خالی ڈبے ۔۔۔ فرحانہ صادق

اچھے ماموں سے میرا رشتہ سگے ماموں بھانجی کا نہ تھا۔کبھی چھٹپن میں امی نے انہیں اپنا بھائی بنایا اور مرتے دم تک اس رشتے کو نبھاتی رہیں۔

اگلے زمانے میں منہ بولے رشتوں کی بھی حرمت ہوا کرتی تھی اب تو خیر سگے رشتوں کی بھی نہ رہی۔

اس منہ بولے رشتے کے علاوہ بھی ہمارا ایک اور رشتہ تھا اور وہ جو کتابوں سے محبت کرنے والوں کے درمیان ہوتا ہے۔

مطالعہ کرنا میرے نزدیک ایسا مرض تھا جو لاعلاج ہو اور مجھے یہ مرض اچھے ماموں سے ہی لگا تھا۔ وہ جب بھی ہمارے گھر آتے ان کی بغل میں کوئی نہ کوئی کتاب دبی ہوئی ہوتی۔ اچھے ماموں بہت قناعت پسند اور گوشہ نشین تھے ان کی واحد تفریح، واحد مشغلہ صرف کتابیں پڑھنا اور انہیں سینت سینت کر محبت سے رکھنا تھا۔ گورنمنٹ کالج میں اردو کے استاد تھے اور بال بچے دار بھی تھے، اس لئیے بہت زیادہ پیسے تو کتابوں پر خرچ نہ کر سکتے تھے، پھر بھی کسی نہ کسی طرح انہوں نے اچھی خاصی کتابیں جمع کر لی تھیں۔ مذہب، سائنس، فلسفہ، ادب، تاریخ، سفر نامے، کھیل کونسا ایسا موتی تھا جو ان کے خزانے میں نہ تھا۔ ان کے حلقہ احباب میں گنتی کے چار پانچ ہی لوگ تھے جنہیں وہ اپنے یہ موتی واپسی کی یقین دہانی کے ساتھ عنایت کرتے۔ اور میرا شمار بھی انہی خوش نصیبوں میں ہوتا تھا۔

کبھی کبھی کوئی کتاب اتنی اچھی لگتی کہ واپس کرنے کو جی ہی نہیں چاہتا مگر میں جانتی تھی کہ اگر میں نے اسے رکھنے کی ضد کی تو اچھے ماموں اداس ہو جائیں گے۔

اللہ نے ان کا جوڑ بھی خوب بنایا تھا۔ ماموں جتنا اپنی کتابوں پر نثار تھے، ممانی اتنا ہی بیزار رہتی تھیں۔ وہ مزاج کی اچھی تھیں اور ماموں کا خیال بھی رکھا کرتیں، مگر جب بھی ان دونوں میں کوئی تلخ کلامی ہوتی وہ براہ راست ماموں کی کتابوں کو ہدف بناتیں اور کہتیں دیکھ لیجئے گا جس دن میرا داؤ چلا میں اس کباڑ کا آگ لگا دوں گی۔ اور ماموں ایسے ہو جاتے جیسے کسی نے انہیں قتل کرنے کی دھمکی دے دی ہو۔ ان کے دونوں بیٹوں کو بھی ان کتابوں سے کوئی شغف نہ تھا۔ گھر والوں کے اس روئیے کے باعث ماموں اپنی کتابوں کے بارے ایسے فکر مند ہوتے جیسے ایک باپ اپنی اولاد کے مستقبل کے متعلق ہوتا ہے۔

سبھی ان کا مذاق اڑایا کرتے۔ مگر میں جانتی تھی کہ ان کا دُکھ کیا ہے۔۔۔ میں ان کی دل جوئی کرتی تو کہا کرتے نجمہ وعدہ کرو میرے مرنے کے بعد تم میری کتابوں کا بہت خیال رکھو گی اور میں ان کا دل رکھنے کے لئیے ہاں کر دیتی۔ اور ماموں کے چہرے پر ایک سکون اتر آتا۔

گریجویشن کے فورا بعد میری شادی کا ہنگامہ شروع ہو گیا اور میں بیاہ کر دوسرے شہر اپنے سسرال آ گئی۔۔۔۔ تو ماموں اور کتابوں دونوں سے رشتے میں لاتعلقی آ گئی۔

۔ویسے میاں جی کی طرف سے کوئی روک ٹوک نہ تھی، مگر کچھ سسرال کا ماحول پڑھنے پڑھانے والا نہ تھا۔ دوسرا گھر کے بکھیڑوں سے فرصت ہی نہ ملتی کہ کسی دوسرے مشغلے کی طرف دیکھا جائے۔۔ کبھی کبھی ہمک اٹھتی بھی، مگر کوئی نہ کوئی بچوں کا کام سامنے آ جاتا۔ سو مطالعہ میرے لئیے خواب پارینہ بن گیا۔

چار چھ ماہ میں میکے کا چکر لگتا تو اچھے ماموں کی خبر مل جاتی۔ ایک آدھ بار وہیں ان سے ملاقات بھی ہوئی۔ وہ کافی کمزور ہو گئے تھے۔ ذیابیطس نے ان کی صحت اور اعصاب دونوں پر گہرا اثر ڈالا تھا۔

وہ کسی بات کو لے کر بے چین بھی لگ رہے تھے۔ چونکہ میری چھوٹی بیٹی بیماری کی وجہ سے چڑچڑا رہی تھی اور اس نے مجھے اپنے ساتھ لگا رکھا تھا۔ اس لئیے ماموں سے بات چیت خیر خیریت سے آگے نہ بڑھ سکی۔

آخری عمر میں اچھے ماموں کے گردوں نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا۔ یہ ہی خبریں ملتیں کہ ہفتہ ہفتہ ہسپتال میں داخل ہیں اور ہر دوسرے تیسرے روز ڈائی لیسز ہو رہا ہے۔ ان کی صحت تیزی سے گرتی جا رہی تھی۔ امی کی بار بار یاد دہانی کے باوجود کہ وہ مجھے بہت یاد کر تے ہیں۔۔۔ ایک بار ہی ان سے ملنے ہسپتال جا سکی۔۔۔۔۔ وہ دوائیوں کے زیر اثر غنودگی میں تھے۔ سو اس وقت بھی میری ان سے کوئی بات نہ ہو سکی۔

ایک دن ماموں کے چھوٹے بیٹے عمر کا روتے ہوئے فون آیا کہ نجمہ آپی ابو کے بارے ڈاکٹرز نے جواب دے دیا ہے۔ ان کی ضد پر انہیں ہم گھر لے آئے ہیں۔ آپ آج ہی ابو سے ملنے آ جائیے وہ آپ کا بہت پوچھ رہے ہیں۔

میں نے فورا اپنے میاں جی کو لیا اور ماموں کے گھر پہنچ گئی۔

اچھے ماموں کے کمرے کا ماحول بالکل ویسا ہی تھا جیسا ایک جلد مرنے والے بیمار شخص کا ہوتا ہے۔ فضا میں پھیلی ہلکی سی دوائیوں کی بو، مدھم اداس خاموشی اور بیڈ کے آس پاس سوگوار چہروں کا ہجوم۔

میری آواز پر ماموں نے دھیرے سے آنکھیں کھولیں اور پلکیں جھپکا کر میرے سلام کا جواب دیا۔ شدید کمزوری کے باعث وہ بولنے سے قاصر تھے۔ ان کے ہونٹ پھڑپھڑائے، تو میں ان کے قریب ہو گئی، بہت جد و جہد کے بعد بھی ان سے کوئی لفظ ادا نہ ہوسکا، مگر مجھے ایسا لگا وہ مجھے کہنا چاہتے ہیں کہ وعدہ کرو تم میری کتابوں کا خیال رکھو گی۔

مجھ سے اپنے جذبات سنبھالنا مشکل ہو گئے۔ میں نے ان کے ہاتھ پر ہاتھ رکھا اور جواب میں صرف وعدہ ہی کہہ سکی۔ مجھے لگا کہ میرے ایک لفظ سے ماموں کے چہرے پر اطمینان پھیل گیا۔

کب ان کی سانس اکھڑی اور کب تین دن گزرے پتا ہی نہیں چلا۔ سوئم کے شام تمام مہمانوں کے چلے جانے کے بعد ممانی نے مجھے بلایا اور کہا۔۔۔

اللہ بخشے تمہارے ماموں کی ببماری میں عیادت کے لئیے آنے والوں کی آمد کا بہت سلسلہ رہتا تھا۔۔۔ تو کمرے میں جگہ کی تنگی کی وجہ سے میں نے کتابوں کی الماری اوپر سٹور روم میں رکھوا دی ہے۔ تم ایسا کرو آج ہی انہیں لے جانے کا انتظام کر لو۔۔۔

میری نظر میں ماموں کی کتابوں سے کھچا کھچ بھری الماری گھوم گئی اور میں یہ سوچ کر پریشان ہو گئی کہ اتنی کتابیں آج ایک ساتھ کیسے لے جاؤں گی۔

میں نے ان سے کچھ نہ کہا اور اثبات میں سر ہلاتی ہوئی عمر کے ساتھ چھت پر بنے سٹور روم میں آ گئی۔

کتابوں کی الماری ایک کونے میں کھڑی تھی مگر اس میں کتابیں نہ تھیں بلکہ کچھ پرانے برتن اور گھر کا دوسرا فالتو سامان نظر ا رہا تھا۔۔

میں نے استفساری نظروں سے عمر کی طرف دیکھا مگر اس کا جواب آنے سے پہلے ہی میری نظر سٹور روم کے دوسرے کونے میں ناقدری سے پڑے اک ڈھیر پر جم گئیں۔

میں نے حیران ہو کر کہا۔۔ ماموں کی تو بہت ساری کتابیں تھیں۔۔۔۔

ہاں جب ابو بہت بیمار ہو گئے اور مطالعہ کرنے کے قابل نہ رہے تو ہم نے سوچا اب کون اتنی کتابیں سنبھالے گا ہم نے انہیں بیچ دیا۔۔۔ عمر نے لاپرواہی سے جواب دیا۔ کچھ کتابیں آپ کے لئیے روک لیں کیوں کہ ابو بار بار آپ کو کتابیں دینے کا ذکر کرتے تھے۔۔

کیا ماموں کو اس بات کا علم تھا۔۔۔ میں نے بڑی مشکل سے اپنے اندر اٹھنے والی تلخی کی لہر کو روکا۔

نہیں!! اگر ان کو اس بات کی بھنک پڑ جاتی تو وہ کبھی بھی ہمیں ایسا کرنے نہیں دیتے۔ آپ کو تو ان کی عادت کا علم تھا نا۔۔۔ ویسے بھی آخری وقت میں تو انہیں ہوش ہی نہیں رہتا تھا۔۔

ہائے میرے ماموں۔۔۔!!!! جن کتابوں کو انہوں نے اپنی اولاد کی طرح رکھا آج ان کی یہ بے قدری دیکھ کر میری آنکھیں بھیگ گئیں۔

نجمہ آپی آپ کیا سوچ رہی ہیں؟؟؟ اگر آپ یہ کتابیں نہ لے جانا چاہیں تو بتا دیں ردی والا میرا جاننے والا ہے میں ان کے آپ کو اچھے پیسے دلوا دوں گا۔۔۔ عمر نے پیشکش کی۔

نہیں نہیں!!! اب انہیں کیسے لے جایا جائے میں تو یہ سوچ رہی تھی۔۔۔ میں نے بہتے ہوئے آنسو پوچھے۔۔

کتابوں کو کیسے پیک کیا جائے، یہ مسئلہ عمر نے حل کیا۔ وہ الماری کے پیچھے حفاظت سے تہہ کر کے رکھے ہوئے دو ٹی وی کے خالی کارٹن نکال لایا اور میرے ساتھ مل کر ساری کتابیں پیک کروا دیں۔

میاں جی سے میں کتابوں کے بارے میں پہلے ہی تھوڑی سی حجت سے راضی کر چکی تھی۔۔۔ انہوں نے اس معاملے کو میری ایما پر چھوڑ دیا تھا۔۔

ممانی کے میکے سے بھی کچھ لوگ میرے شہر سے آئے ہوئے تھے۔ جن کی واپسی ہمارے ساتھ ہی تھی۔۔ سو کتابوں کو سامان کے ساتھ لے جانے کا مسئلہ بھی حل ہو ہی ہو گیا۔

دوسرے دن دفتر سے واپسی کے بعد کارٹن کو خالی کرواتے وقت میاں جی بولے۔ اچھا ہوا نجو تم یہ کتابیں کارٹن میں بھر لائیں۔۔۔۔ پتا ہے چلتے وقت عمر کیا کہہ رہا تھا۔۔

کیا کہہ رہا تھا؟؟؟۔۔۔ میں نے سر اٹھائے بغیر کام جاری رکھا۔۔۔

کہہ رہا تھا بھائی جان!! کارٹنز خالی ہو جائیں تو واپس بھجوا دیجئے گا۔ضرورت کی چیز ہیں کام آ جائیں گے کبھی نہ کبھی۔۔۔ کرب کی اک لہر میرے اندر دوڑ گئی۔۔۔۔ میں نے آہستہ سے پوچھا۔۔۔ پھر آپ نے کیا جواب دیا؟؟

میاں جی نے ہلکا سا قہقہہ لگایا اور بولے۔۔۔۔۔ میں نے کہا بھئی! ہم تمہارے گھر سے اتنی ردی اٹھا لے جا رہے ہیں۔۔۔ تو کارٹنز کے ہزار بارہ سو پر تو ہمارا ہی حق بنتا ہے نا۔

٭٭٭

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے