خالی مکان میں رہ جانے والے۔۔۔۔ آصف فرخی

 

وہ دیکھیے، اُدھر اس طرف … … .. سیدھے ہاتھ کو تین چار مکانوں کے فوراً بعد … … .. نظر آیا آپ کو؟ کوئی نہ کوئی وہاں سے گزرتے ہوئے اس کی طرف اشارہ کر کے اس کی بات ضرور کرتا ہے۔۔ پہلے پہلے وہ مکان نظر اس لئے نہیں آتا تھا کہ دوسرے مکانوں جیسا تھا۔۔ ان کے ساتھ کندھے سے کندھا، دیوار سے دیوار ملائے ہوئے اسی طرح کھڑا تھا۔۔ اس میں کوئی بات ایسی نہیں تھی کہ پتہ چلے اس میں کچھ ہے۔۔

ہاں، اس میں کچھ ہے۔۔ اس وقت گیٹ بند ہے اور دروازے کھڑکیاں بھی بند ہیں۔۔ دروازے کے سامنے کوئی نہیں ہے۔۔

زیادہ پرانا نہیں لگتا۔۔ اس کو بہت عرصہ نہیں ہوا ہو گا۔۔ گیٹ کا سیاہ رنگ اکھڑا نہیں ہے اور گیٹ کے سامنے پلاسٹک کی تھیلیاں، اخبار کے ٹکڑے، فروٹ جوس کے خالی ڈبّے اس طرح ہوا کے ساتھ اُڑ کر نہیں آ گئے جس طرح بہت عرصے سے بند رہنے والے مکانوں میں آ جاتے ہیں۔۔ یہاں کوئی نہ کوئی آتا ہو گا۔۔ مطلب یہ دروازہ کھُلتا ہو گا۔۔

مگر تم جو بتا رہے ہو وہ کچھ اور ہے۔۔ یہاں کوئی رہ نہیں پاتا۔۔ کرایہ دار آتا ہے، تھوڑے دن رہ کے چلا جاتا ہے۔۔ علاقے کے سارے سٹیٹ ایجنٹ اس کے بارے میں جانتے ہیں۔۔ اس مکان کا نمبر اور پتہ ان کے پاس لکھوایا ہوا ہے۔۔ مگر وہ اس مکان کو دکھاتے نہیں ہیں۔۔ خود ہی کہتے ہیں، کون اپنے کلائنٹ کو جانے بوجھے پھنسا دے پھر ان کی گالیاں کوسنے سمیٹتا پھرے۔۔ کوئی اس مکان کی لوکیشن دیکھ کر پوچھتا ہوا آ جاتا ہے۔۔ تو دن ہی دن میں دکھا بھی دیتے ہیں۔۔ چار پیسے بھی تو کمانے ہیں۔۔

لیکن ہر کلائنٹ کو مکان کی تفصیل نہیں معلوم ہوتی۔۔ یہاں کی بتّیاں بند رہتی ہیں، شیشے ٹوٹ جاتے ہیں۔۔ آپ جتنی بار بتّیاں جلا کر دیکھ لیں۔۔ ایک چمک سی آتی ہے اور اس کے بعد بلب فیوز ہو جاتا ہے۔۔ شیشے بھی اس طرح سلامت نہیں رہتے۔۔ کھڑکی میں اسی طرح چٹخنے، ٹوٹنے کے نشان کے ساتھ لگے ہیں۔۔ پھر کوئی کونا ٹوٹ کر گر جاتا ہے۔۔ بند کھڑکی میں جھری کھُل جاتی ہے۔۔

ایک وقت ایسا بھی آتا ہے، روزانہ آتا ہے، جب اس مکان کی ساری بتّیاں جل اٹھتی ہیں۔۔ خود بخود۔۔ بڑی تیز چمک کے ساتھ۔۔ پورا مکان جگمگا اٹھتا ہے۔۔ نیچے سے اوپر تک، اندر اور باہر، ہر بتّی۔۔ آتے جاتے لوگ بڑی حیرت سے دیکھتے ہیں۔۔ لیکن جو جانتے ہیں وہ کچھ نہیں کہتے۔۔

جس طرح جلی تھیں، اسی طرح ساری بتیاں بُجھ جاتی ہیں۔۔ ایک ایک کر کے نہیں، سب ایک ساتھ۔۔

کسی نے کچھ دیکھا نہیں ہے۔۔ خالی مکان میں کوئی گزر کر دیکھتا بھی نہیں ہے۔۔ مطلب یہ کہ چور اچکّے، کونے کھدروں میں جگہ ڈھونڈ کر ہیروئن کی پّنی جلا کر سونگھنے والے، گیند کی تلاش میں کرکٹ کھیلنے والے بچّے جو سڑک پر کھیل کی حدیں مقرّر کر لیتے ہیں … … . سوائے کبھی کبھار کے سٹیٹ ایجنٹ جو اس کے سوا کچھ نہیں کہتا کہ اسے اس سے زیادہ معلوم نہیں ہے۔۔

مکان کے نچلے حصّے میں سامنے کے رُخ پر دکانیں ہیں۔۔ وہ صبح سویرے اسی طرح کھُلتی ہیں اور دن بھر اسی طرح کام چلتا رہتا ہے۔۔ سڑک کے متوازی حصّے میں فرنیچر کا مارکیٹ بن گیا ہے۔۔ جو ریلوے لائن تک چلا جاتا ہے۔۔ جہاں گھر اور مکان کبھی رہے ہوں گے۔۔ وہاں دکانیں بن گئی ہیں، دکانیں کیا ہیں چھوٹے موٹے شوروم ہیں۔۔ میز کرسیاں اور پلنگ تلاش کرنے والے اسی علاقے کا رُخ کرتے ہیں۔۔ اس مکان کی بیرونی دیوار کے ساتھ کوئی نہ کوئی گاڑی کھڑی رہتی ہے۔۔ مگر زیادہ دیر کے لئے نہیں۔۔

دوکان والوں نے کبھی کوئی شکایت نہیں کی۔۔ باقی مکان سے ان کا تعلق بھی اتنا ہی ہے، رات کو دوکان کے شٹر گرا کر چلے جاتے ہیں اور صبح کے وقت کھول لیتے ہیں۔۔ ایک جھٹکے کے ساتھ شٹر کھولنے کی آواز آتی ہے اور اس کونے تک جاتی ہے جہاں مسجد کی دیوار کے ساتھ مٹھائی والا تھال سجائے بیٹھا ہے اور شام کو کڑھائی میں جلیبیاں تلتا ہے۔۔ کچھ لوگ مکان کے سامنے سے گزر کر مٹھائی والے کی دکان کی طرف جاتے ہیں اور وہاں کھڑے ہو جاتے ہیں۔۔

مکان کے باہر بورڈ نہیں لگا ہوا اور کسی کا نام نہیں لکھا۔۔ یوں اس کی شناخت باقی سارے مکانوں جیسی ہے۔۔

سارے شہر میں ایسے مکان ہیں۔۔ ہر محلّے میں۔۔ کوئی ان کی فہرست نہیں رکھتا، نہ ان کا کسی دفتر میں اندراج ہوتا ہے۔۔ جس کو ایک مکان بارے میں معلوم ہو، ضروری نہیں کہ اس کو دوسرے مکان کا پتہ بھی چل جائے۔۔ بس آتے جاتے، وہاں سے گزرتے ہوئے لوگ اس کی طرف دیکھتے ہوئے بھی نہیں دیکھتے اور اشارے سے بتاتے ہیں کہ اس مکان میں کوئی نہیں رہتا۔۔

کیوں؟ اس لئے کہ رہ نہیں پاتا۔۔

سب سے پہلے جس مکان کے بارے میں سُنا، وہ ناظم آباد میں تھا۔۔ میرا بچپن اس محلّے میں گزرا مگر اس مکان سے دور، آتے جاتے نظر آتا تو کوئی نہ کوئی ضرور بتاتا۔۔ وہ خالی نظر آتا، پھیکا اور بے رونق۔۔ اس کے بارے میں طرح طرح کی باتیں مشہور تھیں۔۔ اب جہاں فلائی اوور بن گیا ہے، پہلے وہاں سڑک تھی۔۔ اس سے سیدھے ہاتھ کی طرف جاؤ تو تین چار مکان چھوڑ کر دو منزلہ دور سے نظر آتا ہے۔۔ خالی تھا مگر ویران نہیں لگتا تھا۔۔ اس میں کوئی ایسی بات نہیں تھی کہ دوسرے مکانوں سے فرق کر سکے۔۔

’’کچھ نہیں ہے‘‘ میرے والد زور دے کر کہتے جب بھی میں ان سے اس خالی مکان کے بارے میں پوچھتا۔۔ ’’محلّے کے چند لوگوں نے مشہور کر دیا ہے۔۔ وہ کسی کو یہاں رستے بستے دیکھنا نہیں چاہتے۔۔ خالی رہے گا تو ان کو قبضہ کرنے میں آسانی ہو گی۔۔ پھر ایک دن اس کو ڈھا دیں گے، اس کی جگہ پلازا بنا دیں گے … … ..‘‘

وہ بہت یقین سے کہتے اور میں چکرا کر رہ جاتا کہ ان کی بات کو سچ مانوں یا پھر دوسرے لوگ جو کہتے ہیں۔۔

میں خود ایک ایسے مکان میں رہا ہوں۔۔ جب تک میں وہاں رہا، وہاں کچھ بھی نہیں تھا۔۔ میں بچّہ ہی تھا۔۔ مجھے پتہ ہے آپ کیا کہیں گے۔۔ لیکن ہمارے وہاں سے جانے کے بعد اس کے بارے میں سنا۔۔ پورا مکان بھی نہیں، صرف اتنا حصّہ۔۔ دو منزلہ مکان تھا، اچھے وقتوں کا بنایا ہوا۔۔ میرے نانا نے بنوایا تھا اور وہ میری نانی کے ساتھ نیچے والی منزل میں رہتے تھے۔۔

’’یہ سارا علاقہ خالی تھا۔۔ بہت سستے داموں زمین مل گئی تھی … … .‘‘ وہ ہر اس شخص کو بتاتے جو تھوڑا بہت بھی سُننے کے لئے تیار ہو جاتا۔۔ “ لالو کھیت سے یہ جگہ نظر آیا کرتی تھی۔۔ خالی بیابان۔۔ زمین پر جھاڑیاں اُگی ہوئی تھیں۔۔ جب یہاں مکان بنوانا شروع کیا تو کئی لوگوں نے کہا، چھجّن بھائی کو کیا ہو گیا ہے، ناظم آباد میں مکان بنوا رہے ہیں۔۔

مکان بن گیا۔۔ وہاں ہر طرف آبادی ہو گئی۔۔ مکان کے اوپری حصّے پر بڑی شان سے انہوں نے اپنا نام لکھوا لیا تھا۔۔ اب وہ لالو کھیت جانیو الی بڑی سڑک سے نظر نہیں آتا تھا۔۔ گلی میں عین سامنے پہنچ کر نظر آتا، اگر کوئی اس کے حوالے سے اسے نشانی بنا کر راستہ پوچھتا۔۔ اب لالو کھیت بھی نہیں رہا، اس کو بڑی عزّت کے ساتھ لیاقت آباد کہا جانے لگا۔۔

مگر وہاں کے مکان ویسے ہی رہے۔۔ اور گلیوں، بازاروں میں بھرے ہوئے بہت سے لوگ … … ..

پھر میرا اس طرف جانا کم ہو گیا۔۔ میرے والدین وہاں سے اٹھ آئے۔۔ اوپر کے حصّے میں اپنی شادی کے بعد ماموں ممانی رہنے لگے۔۔ وہ بتایا کرتے تھے، ممانی کہتی تھیں۔۔ ماموں نے تو کبھی کچھ نہیں کہا۔۔ وہ ویسے بھی کم بولتے تھے۔۔ دو کمروں کے بارے میں وہ کہتی تھیں۔۔ کوئی واضح بات نہیں، مکڑی کا جالا جیسے۔۔ آتے جاتے سایے۔۔ کوئی شکایت نہیں، نقصان نہیں۔۔ کسی چیز کے ٹوٹنے یا اپنی جگہ سے گر جانے کا معمول نہیں۔۔ ایسا بھی نہیں کہ گھر میں دکھ بیماری یا پریشانی بھری رہے، جس طرح عام گھروں میں ہوتا ہے اس کے معمول سے زیادہ۔۔ وہ لوگ وہاں رہتے رہے، ان کے بچّے پلے بڑھے۔۔ ہم بھی وہاں آتے جاتے رہے لیکن دیکھنے کے لیے کچھ بھی نہیں تھا۔۔

میز پر کانٹے چمچے بھی کم نہیں ہوتے تھے۔۔ اپنی جگہ سے لگائی ہوئی پلیٹیں بھی ٹوٹتی نہیں تھیں۔۔ سالن کے ڈونگے بھرے رہتے۔۔ کھانے میں برکت تھی۔۔ بس یہ احساس جیسے چلتے ہوئے آپ کو لگے کہ کوئی پیچھے پیچھے آ رہا ہے۔۔ اور پلٹ کر دیکھنے پر کوئی بھی نہ ہو۔۔

جہاں کوئی نہ ہو، وہاں کون ہوتا ہے؟ کوئی نہ کوئی۔۔

میری بھابی کی عادت ہے، جب کہیں باہر سے آتی ہیں اور گھر کا دروازہ کھولتی ہیں تو سب سے پہلے بلند آواز سے کہتی ہیں __ السلام علیکم! ۔۔

ارے بھئی، یہ خالی گھر میں سلام کیسا؟ میں نے کئی بار پوچھا۔۔

ہماری امّی نے یہی سکھایا تھا، پہلے پہلے وہ اتنا کہہ کر چُپ ہو جاتی تھیں۔۔ پھر بہت دنوں کے بعد انہوں نے بتا دیا جو امّی نے سُنا تھا۔۔

’’خالی گھروں میں کوئی ہوتا ہے۔۔ سلام کی آواز سُن کر پھر کچھ نہیں کہتے۔‘‘

’’وہ لوگ کون ہوتے ہیں؟ کیا وہ کہیں چلے جاتے ہیں؟‘‘ میں نے پوچھا۔۔

’’مجھے کیا معلوم … … .‘‘ وہ تھوڑا سا گڑبڑا گئیں۔۔ اصل میں، ان کو شاید اس سے زیادہ معلوم نہیں تھا۔۔

میں اتنا چھوٹا نہیں رہا تھا جب میرے نانا کا انتقال ہوا۔۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے۔۔ نانی کو وہ مکان پریشانی کے عالم میں چھوڑنا پڑا۔۔ نانا نہیں رہے مگر ان کا نام اس مکان کی پیشانی پر لکھا رہا۔۔ محلّے والے اس نام کے ذریعے سے پتہ بتایا کرتے تھے۔۔

لیکن جو لوگ اس مکان میں آئے تھے، وہ تنگ آ گئے۔۔ لیکن ان لوگوں سے ملنا جلنا کبھی نہیں رہا اس لئے اس کی شکایت معلوم نہیں ہوئی۔۔ بہت جلد وہ مکان بیچ کر کہیں اور چلے گئے۔۔

مکان بہت دنوں تک خالی پڑا رہا۔۔ شام کے وقت وہاں سے گھنگھرو بجنے کی آواز آتی ہے، محلّے کے کسی آدمی نے بتایا۔۔ بالکل اسی طرح جیسے کوئی آپ کو اطلاع دے کہ جس خاندان کو آپ نے چھوڑ دیا ہے وہاں مشکوک سرگرمیاں جاری ہیں۔۔

پھر بل ڈوزر آئے اور مکان کو ڈھا دیا۔۔ اس کی جگہ کئی منزلہ عمارت بن گئی۔۔ اس میں بہت سارے فلیٹ ہیں۔۔ ان میں سے کون سا فلیٹ اس جگہ ہو گا جہاں پہلے ممانی کا کمرہ تھا، میں نے اندازہ لگانا چاہا لیکن کچھ پتہ نہیں چلا۔۔ پھر میں نے وہاں سے گزرنا چھوڑ دیا۔۔

مکان کے سامنے املی کا پیڑ تھا۔۔ اس میں کتارے لگتے تھے تو محلّے کے بچے توڑ کر کھایا کرتے۔۔ یوں بھی کچھ نہ ہوتا تو بُکٹّا مار کر پتّے توڑ لیتے تھے۔۔ املی میں سفید سفید پھول آتے تھے۔۔ میری نانی املی کے پھولوں کو پکایا کرتی تھیں۔۔

مکان سے پہلے وہ پیڑ گرا دیا گیا۔۔ مجھے بہت بعد میں خبر ملی۔۔ فٹ پاتھ پر وہ جگہ بھی باقی نہیں رہی جہاں پہلے کبھی پیڑ ہو گا اور ہوا میں اس کی پتّیاں سرسرایا کوئی تھیں۔۔

جب میں اس مکان میں آیا تو یہ بالکل خالی تھا۔۔ الماریوں میں پرانے اخبار اور گیس کے بل رکھے ہوئے تھے، باورچی خانے میں استعمال شدہ جھاڑن اور صافیاں جو مکان کے گم شدہ ماضی کے گرد اور میل میں اٹے ہوئے تھے۔۔ ان سب کو پھینک دیا گیا۔۔

جس کمرے میں، میں نے بستر لگوایا اس کے دروازے پر اندر کی طرف لکھا ہوا، حضرت سلیمان علیہ السلام۔۔ کمپیوٹر پر کسی نے ٹائپ کر کے پرنٹ کروایا تھا۔۔ پرنٹ بھونڈا سا تھا مگر میں نے اسے نہیں اُتارا۔۔

یہ بات نہیں کہ مجھے کوئی وہم ہے۔۔ مگر کسی کو کیا پتہ۔۔ کبھی کبھی میری آنکھوں کے کونے سے ایک سایہ سا گزر جاتا ہے۔۔ کوئی پرچھائیں ہے یا وہم۔۔

شاہد وہ نظر کا دھوکا ہے یا بینائی کی کم زوری۔۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے