غزل پیمائی۔۔۔۔ اسرار جامعی

شاعری کا گرم سارے ملک میں بازار ہے

جس کو دیکھو وہ قلم کاغذ لئےتیار ہے

 

تیز بیکاری کی جتنی آج کل رفتار ہے

بس اسی درجہ فزوں غزلوں کی پیدا وار ہے

 

ہر گلی کوچے میں ہے شعری نششتوں کی دکاں

ذہن کو بیمار رکھنے کا یہ کاروبار ہے

 

مبتدی استاد تک بند و عطائی جو بھی ہے

شعر سازی کے جنوں میں مست ہے سرشار ہے

 

ایک پیالی چائے رکھ کر دوستوں کے درمیاں

بے تکی بحثیں ہیں گھنٹوں بے سبب تکرار ہے

 

جو بھی شاعر ہے اسے دیکھو تو ہفتوں قبل سے

بس ردیف و قافیہ سے بر سر پیکار ہے

 

قافیے جتنے لغت میں مل سکے سب چن لئے

ان کو مصرعوں میں کھپایا اور غزل تیار ہے

 

مولوی حالی ہوں یا مسٹر کلیم الدین ہوں

ان کی نظروں میں غزل بے ربطئی افکار ہے

 

پھر بھی ان پڑھ لوگ ہوں یا ہوں ادب کے ڈاکٹر

جانے کیوں اس شوخ چنچل سے سبھی کو پیار ہے

 

دور نو کا ہو سخن ور یا پرانی نسل کا

جس کو دیکھو محفلوں میں بس اس کا یار ہے

 

اک ادائے خاص سے اکڑے ہوئے بیٹھیں گے سب

جو بھی شاعر ہے بزعم خود بڑا فن کار ہے

 

شعر سننے سے زیادہ خود سنانے کے لئے

نفخ کی حالت میں ہیں بیتابئ اظہار ہے

 

بانس پر چڑھنا اترنا جس طرح کا کام ہے

یہ غزل پیمائی بھی ویسا ہی شغل اسرارؔ ہے

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے