آصف فرخی۔۔۔۔ ڈاکٹر شمیم حنفی

 

(تشکر: اوراقِ سبز)

آصف سے میری ملاقاتوں اور مراسم کا سلسلہ 82 -1981 کی ایک خاموش سہ پہر کو شروع ہوا۔۔ گرمیاں رخصت ہو رہی تھیں۔۔ فضا میں ہلکی نمی تھی۔۔ دلی میں سردیوں کی آمد سے پہلے موسم بہت سہانا ہو جاتا ہے۔۔ اُس روز شاید خنکی کچھ زیادہ تھی۔۔ جامعہ نگر کا علاقہ یوں بھی، ان دنوں بقیہ دلی کی بہ نسبت خاصا سرسبز اور شاداب تھا۔۔ جمنا کے کنارے آباد ہونے کے باعث یہاں پھول بہت اُگتے تھے اور پرندے بہت آتے تھے۔۔ دریا سے ملحق علاقوں میں دور دور تک گلاب، گیندے اور گندم کے کھیت تھے۔۔ اراولی کی پہاڑیوں میں سانپ بہت تھے اور آس پاس کے کھیتوں کھلیانوں میں موروں کی یلغار کا سلسلہ گندم کی فصلیں پک جانے کے بعد مہینوں جاری رہتا تھا۔۔ آصف آئے تو انہوں نے ایک لمبا کوٹ پہن رکھا تھا۔۔ ہم نے کچھ بات چیت گھر پر کی، پھر جمنا کے پشتے کی طرف نکل گئے۔۔ ہماری گفتگو کے موضوعات صرف ادب تک محدود نہیں تھے۔۔

آصف کے افسانوں کی پہلی کتاب ’آتش فشاں پر کھلے گلاب‘ 1982ء میں شائع ہوئی۔۔ اُس وقت غلام عباس نے آصف کی کہانیوں کے واسطے سے یہ رائے قائم کی تھی کہ ”ان کی فکر میں تنوع ہے اور ان کے مشاہدے میں حقیقت پسندی۔۔ “ میرا خیال ہے کہ آصف کی تخلیقی اور ذہنی زندگی میں تا حال، ان کا سب سے بڑا ڈائلما ’’تنوع اور حقیقت پسندی‘‘ کی پیدا کردہ اسی صورت حال سے مربوط ہے۔۔ کسی آزمودہ اور تجربہ کار شخص کے لئے بھی ان حالات میں اپنے آپ کو منظم رکھنا مشکل ہوتا ہے، چہ جائے کہ ایک نوجوان جو پیشے سے ڈاکٹر ہو، طبیعتاً شاعر، جسے دنیا دیکھنے اور طرح طرح کے مشاہدات سے گزرنے کا شوق بھی ہو اور مزاج میں گرد و پیش سے بہت جلد اُکتا جانے اور اپنے آپ میں سمٹ جانے کی عادت بھی، جو جلسے جلوس، کانفرنسوں، مذاکروں، مباحثوں کے شور سے دور بھی نہ رہے اور اپنی تنہائی، خاموشی، ضبط کے حصار سے نکلنا بھی نہ چاہے، جس کے لئے ماضی صرف ماضی نہ ہو اور حال، حال کے علاوہ بھی بہت کچھ ہو۔۔ آصف کے یہاں حقیقت کو ایک اسطور کے طور پر دیکھنے کی جو روش شروع سے اب تک بدستور قائم دکھائی دیتی ہے، اس کا سبب شاید یہی ہے کہ وہ نہ تو حقیقت کی کوئی حد متعین کرنے پر آمادہ ہوتے ہیں، نہ گماں کو صرف گماں سمجھنے پر راضی ہیں۔۔ مظفر علی سید نے لکھا تھا:

’’آصف فرخی خطرناک حد تک تاز ہ کار ہے۔۔ خطرناک حد تک پڑھا ہوا جن ہے۔۔ خطرناک حد تک واقعیت شناس ہے۔۔ اور خطرناک حد تک بصیرت مند بھی۔۔ گویا کہ اس کی ذات میں وہ سب خطرے موجود ہیں جن کو مول لئے بغیر، تخلیقی اور تخئیلی فن کی ہوس زیادہ سے زیادہ شوقیہ فن کاری تک جا سکتی ہے۔۔ اپنے زمانے کے ساتھ اس کا رشتہ یک طرفہ نہیں۔۔ نہ تو اسے اپنے دور میں مدغم ہونا گوارا ہے اور نہ اس سے دائمی گریز۔‘‘

غیاب اور حضور کی ایک مستقل کیفیت ہے جو آصف کے شعور اور احساسات کے گرد چھوٹے بڑے دائرے بناتی رہتی ہے۔۔ ان کی کہانیوں میں، ان کی بات چیت میں، ان سے وابستہ حروف من و تو میں، سفرناموں اور جائزوں میں، یہاں تک کہ ان کی ظاہری شخصیت اور انداز و اطوار میں اعتماد کے ساتھ ساتھ بے یقینی، تکلف، احتیاط اور ضبط کا ایک عنصر حاوی رہتا ہے۔۔ اثبات بھی اور نفی بھی۔۔ واقعہ شناسی اور حقیقت پسندی کے باوجود، آصف کی کہانیاں جنہیں ان کے اظہار اور انکشاف ذات کا سب سے مربوط وسیلہ کہنا چاہیے، گو مگو کے دھوپ چھاؤں میں گھری نظر آتی ہیں۔۔ چیزیں اور لوگ انہیں ویسے نہیں لگتے جیسے کہ بہ ظاہر دکھائی دیتے ہیں۔۔ اسی لئے، آصف کی وہ کہانیاں جن کا طبیعی اور تاریخی حوالہ بہت معلوم اور متعین ہے، ان کی شہر بیتیاں اور شہر ماجرے بھی، صرف سیدھے سادے روایتی بیانیے نہیں ہیں۔۔ ہر کہانی میں دو کہانیاں ساتھ ساتھ چلتی ہیں، ایک وہ جو لکھنے والا بیان کر رہا ہے، دوسری وہ جو اشیا اور واقعات کی دھندلی یا تیز روشنی میں لکھنے والے کے عمل اور ردِ عمل سے مرتب اور مربوط ہوتی ہے۔۔ وہ چیزیں اور لوگ جنہیں لکھنے والا دیکھ رہا ہوتا ہے، اسے، بہرحال، چیزیں اور لوگ بھی تو دیکھ رہے ہوتے ہیں۔۔ لہٰذا اپنے حال سے اور گردو پیش کی دنیا سے آصف کا رشتہ یک طرفہ نہیں ہے۔۔

میرا خیال ہے ادب کی مشرقی روایت اور اسی کے ساتھ ساتھ مغربی روایت جسے ہم مجبوراً بین الاقوامی یا عالمی روایت کہنے لگے ہیں، ان سے آصف کے یکساں شغف کی وجہ بھی یہی ہے۔۔ بچوں کے ادب اور بوڑھوں کے ادب سے، قصص، ملفوظات، حکایات، داستانوں اور ان سب کے ساتھ ساتھ اپنے زمانے میں مرتب اور تعمیر ہوتی ہوئی ادبی روایت سے آصف کی دل بستگی تقریباً برابر کی ہے۔۔ آصف کے ہم عصر لکھنے والوں میں، کسی کے یہاں ماضی اور حال کا تصور اتنا کشادہ نہیں ہے اور کسی کے وجدان میں مجھے اتنی لچک کا احساس نہیں ہوتا۔۔ جاتک اور زین، کشف المحجوب اور جیمس جوئس، بورخیس، کنڈیرا، فلوبیر، پروست، ورجینیا وولف، نذیر احمد، سرشار اور انتظار حسین کو ایک دائرے میں سمیٹ لینا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔۔ آصف وحدت کی تلاش میں کثرت نظارہ سے نہ تو پریشان ہوئے، نہ اپنی جستجو سے گریز کی راہ اختیار کی۔۔ بغداد اور فلسطین پر اُنہوں نے دنیا زاد کے جو خاص نمبر نکالے ہیں اور اپنے باطن میں برپا اضطراب کے ساتھ ساتھ اپنے عہد کے عالم آشوب کا احاطہ جس دل جمعی کے ساتھ کیا ہے، اس سے ان کے تخلیقی تصور کی خود مختاری اور ان کی ذہنی آزادی، دونوں کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔۔ مجموعی طور پر یہ ایک حیران کن، زگ زیگ، بیک وقت معلوم اور نا معلوم کی جستجو رہی ہے۔۔ آصف کے ہم عصر یا جدید تر افسانہ نگاروں کی وہ خود فریب اور وا ماندہ نسل جو منٹو اور بیدی تک کو خاطر میں نہیں لاتی، اس رمزِ غریب کو سمجھنے سے قاصر ہے کہ ماضی میں حال کس طرح پیوست اور حال میں ماضی کس کس طریقے سے موجود ہوتا ہے۔۔ آصف کی اب تک کی زندگی کا جو اندوختہ اور ان کی تخلیقی تگ و دو کا جو حاصل ہمارے سامنے ہے، اس میں تنوع کے باوجود انتشار کی فضا تقریباً مفقود ہے۔۔ ان کی پہلی کتاب، کہانیوں کے مجموعے ’آتش فشاں پر کھلے گلاب‘ سے لے کر تا حال ان کی شاید آخری کتاب ’عالم ایجاد‘ تک، سارا قصہ دراصل ایک ہمہ جہت سلسلے کا ہے۔۔ بروئے شش جہت در آئینہ باز ہے۔۔ تاہم، آصف اپنے ناقص و کامل کے امتیاز کے حق و اختیار سے کبھی دست بردار نہیں ہوئے، چناں چہ ان کے ترجموں اور تخلیقات میں سطح کا فرق تو صاف جھلکتا ہے اور رفتہ رفتہ وہ اپنی تقلیدی روش سے نکلتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں، لیکن ایک وصف جو ان کی تحریر میں شروع سے اب تک، یکساں طور پر نمایاں رہا ہے وہ ایک گہرے تخلیقی انہماک اور فکری متانت کا رہا ہے۔۔ ایک پیاس ہے جو کبھی بجھتی نہیں۔۔ ایک نشہ ہے جو کہیں ٹوٹتا نہیں۔۔ ایک روح ہے کہ ہمیشہ سرگرداں نظر آتی ہے اور اظہار کی ایک طلب ہے جو اپنے آپ پر کبھی قانع نہیں ہوتی۔۔

جہاں بستیاں بازار بن جائیں اور سب کچھ بکنے کے لیے ہو، وہاں ادبی بصیرت اور آگہی کی حرمت کو بچائے رکھنا، ظاہر ہے کہ آسان نہ ہو گا۔۔ آصف نے بھی گردو پیش کی صورت حال کو مسئلہ بنائے بغیر ہمیشہ اپنے کام سے کام رکھا ہے۔۔ آج کی دنیا میں ادب سے ایسا سچا شغف رکھنے والے، ادب کو ایک شوقِ بے حساب کی صورت اپنانے والے، اپنی ذہنی زندگی اور تخلیقی سرگرمی میں منہمک رہنے والے کم ہوں گے۔۔ آصف نے ایک بے سمت اور کسی بڑے آدرش سے عاری اجتماعی زندگی کے جبر سے اپنے آپ کو بچاتے ہوئے، بازاری اقدار کی ماری ہوئی دنیا میں اپنے لئے ایک الگ دنیا جو وضع کر لی تو اسی لئے کہ ادب ان کے لئے آٹھوں پہر کا اور جاگتے سوتے، ہر عالم کا مشغلہ ہے۔۔ نئے لکھنے والوں میں ایسے بے تہہ اصحاب کی کمی نہیں جو نہ تو اپنے ماضی کا شعور رکھتے ہیں نہ اپنے حال کو اس کے مطلوبہ تناظر میں دیکھنے سمجھنے سے سروکار رکھتے ہیں۔۔ بہتوں نے نہ تو اپنے کلاسیک پڑھے ہیں نہ موجودہ ادبی منظر نامے کے ان نشانات پر نظر ڈالی ہے جن سے اپنے عہد کا ادراک مرتب ہوتا ہے۔۔ ان میں وہ عبرت ناک مخلوق بھی شامل ہے جو ماضی تو ماضی، حال کے اُس ادب کو بھی خاطر میں نہیں لاتی جس کے بغیر اس عہد کے ادبی مزاج اور شعور تک رسائی ممکن ہی نہیں۔۔ منٹو، بیدی، قرة العین حیدر، انتظار حسین، عبداللہ حسین اور نیر مسعود، کوئی بھی ان کے نزدیک قابلِ اعتنا نہیں۔۔ اس پس منظر میں آصف کی تخلیقی سرگرمی اور ترجمے، تالیف و ترتیب اور تنقید و تجزیے کے میدان میں ان کی مستقل ذہنی مصروفیت کی گواہی دینے والی تحریروں پر سرسری نظر بھی ڈالی جائے تو حیرت ہوتی ہے۔۔ آصف نے سوائے اپنے ادبی مذاق اور دیانت دارانہ تخلیقی ادراک کے، اپنے آپ پر کوئی حد مقرر نہیں کی۔۔ ماضی اور حال، مشرق اور مغرب، قدیم و جدید، وہ کسی تقسیم کو قبول نہیں کرتے۔۔ کسی بے معنی اور لا حاصل بحث میں نہیں اُلجھتے، کسی نظریاتی تصادم کے پھیر میں نہیں پڑتے۔۔ یہ رویہ ان کے شعور میں ادب کی آزادی اور خود مختاری کے احساس کا پیدا کردہ ہے اور اس سے اُس شائستہ اور مستحکم ذہنی تعہد کا بھی اظہار ہوتا ہے جو کسی بھی بے لوث ادیب کے یہاں اپنی روایت اور اپنی بصیرت کے تجزیے کے بغیر رونما نہیں ہوتا۔۔

٭٭٭

آصف فرخی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے