رمنی ۔۔۔ اسلم آزاد شمسی

آج طویل مدت کے بعد رمنی ملی، مجھے دیکھ کر مسکرائی تو میں بھی مسکرائے بغیر رہ نہ سکا، وہ کافی دنوں بعد اپنے گھر سے میکے آئی تھی۔۔
میں اس کے قریب گیا اور پوچھا ’رمنی! کیا سسرال میں اتنا من لگتا ہے جو تو اتنے دنوں بعد آئی ہے؟ کیا تجھے اپنی بوڑھی ماں اور بھائیوں کی یاد نہیں آتی؟‘
رمنی مسکراتے ہوئے بولی ’نہیں بھیا، ایسی بات نہیں ہے، ایک تو آپ لوگوں نے میری شادی اتنی دور کروا دی اوپر سے اب میری ساس بھی بوڑھی ہو چکی ہے، گھر کی اکلوتی بہو ہونے کے ناطے ذمہ داریاں بھی زیادہ ہیں رہی بات ماں اور بھائیوں کی تو فون پر باتیں کر کے مطمئن ہو جاتی ہوں۔ ‘
’اچھا رمنی! تو سسرال میں خوش ہے نا، تجھے وہاں کسی بات کی تکلیف تو نہیں ہے؟ تمہارا جھلسا ہوا چہرہ دیکھ کر کوئی طعنہ تو نہیں کستا؟‘
’نہیں بھیا! کسی بات کی کوئی پریشانی نہیں ہے سب لوگ اچھے ہیں سب پیار کرتے ہیں۔۔ میں سب کی خوب سیوا کرتی ہوں‘
’اچھا رمنی! بڑی بھاگیہ شالی ہے تو بھگوان تجھے ہمیشہ خوش رکھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ‘ یہ کہتے ہوئے میں آگے بڑھ گیا۔۔
رمنی کی باتیں سن کر مجھے خوشی تھی کہ اس نے بیتے دنوں میں جو دکھ اٹھائے تھے اب اس کا مداوا ہو گیا اور خوش اسلئے بھی تھا کہ اسے ایک ایسا گھر ملا ہے جہاں وہ آج خوش بھی ہے اور سکھی بھی۔۔
اس وقت رمنی کی عمر یہی کوئی ۱۴ یا ۱۵ برس کی رہی ہو گی، جب وہ اپنے لڑکپن سے قدم باہر نکال کر جوانی کی طرف بڑھ رہی تھی، رمنی خوبصورت تھی کسا ہوا سڈول بدن، خوبصورت لمبے کالے بال، ابھری ہوئی چھاتی اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رنگ سانولا تھا، پر قدرت نے رمنی کے چہرہ پر وہ قوتِ کشش رکھی تھی کہ لوگ اسے بس دیکھنا چاہتے تھے۔۔
رمنی اب سیانی ہو چکی تھی اور یہ بات شاید وہ اچھی طرح جانتی تھی کہ گاؤں جوار کے لفنگے چھوکروں کی ترچھی نظریں اس پر پڑنے لگی ہیں لیکن وہ اس بات سے بالکل انجان تھی کہ کچھ پکے اور تجربہ کار نظریں بھی اس کی جوانی کو ٹٹولتی ہیں۔۔ بھلا یہ بات وہ کیسے سمجھتی۔۔۔۔۔۔۔۔ رمنی ابھی دنیا داری کے دال سے بھی واقف نہ تھی۔۔
سنگھیسر کی چار اولاد میں رمنی سنجھلی ہے، بڑا بھائی حلوائی کے دوکان پر کام کرتا ہے اس سے چھوٹا آئس کریم بیچ لیا کرتا ہے اور سب سے چھوٹا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں وہ بھی حلوائی کے یہاں کام کرتا ہے۔۔
راما، شیاما، رمنی اور گنپت بس انہیں کے سہارے گھر چلتا ہے سنگھیسر کا، پر وہ اپنی بٹیا کو ہرگز دھندے پہ نہ لگاتا اگر اس کے دونوں بیٹے اپنی گاڑھی کمائی کو دارو میں نہ اڑاتے۔۔
میرے گاؤں میں وہ واحد گھر ہے جس کا چوڑیوں کا کاروبار ہے، ہر روز شام کو جب ہاٹ کا وقت ہوتا۔۔ سنگھیسر، اس کی بیوی اور اس کی بیوہ ماں سر پر ٹوکری لئے ہاٹ کی اور جایا کرتے تھے۔۔
مجھے بہت اچھی طرح یاد ہے جب ۱۹۹۰ء کی دہائی میں عید، بقر عید، شادی بیاہ اور دیگر خاص مواقع پر سنگھیسر کی بوڑھی ماں ہمارے گھر امی اور چاچی کو چوڑیاں پہنانے آیا کرتی تھی، اس کے بعد بھی لمبے عرصے تک ان کا یہی کاروبار رواں رہا اور گھر کا چولہا جلتا رہا۔۔
کبھی کبھی سنگھیسر کا چھوٹا بھائی راجو اپنی بوڑھی اماں کا چوڑیوں سے بھرا ٹوکرا ہاٹ سے اٹھا لایا کرتا تھا اور جانے انجانے اپنی فرمانبرداری کا ثبوت پیش کرتا۔۔
راجو، رمنی کا چاچا۔۔۔۔ وہی راجو جس کی ساری دنیا رمنی تھی اتنا پیار تو رمنی کو اس کے والد نے نہ دیا ہو گا جتنا کہ راجو نے دیا تھا جب رمنی چھوٹی تھی تو اس کا کوئی دن ایسا نہ گزرتا جس دن وہ رمنی کو سائیکل پر نہ گھماتا۔۔ اس کے لئے رمنی ہی سب کچھ تھی، پر اب وقت بدل چکا ہے۔۔ اب راجو کا اپنا کاروبار ہے۔۔ سنگھیسر کے تینوں بیٹے کماؤ ہیں اور اب نہ تو سنگھیسر ہی چوڑیاں بیچتا ہے اور نہ ہی اس کی بیوی۔۔ ہاں، پر وہ اب بھی ہاٹ جاتے ہیں، دونوں میاں بیوی اور ساتھ میں رمنی بھی، اب یہ لوگ بریڈ آملیٹ، پکوڑا اور سموسہ وغیرہ بیچا کرتے ہیں، یوں تو ہاٹ میں اس طرح کی اور بھی دوکانیں سجتی ہیں پر یہ دوکان خاص ہے۔۔ اس دوکان پر جتنی بھیڑ ہوتی ہے اتنی بھیڑ میں نے آسنسول قیام کے دوران رستوگی سویٹس میں بھی نہ دیکھی تھی اس بھیڑ میں دونوں طبقے کے لوگ ہوتے ہیں ایک وہ جن کی بھیڑ شام ہونے کے ساتھ ساتھ بڑھتی جاتی ہے اور دوسری وہ جن کی بھیڑ شروع میں لگتی ہے اور شام ڈھلنے کے ساتھ ساتھ گھٹتی جاتی ہے، بھیڑ میں ہر ذات، مذہب اور طبقے کے لوگ ہوتے ہیں یعنی کیا عام اور کیا خاص، کیا امیر اور کیا غریب۔۔ کیا غیرت والے اور کیا بے غیرت، پر ان سب لوگوں میں ایک بات تھی جو یکساں تھی۔۔ یہ وہ لوگ ہوا کرتے تھے جو رمنی کا پر کشش چہرہ، بھرے بھرے گال، ابھری ہوئی چھاتی اور مضبوط کسرتی بدن کی ایک جھلک پانے کو بے تاب رہتے تھے، بھیڑ میں کھڑا ہر شخص اس فراق میں ہوتا تھا کہ جب اس کا نمبر آئے تو سامان لینے میں جتنا ہو وقت زیادہ لگے تاکہ جی بھر کر رمنی کا دیدار کر سکیں، ایسی صورت میں زیادہ تر لوگ پیسے دینے میں تاخیر کرتے۔۔
یہاں کھڑے ہو کر لوگ اپنی اپنی عزت اور مرتبہ سب بھول جایا کرتے تھے، رمنی کی ابھری ہوئی چھاتی میں لوگ اس قدر محو ہو جاتے کہ وہ یہ بھی بھول جایا کرتے تھے کہ انھیں یہاں دیکھنے والے اور بھی لوگ ہیں، ان عزت دار لوگوں کی ترچھی اور پینی نگاہیں جن میں ہوس اور واسنا کے سوا کچھ نہ ہوتا تھا۔۔ رمنی کی عزت پر ہر روز حملہ آور ہوا کرتی تھی۔۔
حالانکہ رمنی ایسی لڑکی نہیں تھی، ابھی تک تو وہ صاف ستھری اور پاکیزہ تھی اس کا جسم کورا اور بے داغ تھا، اس کے والد سنگھیسر اور اس کی ماں اس بات سے انجان نہیں تھے پر شاید ان کی غربت و مسکنت تھی جو انہیں اس کڑوے گھونٹ کو پینے پر مجبور کر رہی تھی، اور شاید یہی سبب تھا کہ رمنی ہر روز شام کو اپنے والدین کے ساتھ ہاٹ جایا کرتی تھی اور دوکان پر بیٹھ کر شریف، عزت دار، مہذب، متمدن اور تعلیم یافتہ لوگوں کے لئے تفریح اور دل بہلانے والا سامان ثابت ہوتی تھی۔۔
آج تقریباً دو سال کا عرصہ بیت چکا ہے رمنی کو ٹھیک ہونے میں دو سال بیت گئے۔۔ وہ خوف ناک رات تھی جب رمنی کے چہرہ پر کچھ شر پسندوں نے تیزاب ڈالا تھا اور اپنی خباثت، بزدلی اور تنگ نظری کا ثبوت پیش کیا تھا۔۔ کھلے عام دستور کا مذاق بنایا تھا، ایک ایسی رات تھی جس کے محض یاد سے ہی بدن لرز جاتا ہے۔۔ اب سنگھیسر واپس اسی حالت میں آ گیا جہاں وہ آج سے پانچ سال پہلے تھا، اتنا ہی غریب ہو گیا جتنا پہلے تھا، پر ہمارا معاشرہ ابھی بھی زندہ ہے۔۔
رمنی کے علاج کے لئے گاؤں والوں نے خوب مدد کی تھی۔۔ آج رمنی کی شادی ہے۔۔ گھر پر نمنترن بھی آیا ہے، شام کا وقت تھا میں نے پانچ سو کا ایک نوٹ اپنی جیب میں رکھا اور رمنی کے گھر کی طرف بڑھ گیا۔۔ گھر کے سامنے ایک بڑا سا پنڈال لگا ہوا تھا جو رات کے اندھیرے میں روشنی سے شرابور تھا، چاروں طرف خوبصورت روشنی سے آس پاس جگ مگا رہا تھا۔۔ دور کہیں جنریٹر کے چلنے کی آواز آ رہی تھی جو گانے اور بینڈ پارٹی کے شور میں مانو گم سا ہو گیا تھا۔۔ سنگھیسر اور راجو نے مل کر شادی کا بندوبست کیا تھا۔۔ رمنی کے بھائی اور چاچا راجو سب پی کر ٹن تھے ان کے قدم بہک رہے تھے پر ہوش میں تھے۔۔
میں نے راجو سے پوچھا ’راجو زیادہ چڑھی تو نہیں؟‘
راجو بولا ’نہیں اتنے میں تھوڑی چڑھتی ہے‘
’پر آج شادی ہے۔۔ راجو! آج سمدھی سے گلے کیسے ملو گے؟‘ ’گلے؟ ارے گلے کون ملے گا سالے کو، اسے ایک لاکھ ستر ہزار گن کر دئیے ہیں! سالے نے ایک روپیہ کم نہیں رہنے دیا۔۔ سامان بھی چاہئے اور روکڑا بھی! کون ملے گا یار ایسے آدمی سے گلے؟ ہیں ؛ آپ ملیں گے؟ آپ؟‘
’نہیں نہیں!‘ میں نے پیچھے ہٹتے ہوئے کہا۔۔
راجو مسلسل نشے میں اناپ شناپ بکے جا رہا تھا؟
تھوڑی دیر بعد مجھے آواز سنائی دی ’اے ماسٹر صاحب اے ماسٹر صاحب سنئے نا‘ یہ راجو ہی تھا، جو مجھے بھیڑ سے الگ لے گیا
‘آپ جانتے ہیں نا مجھے، میں نے اپنے اوپر پچاس ہزار کا قرض لیا ہے۔۔ یہ جو دیکھ رہے ہیں نا آپ؟ یہ جنریٹر، بینڈ باجا اور یہ چمچماتی لائٹ یہ شامیانہ، میں نے۔۔۔۔۔۔ میں نے لگوایا ہے‘ کہتے ہوئے راجو گھر گیا اور ایک بوتل منہ میں لگاتے ہوئے واپس آ گیا۔۔ ’سالے نے ساری جمع پونجی ختم کروا دی، ایسے آدمی سے کوئی گلے ملتا ہے؟ ہٹ! کون ملے گا سالا۔۔۔۔۔۔‘ بڑبڑاتے ہوئے راجو واپس بھیڑ میں آ کر ناچنے لگا۔۔
صبح رمنی کی وداعی ہو رہی تھی۔۔ سب لوگ اسے دعائیں دے رہے تھے اور اس کے سکھی جیون کے لئے آشرواد، رمنی ایک ایک کر کے سب سے گلے مل رہی تھی۔۔ اس کی زور زور سے رونے کی آواز کئی لوگوں کو رلا رہی تھی۔۔ پر راجو وہاں نہیں تھا، گنپت راجو کو بلانے دوڑا پر پورے گھر میں وہ کہیں نہ ملا۔۔ یکایک گھر کے پیچھے سے کسی کے چیخنے کی آواز آئی اور سب لوگ خاموش ہو گئے، رمنی سب کو دھکا دیتے ہوئے کنویں کی اور بھاگی، بابا جی کے پرانے کنویں میں جو کئی سالوں سے ویران پڑا تھا راجو کی لاش تیر رہی تھی۔۔
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے