مشتاق احمد یوسفی۔۔۔۔ مجتبیٰ حسین

بات پر سنجیدگی سے غور کرتے رہتے ہیں کہ اردو کے بیشتر سرکردہ مزاح نگار اور طنز نگار جو اپنی تحریروں میں نہایت چوکس، زیرک، مستعد، چالاک، ہوشیار، باخبر بلکہ سفاک تک نظر آتے ہیں، وہ اپنی عملی زندگی میں اتنے ہی سادہ لوح، بے لوث، شریف، نیک، مخلص، بے نیاز، بے ریا بلکہ معصوم تک کیونکر دکھائی دیتے ہیں۔۔ کرشن چندر، کنہیا لال کپور، ضمیر جعفری، فکر تونسوی اور یوسف ناظم وغیرہ سب کو نہ صرف دیکھ چکے ہیں بلکہ انہیں برت بھی چکے ہیں۔۔ سب کے سب نہایت سادہ دل اور مخلص بندے نظر آئے۔۔ رشید احمد صدیقی، ابن انشاء شفیق الرحمن، کرنل محمد خاں وغیرہ کے بارے میں بھی لوگوں سے سنا کہ عملی زندگی میں یونہی سے انسان تھے۔۔ اس تضاد پر بہت غور کیا تو اس نتیجہ پر پہنچے کہ طنز نگار جن برائیوں یا جن بے اعتدالیوں کو اپنے طنز کا نشانہ بناتا ہے، ان سے وہ اپنی عملی زندگی میں بھی اجتناب برتتا ہے اور اپنے فعل کو خود اپنے قول کے مطابق رکھتا ہے۔۔ اور لوگ تو اپنا ضمیر تک بیچ دیتے ہیں لیکن یہ اپنا، مافی الضمیر، تک بیچنے کیلئے تیار نہیں ہوتا۔۔ ایسے موقعوں پر ہمیں اپنا ہی ایک جملہ اکثر یاد آتا ہے کہ ظرافت نگاری کے لئے آدمی کا ظریف ہونا ہی کافی نہیں ہوتا بلکہ اس کا باظرف ہونا بھی نہایت ضروری ہوتا ہے۔۔

یہ بات ہم اس لئے کہہ رہے ہیں کہ پچھلے دنوں پورے سولہ برس بعد اردو کے سب سے بڑے مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی سے واشنگٹن میں ہماری ملاقات کی سبیل نکل آئی۔۔ واشنگٹن امریکہ کا صدر مقام تو ہے ہی ہمارا بھی صدر مقام ہے۔۔ امریکہ میں کہیں بھی جاتے ہیں تو پھر لوٹ کر یہیں آ جاتے ہیں۔۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہاں ہمارا کوئی وہائیٹ ہاؤز ہے بلکہ وجہ اس کی یہ ہے کہ یہاں ہمارے چھوٹے بھائی ڈاکٹر اصغر حسین رہتے ہیں۔۔ یوسفیؔ جلسوں و محفلوں اور بھیڑ بھڑکوں سے ہمیشہ دور رہتے ہیں۔۔ نہایت کم آمیز، کم گو، اپنے آپ میں بند چھوئی موئی سی شخصیت ہیں۔۔ ایک مہینہ پہلے جب ہمیں پتہ چلا تھا کہ یوسفیؔ واشنگٹن کی تین تنظیموں آواز ٹیلی ویژن، بزم ادب اور کراچی المنائی اسوسی ایشن کی دعوت پر واشنگٹن آنے والے ہیں تو خود ہمیں بھی اس معجزے پر حیرت ہوئی تھی۔۔ یہ الگ بات ہے کہ امریکہ میں ان کی ایک صاحبزادی بھی رہتی ہیں۔۔ یوسفیؔ برطانیہ میں، جہاں انہوں نے اپنی زندگی کے گیارہ برس گزارے ہیں اور جہاں ان کی ایک اور صاحبزادی رہتی ہیں، کچھ دن قیام کرنے کے بعد اپنی اہلیہ کے ہمراہ امریکہ آئے ہیں۔۔ لندن میں ہی ہمارے احباب نے انہیں بتا دیا تھا کہ ہم ان دنوں امریکہ میں ہیں۔۔ واشنگٹن میں ہم ایک عام تماشائی اور ان کے ایک ادنیٰ پرستار کے طور پر ان کے اعزاز میں منعقد ہونے والی تقریب میں شرکت کرنا چاہتے تھے۔۔ تقریب سے ایک دن پہلے وائس آف امریکہ کے ڈاکٹر معظم صدیقی سے تقریب کی داعی فیروزہ صلاح الدین کا فون نمبر حاصل کر کے مشتاق احمد یوسفی کی آمد کے بارے میں پوچھا تو کہنے لگیں ’یوسفی صاحب آ چکے ہیں۔۔ اس وقت میرے گھر پر ہیں اور آپ کے بارے میں دریافت کر رہے ہیں۔۔ کیا ہی اچھا ہو کہ آج رات کا کھانا آپ ہمارے ساتھ کھائیں‘‘۔۔ افسوس کہ اس رات ہمیں چند گھنٹوں کے لئے رچمنڈ جانا تھا۔۔ غرض یوسفی صاحب سے سولہ برس بعد فون پر بات ہوئی۔۔ کہنے لگے ’’اگر آپ کل تقریب سے کچھ دیر پہلے ہی آ جائیں تو وہاں بھی ملاقات ہو سکتی ہے‘‘۔۔ اتفاق سے اس وقت ہمارے دو عزیز دوست افتخار عارف اور امجد اسلام امجد بھی فیروزہ صلاح الدین کے ہاں موجود تھے جو اسی وقت پاکستان سے امریکہ پہنچے تھے۔۔ دونوں سے بھی فون پر باتیں ہوئیں۔۔ افتخار عارف جو مقتدرہ قومی زبان پاکستان کے چیرمین ہیں، اب اکیڈیمی ادبیات پاکستان کے چیرمین بھی بن گئے ہیں۔۔

امجد اسلام امجد نے کہا ’’یار تم اسی وقت کیوں نہیں آ جاتے‘‘۔۔ اس پر ہم نے امجد سے کہا ’’یار تم تو کئی بار امریکہ آ چکے ہو۔۔ تم تو جانتے ہو کہ باہر سے جو کوئی بھی یہاں آتا ہے تو وہ ’میّت‘ میں تبدیل ہو جاتا ہے۔۔ باہر سے یہاں آنے والے کی حالت بالکل میّت جیسی ہو جاتی ہے کیونکہ جب تک میت کو اٹھایا نہ جائے وہ کہیں جا نہیں سکتی‘‘۔۔ امجد نے اس بات پر زور دار قہقہہ لگایا۔۔ پھر کہا ’’یہاں چار کندھوں کے بجائے موٹر کے چار پہیوں کی حاجت تو ضرور پیش آتی ہے‘‘۔۔ طئے یہ ہوا کہ دوسرے دن علی گڑھ اولڈ بوائز اسوسی ایشن کے ڈاکٹر عبد اللہ ہمیں اور ڈاکٹر اصغر حسین کو لے کر پہلے آواز ٹیلی ویژن کے سربراہ ندیم خان کے گھر جائیں گے جہاں افتخار عارف اور امجد اسلام امجد مقیم ہیں، پھر وہیں سے جلسہ گاہ کی طرف جائیں گے۔۔ یوسفی صاحب کا قیام ایک ہوٹل میں تھا۔۔ 17 جون کو ہم وقت سے پہلے جلسہ گاہ میں پہنچے تو منتظمین نے کہا کہ یوسفی صاحب کب کے آ چکے ہیں اور آپ کو پوچھ رہے ہیں۔۔ سولہ برس بعد یوسفی صاحب سے مل کر، انہیں دیکھ کر کتنی خوشی ہوئی، اس کا حال ہم کیسے بیان کریں۔۔ لندن میں ان کے ساتھ گزارے ہوئے سارے لمحے یاد آئے۔۔ اتنے طویل عرصہ بعد یوسفیؔ ہمیں تو بالکل صحیح سالم نظر آئے۔۔ اگرچہ کچھ دبلے ہو گئے ہیں۔۔ بال بھی کچھ زیادہ کالے ہو گئے ہیں، البتہ چہرہ پر وہی تازگی اور بشاشت برقرار ہے۔۔ یوسفی اپنی تحریروں میں اپنی کمزور صحت اور اپنی علالتوں کا بڑی محبت کے ساتھ اکثر ذکر کرتے رہتے ہیں۔۔ خیال آیا کہ ایسی صحت مند بیماریاں سب کو نصیب ہوں تو کیا کہنے۔۔ یوسفی بہت محبت سے ملے اور ہمیں گلے سے لگا لیا۔۔ یوسفی اس بات سے بہت رنجیدہ تھے کہ پچھلا سال اردو طنز و مزاح کے حق میں بہت برا ثابت ہوا کیونکہ ضمیر جعفری، کرنل محمد خاں اور شفیق الرحمن دیکھتے ہی دیکھتے مرحوم ہوئے۔۔ شفیق الرحمن کے بارے میں یہ انکشاف بھی کیا کہ نوجوانی میں اُن کی عین تمنا یہ رہتی تھی کہ کاش وہ بھی شفیق الرحمن کی طرح تحریر لکھ سکیں۔۔ بہت کوشش کی لیکن ان کی طرح لکھ نہیں پائے۔۔ نتیجہ میں چھ سات برس تک کوئی تحریر نہیں لکھی (اب ہم یوسفی کو کیسے بتاتے کہ شروع میں ہماری بھی عین تمنا یہ تھی کہ ہم یوسفی کی طرح لکھ سکیں۔۔ نتیجہ میں آج تک کچھ نہیں لکھ پائے۔۔ ) طنز و مزاح کی موجودہ عالمی صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے جارج میکش کا قول دہرایا کہ مغرب میں مزاح مر چکا ہے۔۔ اس پر ہم نے کہا ’’لیکن مشرق میں تو آپ نے اسے اب تک زندہ رکھا ہوا ہے‘‘۔۔ حسبِ معمول مسکرا کر خاموش ہو گئے۔۔ پھر خود ہی ہمارے بارے میں فرمانے لگے ’’حضرت! آپ کی تحریریں نظر سے گزرتی رہتی ہیں۔۔ آپ میں تین خوبیاں ہیں۔۔ اول تو یہ کہ آپ قلم برداشتہ لکھتے ہیں، دوسرے یہ کہ آپ کے ہاں تکرار کا عمل نہیں ہے اور تیسرے یہ کہ آپ کی تحریروں میں تر و تازگی برقرار ہے‘‘۔۔ ہم شرم سے پانی پانی ہونے لگے تو بولے ’’میری ایک بات مانئے اپنی تحریروں کا ایک ضخیم مگر کڑا انتخاب شائع کیجئے‘‘۔۔ (یہ ایک اتفاق ہے کہ ابھی پچھلے ہفتہ ہمارے دوست حسن چشتی نے ہماری تحریروں کا ایک انتخاب شائع کرنے کا بیڑہ اٹھایا ہے)۔۔ یوسفی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طالب علم رہ چکے ہیں۔۔ لہذا علی گڑھ کا حال پوچھا۔۔ اپنے ہم جماعت مظفر حسین برنی، سابق گورنر ہریانہ کی خیریت بطور خاص پوچھی۔۔ یوسفی نے اب تک اردو ادب کو چار کتابیں دی ہیں۔۔ ان کی لازوال کتاب ’آبِ گم‘ کو چھپے ہوئے دس برس بیت چکے ہیں۔۔ یوسفی نے بتایا کہ ان دنوں وہ ایک ناول لکھنے میں مصروف ہیں۔۔ یہ کب مکمل ہو گا اس کے بارے میں ہم نے کچھ نہیں پوچھا کیونکہ یوسفی جس اہتمام کے ساتھ لکھتے ہیں اس کیلئے بڑا حوصلہ چاہئے۔۔ ایک ایک لفظ نپا تلا، ہر جملہ سجا سجایا، ہر پیراگراف کسا کسایا۔۔ ان جیسا انشاء پرداز اب اردو میں کوئی اور نہیں ہے۔۔ یوسفی اپنی ہر کتاب کے بیچ کم از کم دس برس کا وقفہ ضرور دیتے ہیں۔۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ وہ نہ صرف اپنے آپ سے مخلص ہیں بلکہ اپنے فن سے بھی مخلص ہیں اور اس کے بعد اپنے معاشرہ اور ساری عالمی برادری سے بھی مخلص ہیں۔۔ کراچی المنائی اسوسی ایشن کی یہ تقریب نہایت پر شکوہ تھی جس میں امریکہ میں پاکستان کی سفیر محترمہ ملیحہ لودھی کے علاوہ امریکہ میں مقیم پا کستان کی کئی مقتدر ہستیاں بھی موجود تھیں۔۔ اس تقریب میں یوسفی نے ہم جیسے ادنی مزاح نگار کی ہمت افزائی یوں فرمائی کہ جب حاضرین کو مخاطب کرنے آئے تو سب سے پہلے اس کمترین کا نام لیا۔۔ کیسے بتائیں کہ یوسفی کی اس بڑائی کے آگے ہم نے اپنے آپ کو کتنا چھوٹا محسوس کیا۔۔ یہ ان کی اعلیٰ ظرفی کا ثبوت تھا۔۔ یوسفی نے سوا گھنٹہ تک اپنی تحریر کا جادو جگایا اور اپنے مختلف مضامین کے اقتباسات سنائے۔۔ سامعین نے ان کے ہر جملہ پر اس طرح داد دی جیسے شعر پر دیتے ہیں۔۔ امریکہ کے اردو داں حضرات جو آئے دن کے مشاعروں میں شاعروں کے برسوں پرانے کلام کو سن سن کر اوب چکے ہیں، سوچنے لگے ہیں کہ کیوں نہ اب نثری محفلوں کے انعقاد کا اہتمام کیا جائے۔۔ یوسفی ان انشاء پردازوں میں سے ہیں جو اپنی زندگی میں ہی ایک ’لیجنڈ‘ بن چکے ہیں۔۔ فراق گورکھپوری کی ایک غزل کا مقطع ہے۔۔

آنے والی نسلیں تم پر فخر کریں گی اے ہم عصرو

اُن کو جب معلوم یہ ہو گا تم نے فراق کو دیکھا تھا

یوسفی کو ہم نے دیکھا، ان سے باتیں کیں، یہ ہمارے لئے ایک اعزاز نہیں تو اور کیا ہے۔۔ (25 جون 2000ء)

٭٭٭

 

One thought on “مشتاق احمد یوسفی۔۔۔۔ مجتبیٰ حسین

  • اردو کے ایک صاحبِطرز طنزومزاح نگار کا عصرِحاضر کے سب سے عظيم نثر نگار اور مایہ ناز طنزومزاح نگار کے فن کو مختصر لیکن جامع خراجِ تحسين !

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے