اقبال متین ۔۔۔ مجتبیٰ حسین

 

ہم نہیں جانتے کہ آپ میں سے کتنوں کو اس بات کا علم ہے بھی یا نہیں کہ پچھلے ہفتہ دکن کے مایہ ناز افسانہ نگار اقبال متین کو اتر پردیش اردو اکیڈمی نے مولانا ابو الکلام آزاد سے منسوب اپنے سب سے بڑے قومی اعزاز (مالیتی پانچ لاکھ روپئے) سے نوازنے کا اعلان کیا ہے۔۔ ہمیں جب یہ اطلاع ملی تو ہماری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا اور ہم نے اقبال متین کو شخصی طور پر مبارکباد دینے سے پہلے ہی ’’سیاست‘‘ میں علی ظہیر اور بیگ احساس کے ساتھ مل کر اپنا تہنیتی بیان شائع کروا دیا تاکہ دیگر ابنائے وطن بھی ہماری تہنیت سے متفق ہو کر اس خوشی میں شامل ہو جائیں۔۔ چنانچہ دوسرے ہی دن ’’سیاست‘‘ میں ہمارے تہنیتی بیان کے ہمراہ ہی لکھنو میں ’’سیاست‘‘ کے نمائندے کے حوالہ سے ’’اقبال متین حیدرآبادی کو مولانا آزاد ایوارڈ‘‘ کی سرخی کے ساتھ یہ اطلاع بھی شائع ہو گئی۔۔ اب جو ہم نے اقبال متین سے ربط پیدا کرنے کیلئے کوششوں کا آغاز کیا تو پتہ ہی نہ چلا کہ موصوف کہاں ہیں اور کس حال میں ہیں۔۔ تھک ہار کے ہم نے عثمانیہ یونیورسٹی کے سابق صدر شعبہ اردو اور ممتاز نقاد پروفیسر یوسف سرمست سے، جو اقبال متین کے چہیتے چچا زاد بھائی بھی ہیں، فون پر بات کی تو معلوم ہوا کہ ان کی حالیہ معلومات کے مطابق وہ حیدرآباد میں ہی کہیں ہیں اور خیریت سے ہیں۔۔ ان کے بتائے ہوئے راستہ پر عمل کر کے ہم نے دو دنوں تک انہیں ڈھونڈنے کی کوشش کی اور اس کوشش کے ناکام نتائج سے خود یوسف سرمست کو پل پل کی خبر دیتے رہے۔۔ یہاں تک کہ ہمارے پیہم اصرار سے مجبور ہو کر خود یوسف سرمست بھی انہیں ڈھونڈنے کی کوشش میں ہمارے ساتھ تن من سے شامل ہو گئے۔۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ نئی نسل کے بعض نا خلف نوجوان جب اپنے والدین سے کسی بات پر برگشتہ خاطر ہو جاتے ہیں تو کسی کو بتائے بغیر گھر چھوڑ کر چلے جاتے ہیں اور بعد میں ان کے والدین پریشان ہو کر اخبار میں اشتہار چھپواتے پھرتے ہیں ’’فرزند دلبند! تم کہاں ہو؟ تم کچھ بتائے بغیر ہی گھر چھوڑ کر چلے گئے۔۔ ہم سب بے حد پریشان ہیں۔۔ تمہاری والدہ نے کھانا پینا چھوڑ دیا ہے، صرف Pizza اور کوکا کولا پر جیسے تیسے گزارا کر رہی ہیں۔۔ تین دنوں سے گھر کا ٹی وی اور انٹرنیٹ بالکل بند ہے۔۔ تم ہماری پریشانی کا اندازہ لگا سکتے ہو۔۔ فوراً گھر واپس آ جاؤ۔۔ نور چشم تمہیں کچھ بھی نہیں کہا جائے گا‘‘۔۔

تیسرے دن بھی جب اقبال متین ڈھونڈے نہ جا سکے تو ہم نے سوچا کہ کیوں نہ ہم بھی اخبار میں اشتہار دیں ’’میاں اقبال متین! تم کہاں ہو؟ اتر پردیش اردو اکیڈیمی نے جیسے ہی تمہیں مولانا آزاد ایوارڈ دینے کا اعلان کیا تم گھر چھوڑ کر چلے گئے۔۔ تم آخر کس سے ناراض ہو، مولانا آزاد سے؟ اتر پردیش اردو اکیڈیمی سے؟ یا سرے سے ایوارڈ سے ہی۔۔ مانا کہ تمہیں یہ ایوارڈ کسی جوڑ توڑ، ریشہ دوانی، ساز باز، سازش یا خوشامد کے بغیر حاصل ہوا ہے۔۔ ذرا دیکھو کہ ایسے ہی ایوارڈ جب دیگر ادیبوں کو ملتے ہیں تو کتنے خوش ہوتے ہیں اور دیدہ دلیری دیکھو کہ کس طرح اپنے سینہ کو پھُلا کر، گردن کو فخر سے اکڑا کر ایوارڈ دینے والے کی آنکھوں میں نہ صرف آنکھیں ڈال کر بلکہ آنکھ مار کر بھی بڑے کر و فر کے ساتھ ایسے ایوارڈ کو حاصل کرتے ہیں۔۔ بھیا تمہیں یہ اصلی ایوارڈ کسی کوشش کے بغیر، ادب میں تمہارے اپنے بل بوتے پر ملا ہے۔۔ کسی کی عنایت سے نہیں۔۔ یہ منہ چھپانے کا نہیں بلکہ سرخروی کا موقع ہے۔۔ بہت عرصہ پہلے تم نے محبت کے جذبہ سے مغلوب ہو کر اپنے بعض احباب کے خاکے (بشمول ہمارے) ’’باتیں ہماریاں‘‘ اور ’’سوندھی مٹی کے بت‘‘ کے عنوان سے شائع کرائے تھے۔۔ اس وقت بھی ہم نے تم سے برملا کہا تھا کہ سوندھی مٹی کے بتوں میں صرف تم ہی سوندھی مٹی ہو اور تمہارے جو احباب ہیں وہ اصل میں چکنی مٹی کے چکنے گھڑے ہیں۔۔ تم ان کی کتنی ہی تعریف کرو وہ پگھل کر موم نہیں بننے والے۔۔ خدا کیلئے اپنے پتے پر واپس آ جاؤ۔۔ ہم تم سے کچھ نہیں کہیں گے، بلکہ پانچ لاکھ روپئے بھی دیں گے۔۔ تم ویسے ہی افسانے لکھتے رہو جیسے کہ اب تک لکھتے آئے ہو۔۔ تمہیں کوئی نہیں روکے گا۔۔ خوب یاد آیا تم نے بہت عرصہ پہلے اپنی ایک کتاب میں کرائے کے ان سارے گھروں کے پتے بھی درج کئے تھے، جہاں تم نے اپنی طویل عمر کے مہ و سال گزارے ہیں تاکہ لوگوں کو تمہاری خانہ بدوشی کا علم ہو سکے۔۔ غالباً چالیس مکان تھے، جس آدمی نے پیدائش سے لے کر آج تک ہر دو سال بعد کرایہ کے ایک نئے مکان میں زندگی گزاری ہو اس کی خانہ بدوشی کے بارے میں کسے شک ہو سکتا ہے۔۔ اس موقع پر مشفق خواجہ مرحوم کا ایک شعر یاد آ گیا۔۔ لو تم بھی سنو۔۔

بجھے ہوئے در و دیوار دیکھنے والے

اسے بھی دیکھ جو اک عمر یاں گزار گیا

تلاش گمشدہ کا مندرجہ بالا اشتہار ہم اخبار میں دینا ہی چاہتے تھے کہ بالآخر یوسف سرمست نے فون پر ہمیں یہ خوش خبری سنائی کہ بالآخر اقبال متین کا پتہ چل گیا ہے۔۔ ان کا قیام ایک عمارت کی چھٹی منزل پر ہے اور ان کا موبائیل فون ان کی اپنی غلطی سے پہلی منزل کے کسی فلیٹ میں رہ گیا ہے۔۔ اب اس موبائیل فون کو اقبال متین کی بلندی تک پہچانے کا بندوبست کر دیا گیا ہے اور وہ کچھ ہی دیر میں خود تمہیں فون کریں گے، ان کے فون کا انتظار کرو۔۔ آدھے گھنٹہ بعد فون کی گھنٹی بجی تو اقبال متین کی آواز آئی ’’پیارے مجتبیٰ! مجھے اندازہ ہے کہ مجھے اس ایوارڈ کے ملنے کی تجھے کتنی خوشی ہوئی ہو گی۔۔ بلکہ میں خود تجھ سے مبارکباد قبول کرنے کیلئے بے حد بے چین ہوں پیارے!‘‘ یوں بھی ہم اقبال متین کو مبارکباد دینے کیلئے تین دنوں سے بھرے بیٹھے تھے۔۔ لہذا ان کی رسمی باتوں کو سنے بغیر ہی انہیں مبارکباد دینے کا جو سلسلہ شروع کیا تو تین چار منٹ تک مبارکباد دیتے ہی چلے گئے۔۔ پھر بھی سانس کے تسلسل کو برقرار رکھنے کی غرض سے لمحہ بھر کو جو رُکے تو اقبال متین کی آواز آئی ’’پیارے! کتنی عجیب بات ہے کہ ابھی چار پانچ منٹ پہلے علی گڑھ سے شہریار کا فون آیا تھا۔۔ اس نے مجھے مبارکباد دینے کیلئے جن جذبات، خیالات اور کلمات کا اظہار کیا، ہو بہو وہی خیالات، وہی کلمات، وہی فل اسٹاپ، وہی پیراگراف بلکہ کوما تک تمہارے اظہار خیال میں بھی شامل نظر آ رہے ہیں‘‘۔۔ ہم نے کہا ’’متین بھائی! شہریار، ہمارا پرانا یار ہے اور جذبوں، خیالوں اور فل اسٹاپوں کی اسی یگانگت پر تو ہماری دوستی کا محل کھڑا ہوا ہے۔۔ یہ الگ بات ہے کہ جب آپ کا فون آیا تو میں اتفاق سے آپ کے بارے میں شہریار کی ایک پرانی تحریر پڑھ رہا تھا۔۔ میں نے سوچا کہ آپ کو مبارکباد دینے کیلئے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو کیوں ضائع کروں، شہریار کی تحریر ہی کیوں نہ پڑھ دوں۔۔ حسابِ دوستاں در دل است، والی بات ہے‘‘۔۔ یہ سنتے ہی اقبال متین نے (جن کی آواز میں بھی اب رعشہ آ گیا ہے) زور دار قہقہہ لگایا۔۔ بولے ’’پیارے! تیری ایسی ہی شریر اور منچلی باتوں کی وجہ سے ہم جیسوں کو جینے کا حوصلہ ملتا ہے۔‘‘ ہم نے ان کی بات کو کاٹ کر کہا ’’متین بھائی آپ میری منچلی باتوں کو سن کر پچاسی برس کے ہو گئے اور میں آپ کے افسانے پڑھتے پڑھتے کچھ عرصہ بعد پچھتر برس کا ہو جاؤں گا۔۔ مانا کہ ہم دونوں ایک دوسرے کی باتوں کی وجہ سے اپنی عمروں میں اضافہ کرتے چلے جا رہے ہیں لیکن ذرا سوچئے کہ آج کے دور میں جینا کتنا مہنگا ہو گیا ہے۔۔ یوں بھی زندگی جینا اور زندگی کرنا دو الگ الگ باتیں ہیں۔۔ برا نہ مانئے کم از کم میں تو اپنی حد تک یہی سمجھتا ہوں کہ ماضی میں ہمارے بزرگوں کو جو بزرگی ملا کرتی تھی وہ ہمیں اب تک نہ مل سکی۔۔ یہ تو ہمارے بزرگوں کی بڑائی تھی کہ چپ چاپ مرتے چلے گئے۔۔ اگر وہ نہ مرتے اور علم طب نے ترقی نہ کی ہوتی تو ہمیں بزرگی کہاں سے ملتی۔۔ ہماری بزرگی میں ’’آمد‘‘ اور ہمارے بزرگوں کی بزرگی میں ’’آورد‘‘ دکھائی دیتی ہے۔۔ پرانے زمانے کے بزرگ بڑی مشقت اور محنت سے بزرگی کو حاصل کرتے تھے جبکہ ہم جیسوں کو یہ بزرگی بس یوں ہی مل جاتی ہے۔۔ ذرا سوچئے اب آپ کو پچاسی برس کی عمر میں پانچ لاکھ روپئے مل رہے ہیں۔۔ کیا کریں گے، آپ اب ان پانچ لاکھ روپیوں کو لے کر؟ ذرا بتایئے اس ایوارڈ کو پانے کیلئے آپ جیسے حساس فنکار کو کن آزمائشوں سے گزر کر پچاسی برس تک جینا پڑا۔۔ اس کے پل پل کا ہرجانہ کون ادا کرے گا۔۔ کبھی کبھی زندگی کچھ اس طرح کرم فرماتی ہے کہ لگتا ہے ستم فرما رہی ہے۔۔ اقبال متین ہماری باتوں کو سن کر ہنستے ہی رہ گئے۔۔ انعام کے ملنے سے پہلے بھی یہی کرتے تھے اور اب انعام کے ملنے کے بعد بھی وہی کر رہے ہیں۔۔

اقبال متین کو انعام ملے ہوئے پورے سات دن بیت گئے۔۔ ہم نے سوچا تھا کہ ہمارے تہنیتی بیان کے بعد اہل قلم حضرات کے تہنیتی بیانات اور پیامات کی جھڑی سی لگ جائے گی مگر ہمیں یوں لگا جیسے اس اطلاع کو پا کر حیدرآباد کے اردو معاشرے پر سکتہ طاری ہو گیا ہے یا اسے سانپ سونگھ گیا ہے۔۔ اس گہرے سناٹے کی ایک وجہ ہمیں تو یہ نظر آتی ہے کہ بے شک اتر پردیش اردو اکیڈیمی نے اقبال متین کو یہ ایوارڈ دیا ہے لیکن لوگوں کو اس ایوارڈ کے پیچھے وہ بدنام اور رسوائے زمانہ ہاتھ نظر نہیں آ رہے ہیں جو عموماً ایسے ایوارڈوں کو دیتے وقت دکھائی دیتے ہیں۔۔ انعام لینے والا ہاتھ تو دکھائی دے رہا ہے لیکن دینے والے ہاتھ دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔۔ ہمیں اس وقت فلم ’’شعلے‘‘ کا وہ مشہور سین یاد آ رہا ہے جس میں امجد خان، رسیوں میں جکڑے ہوئے سنجیو کمار کے ہاتھوں کی طرف دیکھ کر کہتا ہے ’’ٹھاکر! اپنے یہ ہاتھ مجھے دے دے۔۔ بہت دم ہے ان ہاتھوں میں‘‘۔۔ اور اس کے بعد سنجیو کمار کے ہاتھ قلم ہو جاتے ہیں۔۔ ہمیں تو یوں لگ رہا ہے جیسے اقبال متین نے خود اپنے ہاتھوں سے اتر پردیش اردو اکیڈیمی کے اس ایوارڈ کو زبردستی چھینتے ہوئے کہا ہو گا۔۔ ’’اری او اکیڈیمی! یہ ایوارڈ مجھے دے دے۔۔ بہت رقم ہے اس ایوارڈ میں اور اس سے کہیں زیادہ دم ہے میرے قلم میں‘‘۔۔ چاہے کچھ بھی ہو ہم ان گمنام مگر منصف مزاج، دیانت دار، مخلص اور بے لوث ہاتھوں کو سلام کرتے ہیں جنہوں نے یہ ایوارڈ اقبال متین کو دیا ہے۔۔

پچاس کی دہائی کے آخری برسوں میں جب حیدرآباد کا اردو معاشرہ اپنے نقطہ عروج کو پہنچ چکا تھا اور ہم اپنے عہد شباب میں قدم رکھنے ہی والے تھے کہ ان ہی دنوں ہماری ملاقات نہ صرف اقبال متین سے ہوئی بلکہ ان کی دو کہانیاں ’’اجلی پرچھائیاں‘‘ اور ’’گریو یارڈ‘‘ بھی ہم نے پڑھ لی تھیں۔۔ ایسا نہیں ہے کہ اگر ہم اقبال متین کی کہانیاں نہ پڑھتے تو عہد شباب میں داخل ہی نہ ہوتے۔۔ جوش ملیح آبادی نے کہا تھا۔۔

مہترانی ہو کہ رانی مسکرائے گی ضرور

جس پہ آئی ہو جوانی گنگنائے گی ضرور

بے شک ہم عہد شباب میں ضرور قدم رکھتے لیکن اس احتیاط سے قدم رکھتے ہوئے خدشہ تھا کہ کہیں صحیح قدم نہ اُٹھ جائے۔۔ اقبال متین سے ہمارے پچاس پچپن برس کے مراسم ہیں۔۔ کیا یاد کریں اور کیا بھول جائیں۔۔ سلیمان اریب کے گھر اور ’’صبا‘‘ کے دفتر کی محفلیں خود اقبال متین کے چراغ علی گلی والے مکان کی بیٹھکیں، اورینٹ ہوٹل، ویکاجی، چائینیز اور جان کمپنی کی محفل آرائیاں۔۔ عزیز آرٹسٹ اور عبد القدوس ایڈوکیٹ کی میزبانیاں۔۔ سینکڑوں واقعات، ہزاروں باتیں۔۔ محبوب اور مہربان چہروں کا ایک ہجوم بیکراں ہے جو بگولے کی طرح ذہن میں ایک خواب کی طرح رواں دواں ہے۔۔ حالانکہ گزرے ہوئے کل میں یہی خواب ایک حقیقت تھا۔۔

ادب سے اقبال متین کے سروکار کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو گا کہ اقبال متین نے اپنے افسانوں کے پہلے مجموعے کی اشاعت کیلئے اپنا گھر بیچ دیا تھا۔۔ بعد میں انہوں نے کرائے کے لاتعداد مکانوں میں زندگی ضرور گزاری لیکن کبھی افسانے کرائے کے نہیں لکھے۔۔ خالص اپنے اور ذاتی لکھے۔۔ یہی ان کی شناخت ہے۔۔ لفظ ان کے مخصوص اسلوب میں ایک نئے انداز سے ابل ابل پڑتے ہیں اور معنی کی دھیمی دھیمی آنچ پڑھنے والے کو موم میں تبدیل کرتی چلی جاتی ہے۔۔ ایک انوکھا اور اچھوتا درد، جس کی کسک ذاتی بھی ہے اور آفاقی بھی، ان کے افسانوں کو منفرد مرتبہ عطا کرتی ہے۔۔ اقبال متین کی پچاسی برس کی طویل العمری کا راز یہی ہے کہ انہوں نے جوانی اور پیری کے مرحلوں سے گزرنے کے دوران اپنے اندر بیٹھے ہوئے اس طفلِ فن کو کبھی مرنے نہیں دیا جو آج بھی دنیا کو حیرت کے ساتھ دیکھنے کا حوصلہ رکھتا ہے۔۔ دوسری طرف اقبال متین نے اپنے اندر بیٹھے ہوئے اس لڑ کے کو کبھی وہ موقع بھی عطا نہیں کیا جو اختر الایمان کے اندر بیٹھے ہوئے لڑکے کو کبھی عطا ہوا تھا جس کے نتیجہ میں اختر الایمان کو بالآخر کہنا پڑا تھا۔۔

’’یہ لڑکا پوچھتا ہے اختر الایمان تم ہی ہو‘‘؟

خدا کرے اقبال متین کی یہ مخلصانہ معصومیت اور قلندرانہ فنکاری سدا برقرار رہے۔۔ ارض دکن کے اس بے مثال البیلے افسانہ نگار کو پھر سے ہمارا سلام ہے۔۔

(20 دسمبر 2009 ء)

٭٭٭

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے