غزلیں ۔۔۔۔ گلزار دہلوی

 

بٹھا کے دل میں گرایا گیا نظر سے مجھے

دکھایا طرفہ تماشہ بلا کے گھر سے مجھے

 

نظر جھکا کے اٹھائی تھی جیسے پہلی بار

پھر ایک بار تو دیکھو اسی نظر سے مجھے

 

ہمیشہ بچ کے چلا ہوں میں عام راہوں سے

ہٹا سکا نہ کوئی میری رہ گزر سے مجھے

 

حیات جس کی امانت ہے سونپ دوں اس کو

اتارنا ہے یہ قرضہ بھی اپنے سر سے مجھے

 

سبو نہ جام نہ مینا سے مے پلا بے شک

پلائے جا مرے ساقی یوں ہی نظر سے مجھے

 

جو بات ہوتی ہے دل میں وہ کہہ گزرتا ہوں

نہیں ہے کوئی غرض اہل خیر و شر سے مجھے

 

نہ دیر سے نہ حرم سے نہ میکدے سے ملا

سکون روح ملا ہے جو تیرے در سے مجھے

 

کسی کی راہ محبت میں بڑھتا جاتا ہوں

نہ راہزن سے غرض ہے نہ راہبر سے مجھے

 

ذرا تو سوچ حقارت سے دیکھنے والے

زمانہ دیکھ رہا ہے تری نظر سے مجھے

 

زمانہ میری نظر سے تو گر گیا لیکن

گرا سکا نہ زمانہ تری نظر سے مجھے

 

یہ رنگ و نور کا گلزارؔ دہر فانی ہے

یہی پیام ملا عمر مختصر سے مجھے

٭٭٭

 

اک بت بے وفا نے لوٹ لیا

مجھ کو تیرے خدا نے لوٹ لیا

 

آشنائی بتوں سے کر بیٹھے

آشنائے‌‌ جفا نے لوٹ لیا

 

ہم یہ سمجھے کہ مرہم غم ہے

درد بن کر دوا نے لوٹ لیا

 

ان کے مست خرام نے مارا

ان کی طرز ادا نے لوٹ لیا

 

حسن یکتا کی رہزنی توبہ

اک فریب نوا نے لوٹ لیا

 

ہوش و ایمان و دین کیا کہئے

شوخئ نقش پا نے لوٹ لیا

 

رہبری تھی کہ رہزنی توبہ

ہم کو فرماں روا نے لوٹ لیا

 

ایک شعلہ نظر نے قتل کیا

ایک رنگیں قبا نے لوٹ لیا

 

ہم کو یہ بھی خبر نہیں گلزارؔ

کب بت بے وفا نے لوٹ لیا

 

ہائے وہ زلف مشک بو توبہ

ہم کو باد صبا نے لوٹ لیا

 

ان کو گلزارؔ میں خدا سمجھا

مجھ کو میرے خدا نے لوٹ لیا

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے