غزلیں ۔۔۔ طالب جوہری

اُس کا ہر انداز سجیلا بانکا تھا
کچھ تو بتاؤ وہ خوش پوش کہاں کا تھا

ایک طرف سے کھلی ہوئی تھی شیر کی راہ
لیکن اس پر تین طرف سے ہانکا تھا

مت گھبرانا دوست، غبارِ ناقہ سے
ہم نے بھی اس دھول کو برسوں پھانکا تھا

اُس کے گھر سے نکل کر ہم نے شام ڈھلے
کچھ نہیں یاد کہ کتنے گھروں میں جھانکا تھا

***

وہ بوڑھا بھی کتنا دلکش بوڑھا تھا
یادوں کی دہلیز پہ چپکا بیٹھا تھا

ایک اندھیرے کمرے میں بوڑھا لڑکا
یادوں کی الماری کھولے بیٹھا تھا

شور مچاتے آنسو ٹپ ٹپ گرتے تھے
ہونٹوں پر اک کہر زدہ سناٹا تھا

ایک طرف پھن کاڑھے بیٹھی تھیں راتیں
ایک طرف پر شور دنوں کا میلا تھا

ٹوٹے پھوٹے چند کھلونوں کے ہمراہ
اک گوشے میں اس کا بچپن رکھا تھا

ہر شوخی پر ہر معصوم شرارت پر
ماں کے پاکیزہ آنچل کا سایہ تھا

کتنے آنچل اس کے لئے لہرائے تھے
کتنے رخوں نے اس پہ کرم فرمایا تھا

کیسے کیسے دوست سجیلے بانکے تھے
کیا کیا ان کے ساتھ میں گھومنا پھرنا تھا

پھر ماں کے اصرار پہ اک دن رات ڈھلے
اس کے شبستاں میں کوئی در آیا تھا

اس کو بوڑھا ہوتے دیکھ کے بھاگ گیا
اس کے اندر چھپا ہوا جو لڑکا تھا
٭٭٭

دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا
ہمیں یوسف کا سفر یاد آیا

میں نے تلوار پہ سر رکھا تھا
یعنی تلوار سے سر یاد آیا

وہ تری کم سخنی تھی کہ مجھے
بات کرنے کا ہنر یاد آیا

اے زمانے مرے پہلو میں ٹھہر
پھر سلامِ پسِ در یاد آیا

کسے اڑتے ہوئے دیکھا کہ تمہیں
اپنا ٹوٹا ہوا پر یاد آیا

آج میں خود سے ملا ہوں طالب
آج بھولا ہوا گھر یاد آیا
٭٭٭

خلوتِ بے نشان میں پھول کھلے نشان کے
وحشتِ دل بھی سو گئی چادرِ ماہ تان کے

اپنے لباسِ جاں پہ بھی صاحبو ٹک نظر کرو
ہنستے رہو گے کب تلک ہم کو غریب جان کے

خلوتیانِ کنج ہوش تشنہ لبانِ یم بہ دوش
میرے حریف تھے مگر لوگ تھے آن بان کے

موج بہ موج یم بہ یم بادِ مراد ساتھ تھی
ناؤ سے رد نہ ہو سکے فیصلے بادبان کے

تیری گلی میں جاگ کر ہم نے بھی جُگ بتائے ہیں
ہم پہ بھی فاش ہوں کبھی رنگ ترے مکان کے

کیا وہ نگاہِ رنگ و بو گاؤں سے کوچ کر گئی
گنگ ہے نیم کا درخت خشک ہیں کھیت دھان کے
٭٭٭
(برقی مجموعے ’خلوتِ جاں‘ سے)
http://kitaben.urdulibrary.com/Pages/khilwat.html

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے