نا خدا۔۔۔۔ محمد شاہد محمود گادھری

وہ مجھ سے اکثر کہا کرتی تھی کہ میں خدا ہوں اور پھر خدا کو خدا ثابت کرنے کے لئے ایک طویل سا سانس کھینچ کر تقریر کے انداز میں شروع ہو جاتی۔۔۔۔

’’دیکھو تمہارے مطابق خدا نے انسان کو اپنا نائب بنانا پسند کیا، مطلب انسان میں ہر وہ خوبی ہے جو خدا میں ہوتی ہے، جیسے تخلیق کرنا، خدا کا کام ہے اور انسان بھی تخلیقات۔۔۔ ‘‘

وہ مسلسل گھنٹوں گھنٹوں بولتی رہتی اور میں توبہ توبہ کرتے ہوئے سنتا رہتا، میں نے اسے کبھی نہیں دیکھ سکا تھا، البتہ اس نے مجھے دیکھا ہوا تھا۔۔ ہماری حادثاتی ملاقات انٹرنیٹ پر ہوئی تھی۔۔

’’مگر تم تو خدا کو مانتی ہی نہیں۔ ‘‘ میں نے ایک دن حوصلہ کر کے، اس کی بات کاٹ کر اعتراض کیا۔۔

وہ خفا ہو کر بولی۔۔ ’’میں کسی بھی مذہب کو نہیں مانتی، مگر خدا کو مانتی ہوں یار، میں چاہتی ہوں کہ تم بھی میرے ساتھ ساتھ کششِ ثقل چھوڑ کر مکمل خدا بن جاؤ۔ ‘‘

’’مطلب تم زمین کی کشش چھوڑ چکی ہو؟‘‘ میں نے حیرانی سے پوچھا۔۔

’’نہیں بھئی، تمہاری بے یقینی اس کی راہ میں جو حائل ہے۔ ‘‘ اس نے جواب دیا۔۔

پہلے پہل تو وہ بنا شادی کئے ہی بچہ پیدا کرنا چاہتی تھی، مگر میرے دو ٹوک انکار پر اب مجھ سے شادی کرنا چاہتی تھی، اس کا کہنا تھا کہ فرض کرو، دنیا سے کاغذ ہی ختم ہو گیا ہے اور ہم شادی کر رہے ہیں۔۔ دنیا کو اس سے کیا، بس خدا کو علم ہے، یہی کافی ہے۔۔

اس کی بک بک سننا میری مجبوری تھی۔۔ میں بے روزگار تھا اور وہ اپنی طرف سے بحیثیتِ خدا مجھے رزق عطا کیا کرتی تھی، جو ہر ماہ کبھی بینک اکاؤنٹ میں رقم کی صورت، تو کبھی چیک کی صورت، میں وصول کیا کرتا تھا اور اس کی بھیجی ہوئی رقم سے، اس ہی کے شہر میں رہنے والی ایک شادی شدہ عورت کے ناز نخرے اٹھانے میں خرچ کیا کرتا تھا، میرے اخراجات اس عورت کی وجہ سے بہت زیادہ بڑھ چکے تھے۔۔ میں اس زمینی خدا سے مزید کی التجاء کر کے مانگتا رہا اور وہ دیتی رہی۔۔

آج اس کا فون آیا اور وہ بولی کہ پیسے بھجوا دیئے ہیں، کل آم کی پیٹی لے آنا۔۔ آم کا موسم ہے، تم تو روزے رکھنے پر بھی یقین رکھتے ہو نا اور روزے رکھ بھی رہے ہو، سنو افطاری میں آم کا ملک شیک بنا کر ہر روز پینا۔۔ میں مہینے بھر کے دودھ کے پیسے کل بھجوا دوں گی۔۔۔

مجھے صرف پیسوں سے غرض تھی۔۔ روزے کون کمبخت رکھ رہا تھا، میں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور طبیعت خراب ہونے کا بہانہ کر کے جان چھڑانے کی کوشش کی، مگر وہ اچانک ضد کرنے لگی کہ تم لیٹ جاؤ، میں یہاں سے تم کو‘‘ ہِیلنگ‘‘ کروں گی تو تمہاری طبیعت ٹھیک ہو جائے گی اور مجھے ارد گرد کی مثبت اور منفی لہروں کی بارے میں تفصیل سے بتانے لگی، میں اس کی بات مانتے ہوئے کال بند کر کے لیٹ گیا، شاید میں اسے کچھ کچھ خدا مان چکا تھا۔۔

لیٹنے کے تھوڑی دیر بعد ہی مجھے اپنے پیروں پر ہلکی سی تپش کا احساس ہوا، شاید وہ مجھ تک مثبت حرارت پہنچا رہی تھی۔۔ مجھے سکون محسوس ہو رہا تھا۔۔ میری آنکھیں بند تھیں۔۔ مجھے لگا کہ مجھے آنکھیں کھولنے کو کہا جا رہا ہے۔۔ یہ کون کہہ رہا تھا، میں یہ سمجھنے سے قاصر تھا، میں نے آنکھیں کھول دیں اور کمرے میں نظریں دوڑائیں، میں سنہری اور سیاہ لہروں کا اک جال سا پھیلا ہوا صاف دیکھ سکتا تھا، میں اٹھ کھڑا ہوا اور صحن میں آ گیا۔۔ سنہری اور سیاہ لہریں چار سو پھیلی ہوئی تھیں، میں نے سنہری لہروں پر قدم رکھنے کا فیصلہ کیا اور آگے بڑھتا چلا گیا۔۔

زمین کافی پیچھے اور نیچے رہ گئی تھی۔۔

٭٭٭

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے