غزلیں ۔۔۔ فرحت عباس شاہ

نہیں تیرا نشیمن عجز گاہوں، خاکدانوں میں

تو مسلم ہے بسیرا کر فرنگی عیش خانوں میں

 

تجھے ایماں فروشی کے فوائد کا ہے اندازہ

ہے اب تیری گزر اوقات یورپ کے ٹھکانوں میں

 

مسرت ہے تجھے بیداریِ بزمِ تعیش سے

تری عشرت کی جولانی ہے خوابیدہ مکانوں میں

 

حرم کے پاسباں یہ جان کر خوش ہیں کہ اب یا رب

ہے اسرائیل بھی شامل ہمارے پاسبانوں میں

 

کوئی ٹاور بنا کعبے سے اونچا باعثِ برکت

رہے گی جاہ و حشمت چند مسلم خاندانوں میں

 

اکٹھا کر زرِ وافر بزورِ حجِ بیت اللہ

مقامِ لطف پیدا کر جزیروں، گلستانوں میں

 

بنا امت کے لونڈوں کو مجاہد ذہن سازی سے

صنعت کاری سے بڑھ کر ہے یہ موجودہ زمانوں میں

 

کرو مسمار سب قبریں رسول اللہ کے بچوں کی

کہیں باقی نہ رہ جائے کوئی یورش نشانوں میں

 

سپہ سالار کی غیرت سے خدشہ ہے بغاوت کا

کبھی ایسا نہ کوئی تیر آنے دے کمانوں میں

٭٭٭

 

 

 

 

فطرت میں نہیں، جُز مگر انفاک میں گُم ہے

تِیرِ ہوسِ زر دلِ چالاک میں گُم ہے

 

قسمت کے ستارے کی طرح منزلِ مقصود

صدیوں سے مسلط شبِ سفاک میں گُم ہے

 

کافر کی یہ پہچان کہ گُم اس میں ہے خوراک

مومن کی ہے پہچان کہ خوراک میں گُم ہے

 

دو چار کمندیں تھیں چلا بیچنے مسلم

کہتا ہے ستارہ ابھی افلاک میں گُم ہے

 

انفاس کہ مصروفِ غمِ بادہ و ساغر

اور کام و دہن لذتِ املاک میں گُم ہے

 

تعمیر نہ تدبیر، نہ تصویر نہ تعبیر

ہے ریت میں گردن مگر افلاک میں گُم ہے

 

خوش ہے کہ توجہ ہی نہیں ہے ابھی اُس پر

خوش ہے کہ خداوند ابھی لولاک میں گُم ہے

 

معروض ہدف ٹھہرے تو کیا بدلے گی تقدیر

مومن کی نظر ریشمی پوشاک میں گُم ہے

 

مصنوعی تدبر ہے تو عنقاء ہے توکل

پروازِ تخیل خس و خاشاک میں گم ہے

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے