جنگلی بوٹی۔۔۔۔ امرتا پریتم

انگوری میرے پڑوسیوں کے پڑوسیوں کے گھر، ان کے بڑے پرانے نوکر کی بالکل نئی بیوی ہے۔ نئی اس معنی میں کہ وہ اپنے شوہر کی دوسری بیوی ہے، سو اس کا پتی دو ہاجو ہوا۔ جون کا مطلب اگر جون ہو تو اس کا مطلب ہوا دوسری جون میں جانے والا آدمی، یعنی دوسری شادی کی جون میں۔ اور انگوری ابھی شادی کی پہلی جون میں ہی ہے، اس لئے وہ نئی ہوئی۔ دوسرے وہ اس بات سے بھی نئی ہے کہ اس کا گونہ ہوئے ابھی جتنے مہینے ہوئے ہیں، وہ سب مہینے ملا کر بھی ایک سال نہیں بنیں گے۔
پانچ چھ سال پہلے پربھاتی جب اپنے مالکوں سے چھٹی لے کر اپنی پہلی بیوی کی کریا کرنے کے لئے اپنے گاؤں گیا تھا، تو کہتے ہیں کہ کریا والے دن انگوری کے باپ نے اس کا انگوچھا نچوڑ دیا تھا۔ حالانکہ کسی بھی مرد کا انگوچھا بیوی کی موت پر آنسوؤں سے نہیں بھیگا ہوتا، چوتھے دن کریا کے دن نہا کر بدن پوچھنے کے بعد وہ پانی سے ہی بھیگتا ہے، لیکن گاؤں میں کسی لڑکی کا باپ جب یہ انگوچھا نچوڑ دیتا ہے تو یہ اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ اب وہ مرنے والی کی جگہ اپنی بیٹی دے رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ اب تمہیں رونے کی ضرورت نہیں، میں نے تمہارا آنسوؤں سے بھیگا ہوا انگوچھا بھی سکھا دیا ہے۔
اس طرح پربھاتی کی اس انگوری کے ساتھ دوسری شادی ہو گئی۔ مگر ایک تو ابھی انگوری بہت کم عمر تھی، دوسرے انگوری کی ماں کو گٹھیا بھی تھا۔ اس لئے گونے کی بات پانچ سال کے لئے ٹل گئی۔۔۔ پھر ایک ایک کر کے پانچ سال نکل گئے اور اس سال جب پربھاتی اپنے مالکوں سے چھٹی لے کر گونہ لینے گاؤں گیا تو ان سے کہہ گیا تھا کہ یا تو اپنی بیوی کو بھی وہ ساتھ میں لائے گا اور شہر میں اپنے ساتھ رکھے گا، یا پھر خود بھی واپس نہیں آئے گا۔ مالکوں نے پہلے تو انکار کیا کیونکہ ایک کی جگہ انہیں دو لوگوں کو کھانا دینا پڑتا لیکن جب پربھاتی نے یہ بات کہی کہ وہ کوٹھری کے پیچھے والی کچی جگہ کو پوت کر اپنا الگ چولہا بنائے گی اور اپنا کھانا خود پکا کر کھائے گی تو اس کے مالک یہ بات مان گئے تھے۔ سو انگوری شہر آ گئی۔
شہر آکر انگوری نے کچھ دن محلے کے مردوں سے تو کیا عورتوں سے بھی گھونگھٹ نہ کھولا تھا، لیکن پھر آہستہ آہستہ یہ گھونگھٹ مختصر ہوتا گیا۔ پیروں میں چاندی کی جھانجھر پہن کر چھنک چھنک کرتی ہوئی وہ محلے کی رونق بن گئی تھی۔ ایک جھانجھر اس کے پاؤں میں بجتی تھی ایک اس کی ہنسی میں۔ اگر چہ دن کا بیش تر حصہ وہ اپنی کوٹھری ہی میں گزارتی تھی، مگر جب بھی باہر نکلتی تو ایک رونق اس کے قدموں کے ساتھ ساتھ چلتی تھی۔
’’یہ کیا پہنا ہے انگوری؟‘‘
’’یہ تو میرے پیروں کی چھیل، چوڑی ہے۔۔‘‘
’’اور یہ انگلیوں میں؟‘‘
’’یہ تو بچھوا ہے۔‘‘
’’اور یہ بانہوں میں؟’’
’’یہ تو پچھیلا ہے۔۔‘‘
’’اور ماتھے پر؟‘‘
’’اسے علی بند کہتے ہیں۔۔‘‘
’’آج تم نے کمر میں کچھ نہیں پہنا؟‘‘
’’تگڑی بہت بھاری لگتی ہے۔ کل پہنوں گی۔ آج تو میں نے طوق بھی نہیں پہنا، اس کا ٹانکا ٹوٹ گیا ہے۔ کل شہر جاؤں گی، تب ٹانکا بھی لگواؤں گی اور ناک کی کیل بھی لاؤں گی۔‘‘
اس طرح انگوری اپنے چاندی کے زیور ایک ادا سے پہنتی تھی اور ایک نخرے سے دکھا تی تھی۔
پچھلے دنوں جب موسم بدلا تو اپنی چھوٹی سی کوٹھری میں انگوری کا دم گھٹنے لگا۔ کئی بار وہ میرے گھر کے سامنے آ کر بیٹھ جاتی تھی۔ میرے گھر کے آگے نیم کے بڑے بڑے پیڑ ہیں، اور ان پیڑوں کے پاس ذرا اونچی جگہ پر ایک پرانا کنواں ہے۔ محلے کا کوئی بھی شخص اس کنوئیں سے پانی نہیں بھرتا، مگر اس کے پار ایک سرکاری سڑک بن رہی ہے اور سڑک کے مزدور کئی بار اس کنوئیں کو چلا لیتے ہیں۔ اس سے کنوئیں کے گرد پانی گر نے کی وجہ سے یہ جگہ بڑی ٹھنڈی رہتی ہے۔
’’کیا پڑھتی ہو بی بی جی؟‘‘
ایک دن جب انگوری آئی تو میں نیم کے پیڑوں کے نیچے بیٹھی ایک کتاب پڑھ رہی تھی۔
’’تم پڑھو گی؟‘‘
’’مجھے پڑھنا نہیں آتا۔‘‘
سیکھ لو۔‘‘
’’نہ۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’پڑھنے سے عورتوں کو پاپ لگتا ہے۔۔‘‘
’’عورتوں کو پاپ لگتا ہے، مردوں کو نہیں لگتا؟‘‘
’’نہ، مرد کو نہیں لگتا۔‘‘
’’یہ تم سے کس نے کہا ہے؟‘‘
’’میں جانتی ہوں۔‘‘
’’لیکن میں تو پڑھتی ہوں، تو مجھے پاپ لگے گا؟‘‘
’’شہر کی عورت کو پاپ نہیں لگتا، گاؤں کی عورت کو پاپ لگتا ہے۔‘‘
میں بھی ہنس پڑی اور انگوری بھی۔ انگوری نے جو کچھ سیکھا، سنا ہوا تھا اس میں اسے کوئی شک نہیں تھا، اس لئے میں نے اس سے کچھ نہیں کہا۔ وہ اگر ہنستی کھیلتی اپنی زندگی میں سکھی رہ سکتی تھی، تو اس کے لئے یہی مناسب تھا۔ ویسے میں انگوری کے چہرے کا بغور جائزہ لیتی رہی۔ گہرے سانولے رنگ میں اس کے بدن کا مانس گتھا ہوا تھا۔ عورت آٹے کی لوئی ہوتی ہے۔ مگر کئی عورتوں کے بدن کا مانس اس پتلے آٹے کی طرح ہو تا ہے، جس کی روٹی کبھی گول نہیں بنتی۔۔ ا ور کئی عورتوں کے بدن کا مانس بالکل خمیری آٹے کی طرح ہوتا ہے، جسے بیلنے سے پھیلایا نہیں جا سکتا۔ کسی کسی کے بدن کا مانس اتنا سخت گندھا ہوتا ہے کہ روٹی تو کیا، پوریاں بیل لو۔۔۔ میں انگوری کے چہرے کی طرف دیکھتی رہی۔ انگوری کی چھاتی کی طرف، اس کی پنڈلیوں کی طرف۔۔۔ وہ اتنے سخت میدے کی مانند گندھی ہوئی تھی کہ اس کی مٹھریاں تلی جا سکتی تھیں۔ اس کا شوہر بھی میرا دیکھا ہوا تھا۔ ٹھنگنا قد، ڈھلکا ہوا منہ، الٹے سکورے جیسا۔ اب انگوری کا روپ دیکھ کر مجھے ایک عجیب سا خیال آیا کہ پربھاتی آٹے کی اس لوئی کو پکا کر کھانے کا حق دار نہیں۔ وہ اس لوئی کو صرف ڈھک کر رکھ سکتا ہے۔ اپنے اس خیال پر مجھے ہنسی آ گئی۔ لیکن میں انگوری کو اس خیال کے بارے میں کچھ بتانانہیں چاہتی تھی۔ اس لئے میں اس سے گاؤں کی چھوٹی چھوٹی باتیں کرنے لگی۔ ماں باپ کی، بہن بھائیوں کی اور کھیتوں کھلیانوں کی باتیں کرتے ہوئے میں نے اس سے پوچھا۔ ’’انگوری تمہارے گاؤں میں شادی کیسے ہوتی ہے؟‘‘
’’لڑکی چھوٹی سی ہوتی ہے، پانچ سات سال کی جب کسی کے پاؤں پوج لیتی ہے۔‘‘
’’کیسے پوجتی ہے پاؤں؟‘‘
’’لڑکی کا باپ جاتا ہے، پھولوں کی ایک تھالی لئے، ساتھ میں روپے اور لڑکے کے آگے رکھ دیتا ہے۔۔‘‘
’’یہ تو ایک طرح سے باپ نے پوج لئے، لڑکی نے کیسے پو جے؟‘‘
’’لڑکی کی طرف سے تو پوجے۔۔‘‘
’’مگر لڑکی نے تو اسے دیکھا بھی نہیں۔‘‘
’’لڑکیاں نہیں دیکھتیں۔‘‘
لڑکیاں اپنے ہونے والے خاوند کو نہیں دیکھتیں؟‘‘
’’نا۔‘‘
پہلے تو انگوری نے منع کر دیا، پھر کچھ سوچ سوچ کر کہنے لگی۔ ’’جو لڑکیاں محبت کرتی ہیں، وہ دیکھتی ہیں۔‘‘
تمہارے گاؤں میں لڑکیاں محبت کرتی ہیں؟‘‘
کوئی کوئی۔‘‘
’’ جو محبت کرتی ہیں، ان کو پاپ نہیں لگتا؟‘‘ مجھے اس کی وہ بات یاد آ گئی تھی کہ عورت کو پڑھنے سے پاپ لگتا ہے، اس لئے میں نے سوچا کہ محبت کرنے سے بھی پاپ لگتا ہو گا۔
’’پاپ لگتا ہے، بڑا پاپ لگتا ہے۔‘‘ انگوری نے جلدی سے کہا۔
’’اگر پاپ لگتا ہے تو پھر وہ محبت کیوں کرتی ہیں؟‘‘
’’یہ تو۔۔۔ بات یہ ہے کہ جب کوئی آدمی کسی لڑکی کو جنگلی بوٹی کھلا دیتا ہے تو وہ اس سے محبت کرنے لگتی ہے۔‘‘
’’کوئی کیا کھلا دیتا ہے اس کو؟‘‘
’’ایک جنگلی بوٹی ہوتی ہے، بس وہی پان میں ڈال کر یا مٹھائی میں ڈال کر کھلا دیتا ہے، لڑکی اس سے محبت کرنے لگتی ہے پھر اسے اس کے علاوہ اور کچھ اچھا نہیں لگتا۔‘‘
’’سچ۔‘‘
’’میں جانتی ہوں، میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔۔‘‘
’’کسے دیکھا تھا؟‘‘
’’میری ایک سہیلی تھی، اتنی بڑی تھی مجھ سے۔‘‘
پھر؟‘‘
’’پھر کیا؟ وہ تو پاگل ہو گئی اس کے پیچھے، شہر چلی گئی تھی اس کے ساتھ۔‘‘
’’تمہیں یہ کیسے معلوم کہ تمہاری سکھی کو اس نے بوٹی کھلائی تھی۔‘‘
’’نہیں کھلائی تھی تو پھر وہ اس سے محبت کیوں کرنے لگی؟‘‘
’’محبت تو یوں بھی ہو جاتی ہے۔۔‘‘
’’نہیں ایسے نہیں ہوتا، جس سے ماں باپ برا مان جائیں، بھلا اس سے محبت کیسے ہو سکتی ہے؟‘‘
’’تو نے وہ جنگلی بوٹی دیکھی ہے؟‘‘
’’میں نے نہیں دیکھی، وہ تو بڑی دور سے لاتے ہیں، پھر چپکے سے مٹھائی یا پان میں ڈال کر کھلا دیتے ہیں۔ میری ماں نے تو پہلے ہی بتا دیا تھا کہ کسی کے ہاتھ سے مٹھائی نہ کھانا۔‘‘
’’تو نے بہت اچھا کیا کہ کسی کے ہاتھ سے مٹھائی نہیں کھائی، لیکن تیری اس سہیلی نے کیسے کھا لی؟‘‘
’’پتہ نہیں، اپنی کرنی بھگتے گی۔‘‘
’اپنی کرنی بھگتے گی‘ کہنے کو تو انگوری نے کہہ دیا لیکن پھر شاید اسے سہیلی پر پیار آ گیا یا ترس آیا، دکھی لہجے میں کہنے لگی ’’باوری ہو گئی تھی بے چاری، بالوں میں کنگھا بھی نہیں کرتی تھی، راتوں کو اٹھ اٹھ کرگانے گاتی تھی۔‘‘
’’کیا گاتی تھی؟‘‘
’’پتہ نہیں، کیا گاتی تھی، جو بوٹی کھا لیتی ہے، بہت گاتی ہے، روتی بھی بہت ہے۔۔‘‘
بات گانے سے رونے پر آ گئی تھی اس لئے میں نے انگوری سے مزید کچھ نہیں پوچھا۔
اور ابھی کچھ دن پہلے ہی کی بات ہے۔ ایک دن انگوری نیم کے پیڑ کے نیچے چپ چاپ میرے پاس آ کر کھڑی ہو گئی۔ پہلے جب وہ آتی تھی تو چھم چھم کرتی بیس گز دور سے ہی اس کے آنے کی آواز سنائی دے جاتی تھی۔ مگر آج اس کے پیروں کی جھانجھر پتہ نہیں کہاں کھوئی ہوئی تھی۔ میں نے کتاب سے سر اٹھایا اور پو چھا۔ ’’کیا بات ہے انگوری؟‘‘
انگوری پہلے تو کچھ دیر مجھے دیکھتی رہی پھر آہستہ سے بولی۔ ’’ بی بی جی، مجھے پڑھنا سکھا دو۔۔‘‘
’’کیا ہوا انگوری؟‘‘
’’مجھے نام لکھنا سکھا دو۔۔‘‘
’’کسی کو خط لکھو گی؟‘‘
انگوری نے میرے سوال کا کوئی جواب نہیں دیا۔
پاپ نہیں لگے گا پڑھنے سے؟‘‘ میں نے پھر پوچھا۔
انگوری نے اس کا بھی کوئی جواب نہیں دیا اور ایک ٹک آسمان کی طرف دیکھنے لگی۔
یہ دوپہر کی بات تھی۔ میں انگوری کو نیم کے پیڑ کے نیچے بیٹھا چھوڑ کر اندر آ گئی۔ شام کو میں پھر کہیں جانے کے لئے باہر نکلی تو دیکھا، وہ اب بھی وہیں نیم کے پیڑ کے نیچے بیٹھی ہوئی تھی۔ بڑی سمٹی ہوئی سی۔ شاید اس لئے کہ شام کی سرد ہوا بدن کو کپکپا دینے والی تھی۔ میری طرف انگوری کی پشت تھی۔ اس لئے وہ مجھے نہ دیکھ سکی۔ اس کے ہونٹوں پر ایک گیت تھا، با لکل سسکی کی طرح-’’میری مندری میں لاگو نگینوا، ہو بیری کیسے کاٹوں جوبنوا۔۔‘‘
انگوری نے میرے قدموں کی آ ہٹ پر پلٹ کر دیکھا اور پھر گیت کو اپنے ہونٹوں میں سمیٹ لیا۔
’’تو تو بہت اچھا گاتی ہے انگوری!‘‘
مجھے صاف نظر آ رہا تھا کہ انگوری نے اپنی آنکھوں میں جھلملاتے آنسو روک کر ان کی جگہ اپنے لبوں پر ایک کانپتی ہوئی ہنسی رکھ دی ہے۔
’’ مجھے گانا نہیں آتا۔‘‘
’’آتا ہے۔۔‘‘
’’یہ تو۔۔۔‘‘
’’ تیری سہیلی گاتی تھی ؟‘‘
’’اسی سے سنا تھا۔‘‘
’’تو مجھے بھی سناؤ۔‘‘
’’ایسے ہی گنتی ہے سال کے مہینوں کی، چار مہینے سردی ہوتی ہے، چار مہینے گرمی اور چار مہینے برسات۔۔۔‘‘
’’ایسے نہیں، گا کر سناؤ۔۔‘‘
انگوری نے گایا تو نہیں، لیکن بارہ مہینوں کو اس طرح گنا دیا، گویا یہ سارا حساب وہ اپنی انگلیوں پر کر رہی ہو-
چار مہینے، راجا، ٹھنڈی ہووت ہے
تھر تھر کانپے کرجوا
چار مہینے، راجا، گرمی ہووت ہے
تھر تھر کانپے پونوا
چار مہینے، راجا، برکھا ہووت ہے
تھر تھر کانپے بدروا
’’انگوری۔۔۔ ؟‘‘
انگوری بغیر پلکیں جھپکائے میرے چہرے کی جانب دیکھنے لگی۔ میرا دل چاہا کہ اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر پوچھوں۔ ’ ’پگلی کہیں تو نے جنگلی بوٹی تو نہیں کھا لی؟‘
میں نے ہاتھ اس کے کندھے پر رکھا بھی، مگر یہ سوال پوچھنے کے بجائے میرے منہ سے نکلا ’’تو نے کھانا بھی کھایا ہے یا نہیں؟‘‘
’’کھانا۔۔۔؟‘‘ انگوری نے چہرہ اوپر اٹھا کر دیکھا۔ اس کے کندھے پر رکھے ہوئے ہاتھ کے نیچے مجھے محسوس ہوا کہ اس کا سارا بدن کانپ رہا تھا۔۔ ابھی ابھی اس نے جو گیت سنایا تھا، برسات کے موسم میں کپکپا دینے والے بادلوں کا، گرمی کے موسم میں کپکپانے والی لو کا اور سردی کے موسم میں کانپنے والے کلیجے کا، اس گیت کی ساری کپکپاہٹ انگوری کے بدن میں سمائی ہوئی تھی!
یہ مجھے معلوم تھا کہ انگوری اپنا کھانا خود ہی پکاتی تھی۔ پربھاتی مالکوں کی روٹی پکاتا تھا اور خود بھی وہیں پر کھاتا تھا، اس لئے میں نے پھر کہا۔۔ ’’تو نے آج کھانا پکایا ہے یا نہیں؟‘‘
’’ابھی نہیں۔۔‘‘
’’صبح کچھ کھایا تھا؟ چائے پی تھی؟‘‘
’’چائے؟ آج تو دودھ ہی نہیں تھا۔۔‘‘
’’آج دودھ کیوں نہیں لیا؟‘‘
’’وہ تو میں لیتی نہیں، وہ تو۔۔۔‘‘
’’تو روز چائے نہیں پیتی؟‘‘
’’پیتی ہوں۔۔‘‘
’’پھر آج کیا ہوا؟‘‘
’’دودھ تو وہ رام تارا۔‘‘
رام تارا ہمارے محلے کا چوکیدار ہے، ساری رات پہرہ دیتا ہے۔ صبح صبح نیند میں ہوتا ہے۔ مجھے یاد آیا کہ جب انگوری نہیں آئی تھی، سویرے سویرے وہ ہمارے گھروں میں چائے کا گلاس مانگتا تھا، کبھی کسی کے گھر کبھی کسی کے گھر اور چائے پی کر وہ کنوئیں کے پاس چار پائی ڈال کر سو جاتا تھا۔
۔۔۔ اور جب سے انگوری آئی تھی، وہ سویرے کسی گوالے سے دودھ لے آتا تھا، انگوری کے چولہے پر چائے کا پتیلا چڑھاتا تھا اور انگوری، پربھاتی اور رام تارا تینوں چولہے کے گرد بیٹھ کر چائے پیتے تھے۔ ساتھ ہی مجھے یاد آیا کہ رام تارا پچھلے تین دنوں سے چھٹی لے کر گاؤں گیا ہوا تھا۔
مجھے دکھی ہوئی سی ہنسی آ گئی، میں نے کہا۔ ’’اور انگوری، تم نے تین دن سے چائے نہیں پی؟‘‘
انگوری نے زبان سے کچھ نہ کہہ کر نفی میں سر ہلا دیا۔
’’کھانا بھی نہیں کھایا؟‘‘
انگوری سے بولا نہیں گیا، ایسا لگ رہا تھا کہ اگر اس نے کچھ کھایا بھی تھا تو وہ نہ کھانے جیسا ہی تھا۔۔
رام تارا کی تصویر میرے ذہن میں ابھر آئی۔ مضبوط پھرتیلے ہاتھ پاؤں، اکہرا بدن، ہلکے ہلکے ہنستی ہوئی اور شرماتی ہوئی آنکھیں اور زبان کے پاس بات کرنے کا ایک خاص سلیقہ۔
’’انگوری!‘‘
’’جی!‘‘
’’کہیں تو نے جنگلی بوٹی تو نہیں کھا لی؟‘‘
انگوری کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ ان آنسوؤں نے بہہ کر اس کے ہونٹوں کو بھگو دیا۔ انگوری کے منہ سے نکلنے والے الفاظ بھی بھیگے ہوئے تھے، ’’مجھے قسم ہے، جو میں نے کبھی اس کے ہاتھ سے مٹھائی کھائی ہو، پان بھی کبھی نہیں کھایا، صرف چائے۔ کیا پتہ اس نے چائے میں ہی۔۔۔‘‘
اور آگے انگوری کی ساری آواز اس کے آنسوؤں میں ڈوب گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭٭

One thought on “جنگلی بوٹی۔۔۔۔ امرتا پریتم

  • کچھ الفاظ اصل افسانے سے تبدیل ہیں۔۔ جیسے شانے کو کندھے کہا گیا، کچھ نظر نہیں آتا کو کچھ اچھا نہیں لگتا کہا گیا۔۔ الفاظ جیسے کے ویسے رہنے دیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے