ماں ۔۔۔ عبد الباسط احسان

ماں کی گود کتنا مضبوط قلعہ ہوتی ہے، وہ جگہ جہاں حالات کی بد نما گردش ٹھہر سی جاتی ہے۔۔

اس کے تصور میں ماں کا چہرہ تھا، دل کر رہا تھا، کہ وہ اپنی ماں کے پاس واپس چلا جائے، اس ملک میں واپس چلا جائے، جہاں بھوک تو ہے مگر ماں بھی ہے۔۔۔

یہ پرایا دیس جہاں لوگ بھوکے نہیں ہیں، اس دیس نے مجھے کبھی قبول نہیں کیا، یہاں کے لوگ مجھ جیسوں کو یوں دیکھتے ہیں، جیسے ہم بھکاری ہوں، جو بھیک کی غرض سے ٹھوکریں کھاتے کھاتے ادھر آ گئے ہوں۔۔۔۔۔۔۔

کتنا شوق تھا۔۔۔۔۔۔ کہ باہر جاؤں گا۔۔۔ دولت کماؤں گا۔۔۔ اپنی ماں کو حج کراؤں گا۔۔۔ مگر یہاں آیا تو معلوم ہوا، کہ میری دھرتی ماں اتنی بھی غریب نہ تھی، کہ مجھے بھوکا سلا دیتی۔۔۔۔۔

سامنے پولیس والے مشکوک افراد کی تلاشی لے رہے تھے، حکومت نے اعلان کر دیا تھا کہ غیر قانونی لوگوں کو دوبارہ ان کے ملک واپس بھیجا جائے۔۔۔۔۔

آج اس نے چھپنے کی کوشش نہیں کی۔۔ وہ اس دیس سے نکل جانا جاتا تھا، جس دیس میں مفرور قاتل جیسی زندگی گزر رہی تھی۔۔۔۔

اس سے پاسپورٹ مانگا گیا۔۔۔ اس نے انکار کیا۔۔۔۔۔۔ پولیس کے آدمی نے اس کی تلاشی لی۔۔۔۔

اس کے بٹوے میں اس کی ماں کی تصویر تھی۔۔۔۔

پولیس والے نے تصویر دیکھ کر پوچھا کہ یہ عورت کون ہے؟

وہ بولا میری ماں۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پولیس والے نے بٹوہ واپس کیا

اور چپکے سے وہاں سے نکل جانے کا اشارہ دیا۔۔۔۔

٭٭٭

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے