نہیں، رحمن بابو۔۔۔۔۔ جوگندر پال

( ۱)
نہیں رحمن بابو، تم خوامخواہ تعجب کر رہے ہو؟ میرے بھی تو ایک کی بجائے دو سر ہیں۔۔۔ کیسے؟۔۔۔۔ ایسے بابو، کہ اپنے ایک سر سے میں کچھ اچھا سوچتا ہوں اور ایک سے کچھ بُرا۔۔۔ ہاں اسی لئے کچھ اچھا ہوں، کچھ بُرا۔
ہر ایک کے ساتھ یہی تو ہوتا ہے۔۔۔۔نہیں، تم اس بچے کی ہئیت پر بلا وجہ تعجب کر رہے ہو۔ اس کے بھی دو سر ہیں تو کیا ہوا؟۔۔۔ ہاں بابو، راون کی طرح پورے دس سر ہوں تو ضرور تعجب کی بات ہے۔ مگر وہ تو کسی راون کے ہی ہوں تو ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۲)
رحمن بابو، اپنے یہ جوتے وہ یہاں بھول نہیں گیا۔ ہوا یہ کہ جیون کے کاہنوں نے اُس کے جوتے یہیں باہر کی دہلیز پر اتروا لئے۔ اور وہ ننگے پاؤں دہلیز کو پار کرکے باہر نکل گیا کہ ابھی لَوٹ آؤں گا۔۔۔۔ نہیں اُسے کیا معلوم تھا کہ کوئی ایک بار دہلیز پار کر جائے تو واپس نہیں آ سکتا۔
نہیں، بابو، باہر کا بھیتر ہمارے بھیتر کی طرح تھوڑا ہی ہے۔ باہر کا بھیتر تو بے اَنت ہے جس میں داخل ہو کر آدمی نا معلوم کہاں کھو جاتا ہے۔۔۔۔ ہاں، بابو، جب معلوم ہی نہ ہو کہ کہاں نکل آئے تو کوئی لَوٹے گا کہاں سے؟
۔۔۔ نہیں، وہ اب کبھی نہیں لَوٹے گا۔
ہاں، کیوں نہیں۔۔جوتے پورے آتے ہوں تو شوق سے پہن لو اور یہاں سے یہیں تک مزے سے جہاں چاہو گھومو پھرو۔۔۔۔ نہیں اپنی کھال سے باہر ہی نہیں نکلو گے تو کھوؤ گے کیسے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۳)
میں نے بھی آج کے اخبار میں یہ خبر دیکھی ہے رحمن بابو۔۔۔ ہاں یھیکہ تامل ناڈُو کے کسی علاقے میں بعض لوگ چوہے کھا کھا کر گزارہ کررہے ہیں۔۔۔۔ نہیں بابو، تامل سرکار نے بیان دیا ہے کہ اُن کے یہاں خوراک کی صورتحال اتنی بُری نہیں۔ ان لوگوں کو بس چوہے کھانے کی عادت پڑ گئی ہے۔۔۔۔ ہاں سرکار ٹھیک کہتی ہے بابو، مگر عادت بھی تو اُسی شے کی پڑتی ہے جو مل سکے۔ اگر اُن لوگوں کو صرف چوہے ملتے ہیں تو وہ دال روٹی کی عادت کیسے ڈالیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۴)
نہیں، رحمن بابو، اُسے پتہ بھی نہ چلا اور مذہبی جنونیوں نے اُسے ایک ہی وار میں ختم کر دیا۔۔۔ نہیں، اُس میں ایک سانس بھی نہ بچا تھا، مگر پھر کیا پیش آیا کہ جب اُسے قبر میں لٹا دیا گیا اور ہم اُس پر مٹی ڈالنے لگے تو وہ اچانک اٹھ کر بیٹھ گیا اور ہمارے سامنے ہاتھ جوڑ جوڑ کر منت سماجت کرنے لگا، خدارا میری جان مت لو۔۔۔ خدارا۔۔۔
نہیں، بابو، وہ سو فیصد مر چکا تھا مگر کیا ہوا کہ خوف کی شدت سے ہڑبڑا کر جی پڑا اور قبر میں بیٹھے بیٹھے فریاد کئے گیا۔۔۔۔ خدا کے لئے۔۔۔۔
نہیں، بابو، اُس وقت تو وہ بے خبری میں چل بسا تھا۔ اِس وقت اُسے خوف سے تھر تھر کانپتے ہوئے پا کر ہمیں یہی لگ رہا تھا کہ جان تو اُس کی اب نکل رہی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۵)
پھرکیا، رحمن بابو؟ ہم نے کسی ذی جان کی تلاش میں سارا سیارہ چھان مارا اور جب بسیار کوشش پر بھی کوئی نظر نہ آیا تو ہم اِس نتیجے پر پہنچے کہ مریخ میں کوئی بھی جاندار نہیں رہ رہا۔۔۔۔ ہاں یہ درست ہے کہ مریخ میں سبھی ایسے لوازم موجود ہیں جن کے باعث وہاں زندگی عین ممکن ہے، مگر کوئی ہوتا تو کہیں نہ کہیں تو دِکھ جاتا۔
اور پھر رحمن بابو، جب ہم مریخ سے اپنی زمین کی طرف واپسی کی تیاریوں میں جٹے ہوئے تھے تو یکبارگی ہمیں اجنبی قہقہوں کی آواز سنائی دی۔ ہم ٹھٹھک کر رہ گئے بابو۔ کون؟۔۔۔ ہم حواس مجتمع کرکے اِدھر اُدھر قہقہے لگانے والے کو دیکھنے لگے۔
ہمیں دیکھنے کی کوشش مت کرو۔۔۔ ہمیں سنائی دیا۔۔۔۔ہم بے وجود ہیں۔
بے وجود! ۔۔۔ کیسے؟
دیکھ ہی رہے ہو کیسے۔۔۔ ہم اسی لئے غیر فانی ہیں کہ ہمارے کوئی وجود نہیں۔
اگر تمہارے کوئی منہ نہیں تو بول کیسے رہے ہو؟
میں بول نہیں رہا۔۔ تم مجھے سُن رہے ہو۔
رحمن بابو، ہم تا دیر سکتے میں رہے، مگر ذرا سوچو تو اُس مریخی نے جھوٹ کیا کہا؟ ہمارے کرۂ ارض پر بھی تو ابدی زندگی اِسی طور ممکن ہے کہ آدمی اپنا وجود کھو کر ہمیں باطن میں محسوس ہوتا رہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۶)
تم سمجھتے کیوں نہیں، رحمن بابو؟ زندگی بھی تو پہاڑ کا پہاڑ ہے جس کی چوٹی ایک سیدھ میں اونچی ہوتی چلی جاتی ہے۔۔۔۔ ہاں میں بھی ساری عمر پھسل پھسل کر بالآخر یہاں چوٹی پر آ ہی پہنچا۔ مگر کیا فائدہ، بابو؟ میں نے کیا دیکھا کہ یہاں کوئی ایک شخص بھی آباد نہیں، جس سے فخر سے اچھل کر کہہ سکوں، دیکھو، پہنچ گیا ہوں۔۔۔۔ نہیں!
بابو کسی جھاڑی واڑی سے بھی مخاطب ہو کر کہنا چاہوں تو چوٹی پر قدم بھر ہی تو جگہ ہوتی ہے، اچھلنے سے پہلے ہی آدمی لڑکھڑا کر نیچے جا گرتا ہے۔
ہاں، بابو، ٹھیک کہتے ہو۔ چوٹیوں پر سینہ پھُلا کر اچھل کود کی گنجائش نہیں ہوتی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۷)
میری بات درمیان میں ہی رہ گئی رحمن بابو۔ آگے کی یہ ہے کہ سورگ سے جنت اتنی قریب ہے کہ یہاں پانچوں وقت کی اذان کی آواز صاف سنائی دیتی ہے۔ شری رام چندر نے گجرات کے قتل و غارت کی کہانیاں سُنیں تو اُن سے رہا نہ گیا اور دو قدم چل کر یہاں جنت میں آ پہنچے اور دیکھا کہ نوواردوں کی سہمی ھوئی آنکھوں میں گجرات ابھی تک چیخوں اور شعلوں میں دھجی دھجی اُڑ رہا ہے۔ نا معلوم شری رام چندرکو کیا سُوجھی کہ انہوں نے اُسی دَم احمد آباد میں گھری ایک مسلم خاتون کے یہاں جنم لینے کی ٹھان لی۔
نہیں، پہلے اور آگے بھی سُن لو بابو۔ شری رام چندر کی نیت بھانپ کر ایک سفید ریش مولانا سرعت سے ان کی جانب بڑھ آئے۔۔۔ نہ رام، نہ! ایسا مت کیجئے۔ وہ لوگ آپ کو پیدا ہوتے ہی پٹخ دیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۸)
ہمارا سپیس کرافٹ جب زمین کی کشش سے باہر خلا میں آ پہنچا رحمن بابو، تو میرے ساتھ ایک ایسی واردات پیش آئی جس کا کوئی سائنسی جواز میری سمجھ میں نہیں آ پا رہا۔۔۔۔ جونہی ہم خلا میں لڑھک آئے، اُسی دَم سے باہر تو ہماری زمین کی کشش مطلقاَ کام نہیں کر رہی تھی، مگر وہ ساری کی ساری میرے دل میں بھر آئی تھی۔ تم سائنس دان ہو رحمن بابو۔ بتا سکتے ہو، کیوں اور کیسے؟۔۔۔۔ ارے ہاں، یہ تو مجھے سوجھا ہی نہیں۔ تمہارا کہنا بجا ہے۔ میرا دل بدستور زمینی کشش کی حدود سے باہر نہیں آ پایا تھا۔ ہاں واقعی وہیں تھا، اسی لئے!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۹)
میں تمہیں کونسی مثال دے کر سمجھاؤں بابو، کہ ہم در اصل بیک وقت جی اور مر رہے ہوتے ہیں۔ ٹھہرو بابو، شاید اس مثال سے ہماری مشکل حل ہو جائے۔ کیا تم نے کسی دریا کو سمندر میں گرتے ہوئے دیکھا ہے؟ اور گرتے وقت کیا وہ آگے پیچھے ہونے کے باوجود بیک وقت نہیں ہوتا؟۔۔۔۔ ہاں، بابو، اِسی عمل سے تو زندگی اپنے آگے پیچھے سدا بہار ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱۰)
رحمن بابو، تم ناحق اِن بدیشی ایکٹروں کی اتنی تعریف کئے جا رہے ہو۔ وہ امریکی اگر فلم میں ہو بہو مہاتما گاندھی کا ہمشکل لگتا تھا تو کیا بڑی بات ہو گئی؟ ذرا ہمارے آج کے سیاسی بہروپیوں کے معجزے پر غور کرو جو اپنی یکسر الگ شکلوں میں بھی عین بعین مہاتما گاندھی معلوم ہوتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱۱)
میرے ساتھ اتنا عجیب واقعہ پیش آیا کہ تم یقین نہیں کرو گے بابو۔ میں اپنی ایک نئی کہانی لکھ رہا تھاکہ اچانک اِس میں ایک ایسا کردار آ داخل ہوا جو میری پچھلی کہانی میں ایک ہندو مسلم فساد میں قتل کیا جا چکا تھا۔ ہاں رحمن بابو، میں بھی اُسے بڑی حیرت سے دیکھے جا رہا تھا کہ وہ واقعی اپنا آپ ہے یا اپنا بھوت۔
تُم؟
ہاں پال صاحب، میں ہی تو! ۔۔۔ اُس نے مجھے یقین دلانا چاہا۔۔۔ اُنہوں نے میرے سامنے پہلے میری بوڑھی ماں کی جان لی پال صاحب، پھر میری بیوی سے زنا کرکے اُسے قتل کیا اور پھر میری چھ سالہ بچی کو موت کے گھاٹ اُتار دیا۔ ، جو اپنے ننھے منے ہاتھ جوڑ کر ناحق اُن کی منت سماجت کرتی رہی کہ مجھے چھوڑ دو۔
مگر تمہیں بھی تو۔۔۔۔
اُس نے مجھے ٹوک کر جواب دیا رحمن بابو۔۔۔ نہیں پال صاحب، آپ نے تو میری زندگی تک پوری کہانی لکھ دی، مگر مجھے مر کر بھی کیسے چین آئے؟ اب تو جو بھی کرنا ہے مجھے خود آپ کرنا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱۲)
اپنے آپ سے باہر نکلو رحمن بابو۔۔ ہاں، ٹھیک ہے، جینا تم ہی کو ہوتا ہے، مگر میرے بابو، جیا بھی تو دنیا کو ہی جاتا ہے، اپنے آپ کو نہیں۔۔۔ نہیں، باہر نکل آؤ!
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے