یہ تھے ابن کنول ۔۔۔ امیر حمزہ

(نوٹ: یہ تحریر ابن کنول سر کی ریٹائرمنٹ کے وقت لکھی گئی تھی، بس لفظ "ہیں” کو "تھے” کر لیجیے گا)

 

(حمزہ کے بغیر کلاس کیسے ہو سکتی ہے؟ پروفیسر ابن کنول)

 

ایم فل کا زمانہ تھا اور موجودہ صدر شعبہ کا آفس کلاس روم تھا۔ ابن کنول سر ہماری کلاس لینے پہنچے تو میں آفس کے سامنے بیٹھ کر کچھ کاغذات میں الجھا ہوا تھا۔ سر نے پوچھا حمزہ کہاں ہے؟ ساتھیوں نے کہا سامنے ہے، سر کا جواب تھا "حمزہ کے بغیر کلاس کیسے ہو سکتی ہے” یہ جواب اگرچہ از راہ تفنن تھا لیکن پس منظر میں محبت کا اتھاہ سمندر بھی تھا۔ یہ کوئی تنہا واقعہ نہیں ہے جس سے ان کی محبت نمایاں ہو بلکہ ایم اے، سے ہی ہم طلبہ ان کے اتنے قریب تھے کہ اکثر ان ہی کی کلاس کے لیے ہی تقریباً دو گھنٹے کا سفر کر کے یونیورسٹی جانا ہوتا تھا۔ پیر اور جمعرات کو کلاسیکی متن کی وہ کلاس لیتے تھے، اور زیادہ تر طلبہ انہی دنوں حاضر ہوتے تھے، ایم اے کے زمانے میں جب دوسری دفعہ نیٹ کا امتحان دے رہا تھا تو اردو کے پہلے پرچے میں کلاسیکی متن سے سوالات زیادہ تھے، تو بریک میں ابن کنول سر کو فون کیا، یہ مخاطب کرتے ہوئے کہ سر آپ نے اتنا مشکل پرچہ کیوں بنایا، سر کا لہجہ اتنا تسلی والا تھا کہ سراپا موم ہو گیا۔ ان کا جواب تھا کہ یو جی سی والے مجھ سے سوالات نہیں بنواتے ہیں۔ (تب تک میں امتحانات کے نظام سے واقف نہیں تھا)

ایم فل میں کورس ورک کی سب سے زیادہ کلاس ابن کنول سر نے ہی لی۔ بدھ کو ان کی کلاس ہوتی تو اب ایک دن کی مزید پابندی بڑھ گئی اور ایم اے سے زیادہ ایم فل میں استفادہ کا موقع ملا۔ ایم فل کا مقالہ پروفیسر توقیر احمد خاں کی نگرانی میں ہوا، وائوا کے لیے انہوں نے میرا مقالہ علی گڑھ بھیج دیا اور میں انتظار کرتے رہ گیا کہ کب وائوا ہو۔ کیونکہ پی ایچ ڈی کا فارم بھر چکا تھا اور انٹرویو سے قبل رزلٹ بھی لازمی تھا ایسے میں ابن کنول سر کو میری پریشانی کا علم ہوا تو انہوں نے علی گڑھ رابطہ کیا اور جس دن پی ایچ ڈی کے لیے داخلہ امتحان دے رہا تھا اسی دن سر کی کوششوں سے میرا وائوا ممکن ہوا۔ یہ ہیں پروفیسر ابن کنول

بالآخر یہ معاملہ بھی سر ہوا۔ ستمبر 2015 میں جس دن پی ایچ ڈی کے لیے رزلٹ آنا تھا اس دن امیدواروں کی کافی تعداد ڈپارٹمنٹ میں موجود تھی۔ یقیناً امید واروں کے پاس سفارشات رہی ہوں گی لیکن میں خالی ہاتھ تھا، بلکہ ریزرویشن کے دستاویز سے بھی عاری تھا۔ چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں، سر کی نظر پڑی تو بھانپ گئے اور سب کو دیکھتے ہوئے لائبریری کی جانب چلے گئے، واپسی پر ہمارے گروپ سے مخاطب ہوئے اور مجھ سے کہا کہ تمہارا کاغذ تو ایکسپائر ہو گیا۔ میں نے کہا جی سر، پھر وہ واپس آفس چلے گئے اور میں عجب طرح کی کشمکش میں مبتلا ہو گیا کہ پتا نہیں پی ایچ ڈی میں داخلہ ہو گا بھی یا نہیں۔ لیکن جب شام کو رزلٹ آیا تو میرا نام دوسرے نمبر پر تھا۔ یہ ایک ایسا رزلٹ تھا جس پر کوئی بھی فرد چیں بجبیں نہیں ہوا۔ یہ ہیں ابن کنول۔

ہمارے زمانے میں پی ایچ ڈی میں بھی کورس ورک لازمی تھا چاہے ایم فل کیا ہو یا نہیں۔ یہ میری خوش قسمتی ہے کہ مجھے سر سے پی ایچ ڈی میں بھی پڑھنے کا موقع ملا۔ جس کا دلچسپ امر یہ ہوتا تھا کہ موضوع اور کلاس کا دن بھی ہم طلبہ ہی طے کرتے۔

جامعہ نگر سے جاتے ہوئے اور یونیورسٹی سے آتے ہوئے بھی سر کی گاڑی میں اکثر آنا جانا لگا رہتا۔ تو وہاں مختلف موضوعات پر بے تکلف باتیں بھی ہوتیں۔ ایک دن صبح کے وقت تکونا پارک میں میں اور محمد توصیف خاں کھڑے تھے، سر اپنی گاڑی سے گزرے، پہلے تو انہوں نے آواز دی۔ لیکن ہم دونوں بے خبر۔ پھر انہوں نے گاڑی پارک کی اور اتر کر پاس آ کر پکارا تب ہم دونوں موبائل سے باہر نکلے، پھر ہمیں یونیورسٹی اپنے ساتھ لے گئے۔۔۔۔۔۔ یہ ہیں پروفیسر ابن کنول۔

پی ایچ ڈی میں میرے نگراں پروفیسر مشتاق عالم قادری تھے لیکن ابن کنول سر اکثر پوچھ لیا کرتے کہ کیا کام ہو رہا ہے، ایک دن یہ بھی احساس دلا گئے کہ تم نے ایک مشکل موضوع کا انتخاب کیا ہے۔ فلاں فلاں سے بات کرو۔

شعبہ سے باہر کہیں بھی ملاقات ہوتی تو سامنے والے فرد سے ضرور تعارف کراتے بلکہ کبھی کبھی اسٹیج سے بھی نام لے لیتے۔ یہ ہیں پروفیسر ابن کنول۔

یادوں کا دس سالہ البم ہے سب ہی اہم اور قیمتی ہیں۔

سر آپ کا رشتہ تو ایک مقام غیر منقولہ سے منقطع ہوا ہے لیکن آپ نے جنہیں علم کی روشنی سے نوازا ہے وہ کیسے رشتہ منقطع کر سکتے ہیں اور وہ خوش نصیب شاگرد ہیں جنہوں نے آپ کو الوداعیہ دیا اور اس محفل میں موجود رہے اور جو یونیورسٹی میں رہ کر بھی شامل نہیں ہوئے یا کنی کاٹ گئے ان کے لیے بس دعا ہی ہے۔

٭٭

 

(کل تک طبیعت ایسی دگر گوں تھی کہ "یاد ماضی عذاب ہے یارب” کے تجربہ سے گزر رہا تھا، سارے رِیل نظروں میں گھوم رہے تھے، بارہ سال انہوں نے بے پناہ محبت و شفقت سے نوازا، کبھی بھی خفگی و ناراضگی کا مظاہرہ نہیں کیا، ہمیشہ اور جناب کہہ کر مخاطب کیا۔ گزشتہ بدھ اور جمعرات کو ملاقات رہی میں اور ڈاکٹر امتیاز علیمی ساتھ ہی این سی ای آرٹی کے گیسٹ ہاؤس میں کھانا کھا رہے تھے کہ سر پیچھے سے نظر آئے اور کہتے ہوئے چلے گئے وہ جملہ شاید میں سنبھال سکوں، انہوں نے کہا "اور جناب ماہر رباعیات” اور سر اپنا مختصر سا کھانا لے کر دھوپ میں گھاس پر بیٹھ گئے، پھر جمعرات کو بھی پندرہ بیس منٹ ساتھ بیٹھنے کا موقع ملا، وہ اپنی ادا سے کرسی میں ٹیک لگا کر اس حال میں بیٹھے تھے کہ چشمے کو ایک ہاتھ میں لے کر چہرے کے سامنے مستقل حرکت دے رہے تھے، وہ منظر بھولا ہی نہیں جا رہا ہے۔

سر آپ تو جہان فانی سے رخصت ہوئے ہیں لیکن آپ فنا نہیں ہو سکتے، اے اللہ تو نے تو پہلے انہیں اپنے گھر اور اب اپنے پاس بلا لیا، تو تو غفور ہے رحیم بھی۔ بس اے اللہ تو ان کی مغفرت فرما اور اپنے نیک بندوں کے مقام پر فائز کر۔ آمین۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے