زرقا الیمامہ۔۔۔ غلام ابن سلطان

بابا فتح خان اور اس کی اہلیہ باختر کا شمار اقلیم معرفت کے پُر اسرار افراد میں ہوتا تھا۔۔ یہ صابر و شاکر میاں بیوی سب کے لیے فیض رساں تھے اور ہر کسی کی خیر مانگتے تھے۔۔ قادر مطلق نے اِنھیں مستقبل کے بارے میں پیش بینی کی معجز نما صلاحیت ودیعت کی تھی۔۔ 1981 میں جب ان کی بیٹی شاہانہ کی شادی خویلد سے طے پائی تو یہ خوشی سے پھولے نہ سما رہے تھے۔۔ اسی مبارک گھڑی یہ بھی طے پایا کہ بابا فتح خان اور باختر کے بڑے بیٹے ریحان کی شادی خویلد کی بہن منصہ سے ہو گی۔۔ اور بیٹے ارشد کی وٹے سٹے میں شادی ہوئی تو اُس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔۔ ارشد اور ساحرہ کی طرح دوسری جانب وٹے سٹے والے جوڑے خادم اور شہانہ کی مثالی زندگی پر لوگ ناز کرتے تھے۔۔ پرِ زمانہ کی برق رفتاریوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ پروازِ نُور سے بھی کہیں بڑھ کر تیز ہے۔۔ تین سال گزرے تو ان کے بیٹے اور بیٹی دونوں گھروں کے آنگن میں گلاب اور چنبیلی کی صورت میں ایک ایک بیٹے اور ایک ایک بیٹی نے جنم لیا۔۔ بابا فتح خان اور ان کی اہلیہ نے اپنے پوتے اور پوتی، نواسے اور نواسی کو گود میں لیا مگر لبِ اظہار پر ایسے تالے لگائے کہ چہرے پر کوئی تاثر اُبھر کرسامنے نہ آ سکا۔۔ اس موقع پر انھوں نے دھیمے لہجے صرف ایک شعر پڑھا:

چاک کو تقدیر کے ممکن نہیں ہونا رفو

تا قیامت سوزنِ تد بیر گر سیتی رہے

اپنے بیٹے اور بیٹی کے بچوں کی پیدائش کے کچھ عرصہ بعد بابا فتح خان اور ان کی اہلیہ سلامت بی بی یکے بعد دیگرے عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب سدھار گئے۔۔ بیس برس بعد تاریخ نے ایک بار پھر اپنے آپ کو دہرایا۔۔ بابا فتح خان کے بیٹے اور بیٹی نے باہمی مشاورت اور خاندان کے دوسرے افراد کی رضا مندی سے اپنی نوجوان اولاد کو وٹے سٹے کی شادی کے ذریعے ایک نئے خاندان کے بندھن میں یک جا کر دیا۔۔ شادی کے ڈیڑھ برس بعد ارشد کی نواسی پیدا ہوئی مگر بیٹے سروش کے گھر آ نگن میں کوئی پھول نہ کھِل سکا۔۔ اس ہنستے، مسکراتے اور لہلہاتے چمن کو کسی کینہ پرورحاسد کی ایسی نظر لگی کہ ارشد کی بہو رُوپا رُوٹھ کر اپنے میکے جا کر بیٹھ گئی اور بیٹی صائمہ کو بھی اپنے سسرال میں پناہ نہ مِل سکی اور وہ سر جھکائے اپنے میکے چلی آئی۔۔ تین ماہ بعد بڑی سرجری کے ذریعے صائمہ کی بیٹی کرشمہ پیدا ہوئی۔۔ اپنی شِیر خوار بیٹی کرشمہ کو گود میں لے کر صائمہ اپنے باپ کے گھر میں اپنے اور نومولود بچی کرشمہ کے مقدر کے بارے میں سوچتی رہتی۔۔ اس کم سِن بچی نے ابھی بولنا بھی نہ سیکھا تھا کہ ایک صبح بچی کرشمہ نے دو بار اللہ اللہ کہا۔۔ اہلِ نظر کو اس بچی پر زرقا الیمامہ جیسی صلاحیتوں سے متمتع ہونے کا گمان گزرا۔۔ ایک برس کے بعد گرمیوں کی ایک شام تھی جب یہی بچی اچانک اپنے باپ رستم کا نام لے کر روتے ہوئے کہنے لگی:

’’رستم! یہ آپ نے کیا کر دیا؟ تم نے ہمیں جیتے جی کیوں مار ڈالا؟‘‘

یہ سنتے ہی بابا فتح خان کسی ان جانے خوف سے لرز اُٹھا اور اس کے دِل کی دھڑکن کے مانند زمین بھی لرزنے لگی۔۔ یہ اس منحوس دِن کی رات تھی جس کی صبح کو اس بچی کے والد رستم نے اس بچی کی ماں کو عدالت کے ذریعے تین طلاق کا نوٹس بھجوا دیا تھا۔۔ عینی شاہد بتاتے ہیں کہ اس روز شہر میں زلزلے کے زور دار جھٹکے محسوس کیے گئے۔۔

آسماں سر پر زمیں نے دھر لیا

ظالموں نے جانے کس کا سر لیا

صائمہ کا شوہر رستم کا لا باغ میں کوئلے کی دلالی کرتا تھا اور اپنے سب ملاقاتیوں کو سبز باغ دکھا کر اُلّو بناتا اور اپنا اُلّو سیدھا کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتا تھا۔۔ صائمہ اپنے سسرال کے بجائے اپنے میکے کو اپنے خوابوں کی جنت سمجھتی اور اپنا زیادہ وقت میکے ہی میں گزارتی تھی۔۔ صائمہ کے باپ کو سب راز معلوم تھے مگر ضعفِ پیری نے اسے اس قدر مضمحل کر دیا تھا کہ وہ بے بسی کے عالم میں سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی منقار زیر پر رہنے پر مجبور تھا۔۔ رستم نے تیل اور تیل کی دھار دیکھنے کے بعد صائمہ سے تعلق توڑ لیا۔۔ صائمہ کو جب طلاق ملی تووہ اس قدر دل برداشتہ ہوئی کہ اُس نے اپنی باقی زندگی کرشمہ کے نام کرنے اور اس کی تعلیم و تربیت کو اپنی زندگی کا نصب العین بنانے کا فیصلہ کیا۔۔ اپنی کم سن بیٹی کو اپنے مستقبل کی امید بنا کر ماضی نے ایک سخت فیصلہ کر لیا۔۔ طلاق کے کاغذات ہاتھ میں تھام کر اس نے اپنی بیٹی کو گود میں لیا اور زار و قطار روتے ہوئے بولی:

’’کرشمہ! اب میں نے اپنی باقی زندگی تیرے نام کر دی ہے۔۔ آج کے بعد کینہ پرور حاسدوں کی طرف سے تجھ پر جو سنگِ ملامت پھینکے جائیں گے وہ میں اپنی جانِ ناتواں پر سہہ لوں گی اور ان کی چوٹ صرف مجھے لگے گی اور تجھے کوئی خراش تک نہ آئے گی۔۔ یہ شہر نا پرساں بھی عجیب ہو رہا ہے ہر شخص یہی کہتا ہے کہ بے وفا لوگوں کا یہ شہر کوفے کے قریب ہو رہا ہے۔۔ کرشمہ! میری جان تجھے بھی سب عورتیں زرقا الیمامہ کہتی ہیں۔۔ تیری منھ سے نکلی ہوئی ہر بات سچ ثابت ہوتی ہے۔ ‘‘

کرشمہ نے ماں کو روتے ہوئے دیکھا تو بولی ’’پڑوس کی سب عورتیں تو یہ کہتی ہیں کہ ہیں کہ اب کوئی نیا رستم آئے گا جو تہمینہ کو بیاہ کر ساتھ لے جائے گا۔ ‘‘

’’پڑوس کی سب عورتیں مکار، کینہ پرور، حاسد اور عادی دروغ گو ہیں وہ جھوٹ بولتی ہیں۔ ‘‘ صائمہ نے اپنی بیٹی کرشمہ کو پیار کرتے ہوئے کہا ’’میں صائمہ ہوں تہمینہ نہیں۔۔ اب میں کسی جعل ساز رستم کے فریب میں کبھی نہیں آؤں گی۔۔ مجھے اب شادی کے نام سے بھی نفرت ہو گئی ہے۔ ‘‘

صائمہ کا انتہائی متمول اور عیاش بہنوئی دلاور جب بھی سسرال آتا اپنے بیوی الفت کی بہنوں کے ساتھ گھل مل جاتا۔۔ الفت کی بہنیں اپنے بہنوئی دلاور کے جوتے پالش کرنے میں کوئی تامل نہ کرتیں۔۔ صائمہ، نائمہ اور سمی سب بند قبا سے بے نیاز ہمہ وقت دِل کھول کر اپنے بہنوئی کی خدمت میں مصروف رہتی تھیں۔۔ اس خدمت کے بدلے دلاور بھی اپنی تجوری کھول کر اپنا اندوختہ اور زر و مال ان خانگیوں پر نچھاور کر دیتا۔۔

اس عالم آب و گِل میں زندگی کے اسرار و رموز کو سمجھنا ایک کٹھن مرحلہ ہے۔۔ کرۂ ارض پر زندگی کی نمو کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ یہ ایک لرزہ خیز سانحہ سے کم نہیں۔۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرین علم بشریات زندگی کو حادثات کے ایک ایسے غیر مختتم سلسلے سے تعبیر کرتے ہیں جسے اجل کے بے رحم ہاتھ بھی ختم کرنے سے قاصر ہیں۔۔ دلاور اپنی بہت بڑی کار میں جب بھی اپنے سسرال آتا تو اپنے ساتھ بہت بڑی مقدار میں موسم کے پھل، اپنی سالیوں کے لیے قیمتی ملبوسات، مٹھائیاں اور بڑے ہوٹلوں کے پکے ہوئے لذیذ پکوان ضرور لاتا۔۔ دلاور نے اپنے سسرال میں جنس و جنوں کا ایسا کھیل شروع کر رکھا تھا جس میں اخلاق باختگی سب حدیں عبور کر چکی تھی۔۔ دلاور اپنی مطلقہ سالی صائمہ کو کئی بار اپنے ساتھ لے گیا اور وہاں شناور نامی اپنے ایک قریبی عزیز کو اس کے ساتھ رنگ رلیاں منانے کے فراواں مواقع فراہم کیے۔۔ جب کہ سمی کی ابھی شادی نہیں ہوئی تھی مگر وہ بھی سمے کے سم کے ثمر سے آ گاہ تھی۔۔ دلاور نے سمی کو دولت کا لالچ دے کر اپنی داشتہ بنا رکھا تھا۔۔ صائمہ اپنی بیٹی کرشمہ کو اپنے میکے میں چھوڑ کر نئی منزلوں کی جانب سفر شروع کرنے کی تیاری کرنے لگی۔۔

صائمہ کا نیا آشنا شناور بہت بڑ بولا تھا اس نے صائمہ کو آزادی اور عیاشی کے ایسے سبز باغ دکھائے کہ اس نے اپنے میکے کو زندان سمجھنا شروع کر دیا۔۔ وہ اب رستم کی یادوں سے نکل چکی تھی اور دلاور کا عزیز شناور ہی اب اس کے سپنوں کا راجا تھا۔۔ صائمہ اپنے میکے سے روانہ ہوتی تو یہ تاثر دیتی کہ وہ اپنی بہن سے ملنے کے لیے اپنے بہنوئی دلاور کے پاس جا رہی ہے مگر در اصل وہ شناور کی مہمان بنتی تھی جہاں اس کے قیام، طعام اور تسکین کا سب سامان موجود تھا۔۔

دسمبر کا مہینا تھا۔۔ سردی سے سب لوگ ٹھٹھر رہے تھے مگر صائمہ نہایت پُر جوش تھی اوراس کی پیشانی پر پسینا تھا۔۔ آج صائمہ کی دوسری شادی تھی اس کے گھر شناور برات لے کر آ رہا تھا۔۔ دلاور اور اس کی بیوی نے ایک ہفتے سے صائمہ کے گھر میں ڈیرے ڈال رکھے تھے۔۔ دلاور اس گھر کی سب خواتین کو ایک آنکھ سے دیکھتا تھا۔۔ سمی تو اپنے بہنوئی کی راہ میں آنکھیں بچھاتی تھی، سمی کی بیوہ ماں بھی اپنے مہمانوں کی خاطر مدارت میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھتی۔۔ برات آنے میں ابھی ایک دن باقی تھا اور تیاریاں مکمل ہو چکی تھیں۔۔ صبح کا وقت تھا صائمہ کی بیٹی کرشمہ اپنے ننھیال میں تھی۔۔ وہ آنے والے حالات سے بے خبر اپنے نانا کے گھر کے صحن میں کھیل رہی تھی کہ اچانک صائمہ نے اسے بڑی بے دردی سے پیٹنا شروع کر دیا۔۔ کرشمہ کی چیخ پکار سن کر سب گھر والے وہاں پہنچ گئے۔۔ صائمہ نے غراتے ہوئے کہا:

’’اس منحوس لڑکی کو میری نظروں سے دُور کر دو۔۔ ابھی مشاطہ آنے والی ہے اور اس کا یہاں موجود رہنا بہت بُرا شگون ہے۔ ‘‘

دلاور نے غصے سے کہا ’’یہ لڑکی تو پچھل پیری ہے، اسے یہاں سے کہیں دُور بھجوا دینا مناسب ہے۔ ‘‘

یہ کہہ کر دلاور نے چیختی چلاتی ننھی کرشمہ کو پکڑا اور گھسیٹتے ہوے اس اپنی کار کی پچھلی سیٹ پر پھینک دیا۔۔ کرشمہ کو شہر سے پچاس میل دور دریائے جہلم کے کنارے واقع ایک گاؤں میں پہنچا دیا گیا جہاں کرشمہ کے نانا کا ایک دوست رہتا تھا۔۔

صائمہ کی شادی بڑی دھوم دھام سے ہوئی۔۔ دلاور اور شناور نے اپنے ساتھیوں سمیت خوب دھمالیں ڈالیں اور کرنسی نوٹ ہوا میں اُڑائے۔۔ اگلی صبح کرشمہ جب اپنے نانا کے گھر واپس آئی تو سارا ماحول ہی بدل چکا تھا۔۔ صائمہ کی رخصتی کی رات جب صائمہ، سمی، دلاور اور شناور جب رقصِ مے اور ساز کی لے کو تیز کر رہے تھے تو سمی کی ماں نے سب کے ساتھ مِل کر دھمال ڈالی اور یہ گیت گایا۔۔

سمی میری وار میں واری میں واری ہاں نی سمیے

رات ڈھل رہی تھی سب مہمان رخصت ہو چکے تھے مگر کسی کو زرقا الیمامہ کے بارے میں کچھ معلوم نہ تھا۔۔ اس کی ماں صائمہ نے تو دلاور اور شناور کے صحن چمن میں نئے گُل بُوٹے کھلانے کی ٹھان لی تھی۔۔ پانچ سال کی ایک بچی کی زندگی میں جان لیوا تنہائیوں نے مستقل ڈیرے ڈال لیے کسی کو اس کی پروا نہیں تھی۔۔ کرشمہ جسے سب لوگ زرقا الیمامہ کہتے تھے اس نے نئے رستم اور تہمینہ کے بارے میں جو کچھ کہا تھا وہ سچ نکلا۔۔ نیارستم شناور کی صورت میں نمو دار ہوا اور صائمہ کو تہمینہ بنا کر چل دیا۔۔ سب لوگ اسی سوچ میں گم ہیں کہ نئے رستم کے ہاتھوں کرشمہ کب سہراب کی طرح اپنے انجام کو پہنچے گی۔۔

چار ماہ کے بعد صائمہ جب اپنے میکے آئی تو عورتیں یہ کہہ رہی تھیں کہ صائمہ نے بوجھل دل سے دوسری شادی کا فیصلہ کیا تھا۔۔ پاس بیٹھی ہوئی صائمہ کی ایک محرم راز سہیلی نے کہا:

’’صائمہ کا اب دل نہیں بل کہ پاؤں بھاری ہے اور وہ پہلی شادی کو ایک بھیانک خواب سمجھتی ہے جس سے وابستہ کرشمہ سمیت تمام تلخ یادوں کو وہ بھلا چکی ہے۔۔ اب اس نے ایک نیا خواب دیکھا ہے جس کی تعبیر اسے بہت جلد ملنے والی ہے۔۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے