سید اشرف کی انفرادیت ۔۔۔ حُسین الحق

 

عمر کے جس حصے میں پہنچ چکا ہوں وہاں خزاں کی ڈراؤنی چاپ سنائی دینے لگتی ہے، ایسے میں اگر ’’باغ کا دروازہ‘‘ نظر آ جائے تو خوش ہونا فطری ہے اور اگر باغ کے دروازے پر بادِ صبا کا انتظار کرتا کوئی پری پیکر بھی نظر آ جائے تو پھر تو دوبارہ جینے کی خواہش کے بیجوں کا پھوٹنا اور انکُر بننا ایک فطری عمل ہے۔۔

فی الوقت میرے ساتھ بھی کچھ ایسی ہی صورتِ حال درپیش ہے کہ میرے چاروں طرف خزاں کی رُت کا ہمہمہ ہے اور میں ایسے اجاڑ، چپ، ٹنڈ منڈ پل میں بھی خود کو باغ کے دروازے پر بادِ صبا کے انتظار میں گھرا محسوس کر رہا ہوں۔۔

اسی تخلیقی جھٹپٹے میں ایک شخص نظر آتا ہوا محسوس ہو رہا ہے۔۔ یہ شخص ہے سید محمد اشرف ساکن و وارثِ خانقاہ برکاتیہ مارہرہ شریف حال واردِ سعید حضرت علی گڑھ۔۔ اس شخص متمنی سید محمد اشرف کا اقبالی بیان یہ ہے کہ وہ بادِ صبا کے انتظار میں ہے۔

فی زمانہ بادِ صبا کا انتظار تلاش عنقا کے مماثل ہے اور زمینی حقیقت ground reality سے روگردانی کا عمل۔۔ سید محمد اشرف کی یہ خوابیدگی ہی ان کے اس فنی اپروچ کی قطب نما ہے جو کسی بھی فن کار کی پہچان کا بنیادی نقطہ قرار دیا جا سکتا ہے۔۔

اشرف پر لکھنا کچھ دشوار امر ہے۔۔

ابتدا ہی سے اشرف کے افسانوں کے سلسلے میں ناقدین اپنی پسندیدگیاں ظاہر کرتے رہے ہیں۔۔ میں سمجھتا ہوں قارئین کا حافظہ بہت کم زور نہیں ہوتا۔۔ انہیں یاد ہو گا کہ ’’ڈارسے بچھڑے‘‘ کے منظر عام پر آنے کے بعد ہی سے اشرف کی طرف سنجیدہ حضرات کی توجہ مرکوز ہو گئی تھی۔۔ در اصل اشرف جب اپنے افسانوں کے ساتھ میدان میں اترے تو وہ وقت شفاف بیانیہ (Transparent description) کے لئے ذرا آزمائش کا وقت تھا، علامتی بیانیہ کا جادو اس وقت تک سر چڑھ کر بول رہا تھا۔۔ پیر کی دھول نہیں ہوا تھا، اُترن نہیں بنا تھا اور اشرف سے ذرا پہلے والے ’’چور چوری سے جائے ہیرا پھیری سے نہ جائے‘‘ کے مصداق اس وقت تک علامتی بیانیہ کے ’’مطلقہ‘‘ ہونے کا اعلان نہیں کر سکے تھے۔۔ اور یہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ اس وقت علامتی بیانیہ اور شفاف بیانیہ دو نظریاتی یا رجحانی اساس رکھنے والے اداروں سے جڑا ہوا تھا۔۔ لہٰذا جب اشرف ’’ ڈار سے بچھڑے‘‘ میں ایسے افسانوں کے ساتھ سامنے آئے جو بالعموم شفاف بیانیہ کے حامل تھے تو سمجھا گیا کہ سید محمد اشرف اور اشرف کے ساتھ طارق چھتاری اور پیغام آفاقی وغیرہ کی شکل میں ادب کی نظریاتی اساس والے محاذ کو تازہ دم اور جواں سال رضا کار میسر ہو گئے ہیں۔۔ اور اسی لئے ایک حلقے کی طرف سے ان حضرات کی کافی پذیرائی ہوئی جب کہ نسبتاً دوسرا حلقہ ایک خاموش تماشائی کی حیثیت سے ان کی فعالیت کا غیر جانب دارانہ طور پر مشاہدہ کرتا رہا۔۔

اس غیر جانب دارانہ مشاہدے کے نتائج کیا برآمد ہوئے اس کے بارے میں آگے عرض کیا جائے گا۔۔ فی الوقت صرف یہ عرض کرنا ہے کہ مجاز کی طرح سید محمد اشرف کو بھی اغوا کرنے کے سارے حربے اپنائے گئے۔۔ علیگیت سے ترقی پسندیت تک!

مگر اشرف، طارق اور پیغام تینوں خاصے زیرک اور ہوش مند فن کار ہیں۔۔ تینوں نے محبت، مروت اور مدحت کے تینوں جال کاٹ ڈالے کہ شاہیں بناتا نہیں آشیانہ۔۔ پیغام کا ناول مکان، اشرف کا نمبردار کا نیلا اور بادِ صبا کا انتظار اور طارق کے بیشتر افسانے ناقدین و منتظمین کا جال کتر کر صحیح سلامت باہر نکل آنے کا اشاریہ ہیں۔۔

اس وقت میرے موضوع گفتگو اشرف ہیں اور اشرف کے بارے میں میرا خیال ہے کہ ان پر لکھنا ایک دشوار امر ہے کیونکہ بقول ناقدین ان کی قصہ گوئی کی صلاحیت تسلیم کی جا چکی، زبان پر مہارت ہونے کا اعلان کیا جا چکا، اُردو کی تہذیبی روایت ان کی رگ و پے میں رچی بسی تسلیم کی جا چکی، تہذیب اور ورثے کا گہرا شعور ان کے یہاں محسوس کر لیا گیا اور جذبے کی سطح پر اس شعور کو اشرف کے تخلیق وجود سے جڑا ہوا بھی دیکھ لیا گیا۔۔ ان کے یہاں لفظوں کا ایک جان دار اور بڑا ذخیرہ بیان کی ایک فطری مہارت، انسانی رویوں اور تجربوں کے علامتی تبدل کا سلیقہ اور تمثیل سازی کی خلاقانہ صلاحیت بھی دریافت کر لی گئی بلکہ شمس الرحمن فاروقی صاحب نے تو ان کے ناول ’’ نمبردار کا نیلا‘‘ کے بارے میں گویا تقابلی مطالعہ کرتے ہوئے یہ اطلاع بھی دی کہ: ’’بے شک اتنا عمدہ فکشن اُردو تو کیا انگریزی میں بھی میں نے بہت دن سے نہیں دیکھا۔‘‘ نیر مسعود نے یہ سند عطا کی کہ اشرف سے اُردو دنیا کو جو توقعات تھیں ان پر اشرف پورے اترے اور عینی صاحبہ نے یہ پیش گوئی کر دی کہ جب بھی نئی دنیا کی پنج تنتر لکھی گئی، اشرف کی چند کہانیاں اس میں ضرور جگہ پائیں گی۔۔ اب اس کے بعد کہنے کو کیا باقی رہ جاتا ہے؟

اسی لئے میں نے عرض کیا کہ اشرف پر لکھنا بہت دشوار امر ہے۔۔

مگر گفتگو کا یہ ایک پہلو ہے۔۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ اشرف پر لکھنا بہت آسان ہے کیونکہ جید ناقدوں نے ان کے مطالعۂ فن کے گوشے اور پہلو پہلے ہی سے تلاش یا طے کر لئے ہیں۔۔ مثلاً:

1- اشرف کی صلاحیت قصہ گوئی

2- اشرف کی زبان پر مہارت

3- اشرف کے افسانوں میں اُردو کی تہذیبی روایت

4- اشرف کے یہاں روایات اور ورثے کا گہرا شعور

5- قصہ گو اشرف اُردو قاری کی توقعات کی میزان پر

6- اشرف کی کہانیوں میں تہذیبی وجود کے بحران کی آئینہ سازی

7- اشرف کے یہاں انسانی رویوں اور تجربوں کے علامتی تبدل کا سلیقہ

8- معاصر انگریزی ناول اور نمبردار کا نیلا: ایک تقابلی مطالعہ

9- اشرف کی صلاحیت تمثیل سازی

10- اشرف کے افسانوں میں فکرو دانش کی دولت

11- نئی دنیا یعنی اکیسویں صدی کے پیش نظر اشرف کی کہانیوں کا مستقبل

مذکورہ بالا گیارہ نکات اشرف کی کہانیوں پر تفصیلی گفتگو کا دروازہ وا کرتے ہیں۔۔ میں نے بھی انہی پہلوؤں میں سے ایک پہلو انسانی رویوں اور تجربوں کے علامتی تبدل کا سلیقہ، آج کی گفتگو کے لئے اپنے پیش نظر رکھا ہے۔۔

تو عرض یہ ہے کہ وہ سید محمد اشرف جن سے بہتوں کو بہت توقعات تھیں اور شاید ہیں بھی، وہ ہے ولی پوشیدہ اور کافر کھلا۔۔ اس مجموعے میں شامل (1) ساتھی (2) چمک (3) طوفان (4) اندھا اونٹ (5)دعا (6) بادِ صبا کا انتظار (7) نجات۔۔۔۔ اور (8) آخری موڑ، سبھی کہانیاں تخلیق کار کو مطمئن کرنے والی اور نظریہ سازی کو جرک jerk، دھچکا دینے والی کہانیاں ہیں۔۔

ان کہانیوں کی پہلی قرأت یہ التباس پیدا کرتی ہے کہ ان کہانیوں میں سماجی سروکار موجود ہے دبے کچلے پس ماندہ طبقات Suppressed Classes کی کہانیاں بیان کی گئی ہیں۔۔ صورت حال کو بدلنے کا ایک اندرونی جذبہ ان کہانیوں میں موجود ہے۔۔ گویا مصنف وابستگی کی نعمت سے سرفراز ہے۔۔ کچھ لوگ یہ سوچ کر بھی خوش ہوں گے کہ یہ Post colonial scenario کو Point کرتی ہوئی کہانیاں ہیں جن میں اور کچھ بھی نہیں تو معنی کی تکثیریت بہر حال موجود ہے۔۔ جدیدیوں کی ادعائیت کی جگہ ایک کھلا رویہ ہے اور جدیدیوں کے ابہام کی جگہ اِفہام و تفہیم کی گنجائشیں موجود ہیں۔۔ یہ سارے دعاوی ایک طرف اور دوسری طرف خود سید محمد اشرف کے دو افسانوی مجموعے ایک ناولٹ ’’تلاشِ رنگ رائیگاں‘‘ اور ایک ناول ’’نمبردار کا نیلا‘‘ فی الوقت سب پر تو گفتگو ممکن نہیں ’’مگر بادِ صبا کا انتظار‘‘ میں شامل کہانیوں کے سہارے اشرف تک پہنچنے کی کوشش ضرور کروں گا۔۔

پہلی کہانی ’’ساتھی‘‘ کا قصہ کچھ یوں ہے کہ ایک شخص کی رات گئے آنکھ کھلتی ہے وہ محسوس کرتا ہے کہ سیڑھیوں کے نیچے کوئی کھڑا ہے۔۔ وہ سمجھتا ہے چور ڈاکو ہے۔۔ اس کو قبضے میں کرنے کے لئے اس نے کئی حربے اپنائے مگر وہ جو صیغہ واحد حاضر یعنی انور کا ہم عمر محسوس ہو رہا تھا آہستہ آہستہ انور سے بے تکلف ہو کر گفتگو کرنے لگا اور پھر ایک منزل وہ آتی ہے جب وہ انور کے باپ کی طرح انور کے سرکے بالوں سے کھیلنے لگا اور کہانی کے اختتام سے کچھ پہلے انور کا سر اُس آدمی کے کاندھے پر تھا مگر کہانی کا اختتام یہ ہے کہ رات بھر انور اپنے آپ ہی سے ہمکلام رہا اور اسی کے وجود کے اندر سے اُس کا ہم عمر دوست اور باپ کی طرح مشفق مرد باہر نکل آیا اور آخر کار اس کہانی کی بنت میں ایک ہی خیال پنہاں نظر آیا کہ ایک عمر وہ بھی آتی ہے جب ماضی ہی اصل ساتھی بن جاتا ہے اور اردگرد کے سارے لوگ رِنگ ماسٹر کی طرح اپنے اشاروں پر نچانے کی کوشش کرنے کے باوجود آدمی کا غیر ہی رہتے ہیں عین نہیں بن پاتے۔۔

اس کہانی کا مطالعہ اگر مسلم علم کلام کی روشنی میں کیا جائے تو ایک دلچسپ نتیجہ یہ بھی برآمد کیا جا سکتا ہے کہ سید محمد اشرف وحدت الوجود سے زیادہ وحدت الشہود کی طرف مائل ہیں۔۔ وحدت الوجود میں غیر باقی نہیں بچتا، تو من شدی من تو شدم۔۔ اشرف بیوی کی نظر بچا کر کرمچ کے سفید جوتے نالی میں سرکاتے ہیں تو یہاں سے غیر کا اثبات ہونے لگتا ہے ظاہر ہے وہ وحدت الوجود کی منزل نہیں ہے۔۔ دوئم یہ کہ اگر وہ سب کچھ خواب تھا تو گویا مشاہدے کا دھوکا تھا یہ بھی وجود سے زیادہ شہودی کیفیت ہے۔۔

دوسری کہانی ’’چمک‘‘ کا قصہ کچھ یوں ہے کہ رحمت لوہار کسی نہ کسی باعث راوی سے قربت رکھتا ہے اور بقول راوی بے روزگاری اور سٹے کا مریض ہے۔۔ رحمت شروع میں اپنے لوہار باپ کی دوکان پر بیٹھتا تھا پھر آہستہ آہستہ وہ کام چور بنتا گیا اور راوی سے طرح طرح کے بہانے بنا کر پیسہ لینے کا عادی بن گیا۔۔ یہاں تک کہ وہ اپنی بیماری اور علاج کی بابت بھی شاید یہ سوچ کر خوش ہے کہ راوی اس کے علاج کا سارا پیسہ یک مشت دے دے گا جس کا استعمال اغلباً وہ سٹے میں کرنا چاہتا ہے۔۔ اس پورے واقعے میں رحمت لوہار، اس کا باپ اور اس کی بیوی کہانی کو آگے بڑھانے کے Toolsہیں مگر دلچسپ معاملہ یہ ہے کہ غریب کی مجبوریوں کے تحت نمایاں ہونے والی بے حیائی و مکاری پر لکھی گئی اس کہانی کا بنیادی خیال جسے شمیم حنفی کے الفاظ میں انسانی رویوں اور تجربوں کا علامتی تبدل کہا جا سکتا ہے، یہ ہے کہ مردے کے لئے شجرہ شاید اطمینان اور چہرے پر چمک کا سبب بن سکتا ہو۔۔ زندہ کے چہرے پر چمک کے لئے تو بہر حال پیسہ ہی ضروری ہے۔۔ کہانی اپنے بیان اور صورت حال کے تجزیے میں اتنی سفاک اور ظالم ہے کہ یقین نہیں ہوتا کہ یہ کہانی اشرف جیسے ریشم مخمل پیر زادے نے لکھا ہے۔۔ دو مناظر ملاحظہ کیجئے۔۔

(1) نورو لوہار کی تدفین بھی اُسی باغ میں ہوئی۔۔ جنازے میں شریک افراد نے پوچھا کہ قبر کے طاق میں شجرہ رکھا کہ نہیں، بخشش کے لئے بہت ضروری ہے۔۔ سب ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے۔۔ میں سب کو روک کر اکیلا بھاگا اور گھر آ کر میاں سے ایک شجرہ لیا کہ نورو لوہار، میاں کے مرید تھے۔۔ قبر کے طاق میں جس وقت جھک کر وہ (نورو کا بیٹا رحمت) شجرہ رکھ رہا تھا تو مجھے محسوس ہوا کہ میت کی دھندلی دھندلی ادھ کھلی آنکھوں میں لحظے بھر کو ایک چمک سی پیدا ہوئی۔۔

(2) میں نے دیے کی طرف ایکسرے کر کے غور سے دیکھا۔۔ دونوں پھیپھڑوں کی جگہ مکڑی کے جالے سے بنے ہوئے تھے۔۔ یہ بیماری کی آخری اسٹیج ہوتی ہے۔۔

’’اب اس بیماری کا علاج کئی سال چلے پابندی سے تو شاید ٹھیک ہو سکے‘‘میں ہولے ہولے بڑبڑایا۔۔ میں نے دیکھا میری بڑبڑاہٹ سے وہ خوش ہوا تھا۔۔ تبھی وہ بولا: ’’اس بار ایک شرط ہے کہ آپ پوری بیماری کا پیسہ ایک ہی بار دے دیں‘‘ میں اِثبات میں سر ہلا ہی رہا تھا کہ میں نے دیکھا کہ ایکسرے کے پار دیے کی روشنی میں اُس ڈھانچے کی آنکھیں چمک اٹھی ہیں۔۔ نسخہ اور ایکسرے طاق میں رکھتے ہوئے میں نے یاد کیا کہ ایک بار میں نے کوئی کاغذ یا کتاب کسی طاق میں رکھی تھی تب بھی کسی مردے کی آنکھیں چمک اٹھی تھیں۔۔

مذکورہ بالا دو مناظر کے حوالے سے گفتگو کی تہہ در تہہ پرت کھلتی نظر آ رہی ہے۔۔ قبر میں شجرہ رکھنے پر مردے کی آنکھوں میں چمک کا احساس اس اجتماعی سائکی کی طرف اشارہ کرتا ہے جو مذکورہ Ritual کے سہارے ہی سکون تلاشتا ہے مگر یہ مسئلہ تو اس آدمی کا ہے جو زندگی کے جنجال سے نجات پا چکا ہے۔۔ جو زندگی کی مہابھارت جھیل رہا ہے اس کے سکون کا ذریعہ شجرہ نہیں پیسہ ہے۔۔ وہ اپنی بیماری کو بھی کیش کرنا چاہتا ہے۔۔ دوسری بات یہ کہ نورو مردہ کی چمک یا رحمت زندہ کی چمک دونوں کو محسوس کرنے والا اصل آدمی تو خود کہانی کار ہے۔۔ اس حوالے سے خود کہانی کار کے ذہن میں اترنے کا موقع ملتا ہے۔۔ تیسری بات یہ کہ قبر میں شجرہ رکھنے کی بات راوی کو ملازمت ملنے سے پہلے کی بات ہے یعنی جو کچھ ہوا وہ راوی کے اوائل عمر میں ہوا۔۔ شاید نوجوانی میں جب بچپنا طبعی طور پر تو رخصت ہو جاتا ہے مگر ذہنی طور پر باقی رہتا ہے۔۔ بچپن کے خواب، مناظر، رسمیں، توہمات سب بہت دنوں تک ہمارا پیچھا کرتی رہتی ہیں اور جب آدمی پختہ کار یا پختہ عمر ہو جاتا تب اُسے پیسہ ملنے کی امید پر ایک کام چور بیمار کی آنکھوں میں پیدا ہونے والی چمک دکھائی دیتی ہے۔۔ قصہ مختریہ کہ اس کہانی میں بھی انسانی رویوں اور تجربوں کے علامتی تبدل کا سلیقہ موجود ہے۔۔

ایک کہانی ہے ’’طوفان‘‘ پس کہانی کی بھی کئی پرتیں بالکل نمایاں ہیں۔۔ پہلی پرت تو محاکات کی ہے۔۔ طوفان کا جو منظر لفظوں میں بیان کیا گیا ہے، مجھے یاد نہیں آتا کہ اس سے زیادہ مکمل اور زندہ منظر کسی اُردو افسانے میں بیان کیا گیا ہو۔۔

1- آسمان میں دور بہت دور بادلوں کا ایک بے ہنگم غول نظر آیا جیسے زمین پر بھی ایک سمندر ہے اور اوپر بھی اور اسی وقت ہوا اچانک تھمی تھی چند لمحوں کا وقفہ خاموشی کا تھا مگر ایسی خاموشی جس میں تیز سیٹیاں بجتی ہوئی محسوس ہو رہی تھیں۔۔ خاموشی کا وہ اجنبی اور سناٹے کو گہرا کرنے والا مختصر وقفہ ایک ایسی زبردست آواز سے ٹوٹا جیسے بے شمار درندے اپنے سہمے ہوئے شکاروں پر آہستہ آہستہ داؤں لگا کر اچانک غرّا کر ٹوٹ پڑے ہوں۔۔

2- مچھواروں کی کشتیاں کاغذ کی ناؤ کی طرح لہروں کے ساتھ اوپر گئیں اور نیچے آنے تک بے وضع لکڑی کے ٹکڑوں میں بنٹ گئیں اور ان کے تختے الگ ہو کر پانی کی رفتار کے ساتھ ساحل پر اندر کی سمت دھار دار ہتھیاروں کی طرح تیزی سے آگے بہنے لگے، بڑھنے لگے اور کھڑے درختوں کے تنے کو اپنی رفتار کے زور سے آرے کی طرح کاٹنے لگے۔۔ ساحل کے اندر دور تک ارّاتے سمندر میں ایک جنگل سا بہنے لگا۔۔

3- طوفان کی سرخ دہشت گرد آنکھ چھ ہزار مربع کلو میٹر پر نگراں تھی اور گھوم گھوم کر امڈ امڈ کر آہستہ آہستہ ساری زمین کو ایک گہرے بھورے دلدلی ملغوبے میں تبدیل کر رہی تھی۔۔

4- نیچے پانی کے شیر غرا رہے تھے اوپر ہوا کے ہاتھی چنگھاڑ رہے تھے۔۔ انسان اور حیوان سب کے سب فطرت سے ایک ایسی جنگ لڑرہے تھے جس میں جان داروں کو نہیں جیتنا تھا۔۔

میں نے سمندری طوفان دیکھا تو نہیں لیکن اشرف کے ان دو صفحات میں جو تخلیقی مد و جزر موجود ہے اس نے سمندر اور سمندری طوفان کو میرے اندر اترنے کا راستہ دکھا دیا ہے۔۔ اگر کبھی مجھے کسی جگہ سمندری طوفان کے ابتدائی لمحات سے دوچار ہونا پڑا تو شاید میں آنکھیں بند کر کے یہ بتاتا چلا جاؤں گا کہ اس کے بعد کیا ہو گا اور اس کے بعد کیا ہو گا۔۔ یہ اشرف کے مشاہدے کے عمیق اور بسیط ہونے کا ثبوت ہے۔۔

لیکن فن میں تو مشاہدہ کے بغیر تخیل ادھورا رہتا ہے۔۔ اشرف کی کہانی طوفان میں بھی مشاہدے کے بعد تخیل اور تخلیقی بصیرت اپنا کام شروع کرتی ہے۔۔ سمندری طوفان خس و خاشاک بہا لے جاتا ہے اور کارآمد عنصر کو محفوظ کر لیتا ہے۔۔

فَاَمَّالزَّبَدُ فَیَذْہَبُ جُفائًج وَاَمَّا مَا یَنْفَعُ النَّاسَ فَیَمْکُثُ فِی الْاَرْضِ کَذٰلِکَ یَضْرِبُ اللّٰہُ الْاَمْثَالَ (پ ۱۳الرعد ۱۷)

(سووہ جھاگ تو جاتا رہتا ہے سوکھ کر اور وہ جو کام آتا ہے لوگوں کے سوباقی رہتا ہے زمین پر۔۔ اس طرح بیان کرتا ہے اللہ مثالیں )

یعنی بے کار پھین اور جھاگ سوکھ کر ختم ہو جاتا ہے اور زمین پر وہی عنصر باقی رہ پاتا ہے جو خلق خدا کے لئے کارآمد ہے۔۔ اس خیال کا لب لباب یہ ہے کہ فائدہ دینے والا باقی بچے گا فائدہ لینے والا مِٹ جائے گا۔۔ یہ کائنات کا اصول ہے اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی اور جبر مشیت یہ بھی ہے کہ اس میں امتیاز من وتو نہیں۔۔ تب ایسا ہے کہ تخلیق کاراس نظام کو ٹھوک بجا کر اور الٹ پلٹ کے دیکھتا ہے اور محسوس کرتا ہے کہ انسان تو اس نظامِ فطرت کا کیری کیچر پیش کرتا ہے۔۔ کان ظلوما جھولاً یہ اپنی مقصد براری کے لئے معصومیت اور حسن کا بھی گلا گھونٹ رہا ہے۔۔ یہ انسان جبلی سطح پر کسی مسکراہٹ اور نمودِ حسن کا جو یا نہیں ہے۔۔ اس کی بنیادی غرض تو صرف اس اکسپوزر سے ہے جس سے اس کا فائدہ ہو۔۔ اس فائدے کے لئے وہ معصوموں اور مظلوموں کی مسکراہٹ پر بھی قدغن لگا سکتا ہے۔۔ یہ ظالمانہ اور خود غرضانہ سلسلۂ عمل ایک گہرے اور اجنبی سناٹے میں بدل جاتا ہے اور ایسی آواز سنائی دینے لگتی ہے جیسے بے شمار وحشی درندے اپنے اپنے سہمے ہوئے شکاروں پر آہستہ آہستہ داؤ لگا کر اچانک گر کر ٹوٹ پڑے ہوں۔۔

’’طوفان‘‘ کے بعد ایک اور کہانی ’اندھا اونٹ ہے‘۔۔ یہ کہانی بیک وقت خوب صورت بھی ہے اور بھیانک خوب صورت بھی۔۔ یہ اپنے بیانیہ کے لحاظ سے ہے نہ کہ سب سے درست کہانی جس میں فن افسانہ نگاری کے نقطہ نظر سے حشو و زوائد کی تلاش ایک مشکل امر محسوس ہوتی ہے۔۔ دیہات کے پس منظر میں انکری ہوئی ایک کہانی جس میں بچپن کے خواب اور خواب کی بھیانک تعبیر حسرتیں آرزوئیں اور ناکامیاں، بچپن کی چھوٹی چھوٹی شرارتیں شکوے، خوشیاں اور دکھ اس کہانی کے خام مواد کے طور پر کام آتے ہیں اور اس طرح تیار ہوتی ہے ایک خوب صورت کہانی اندھا اونٹ، مگر جو اپنے Content کے لحاظ سے انتہائی بھیانک محسوس ہوتی ہے۔۔ وقت جو ایک اندھا اونٹ ہے جو امیر غریب سب کو روندتا چلا جاتا ہے۔۔ کھیتوں باغوں قصبوں شہروں ملکوں اور انسانوں کو روندتا ہوا ایک اندھا اونٹ بھاگا چلا جا رہا ہے۔۔

اِس کے بعد کہانی دعا میں اسی طوفان کا ڈر ہے جس کا ذکر سابق کہانی طوفان میں ہو چکا مگر یہاں اس طوفان کے حوالے سے ایک دوسرا منظر دکھایا گیا ہے۔۔ ایک نوکر اپنی میم صاحب سے اپنے گھر خط لکھوا رہا ہے۔۔ نوکر جو کچھ لکھوانا چاہتا ہے میم صاحب اس کے برعکس لکھتی ہے۔۔ بالکل واضح طور پر محسوس ہو رہا ہے کہ یہاں امیر غریب کا استحصال کر رہا ہے مگر جب طوفان آنے کا خدشہ سر اٹھاتا ہے اور صاحب میم صاحب اس نوکر سے طوفان بارش اور بجلی سے بچنے کی دعا کرنے کے لئے کہتے ہیں تو نوکر دعا کرتا ہے مگر کیا دعا کرتا ہے یہ بات نوکر صاف چھپا جاتا ہے۔۔ البتہ کہانی کے Under Current میں ایک Keyword درہم برہم موجود ہے جس سے یہ بات کھل جاتی ہے کہ نوکر نے صاحب میم صاحب کے گھر کی ہر شے کے درہم برہم ہو جانے کی دعا مانگی ہے اور اس مقام پر پہنچ کر پورا منظر نامہ بدل جاتا ہے اور کہانی کی دو پرتیں اور نمایاں ہونے لگتی ہیں۔۔ اول تو یہ کہ استحصال کا یہ سلسلہ ایک ازلی اور لا مختتم سلسلہ ہے۔۔ ہر بڑی مچھلی چھوٹی مچھلی کو کھاتی ہے۔۔ اور کون کب بڑی مچھلی بنے گا اور کون کب چھوٹی مچھلی یہ مسئلہ اضافی ہے، صورت حال پر اس کا انحصار ہے۔۔ ایسی صورت بھی پیدا ہو سکتی ہے کہ نوکر کا Upper hand ہو جائے اور ظاہر ہے جس لمحے میں جس کا Upper hand ہے اس لمحے میں وہ بڑی مچھلی ہے۔۔

ایک صورت حال یہ ہے کہ نوکر کچھ لکھوانا چاہ رہا ہے میم صاحب کچھ اور لکھ رہی ہیں۔۔ دوسری صورت حال یہ ہے کہ میم صاحب کچھ دعا کرانا چاہ رہی ہیں نوکر کچھ اور دعا کر رہا ہے۔۔ کہانی کی دوسری پرت یہ ہے کہ پسماندہ طبقہ غریب آدمی اس کے علاوہ اور کیا کر سکتا ہے کہ اس پورے نظام کے درہم برہم ہونے کی تمنا کرے۔۔ دعا کرے۔۔ کہانی کی تیسری پرت نئے بورژواژی کے چہرے پر پڑی نقاب ہٹانے کا استعارہ ہے۔۔ صاحب میم صاحب مذہب کے بارے میں Indifferent رہنے والے لوگ ہیں لیکن جب سروں پر مصیبت آن پڑتی ہے تو نوکر سے دعا کرانے سے بھی نہیں چوکتے، خودی نہ چلی تو خدا یاد آیا۔۔ اس طبقے کے اس قسم کے رویے کا ایک Shade ناول ’’فرات‘‘ میں بھی دیکھا جا سکتا ہے جہاں خاتونِ خانہ ایک بوڑھی پابند صوم و صلوٰت عورت کو صرف اس لئے گھر میں بوا کی حیثیت سے برداشت کرتی ہے تاکہ اس کی وجہ سے گھر میں نماز قرآن کی آواز گونجتی رہے۔۔

’’نجات‘‘ حبس اور گھٹن میں گھری ایسی کہانی ہے جس میں ہر کردار اور ہر منظر تقاضہ کرتا ہے کہ مجھے دیکھو مجھے سمجھو۔۔ اشرف سے پہلے میں اور میرے ہم عصر مثلاً قمراحسن اور انجم عثمانی بھی مذہبی پس منظر کو افسانوی بیانیہ کے ایک Tool کے طور پر استعمال کر چکے ہیں مگر بلا شک و شبہ اس استعمال میں اشرف کم از کم مجھ سے زیادہ کامیاب ہیں۔۔ شاید اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اشرف مجموعی صورتِ حال کے ذریعہ ایک استعاراتی فضا خلق کرتے ہیں جب کہ ہم لوگوں کے یہاں خود صورتِ حال ہی استعارہ بن جاتی تھی۔۔ اس کا منطقی نتیجہ یہ نکلتا تھا کہ ہم لوگوں کے یہاں اشکال زیادہ پیدا ہو جاتا تھا۔۔ اشرف کے یہاں استعاراتی دھند ہے مگر اشکال نہیں۔۔

اشرف اس کہانی کے ذریعہ کہنا یہ چاہتے ہیں کہ غریب کے لئے ایک خیالی یا عقیدے والی جنت کا ذکر ویسے ہی اکتاہٹ کا سبب ہے جیسے خود غریب کو گھر اور گھر کے رجال کی خوش حالی کے لئے۔۔

شبراتی چچا نے دیوار کے سہارے یہاں پر لیٹے بیٹھے اپنے حیران بچوں کے قریب جا کر سرگوشیوں میں کچھ پوچھا وہ نہ نہ کرنے لگے شکر سے بھی کام چل جائے گا۔۔ شکر ہے۔۔

گھر میں تھوڑا سا چٹکی برابر گڑ ہونا چاہیے۔۔

1- شہد شکر گڑ فرائض و واجبات میں نہیں۔۔ بچے کی ماں کو گرم گرم دودھ پلاؤ تب اس سے کہو کہ بچے کو دودھ پلائے شبراتی دالان میں گھسا۔۔ دیر تک گھسا رہا۔۔ سرگوشیوں میں بیوی اور بچوں سے باتیں کرتا رہا اور جب روہانسا ہو کر دالان سے باہر نکلا تو اس کے ہاتھ میں ایک برتن تھا جو ایسے گھروں میں عام طور پر دودھ رکھنے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔ چچا کی نظر اس برتن پر پڑی جو بالکل خالی تھا۔۔ چچا نے اونہہ کہہ کر میرا ہاتھ پکڑا اور تقریباً کھینچتے ہوئے مجھے گھر کی طرف لے چلے۔۔

2- آخری لمحوں میں اُسے سہارا دینے کے لئے میں نے جنت کی آسائشوں کا ذکر پھر شروع کیا ہی تھا کہ اس نے بدقت آنکھیں کھولیں اور بہت واضح انداز میں صرف ایک لفظ کہا۔۔۔۔۔۔ ’’اونھ‘‘!

اونھ، انتہائی نا امیدی اور اکتاہٹ کی کوکھ سے جنمی آواز ہے۔۔ پہلے منظر میں چچا ایوب کے گھر کے حالات سے نا امید ہو کر اور اکتا کر اونہہ کرتے ہیں۔۔ دوسرے منظر میں ایوب خالی سوکھی اور زرد ہتھیلیاں راوی کو دکھا کر شاید یہ کہنا چاہتا ہے کہ اس کے ہاتھ بالکل خالی ہیں۔۔ ہاتھوں کی لکیر یعنی قسمت میں دین و دنیا کہیں بھی جنت کا ملنا نہیں لکھا گیا ہے۔۔ آخر کے سارے منظر ایک قسم کا Pathos پیدا کرتے ہیں اور اس کہانی کا عنوان نجات اس پوری کہانی پر ایک طنزیہ مسکراہٹ کی طرح ابھرتا ہے۔۔

اس کے بعد کی کہانی آخری موڑ پر دگر کہانیوں کی بہ نسبت کم متاثر کرتی ہے۔۔ پھر بھی ایک خیال تو اس کہانی سے بھی جنم لیتا دکھائی دیتا ہے کہ جانور اپنے ساتھی کی موت کا غم کرتے ہیں مگر آدمی کو کسی دوسرے آدمی کی پرواہ نہیں۔۔ ظاہر ہے یہ کہانی بھی انسانی معنوں اور تجربوں کے علامتی تبدل کی مثال میں بوقت ضرورت پیش کی جا سکتی ہے۔۔

اور اب تھوڑی سی گفتگو ’’بادِ صبا کے انتظار‘‘ پر۔۔

بادِ صبا کا انتظار انتہائی صناعانہ، ہنر مندی کے ساتھ لکھی گئی ایک بہت ہی خوب صورت کہانی ہے۔۔ میں سمجھتا ہوں کہ اشرف نے اس سے اچھی کوئی دوسری کہانی لکھی ہی نہیں ہے۔۔ رسالے میں اس کی اشاعت پر میرا پہلا تاثر یہ تھا کہ یہ اُردو پر لکھی گئی اب تک کی سب سے اچھی کہانی ہے۔۔ یہ تاثر ہنوز برقرار ہے مگر اپنا دائرہ اثر پھیلانے کی غرض سے یہ کہانی میرے ساتھ مسلسل حسن سلوک کر رہی ہے۔۔

بنظر غائر دیکھا جائے اور بغور سوچا جائے تو تسلیم کرنا ہو گا کہ صادق نے باغ کے دروازے پر کھڑے ہو کر باغ جب غور سے دیکھا تو صورتِ حال کچھ یوں تھی کہ:

شہزادی گلشن آرا نے حکم جاری کیا تھا کہ ایسا باغ لگایا جائے جس میں دنیا بھر کے نایاب و نادر پھول، طرح طرح کے پھل اور بے شمار خوب صورت درخت ہوں۔۔ باغ کی چہار دیواری ایسی ہوکہ جس میں ہزار دروازے ہوں اور سارے دروازے سبھی کے لئے کھلے رہیں۔۔ باغ کی پہرے داری گل صد برگ کریں اور ان کی سواری گل گوں ہو۔۔ شہزادی کے حکم کی تعمیل ہوئی۔۔ پہلے تمر ہندی، برگد، پیپل، اور املتاس کے درخت لگائے گئے اور پھر درمیانی روشیں مول سری، آبنوس اور صنوبر کے درختوں سے آراستہ کی گئیں۔۔ باغ کے وسط میں ایک عالی شان عمارت تعمیر کی گئی جو باغ کوٹھی کے نام سے مشہور ہوئی۔۔ لوگ مختلف ممالک سے آتے۔۔ اپنے ساتھ نایاب قسم کے پودے لاتے اور باغ کوٹھی میں قیام کر کے محسوس کرتے گویا باغ میں نہیں گلشن آرا کے دل میں قیام پذیر ہیں۔۔ کچھ آنے والے کوہِ قاف عبور کر کے آئے تو کچھ سمندر کے راستے۔۔ دور دور تک اس گل کدے کی شہرت تھی۔۔ لوگوں کی آمد کا سلسلہ صدیوں تک جاری رہا۔۔ اب گل داؤدی، گلِ رعنا، اور گلِ آفتاب کے ساتھ ساتھ کرسمس ٹری، پام کے درخت اور منی پلانٹ کی بیلیں بھی اس چمن زار میں دکھائی دینے لگی تھیں‘‘۔۔

یہ شہزادی گلشن آرا کوئی اور نہیں ہے باد صبا کا انتظار والی مریضہ ہے جس کے دل کا حال یہ ہے کہ ’’ہردے کی چال سے جو دھُن پھوٹ رہی تھی اس میں ندی کے بہنے کی کل کل تھی، ہوا کی مد بھری سرسراہٹ تھی، پنچھیوں کی چہکار تھی۔۔۔۔۔۔۔ اس آواز میں میدان جنگ میں طبل پر پڑنے والی پہلی ضرب کی آواز کا ارتعاش بھی ہو گا۔۔ دو محبت کرنے والے بدن جب پہلی بار ملتے ہیں اور ایک دوسرے کو اپنے ہونٹوں سے محسوس کرتے ہیں اور نرم لذت بھری آواز، ملا گیری رنگ کی عبا پہنے صوفی کے نعرۂ مستانہ کی گونج، دربار میں خوں بہا کا فیصلہ کرنے والے بادشاہ کی آواز کی گرج، صحراؤں میں بہا رکی آمد سے متشکل ہونے والی زنجیر کی جھنک، بنجر زمین پر پڑنے والے موسمِ برشگال کے پہلے قطرے کی کھنک بربط، ستار اور طبلے کی۔۔۔۔‘‘

طارق اور اشرف دونوں کے لاشعور میں پیکر ایک ہی ہے۔۔

فرق صرف اتنا ہے کہ طارق کا بیان تشبیہی ہے اور اشرف کا بیان استعاراتی، طارق کی تحریر مفتاح الاسرار ہے، اشرف کی تحریر منبع الاسرار۔۔ طارق کے یہاں دھند چھٹتی ہے اشرف کے یہاں دھند گہری ہوتی ہے ’’کچھ اس پرکار کی آوازیں ہیں کہ انہیں شبدوں میں بتا پانا بہت کٹھن ہے‘‘

مگر اس کے باوجود مریضہ کا مسئلہ یہ ہے کہ مریضہ یعنی گلشن آرا کے حکم کی اب خلاف ورزی کی جا رہی ہے مریضہ گلشن آرا کا حکم تھا کہ ’’باغ کی چہار دیواری ایسی ہو کہ جس میں ہزار دروازے ہوں اور سارے دروازے سبھی کے لئے کھلے رہیں۔‘‘ مگر موجودہ صورتِ حال یہ ہے کہ مریضہ کا محل جس کی ابتدائی صورتِ حال یہ تھی کہ ’’سفید عمارت کی دیواریں ناقابلِ عبور حد تک اونچی نہیں تھیں۔۔ ان میں جگہ جگہ در دریچے اور روشن دان تھے۔‘‘ اس کھلی کھلی عمارت میں مریضہ کے مخصوص کمرے کے چاروں طرف مریضہ کے متعلقین کے کمرے ہیں، ان میں دریچے اور روشن دان، دروازے ہیں لیکن وہ لوگ ان کو کھولتے نہیں۔‘‘

یہ مسئلہ صرف مریضہ گلشن آرا کی عمارت، کمرے اور اس کے اردگرد کا ہی نہیں ہے اس عمارت کے چاروں طرف جو باغ تھا اس کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی سلوک کیا گیا:

’’فصیل مزید اونچی کر دی گئی تھی اور اس کے تمام دروازے پتھروں سے چن دئے گئے تھے۔‘‘

ظاہر ہے اس کے بعد باغ کو ویران محل کو بے جان اور مریضہ کو نیم جان تو ہونا ہی تھا۔۔

طارق اور اشرف دونوں اس صورتِ حال پر دکھی ہیں۔۔ طارق کے خیال میں باغ کے تمام دروازے کھولنے ہوں گے۔۔ اشرف کے خیال میں ’’پرانی ہوا میں زندہ رہنا بہت کٹھن ہے۔۔۔۔۔۔۔ نوجوان مکینوں کو چاہیے کہ وہ باہر کھلنے والی تمام کھڑکیاں کھول کر اس کمرے میں کھلنے والے دروازے کھول دیں‘‘۔۔

بات بالکل واضح ہے، دونوں کہانیوں کا ہدف ایک ہے۔۔ اشرف کی کہانی اردو پر ہے مگر صرف اردو پر نہیں ہے۔۔ طارق کی کہانی مسلم یونیورسٹی علی گڑھ پر ہے مگر صرف مسلم یونیورسٹی پر نہیں ہے۔۔ یہ دونوں کہانیاں در اصل اس ہند اسلامی تہذیبی منظر نامے کی کہانیاں ہیں جنھوں نے ہندوستان کو اُردو، مشترکہ کلچر اور مسلم یونیورسٹی دیا۔۔ یہ منظر نامہ ماضی میں ہندوستان میں اپنی مشترکہ تہذیب کی حامل مسلم ذہانت یا بہ الفاظ دگر صوفی ذہانت کا بھی تھا، اُردو کا بھی اور مسلم یونیورسٹی کا بھی۔۔ پھر ہندوستان میں تینوں پر خزاں چھانے لگی۔۔ مسلمانوں کی صوفی ذہانت، ہندوستانیوں کی مشترکہ تہذیب، اُردو زبان اور مسلم یونیورسٹی سب پر بند ڈبے والے اذہان غالب آنے لگے۔۔ نتیجہ سامنے ہے۔۔ ہاتھ کنگن کو آرسی کیا۔۔

علاج۔۔۔۔۔۔ طارق اور اشرف کے الفاظ میں بس ایک ہی ہے۔۔۔۔۔۔ باغ کے دروازے پر بادِ صبا کا انتظار!

اِتنا پیغام درد کا کہنا

جب صبا کوئے یار میں گزرے

کون سی رات آپ آئیں گے

دن بہت انتظار میں گزرے

٭٭٭

بشکریہ ’ادب ساز‘، دہلی، اپریل تا جون ۲۰۰۶، مدیر: نصرت ظہیر

٭٭٭

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے