غزلیں ۔۔۔ قمر صدیقی

کہاں تلاش کریں نقشِ آشیانہ کوئی

یہ شہر جیسے بڑا سا ہے قید خانہ کوئی

 

سو اپنی ہجرتِ پیہم کا بس جواز ہے یہ

پرندے ڈھونڈتے رہتے ہیں آب و دانہ کوئی

 

مآلِ عشق پتہ ہے اسے مگر پھر بھی

تلاش لیتا ہے ہر بار دل بہانہ کوئی

 

عجب طلسم ہے جو وقت کھو گیا ہے کہیں

ہوا ہے لاد کے دن رات کو روانہ کوئی

 

کھلے ہیں پھول صبا چار سو ہے مہکی ہوئی

چمن سے گزرا تھا کیا حسنِ کافرانہ کوئی

 

کبھی تو حضرتِ ناصح بھی دل کشاد کریں

کبھی تو مشورہ دیں ہم کو مخلصانہ کوئی

 

عجیب لوگ ہیں، نیندیں عجیب ہیں ان کی

جگا سکا نہ قمر ان کو تازیانہ کوئی

٭٭٭

 

 

 

 

دل کو اپنے اس طرح قائل کیا

خود فریبی کی طرف مائل کیا

 

دل پہ جب بھی یاس کی یورش ہوئی

آرزو کو تیری میزائل کیا

 

خرچ کر کے خواب اُن نیندوں پہ سب

ہم نے اپنی آنکھوں کو سائل کیا

 

وہ عنایت کی نظر کرتے نہیں

شوق نے اک کیس پھر فائل کیا

 

ہر حقیقت پر گزرتا ہے گماں

اس قدر حالات نے تائل کیا

 

کامیابی بھیک میں ملتی نہیں

دو قدم کو وقت نے مائل* کیا

 

آدمی نے جب کہا شیطان نے

بندگی میں وسوسہ حائل کیا

 

یاد اس کی زہر تھی لیکن قمر

وقت نے سارا اثر زائل کیا

*Mile

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے