لیموں کا رس ۔۔۔ خاور چودھری

برفیلی رُت نے ہر شے کو ڈھانپ رکھا تھا۔۔ کوہستانوں پر ایستادہ برف کی چٹانیں اگرچہ معمول کے مطابق تھیں لیکن وادی اور شہری علاقوں میں سردی کی شدت پہلے کبھی اتنی نہ تھی۔۔ اب تو درختوں کی ٹہنیاں بلوریں معلوم ہوتی تھیں اور تو اور ہوا بھی برف کا لبادہ اوڑھ کر سفر کرتی نظر آتی تھی۔۔ ایسے میں جسموں کو چیرتا ہوا احساس روح تک کو چھلنی کر دیتا تھا۔۔

یہ ۲۷۔۔ دسمبر کی رات تھی۔۔ برفیلی ہوا دودھاری تلوار کی مانند ہر شے کو چیرتی چلی جا رہی تھی۔۔ حسین دوست کے چوبی مکان کی کمزور چھت پرکسی کے قدموں کی بھاری آہٹ سنائی دی تو وہ میاں بیوی اچانک جاگ گئے اور چلنے کی دھمک کا اندازہ کرنے لگے۔۔ عام دنوں میں ایسا نہیں ہوتا تھا، البتہ کبھی کبھار کوئی جانور جست بھر کر چھت پر آ جاتا تھا۔۔ کیوں کہ چھت سے متصل راستہ چھت کے قریباً برابر تھا۔۔ ایسے حالات میں گھر کے مکینوں میں سے کوئی اُس ٹل کو پیٹنا شروع کر دیتا تھا، جو اُنھوں نے باہر کھڑکی کے ساتھ لٹکا رکھا تھا۔۔ یوں جانور کسی دوسری طرف نکل جاتا۔۔ ایک تو سرد ترین رات اور اُس پر مسلسل آہٹ۔۔ پریشانی نے دونوں کے جسموں کو حرارت سے معمور کر دیا تھا۔۔ حسین دوست بہ ہر حال مرد تھا اور اُسے خطرات کے باوجود اپنی بیوی کے سامنے کمزوری دکھاتے ہوئے ہچکچاہٹ کا سامنا تھا۔۔ اگرچہ وہ خود بھی خوف میں مبتلا تھا لیکن بیوی کا وحشت زدہ چہرہ اُسے مزید متوحش کیے جا رہا تھا۔۔ اُس نے سرگوشی کرتے ہوئے مسرت سے کہا:

’’ٹل بجاؤں؟ ہو سکتا ہے کوئی جانور ہو۔ ‘‘

’’انسان ہوا تو کھلی کھڑکی دیکھ کر وار کر سکتا ہے۔ ‘‘

’’کچھ بھی ہو، اس اذیت میں تورات ویسے بھی نہیں گزاری جا سکتی۔ ‘‘

اُس نے پھٹا ہو الحاف ایک طرف سرکایا۔۔ بیوی کے ماتھے پر بوسہ ثبت کیا۔۔ حسن دوست اور زینب کی جبینوں کو شفقتِ پدری سے چھُوا اور یک لخت زمین پر کُود گیا۔۔ کچی زمین کے فرش پر پیدا ہونے والی دھمک سے چھت پر قدموں کی آہٹ مزید تیز ہو گئی۔۔ اُس نے بیرونی بلب روشن کیا اور بیوی کے منع کرنے کے باوجود کمرے سے باہر آ گیا۔۔ چھت پر ایک بندوق بردار کھڑا تھا، جو سرسے پاؤں تک سیاہ بھجنگ کپڑوں میں لپٹا ہوا تھا۔۔ برفیلی ہواؤں نے اُس کے لباس اور جوتوں پر برف کی آڑھی ترچھی لکیریں کھینچ رکھی تھیں، جن سے وہ اور خوف ناک معلوم ہوتا تھا۔۔ حسین دوست نے ساری قوتیں مجتمع کر کے پوچھا:

’’کون ہیں آپ اور یہاں کیا کر رہے ہیں؟‘‘

’’میں محافظ ہوں، پڑوسی ملکوں میں کورونا وائرس سے وبا پھیل چکی ہے۔۔ ہم کوشش کر رہے ہیں کہ ہمارے شہری اس وبا سے محفوظ رہیں۔۔ اس لیے باہر سے آنے والوں کو روکا جا رہا ہے۔ ‘‘

’’لیکن لوگ تو گاڑیوں اور جہازوں کے وسیلے سے آتے ہیں۔ ‘‘

’’بجا! مگر سرحدی علاقوں میں رہنے والے پیدل سفر کر سکتے ہیں۔ ‘‘

’’ہونہہہ ہہ ____ ہاں ہاں۔ ‘‘

’’آپ جا کر آرام سے سو جائیں۔ ‘‘

’’شکریہ ____ خدا حافظ۔ ‘‘

حسین دوست ایک نیم سرکاری ادارے میں چپراسی تھا۔۔ اُسے کورونا وائرس سے متعلق کچھ کچھ معلومات ضرور تھیں، وہ گاہے گاہے مسرت کو بتاتا رہا تھا، اس لیے وہ خوف زدہ اور متفکر ہونے کے باوجود کمرے میں چلا آیا مگر باہر کا بلب احتیاطاً روشن رہنے دیا، جسے بعد میں محافظ کے کہنے پر بند کرنا پڑا۔۔ نیند کہاں تھی، جو چلی آتی۔۔ دونوں میاں بیوی حیات و ممات کی کشمکش میں ایک دوسرے سے چپک گئے اور صبح کی اذان تک سانسوں اور سینوں کی حدت سے ایک دوسرے کا خوف کم کرنے کی کوشش میں مگن رہے۔۔ خوف نے اُنھیں ہر طرح کے احساس سے محروم کر رکھا تھا۔۔ کوئی معمولی سی چنگاری بھی تو نہ تھی، جو دھیان کو کسی اور طرف لے کر جاتی۔۔ اذان سنتے ہی دونوں نے بستر چھوڑا اور معمول کے مطابق صبح کی نماز ادا کی، تلاوت کی اور پھر مسرت نے ناشتا تیار کیا۔۔ حسین دوست باہر آیا، چھت پر کوئی موجود نہ تھا۔۔ وہ چوبی سیڑھی کے سہارے چھت پر آ گیا۔۔ برف کی ہلکی تہ میں جا بجا بوٹوں کے نشان واضح تھے۔۔ اُس نے آس پاس کی چھتوں پر نظر دوڑائی تو کچھ ایسا ہی منظر تھا۔۔ وادی میں اب بھی اکا دکا سیاہ پوش گشت کرتا دکھائی دے رہا تھا اور بعض مکانات کی چھتوں پر مکین بھی نظر آ رہے تھے۔۔ غالباً وہ بھی گزری رات کی وحشتوں کے نشانات دیکھ رہے تھے۔۔

ٹیلی ویژن اور ریڈیو پر وقفے وقفے سے کورونا وائرس سے بچاؤ کی تدابیر نشر کی جانے لگیں۔۔ یہاں تک کہ موبائل فون کمپنیاں اور بعض حکومتی ادارے بھی موبائل فون پر حفاظتی پیغامات بھیجنے لگے۔۔ حکومت کی طرف سے ایک مشہور ڈاکٹر کا پیغام نشر کیا جاتا، جو ان الفاظ پر مشتمل تھا:

’’گھروں میں رہیں، کسی سے نہ ملیں، مصافحہ اور معانقہ سے باز رہیں۔۔ باہمی میل جول سے کورونا وائرس پھیلنے کا خطرہ ہے۔۔ یہ لاعلاج ہے۔۔ فاقوں میں کئی ہفتے زندہ رہا جا سکتا ہے مگر یہ وائرس فوراً موت کے منھ میں دھکیل دیتا ہے۔۔ بار بار ہاتھ منھ دھوئیں۔۔ وٹامن سی کی مقدار بڑھائیں۔ ‘‘

لوگوں کے لیے یہ نئی بات تھی، اس لیے شروع میں کسی نے زیادہ پروا نہ کی۔۔ حسین دوست بھی معمولاتِ زندگی میں مشغول رہا۔۔ وہ جانتا تھا، کہ بیوی بچوں کا پیٹ پالنا اُس کی ذمہ داری ہے۔۔ مجازی خدا محض ایک خطاب نہیں بلکہ مرد کو اپنی زندگی داؤ پر لگا کر زیرِ کفالت لوگوں کو پالنا پڑتا ہے۔۔ اُن کی ضرور تیں پوری کرنا اُس پر واجب ہوتا ہے۔۔ آفتیں ہوں، بلائیں ہوں، خطرات ہوں، آندھی طوفان ہوں یا سیلابی ریلوں کا عفریت، مرد ہر ایک کے سامنے سینہ سپر رہتا ہے۔۔ حسین دوست کیسے پشت دکھا سکتا تھا؟ وہ ضروریاتِ زندگی پوری کرتا رہا۔۔ دوسری جانب سرحدوں پر حفاظتی پہروں کے باوجود وائرس کی وبا ملک میں داخل ہو چکی تھی۔۔ پوری قوم میں خوف اور سراسیمگی انتہائی درجے کو پہنچی ہوئی تھی____ اس کے باوجود وہ اسی کوشش میں رہتا کہ مسرت، حسن دوست اور زینب پیٹ بھر کر کھائیں۔۔ پھر حکومتی اقدامات میں سختی آتی گئی۔۔

اگلے چند دنوں میں خوف بڑھا تو محافظوں کی تعداد بڑھی۔۔ اب اہل کار دن رات گشت اور لاؤڈ سپیکروں پر لوگوں کو گھروں میں رہنے کی ہدایت کرتے تھے۔۔ مسجدوں میں بھی منادی کرا دی گئی تھی۔۔ حکومت نے اعلان کر رکھا تھا، کہ کوئی شخص گھر سے باہر نہیں نکلے گا۔۔ بازار بند کرا دیے گئے، تعلیمی اداروں کو تالا لگا دیا گیا، حتیٰ کہ مسجدوں میں با جماعت نماز ادا کرنے سے بھی روک دیا گیا۔۔ پہلے پہل اشیائے ضروریہ خریدنے کے لیے کچھ رعایت مل جاتی تھی، پھر اتنی سختی کر دی گئی کہ کوئی گھر سے نکل نہیں پاتا تھا۔۔ ایک آدھ شخص نے اگر نکلنے کی کوشش کی بھی تو محافظوں نے ہوائی فائر کھول دیے، جو اس بات کا اعلان تھے، کہ دوبارہ سینے میں سے آر پار ہو جائیں گے۔۔ عجیب خوف ناک حالت تھی۔۔ لوگ اپنے ہی گھروں میں قیدی بن کر رہ گئے تھے۔۔

ایک چپراسی کی بساط ہی کیا ہوتی ہے، جو وہ اپنے گھر میں غلّہ کے ڈھیر لگا دیتا؟ پھر وادی میں ویسے ہی اشیا کی قلت رہتی تھی۔۔ گھر میں موجود ایندھن آہستہ آہستہ ختم ہوا جاتا تھا اور غذاؤں کی کمی بھی خطرے کی حد تک پہنچ رہی تھی۔۔ حسین دوست اپنی بیوی مسرت کے چہرے کی طرف دیکھتا، وہاں حزن اور تفکر کی اندوہ ناک بدلیاں منڈلاتی رہتی تھیں۔۔ اُس نے سوچا:

’’یہی چہرہ کبھی قندھاری سیب کی طرح دمکتا تھا۔۔ اُسے یاد آیا وہ پیار سے مسرت کو سُرخ انگارہ کہا کرتا تو اُس کا چہرہ مزید سرخ ہو جایا کرتا تھا۔ ‘‘

غربت اور زمانے کے حادثات نے اُس چہرے کی تمام رعنائی و تمکنت چھین لی تھی۔۔ برف پوش کوہستانوں میں زندگی بجائے خود ایک امتحان ہے اور پھر تنگ دستی کا عذاب تو جان لے کر چھوڑتا ہے۔۔ حسین دوست اور مسرت نے بہ ہر حال ایک ساتھ جینے کی قسم کھا رکھی تھی، اس عہد کا نتیجہ ہی تھا، کہ وہ ہر مشکل میں اُس کا ساتھ دیتے آئی تھی۔۔ وہ جانتی تھی، دُنیا میں اگر کوئی اُس کے لیے جان دے سکتا ہے تو وہ حسین دوست ہی ہے۔۔ اب تو منظر ہی اُلٹ چکا تھا۔۔ اس غیر یقینی کی صورت میں بھروسا اور یقین کتنی دیر سلامت رہ پاتے ہیں؟ کچھ بھی تو واضح نہ تھا۔۔ کرفیو جیسی صورت حال میں زندگی گزارنا بجائے خود اذیت ناک ہوتا ہے۔۔ ملنا ملانا تو ایک طرف، سانس کی ناؤ کھینے کا جتن بھی محض فضول دکھائی دیتا ہے۔۔ پھر قحط جیسے حالات کا تسلسل____!

پہلے پہل تو حکومت کی جانب سے غریب گھروں میں تھوڑا بہت غلّہ دیا گیا، جب وبا نے طول پکڑا تو حکومت نے لوگوں کو اُن کے حال پر چھوڑ دیا۔۔ اگرچہ حسین دوست کی تنخواہ روک دی گئی تھی لیکن اُسے باہر جانے کی اجازت مل جاتی تو وہ پہاڑوں کے سینوں سے رزق کھود نکالتا۔۔ گھر میں فاقوں کا بسیرا ہوا۔۔ حسن دوست اور زینب کا چہرہ مرجھائے ہوئے پھولوں کی مانند ہو گیا۔۔ سرخ قندھاری سیبوں کو شرماتا ہوا مکھڑا بھی سڑے ہوئے پھل جیسا تھا۔۔ خود حسین دوست کی حالت بھی ناقابلِ بیان تھی____ تب ایک رات اُس نے رزق کی تلاش میں نکلنے کا فیصلہ کیا۔۔ ایک پڑوسی نے اپنا پیٹ کاٹ کر اُس کی طرف بسکٹوں کا ایک پیکٹ اور لیموں کے رَس کی ایک بوتل اُچھال دی۔۔ تشکر کے جذبے سے مملو روتی آنکھوں نے پڑوسی کا شکریہ ادا کیا۔۔

’’لیموں وٹامن سی کے حصول کا بہترین ذریعہ ہے۔۔ اُمید ہے، چند روز تک وبا کا زور ٹوٹ جائے اور پہروں میں بھی کمی ہو، تب تک لیموں کی یہ بوتل میرے کنبے کو کورونا وائرس کے خلاف تحفظ فراہم کرے گی۔ ‘‘ اُس نے سوچا اور گھرکی طرف پلٹ آیا۔۔

ٹیلی ویژن اور ریڈیو کی بار بار نشریات سے وہ یہ ضرور جان اور سمجھ چکا تھا، کہ اَب اُسے بہ ہر حال اپنوں سے دُور رہنا ہے۔۔ ہو سکتا ہے وائرس اُس کے جسم میں سرایت کر چکا ہو۔۔ چناں چہ اُس نے باہر کھڑکی سے ہی مسرت کو پکارا اور ہدایات دیں:

’’لیموں کی بوتل اور بسکٹوں کو صبح سے پہلے ہاتھ نہیں لگانا، تب تک بارہ گھنٹے گزر چکے ہوں گے اور وائرس اگر ہوا بھی تو ختم ہو چکا ہو گا۔۔ لیموں کے چند قطرے روزانہ استعمال کرنے سے تمھاری قوتِ مدافعت مضبوط ہو گی۔۔ تم، حسن اور زینب یہ لیموں کا رس با قاعدگی سے پانی میں ملا کر پیتے رہنا اور ٹیلی ویژن پر آنے والے ڈاکٹر کی ہدایت پر بھی عمل کرنا۔۔ یہ تمھاری زندگیوں کے لیے بہت ضروری ہے۔۔ لیموں کی ایک بوتل میرے پاس بھی ہے۔۔ میں مہمان خانے میں رہوں گا۔۔ کم از کم دو ہفتے مجھے اکیلے رہنا ضروری ہے۔۔ میری فکر نہ کرنا۔ ‘‘

مسرت کا چہرہ آنسوؤں سے بھیگ گیا اور دونوں بچے خاموشی سے والدین کو تکتے رہے۔۔

ہفتہ بھر بعد کوئی ضرورت کا مارا حسین دوست کے گھر کی طرف آ نکلا۔۔ اُس نے دیکھا مہمان خانے میں حسین دوست مردہ پڑا ہے۔۔ وائرس کے اثرات ظاہر ہونے سے پہلے ہی بھوک کی شدت نے اُس کی جان لے لی تھی۔۔

لیموں کے رَس کی اکلوتی بوتل وہ زیرِ کفالت انسانوں کی بجائے اپنی زندگی پر کیسے خرچ سکتا تھا؟

٭٭٭

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے