غزلیں ۔۔۔ علی اشرف

نازکی میں جو پنکھڑی سی ہے

اور کوئی نہیں وہ تو ہی ہے

 

وہ مِرے ساتھ تو نہیں لیکن

وہ مِرے آس پاس اب بھی ہے

 

پھر وہی پنکھا، پھر وہی رسّی

فُل پلاننگ یہ خود کشی کی ہے

 

پھونک دیتی ہے جو گناہوں کو

توبہ ماچس کی ایسی تیلی ہے

 

کل وہی فصل کاٹنی ہے تمہیں

آج جو فصل تم نے بوئی ہے

 

بول کر سوچنا ہے کارِ عبث

سوچ کر بولنا ضروری ہے

 

اپنی تو ابتدا بھی مٹّی تھی

اپنی تو انتہا بھی مٹّی ہے

 

میں اسے یاد اب نہیں کرتا

سچ کہوں تو یہ بات جھوٹی ہے

 

پچھلی غزلوں کی طرح اے اشرف!

کیا مِری یہ غزل بھی اچھی ہے؟

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

جن کے خواب بڑے ہوتے ہیں

وہ راتوں میں کم سوتے ہیں

 

ان پر رحم خدا کرتا ہے

بوجھ اوروں کا جو ڈھوتے ہیں

 

سب ہیں برے، یہ بات غلط ہے

کچھ لوگ اچھے بھی ہوتے ہیں

 

ان سے پوچھو درد کا مطلب

وہ جو اپنوں کو کھوتے ہیں

 

عاشق کیا ہوتے ہیں نکمّے؟

بیٹھ کے بس پیہم روتے ہیں

 

ہوتے ہوں گے اچھے شاعر

میرے جیسے کب ہوتے ہیں

 

بزم سے وہ بھی اٹھ گئے اشرف!

ہم بھی اب رخصت ہوتے ہیں

٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے