ اپنی بھنویں چڑھاتے ہوئے کہتا ہے، ’’کتاب لے لینا چوری نہیں کہی جا سکتی،۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کتاب لینا، پڑھے لکھے لوگوں کی باتیں ہیں، یہ چوری ہو ہی نہیں سکتی!‘‘ اس کے ساتھ ہی کسی فلسفی کا قول جوڑتا ہے، ’’غریبی میں بھی ایک ایماندار انسان اپنی عزت کی حفاظت کرتا ہے۔‘‘ ان الفاظ کی ادائیگی کے ساتھ ہی عجیب طرح سے منہ بناتا، جسے دیکھ قہقہوں کی پھلجڑی پھوٹ پڑتی۔ پورا ٹیورن ٹاؤن شاداں ہو اٹھتا۔

انہیں سنگتوں کے دوران ہی میں نے سنا تھاک کنگ آئی چی نے مطالعہ تو خوب کیا تھا، لیکن رسمی طور پر کوئی بھی امتحان پاس نہیں کیا۔

معاش کا کا کوئی مناسب ذریعہ نہ ہونے کے سبب وہ غریب سے غریب تر ہوتا گیا اورپھر ایسا بھی وقت آیا، جب اسے بھیک مانگنی پڑی۔ اس کی خطاطی بہت ہی شاندار تھی، جس کی وجہ سے لکھنے کا ڈھیر سارا کام اسے مل سکتا تھا اور وہ اپنی زندگی بڑے ہی آرام سے گذار سکتا تھا، لیکن شراب اور کاہلی یہ اس کی کچھ بہت بڑی کمزوریاں تھیں، جو اسے کچھ کرنے کے لائق نہیں چھوڑتی تھیں۔ تھوڑے تھوڑے دنوں کے بعد وہ ہاتھ میں کچھ کتابیں، پینٹ، برش لے کر کہیں چلا جاتا تھا۔ ایسا اکثر و بیشتر ہوتا تھا۔ اس کی اس عادت کے سبب کوئی بھی اسے کام نہیں دینا چاہتا تھا۔ آمدنی کا کوئی مخصوص ذریعہ نہ ہونے کے سبب وہ چھوٹی موٹی ہیرا پھیری بھی کر لیا کرتا تھا، پر ہمارے ٹیورن ٹاؤن میں اس کا رویہ بے حد لا ئقِ ستائش تھا۔ ہمارے یہاں رکھے بورڈ پر ادھار لینے والے لوگوں کی فہرست میں اس کا نام سب سے اوپر درج رہتا تھا۔ لیکن کچھ دنوں کے بعد ادھار چکا دیتا تھا اور اس کا نام اس بورڈ سے مٹا دیا جاتا تھا۔

تھوڑی سی شراب کے گھونٹ مارنے کے ساتھ ہی باؤلا ہو اٹھتا۔ اسی بیچ پیچھے سے کوئی اس سے پوچھ پڑتا، ’’کنگ آئی چی تمہیں پڑھنا آتا بھی ہے؟‘‘

کنگ ان کی طرف حقارت بھری نظر سے دیکھتا، تبھی پھر کوئی دوسرا، سوال داغ دیتا، ’’جب پڑھنا جانتے ہو تو اب تک کوئی امتحان پاس کیوں نہیں کر پائے؟‘‘

اس سوال سے وہ مغموم ہو اٹھتا۔ اس کا چہرہ زرد پڑ جاتا، ہونٹ جیسے سل جاتے تھے۔ عجیب سا منہ بنا لیتا، جسے دیکھ قہقہے پھوٹ پڑتے۔ اور پورا ٹیورن بشاش ہو جاتا۔

ان قہقہوں میں شامل ہو کر میں بھی ہنس لیا کرتا تھا۔ ایسے میں مالک کے ڈانٹنے کا بھی ڈر نہیں ہوتا تھا۔ کبھی کبھی تو ہنسنے کیلئے مالک خود ہی کنگ کو چھیڑ دیا کرتا تھا۔ ان سے بات کرنے کا اسے کوئی فائدہ تو تھا نہیں۔ اس لئے ہم بچّوں سے باتیں کرتا تھا۔ ایک بار اس نے مجھ سے پوچھا، ’’کبھی اسکول گئے ہو؟‘‘

جب میں نے اثبات میں سر ہلایا تو اس نے مجھ سے کہا، ’’چلو تمھارا ٹیسٹ لیتے ہیں۔ بتاؤ کریکٹر ’ہوئی‘ ، لفظ’ ہوئی جیانگ‘ (کھاتہ لکھنے کا فن) میں کیسے لکھو گے؟‘‘

مجھے لگا کہ ایک بھکاری میرا ٹیسٹ کیسے لے سکتا ہے اور میں اس کی جانب سے دھیان ہٹا کر لا تعلق ساہو گیا۔ کچھ دیر انتظار کے بعد اس نے مجھ سے کہا،‘‘ تم لکھ نہیں سکتے نا! لیکن تمھیں لکھنا سیکھنا پڑے گا، کیونکہ جب کل تمھاری اپنی دوکان ہو گی تو حساب کتاب کیسے رکھو گے۔ چلو میں تمھیں لکھنا سکھاؤں گا۔‘‘

میرے لئے تو دوکان کی بات تو جیسے ایک ادھورا سپنا تھی اور پھر میرا مالک’ ہوئی جیانگ پی‘ انداز کو پسند بھی نہیں کرتا تھا۔ ایسے میں بھلا کیسے کچھ سیکھ سکتا ہوں۔ میں شائق اور بر افروختہ دونوں ہی تھا۔

اس سے میں نے کہا، ‘‘ تمھیں اپنا استاد بھلا کون بنانا چاہے گا؟ تمھارے بارے میں لوگ نجانے کیا کیا باتیں کرتے ہیں اور ’ہوئی‘ سیکھنا بھی تو کافی کٹھن کام ہے۔‘‘

کنگ سن کر محظوظ ہوا تھا۔ ٹیبل پر اپنی انگلیوں کو نچاتے اور سر ہلاتے ہوئے بولا، ’’ایک دم مناسب بات ہے! ‘‘ تمھیں پتا ہے ’ہوئی‘ لکھنے کے فقط چار طریقے ہیں۔‘‘

’’میرا تحمل جواب دے رہا تھا۔ میں نے تیوری چڑھائی اور وہاں سے ہٹ گیا۔ کنگ آئی چی نے اپنی انگلی شراب میں ڈبوئی اور کاؤنٹر کی جانب دیکھا، جیسے کسی اور کو تلاش کر رہا ہو۔ میری جانب سے کوئی مناسب جواب نہیں ملتا دیکھ کر، اس نے ایک گہری سانس بھری اور دل شکستہ ہو گیا۔

ہنسی کی آواز سن کر، کبھی کبھار پڑوس کے بچے آ جاتے تھے اور کنگ کے چاروں جانب گھیرا بنا کر کھڑے ہو جاتے۔ وہ بھی ہر بچّے کو سونف کے پانی میں بنے مٹر دیتا۔ یہ مٹر کھانے کے بعد بھی بچے باقی بچے کھانے کی طرف دیکھتے رہتے تھے۔ انھیں ایسا کرتے دیکھ کر وہ پلیٹ کو ہاتھوں سے ڈھک لیتا اور اس پر آدھا جھکتے ہوئے کہتا، ’’اس میں بہت کم ہے اور میں نے ابھی کھایا بھی نہیں ہے۔ چلو بھاگو، اب نہیں دوں گا۔‘‘ ایسا کہتے ہوئے وہ سیدھا کھڑا ہو جاتا اور پھر بچوں کو بھگانے لگتا۔ بچے بھی شور مچاتے ہوئے بھاگ کھڑے ہوتے۔

کنگ آئی چی کے ساتھ وقت گذارنا سبھی کو بہت اچھا لگتا تھا۔ کبھی کبھی اس کے بغیر بھی کام چلانا پڑتا تھا۔ ایک دن ’مِڈآٹم فیسٹیول‘ سے پہلے ٹیورن کا نگران حساب کتاب ملا رہا تھا۔ اس لئے دیوار پر لگے بورڈ کو اتارا جا رہا تھا۔ اچانک اس نے کہا، ’’کنگ آئی چی، کافی دنوں سے آیا نہیں۔ اس پر ابھی تک انیس تانبے کے سکے ادھار ہیں!‘‘ اس کی ان باتوں سے لگا کہ کنگ کو دیکھے کافی عرصہ بیت چکا ہے۔

’’وہ آ بھی کیسے سکتا ہے۔‘‘ ایک گاہک نے جواب دیا، ’’پچھلی بار کی پٹائی میں اس کی ٹانگیں ٹوٹ گئی تھیں۔‘‘

’’اوہ۔۔‘‘

’’پھر چوری کر رہا تھا۔ اس بار رئیسِ صوبہ مسٹر ٹنگ کے گھر چوری کی۔ اب ان کے یہاں سے کون بچ سکتا ہے۔‘‘

’’پھر کیا ہوا۔‘‘

’’ہونا کیا تھا، پہلے تو ان لوگوں نے اس سے معافی نامہ لکھوایا، اس کے بعد پوری رات اس کی بھرپور پٹائی ہوئی۔ تب تک اس کو پیٹا گیا، جب تک اس کی ٹانگیں ٹوٹ نہیں گئیں۔‘‘

’’اور پھر؟‘‘

’’پھر کیا؟ اس کی ٹانگیں ٹوٹ گئیں۔‘‘

’’ہاں پر اس کے بعد کیا ہوا؟‘‘

’’اس کے بعد؟۔۔۔۔۔۔ کیا پتا مر گیا ہو!‘‘

اس کے بعد ٹیورن کے نگران نے مزید کچھ نہیں پوچھا۔ بس اپنے کام میں مشغول ہو گیا۔

’مِڈآٹم فیسٹیول‘ کے بعد دن بدن ہواؤں میں ٹھنڈک بڑھنے لگی۔ سردی بھی آ گئی۔ حالانکہ میں سارا دن انگیٹھی کے پاس ہی رہتا تھا، پھر بھی سردی سے بچنے کیلئے مجھے گرم کوٹ پہننا پڑتا تھا۔ ایک دن دوپہر کے وقت دوکان خالی تھی، میں آنکھیں موندے بیٹھا ہوا تھا، تبھی ایک آواز آئی، ’’ایک پیالہ شراب گرم کرو۔‘‘

آواز بہت دھیمی تھی، پر شناسا سی تھی۔ میں نے دیکھنے کی کوشش کی تو کوئی دکھائی نہیں دیا۔ میں کھڑے ہو کر دروازے کی طرف دیکھنے لگا، سامنے کاؤنٹر کے نیچے کنگ آئی چی بیٹھا ہوا نظر آیا۔ وہ بہت لاغر، کمزور اور شکستہ حال لگ رہا تھا۔ وہ گوڈر سے بنی صدری پہنے ہوئے تھا، ایک چٹائی پر آلتی پالتی مار کر بیٹھا ہوا تھا، چٹائی کا ایک سرا، ایک رسّی کے ساتھ اس کے کندھے پر بندھا ہوا تھا۔ مجھے دیکھ کر اس نے پھر سے دوہرایا، ’’ایک پیالہ شراب گرم کرو۔‘‘

میرا مالک کاؤنٹر سے نیچے جھانکتے ہوئے بولا، ’’کیا یہ کنگ آئی چی ہے؟ انیس سکے اب بھی تمہارے اوپر ادھار ہیں۔‘‘

’’ہاں۔۔۔۔۔ پتا ہے۔ اگلی بار اسے چکا دوں گا۔‘‘ کنگ نے عاجزانہ انداز میں کہا۔ ’’آج نقد پیسے لایا ہوں، شراب اچھی ہونی چاہئے۔‘‘

ماضی کی طرح ہی ٹیورن کا نگران اس سے پوچھ بیٹھا، ’’کنگ آئی چی، تم نے پھر سے چوری کی!‘‘

لیکن اس بات کی پر زور مزاحمت کرنے کے بجائے اس نے سادہ لوحی سے جواب دیا، ’’اس طرح کے مذاق تم پسند کرتے ہو۔‘‘

‘‘ مذاق؟ اگر تم نے چوری نہیں کیا تو انہوں نے تمہاری ٹانگ کیوں توڑی؟‘‘

’’میں گر گیا تھا۔‘‘ بجھے لہجے میں کنگ نے کہا۔ ’’میں گر گیا تھا، جس کے نتیجے میں میری ٹانگ ٹوٹ گئی۔‘‘ اس کی آنکھیں ٹیورن کے نگران سے گذارش کر رہیں تھیں کہ معاملے کو یہیں ختم کرے۔

اب تک ڈھیر سارے لوگ اکٹھّا ہو گئے تھے اور وہ ہنس رہے تھے۔ میں نے شراب گرم کی اور اسے لے جا کر اس کے پاس رکھ دی۔ اس نے اپنے پھٹے کوٹ کی جیب سے چار سکے نکال کر میرے ہاتھ پر رکھ دیئے۔ میں نے دیکھا کہ اس کے ہاتھ کیچڑ سے سنے ہوئے تھے۔ شاید یہاں تک وہ ہاتھوں کے بل گھسٹتا ہوا آیا تھا۔ اس نے اپنا پیالہ ختم کیا اور لوگوں کے قہقہے اور ہنسی کے درمیان دھیرے دھیرے ہاتھوں کے بل گھسٹتا ہوا چلا گیا۔

اس واقعے کو گذرے کافی وقت بیت گیا، لیکن کنگ دوبارہ دکھائی نہیں دیا۔ سال کے اختتام پر بورڈ نیچے اتارتے ہوئے نگران نے کہا، ’’کنگ آئی چی پر ابھی بھی انیس تانبے کے سکے ادھار ہیں!‘‘ اگلے سال ’’ڈریگن بوٹ فیسٹول‘‘ کے وقت بھی اس نے یہی بات دوہرائی،

لیکن جب ’’مِڈ آٹم فیسٹیول‘‘ آیا، تب اس نے کچھ بھی نہیں کہا۔ اسی طرح اگلا نیا سال بھی آ گیا پر اسے میں نے کبھی نہیں دیکھا۔ ہو سکتا ہے کہ وہ اب اس دنیا میں نہ ہو، اسی لئے اب تک کبھی بھی نہیں دکھا۔

***

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے