آخری اور پانچویں قسط
آسمان پر بادل چھائے ہوئے تھے۔ ممبئی کے مضافات میں آوارہ بادل کبھی بھی رقص کرتے ہوئے کہیں سے آ نکلتے اور ہواؤں پر ڈیرا ڈال کر بوڑھی دادیوں کی طرح بھرے بیٹھے رہتے۔ نہ برستے، نہ گرجتے۔ لائبریری سے اس مہینے دس سے زائد کتابیں ایشو کروائی گئی تھیں، کرایے بھی جمع ہوئے تھے اور دکان میں آ کر پڑھنے والے دو ایک مستقل گاہک بن گئے تھے۔ اس دن وسیم کا موڈ شاید کچھ اچھا تھا۔ وہ لائبریری کے چبوترے پر گھٹنوں کو بانہوں میں گھیرے بیٹھا تھا۔ وہ جب بھی لائبریری آتا، اسی طرح بیٹھا کرتا تھا۔ مجید صاحب ایک کتاب کے گہرے مطالعے میں غرق تھے۔ نجیب کا کوئی پتہ نہیں تھا۔ ادھر مجید صاحب کی بے فکری میں تھوڑا اضافہ ہوا تھا کیونکہ گھر کے بقیہ کرایے میں سے دو ماہ کا کرایہ حسب وعدہ وسیم نے ادا کر دیا تھا۔ لائٹ بل ابھی جمع ہونا باقی تھا۔ کچھ پیسے اس نے مجید صاحب کی جیب میں چپکے سے ڈالے بھی تھے، جس کی وجہ سے گھر میں کچھ حلوے مانڈے بھی تیار ہوئے۔ نظر فاتحہ بھی دلوائی گئی اور مجید صاحب کی بیوی کے ماتھے پر جمی ہوئی ہمیشہ کی شکنوں میں سکون کا تھوڑا سا پانی اتر آیا۔ وسیم نے چیک دار شرٹ پہن رکھی تھی، پینٹ وہ ہمیشہ فارمل پہنتا اور بیلٹ کمر سے کچھ اوپر باندھتا۔ ایک آوارہ بوند کہیں سے آ کر اس کی ہتھیلی کی پشت پر گری، اس نے آسمان کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا۔ دور سڑک پر دو بوری مسلمان اونچی گول ٹوپیاں لگائے، ہرے رنگ کے کرتے پجامے میں ملبوس آپس میں بات کرتے ہوئے جا رہے تھے۔ وہ جس درخت کے پاس سے گزر رہے تھے وہ ہوا سے ایسے جھوم رہا تھا، جیسے کوئی بدمست شرابی ترنگیں لے رہا ہو، بس فرق اتنا ہو کہ اس کے پیر کسی کھونٹے سے بندھے ہوں۔ اکا دکا گاڑیاں، موٹر سائکلیں بھی گزر رہی تھیں۔ دو مہینے بعد وسیم کو لائبریری کھولنے کے اپنے فیصلے پر تھوڑی خوشی ہو رہی تھی، حالانکہ ابھی بھی لوگوں کی آمد اور کتابوں سے ملنے والی رقم کے باوجود وہ دکان کے کرایے اور مجید صاحب پر خرچ ہونے والی رقم کے سبب گھاٹے میں ہی تھا، مگر کاروبار کا سکہ جمتے جمتے ہی جمتا ہے۔ وہ جانتا تھا کہ شروعات کے تین چار مہینوں میں تو لوگوں کو لائبریری کے بارے میں پتہ چلے گا۔ اس کے لیے اس نے چھوٹے سائز کے پمفلٹ بھی چھپوائے تھے، جنہیں کرایے کے کچھ لڑکوں کے ذریعے ہر جمعے کی نماز کے بعد مسجد کے گیٹ پر کھڑے ہو کر نمازیوں میں تقسیم کیا جاتا۔ دو تین بار وہ اخباروں میں رکھوا کر بھی ان پمفلٹس کو نیا نگر کے بیشتر گھروں میں پہچانے کا کام کر چکا تھا۔ ماؤتھ پبلسٹی سے بھی اس نے بہت کام لیا تھا۔ لائبریری کو تھوڑی شہرت مل جائے اس سبب سے اس نے اب تک دو تین نشستیں بھی لائبریری میں کروائی تھیں، جو کہ مہمانوں اور کتابوں کی وجہ سے ٹھسا ٹھس بھری ہوئی معلوم ہوتی تھی اور شاعروں کی تعداد کے پیش نظر اسے سڑک پر بھی پلاسٹک کی کچھ کرسیاں کرایے پر لے کر لگوانی پڑیں۔ وسیم کو اب محسوس ہو رہا تھا کہ اتنا سب کچھ کرنے پر بھی کتابوں کے نہ نکلنے سے وہ نا امیدی کے جس بھنور میں ڈوب رہا تھا، اب وہ بھنور کچھ بیٹھتا ہوا معلوم ہو رہا تھا۔ گاہکوں کی لہریں آنے لگی تھیں اور موسم کچھ تبدیل ہو رہا تھا۔ وسیم کاروبار کے معاملے میں نیا ضرور تھا، مگر جلد ہار مان لینے والا یا کوئی جذباتی قسم کا انسان نہیں تھا۔ اس نے مجید صاحب سے صاف لفظوں میں کہہ دیا تھا کہ ان کے گھر کا اگلا کرایہ وہ لائبریری سے ہونے والی آمدنی کے ذریعے ہی دے پائے گا۔ چنانچہ اگر منافع نہیں ہوا تو ممکن ہے کہ انہیں کرایے کا انتظام کہیں اور سے کرنا پڑے۔ مجید صاحب روپوں پیسوں کی بات نکلتے ہی فوراً اسے یوں ختم کرنے کی کوشش کرتے جیسے ان کے ہاتھ پر کوئی چپچپی چیز چپک گئی ہو اور وہ ہاتھ جھٹک کر اسے صاف کرنا چاہ رہے ہوں۔ وسیم انہی کاروباری سوچوں میں گم تھا کہ اچانک سامنے سے ناظم عباسی آتے دکھائی دیے۔ وہ قریب آئے تو ان سے پہلے ہی لپک کر وسیم نے ان سے مصافحہ کیا۔ پچھلی کتاب وہ اپنے ساتھ لائے تھے، اندر بیٹھے ہوئے لڑکے کو انہوں نے وہ کتاب واپس کی اور جمع شدہ رقم میں سے کرایہ کاٹ کر باقی رقم واپس لے کر جیب میں رکھی۔ پھر وہ مجید صاحب کی بغل میں بیٹھ گئے۔ ان کے چہرے سے ہی معلوم ہوتا تھا کہ وہ کسی الجھن میں ہیں، چنانچہ مجید صاحب نے پوچھا۔ ’کیا بات ہے ناظم صاحب؟ سب خیریت تو ہے؟‘
’جی! خیریت ہے، بس ایک مسئلہ الجھ گیا ہے۔ ہمارے بہنوئی لکھنؤ کے کٹر شیعہ ہیں یہ تو آپ جانتے ہی ہیں۔ مگر ان کی شیعیت صرف مذہب تک ہی مخصوص نہیں ہے۔ بلکہ وہ علمی و ادبی معاملات میں بھی لکھنؤ اور اس کی تہذیب کا بچاؤ یوں کرتے ہیں اور اس کی شان اس طرح بیان کرتے ہیں، گویا کربلا شریف کا ذکر کر رہے ہوں۔‘
’یہ تو میں جانتا ہوں، مگر اس میں پریشانی کی کیا بات ہے؟‘ مجید صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’پریشانی کی بات یہ ہے کہ کل وہ میرے سامنے غالب کا ایک شعر لائے اور کہنے لگے کہ دیکھیے غالب بھی دہلی پر لکھنؤ کی زبان کو فوقیت دیتا تھا۔ میں نے ان سے سند مانگی تو انہوں نے دیوان غالب کا ایک نسخہ مجھے دیا، جس میں ایک غزل کے شعر پر انہوں نے لال گھیرا بنا رکھا تھا، وہ شعر تھا’روا رکھو نہ رکھو تھا جو لفظ تکیہ کلام، اب اس کو کہتے ہیں اہل سخن سخن تکیہ‘ اب وہ مصر ہیں کہ دہلی کے لفظ تکیہ کلام کے مقابلے میں غالب نے لکھنؤ میں بولے جانے والے لفظ سخن تکیہ کو زیادہ پسند کیا۔ میری اب تک کی زندگی میں تو میں اس بات یا اس غزل سے واقف نہیں تھا۔ غالب کے متداول دیوان میں بھی یہ غزل نہیں۔ میں نے کہا الحاقی کلام ہو گا تو انہوں نے اس پر مجھے محقق کلام غالب عرشی صاحب کا نوٹ بھی دکھا دیا۔ جس میں انہوں نے صاف صاف لکھا تھا کہ اپنی تحقیق کے دوران میں انہیں غالب کے کلام میں یہ غزل ملی ہے، جس کی صحت کے تعلق سے پوری طرح مطمئن ہونے کے بعد انہوں نے اسے دیوان غالب میں شامل کر دیا ہے۔‘
ابھی ناظم عباسی یہ کہہ ہی رہے تھے کہ قاری مستقیم اور مرزا امانت لائبریری میں وارد ہوئے۔ ان کے چہروں سے ہی ٹپک رہا تھا کہ وہ کوئی بات بتانے کی عجلت میں ہیں۔ مگر مجید صاحب چونکہ ناظم عباسی کو بڑے غور سے سن رہے تھے، اس لیے وہ بھی برابر میں بیٹھ گئے اور ہمہ تن گوش ہو گئے۔ مجید صاحب نے پوری بات سننے کے بعد سامنے موجود کتاب کے درمیان نشانی رکھ کر اسے بند کیا اور بڑے متین انداز میں گویا ہوئے۔
’یہ غزل جس کا آپ ذکر کر رہے ہیں، یہ غالب کی غزل نہیں ہے۔ در اصل 1969 میں غالب صدی کے موقع پر ایسی ایک نہیں کئی غزلیں مختلف رسالوں میں شائع ہوئیں۔ ظاہر ہے اس وقت محققین غالب میں غالب کا غیر مطبوعہ کلام جمع کرنے کی ہوڑ مچی ہوئی تھی۔ نسخہ بھوپال اس سے کچھ ہی عرصہ پہلے بڑے پر اسرار طور پر دریافت ہوا تھا اور اس وقت وہ دیوان اکیس لاکھ روپے میں فروخت ہوا تھا۔ ایسے میں بہت سے شاعروں نے غالب کے انداز میں جعلی غزلیں کہہ کر رسالوں میں شائع کروائیں۔ کچھ نے تو غالب کی ہینڈ رائٹنگ میں بوسیدہ کاغذوں کے ساتھ ایسی غزلیں دریافت کر کے، ان پر تفصیلی مضامین بھی لکھے۔ لیکن جہاں ایک طرف غالب کے کلام کو حاصل کر کے شائع کرنے کی بھگڈر مچی تھی، وہیں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو غالب کے معاملے میں کسی لالچ کا شکار نہ ہو کر ہمیشہ ایماندار رہے۔ چنانچہ جس غزل کا آپ ذکر کر رہے ہیں، وہ بھی کسی رسالے سے ہی عرشی صاحب نے لے کر دیوان غالب کے نسخہ عرشی میں شامل کی تھی، مگر اس پر ایک تفصیلی مضمون محقق و عاشق غالب جناب عبد الرحمٰن بجنوری نے لکھا تھا اور تمام حوالوں سے ثابت کیا تھا کہ یہ غزل غالب کی نہیں ہو سکتی۔ اس کا ایک جملہ مجھے ابھی تک ازبر ہے، انہوں نے لکھا تھا اگر زمین و آسمان بھی ایک ہو جائیں تب بھی میں اس بات کو ماننے کے لیے تیار نہیں کہ یہ غالب کی غزل ہے، یہ غالب کا لہجہ ہی نہیں ہے۔ شاید انہی رسالوں میں کہیں وہ مضمون ہو گا۔ میں آپ کو دے دوں گا آپ اپنے بہنوئی کو دکھا دیجیے گا، شاید انہیں بات سمجھ آ جائے۔‘ ناظم عباسی کے چہرے پر کچھ اطمینان آیا۔ انہوں نے مجید صاحب کا شکریہ ادا کیا۔ بات ختم ہوتی دیکھ کر مرزا امانت تیزی سے آگے بڑھا اور اس نے مجید صاحب کا ہاتھ پکڑ کر پہلے تو اسے چوما۔ پھر مدعا ان الفاظ میں بیان کیا۔ ’پیر و مرشد! دو مہینے بعد آپ کی سالگرہ ہے، اور اس کے ایک ماہ بعد میرا روڈ کا سالانہ مشاعرہ۔ ہمیں مشاعرے سے کوئی خاص مطلب نہیں ہے۔ ہم تو بس یہ چاہتے ہیں کہ آپ کے نام سے ایک شاعرانہ جشن منانے کی اگر اجازت مل جائے تو نیا نگر کے سبھی شاعر اس موقع پر آپ کو وہ خراج محبت پیش کر سکیں، جس کے آپ حقدار ہیں۔ آپ کی صوفیانہ طبیعت، شان محبوبی اور ہم سبھی کے لیے آپ کے دل میں جو ہمدردی کا جذبہ ہے، اس سے ہماری گردنیں ہمیشہ زیر بار رہیں گی۔ چنانچہ ہمیں اپنی محبت کے اظہار کا ایک بھرپور موقع ملنا چاہیے۔ ہم نیا نگر میں جشن مجید منانا چاہتے ہیں۔‘ مرزا امانت کی پوری بات سن کر مجید صاحب نے پہلے تو انکار کیا۔ مگر جب قاری مستقیم، ناظم عباسی اور دوسرے لوگوں نے بہت اصرار کیا تو آخر میں ان کی گردن شرم کے احساس سے جھک گئی اور اسی کو یاروں نے اجازت کا اشارہ سمجھ کر نعرہ محبت بلند کیا۔
٭٭٭
عجیب سی حالت تھی اس دن تنویر کی۔ بس جی میں آتا تھا کہ شہناز کے پاس جا کر اس سے کہہ دے کہ اب وہ اور انتظار نہیں کر سکتا۔ رگوں میں عجیب سا کھنچاؤ تھا، جیسے وہ انتظار جو اس کی دیہہ میں آہستہ آہستہ بہتا رہا تھا، اچانک دم توڑ گیا ہو اور خون کے بہاؤ میں اس کی لاش پورے بدن کے چکر لگا رہی ہو۔ اس نے اپنی جانب سے ایک غزل لکھی، جس میں شہناز کے ہونٹ، اس کے رخسار، اس کی پیشانی، اس کے بال اور اس کے بدن کے قریب قریب ہر حصے کا ذکر تھا، پھر اسے لے جا کر نجیب کو تھمادیا۔ غزل میں چونکہ کسی کا نام نہیں تھا، اس لیے بڑے بھائی کے سامنے اسے اصلاح کے لییدیتے وقت اپنے دل کا راز کھل جانے کا کوئی اندیشہ نہیں تھا۔ نجیب نے غزل کو دھیان سے پڑھا، اس میں کچھ مصرعے بے بحر تھے۔ غزل ٹھیک کر کے اس نے بھائی کو دے تو دی، مگر بعد میں وہ لیٹے لیٹے اکیلے کمرے میں پنکھے کے تیزی سے گھومتے ہوئے معدوم پروں کو دیکھتے ہوئے سوچنے لگا۔ ’بدن۔۔ بس بدن۔۔ غزل کی شاعری اس کے علاوہ کیا ہے؟ میں نے بھی ابھی تک کیا لکھا ہے، ہر شعر میں عورت کے وجود کو بس اس کے بدن تک سمیٹ دیا ہے، کبھی اس کے گال، کبھی اس کے ہونٹ، کبھی اس کے جسم کے خطوط۔ ان پر بات کرنے سے کیا ہوا اور کیا ہو رہا ہے؟ دنیا کس رفتار سے بدل رہی ہے۔ مگر اس کے پاس اصلاح کے لیے آنے والی غزل کے موضوع میں کبھی پاس کے پلاٹ پر بھنبھناتے مچھروں کا ذکر نہیں ہوتا۔ مختلف قسم کی بیماریاں ہر سال پنپتی ہیں، کتنے مجبور ہیں، جو سڑک پر ایک روٹی کے لیے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہیں، موسموں کا بدلنا بھی تو ہے، لوگوں کے برتاؤ بھی تو ہیں، ان کی تکلیفیں بھی تو ہیں، یہ سب غزل کا حصہ کیوں نہیں بن پاتا۔ یہ کون سا ہجر ہے، جو ختم ہونے میں ہی نہیں آتا۔ تین چار سو سال بیت گئے، لیکن غزل اپنی روایت پر کسی روڑھی وادی اماں کی طرح ڈٹی ہوئی ہے۔ ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھتی اور جو جدید ہونا چاہتا ہے، نیا ہونا چاہتا ہے۔ اسے یہی کہہ کر رد کر دیا جاتا ہے کہ اس میں غزل والی بات نہیں ہے۔۔ اس روز جب ابا کو اس نے اپنا شعر سنایا تھا، جس میں زندگی کو پگھلتی ہوئی آئس کریم سے تشبیہہ دی گئی تھی تو وہ کتنا جز بز ہوئے تھے، انہوں نے کہا تھا کہ جدید شاعری کا مطلب ہمارے شاعر یہ کیوں سمجھتے ہیں کہ بس کوئی انگریزی لفظ ٹھونس کر اسے نیا بنا لیا جائے۔ اس نے جھنجھلا کر وہ غزل ہی پھاڑ کر پھینک دی تھی۔ تو پھر وہ نئی شاعری کیسے کرے گا، وہ ان سب سے کیسے الگ ہو گا۔ کیوں غزل لکھتے وقت وہ شہناز کے سراپا کو دھیان میں لاتا ہے؟ شہناز کیا سوچتی ہے؟ کیا محسوس کرتی ہے، اسے کبھی کچھ نہیں پتہ چلا، اس کے ریشے دار دماغ میں کون سے خیال دوڑتے ہیں، وہ ہمیشہ گہرے رنگ کیوں پہنتی ہے؟ اسے زیادہ میٹھا کیوں نہیں پسند؟ اسے گھر کے کام کرنا اچھا لگتا ہے یا نہیں؟ جب میں اسے کنکھیوں سے دیکھتا ہوں یا اور لوگ اسے ندیدوں کی طرح دیکھتے ہیں تو وہ کیا خیال کرتی ہے، بہن کے ساتھ ہر نشست میں جا کر شاعری سننا اسے واقعی پسند ہے یا وہ صرف بہن کی مروت میں ایسا کرتی ہے؟ ہزاروں سوال ہیں، مگر جواب ندارد ہیں۔ میں تو بس یہی دیکھ پاتا ہوں کہ اس کا جسم کیسا ہے؟ اس کا پیٹ اندر ہے، بدن بھرا ہوا ہے، ہونٹ خوبصورت ہیں، آنکھیں گہری کالی ہیں۔ تو کیا شہناز بس اتنی ہی شہناز ہے؟ تو کیا ہر عورت بس اتنی ہی عورت ہوتی ہے؟ تو کیا ہر غزل گو بس ایسا ہی غزل گو ہوتا ہے؟ غزل کا مطلب تو ہے عورت سے بات کرنا، مگر عورت سے مرد کیا بات کر سکتا ہے؟ اور مجھ جیسا ایک نوجوان لڑکا تو کیا ہی کہہ سکتا ہے۔ یہی کہ اسے دیکھتے وقت میری ہتھیلیاں کیوں پسیج جاتی ہیں، میرے ہونٹ کیوں سوکھ جاتے ہیں۔ تو اگر وہ مجھے مل جائے، اگر وہ میری بیوی بن جائے تب بھی کیا یہ احساس برقرار رہے گا۔۔ افوہ! کتنی واہیات بات ہے۔ یہ ہر لڑکی کو ہم لوگ فوراً بیوی بنانے کے بارے میں کیوں سوچتے ہیں؟ بس نظر بھر کر دیکھا اور اپنی جانب سے شوہری کے حقدار ہو گئے۔ کتنا اسے جانا، کتنا اسے سمجھا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کیا اس کی مرضی بھی معلوم کی۔ اسے یاد آیا کہ اس نے جمیل جالبی کے ایک مضمون میں پڑھا تھا، انہوں نے ایک واقعہ لکھا تھا، جس میں ایک شاعر نے جب سٹیج پر سراپا حسرت ہو کر یہ شعر پڑھا کہ تمہاری دید سے حسرت ہماری نازنیں نکلی، مگر جیسی نکلنی چاہیے ویسی نہیں نکلی، تو ایک لڑکی نے برسر مشاعرہ کھڑے ہو کر پوچھ لیا۔ حضرت یہ تو بتائیے کہ اس میں نازنین کا کیا قصور ہے۔۔ غزل کی دنیا میں بھی سب کچھ یکطرفہ ہے۔ شاعر بھی، اس کا اظہار محبت بھی، اس کے اشارے کنایے بھی، اس کا فن بھی۔ دیکھا جائے تو غزل کا شاعر پوری زندگی ایک دھوکے، ایک سراب کا شکار رہتا ہے۔ کیا میں خود بھی ایک سراب کا شکار ہوں، کیا میں بھی اپنی ہی جانب سے خواب دیکھے جا رہا ہوں، اپنی ہی جانب سے اوٹ پٹانگ تعریفیں کیے جا رہا ہوں؟ کسی کے ہونٹ اچھے ہوں تو کیا ہمیں اس کی نمائش لگانے کی اجازت مل جاتی ہے؟ کسی کے بال اچھے ہوں تو کیا ان کے سائے پر ہمارا کوئی کاپی رائٹ ہو جاتا ہے؟ کیا غزل نے ہمیں عورت کو دیکھنے کا کوئی دوسرا طریقہ بتایا ہی نہیں؟ یا پھر یہ پورا سماج عورت کو اسی طرح دیکھتا ہے، جس طرح غزل دیکھتی ہے۔ غزل بھی تو اسی سماج کا حصہ ہے، وہ اسی لیے تو اسی سماج میں اتنی مقبول ہے۔ کیوں ایک پر معنی نظم، گہرے مسائل و معاملات سے لبریز غزل کی مقبولیت کے آگے اتنی پھیکی پڑ جاتی ہے۔ کیونکہ غزل پڑھتے وقت شاعر تمام سننے والوں کو عورت سے اپنے تعلق اور تصور کے حصار میں لے آتا ہے، پورا مجمع واہ وا کی صدا سے گونج اٹھتا ہے۔ سب کی نگاہ میں مختلف عورتوں کے ہیولے روشن ہو اٹھتے ہیں۔ تو کیا غزل ایک مہذب مشت زنی کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے؟ ایک گروہ کی مشت زنی، ایک قوم کی مشت زنی۔ اور یہ کیسا معاشرہ ہے، جس میں مشت زنی کا حق بھی صرف مردوں کو ہے۔ کیا اس نے کسی عورت کی ایسی کوئی غزل پڑھی ہے، جس میں مرد کے سڈول بازوؤں، شفاف سینے یا ناف کی لکیر کا ذکر ہوتا؟ نہیں پڑھی اور شاید کبھی پڑھے گا بھی نہیں، کیونکہ غزل میں شاعر عورتوں سے بات کرتا ہے، عورتوں پر بات کرتا ہے۔ جو صنف عورت کے لیے بنائی ہی نہیں گئی، اس میں عورت لکھے گی بھی تو مرد کے چبائے ہوئے اور تھوکے ہوئے نوالوں پر ہی اسے گزارہ کرنا پڑے گا۔ شاید اسی لیے جب بھی نشست میں کوئی زٹل پڑھی جاتی ہے، کوئی فحش لطیفہ سنایا جاتا ہے، کسی لڑکی کے جنسی رشتوں کا تذکرہ نکل پڑتا ہے تو دوست احباب کتنے خوش ہو جاتے ہیں، ان کے چہروں پر کیسی تازگی پھوٹ پڑتی ہے۔ ان کے درمیان کیسے جنسی اشارے ہوتے ہیں، جیسے ان سب غزل گو شاعروں کی زندگی عورت کے اندام نہانی کے آس پاس چکر لگاتے ہوئے بیت جانی ہے، اسی طرح جیسے زمین سورج کے گرد چکر لگاتی رہتی ہے، لگاتی رہتی ہے۔‘ وہ انہی سب باتوں پر غور کرتا رہا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ شہناز سے جب بھی اظہار محبت کرے گا، اسے جب بھی دل کی بات بتائے گا تو اسے کسی غزل میں لپیٹ کر نہیں کہے گا۔ کیا پتہ تنویر یہ غزل کس لڑکی کے لیے ٹھیک کروا کر لے گیا ہے، شاید وہ یونہی لکھوا کر لے گیا ہو، اسے نسیم کی اماں فرصت ہی کب لینیدیتی ہیں۔ ضرور وہ اگلی نشست میں شرکت کی غرض سے ہی یہ سب لکھ رہا ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ وہ خود کوشش کرتا ہے، ورنہ کتنے ہی ایسے شاعرو شاعرات نجیب نے اس چھوٹے سے دور میں دیکھے ہیں، جنہوں نے اس سے غزلیں نظمیں لکھوائی ہیں۔ نسیم تو پھر بھی اس منفعت سے دور ہے، مگر طائر امروہوی۔۔ اس کے لیے نجیب نے نئی فلم کے جو گانے لکھے تھے وہ تو اب سوپر ہٹ ہو چکے ہیں۔ یہ کیسی دنیا ہے؟ جہاں صلاحیتوں کا کوئی مول نہیں۔۔ سنا ہے طائر اگلے مہینے اندھیری جا رہا ہے، وہ اب یہاں نہیں رہنا چاہتا۔ اس نے نجیب کوتین گانوں کے تین سو روپے دیے تھے۔۔ اور خود اس نے کتنے روپے کمائے ہوں گے۔۔ تیس ہزار؟ تین لاکھ؟ یا پھر وہ آگے کتنے روپے کمائے گا؟ وہ اندھیری جانے کے بعد کیا کرے گا؟ ضرور اسے کرایے پر گانے لکھنے کے لیے لوگ مل جائیں گے۔ ایک بار اس کا نام جم گیا تو اسے نغمے لکھوانے کے لیے کئی لوگوں کی ضرورت پڑے گی، ایسے لوگ جو خود نغمہ نگاری کے شوق میں ممبئی میں ایڑیاں چٹخاتے چٹخاتے بوڑھے ہو گئے ہیں یا پھر نجیب جیسے لڑکے، جن کو محنت سے ڈر لگتا ہے، جن کا لوکل ٹرین کے ڈبے میں بھیڑ کی زیادتی سے دم گھٹنے لگتا ہے، جنہیں بڑے بڑے دفتروں، بنگلوں کے باہر ہاتھ میں فل سکیپ کی فائل لیے گھنٹوں تک کھڑے رہنے کے تصور سے ہی ہول آتا ہے۔ کل جب طائر امروہوی جاوید اختر اور گلزار کی طرح ایک کامیاب نغمہ نگار کہلائے گا تو کیا کوئی پوچھے گا کہ اس کی شہرت کے پیچھے کتنی ناکام محنتوں کا پسینہ ہے؟ اس کے گھر میں اگنے والے دولت کے درخت کی جڑیں کتنے بھوکے پیٹوں کی سو پچاس روپے کی ضرورتوں سے جڑی ہوئی ہیں۔ سب کچھ جھوٹ ہے، غزل کی طرح یہ ساری شہرت، یہ ساری دولت، یہ ساری عزت۔۔ سب پر ایک غلاف چڑھا ہوا ہے۔ تخلیق اپنے بل پر جتنا بو نہیں سکتی، دولت اس سے کئی گنا ایک لمحے میں کاٹ سکتی ہے۔ کیا اس شہر میں صرف شاعر ہی نقلی ہیں؟ کیا انہی کے چہروں پر نقاب ہے؟ یا ڈاکٹروں، وکیلوں، پروفیسروں کی ڈگریاں، بنیے کے سامان اور نیتاؤں کے بھاشن سبھی میں کسی نہ کسی نقلی چیز کی ملاوٹ موجود ہے۔ نجیب یہ سب کچھ سوچ رہا تھا کہ اسے اطلاع ملی کہ باہر ناصر یلغار آیا ہے۔ ناصر یلغار کا نام سن کر وہ جلدی سے اٹھا اور باہر کی طرف لپکا۔ یہ شخص بہت دنوں بعد آیا تھا۔ اور اس کی باتیں اور بولنے کا انداز اتنا دلچسپ تھا کہ صرف نجیب ہی کیا، سبھی گھر والے اس کے گرد گھیرا بنا کر بیٹھ جایا کرتے تھے۔
۰۰۰
ناصر یلغار بالکل بمبیا ڈھب کا آدمی تھا۔ چھوٹا سا قد، سر کے بال مہین اور ترشے ہوئے۔ داڑھی اور مونچھ بالکل موزوں۔ ہر وقت گُٹکا اس کے منہ میں رہا کرتا تھا۔ دانتوں پر ایک قسم کی زردی جم گئی تھی اور منہ ہمیشہ لال رہا کرتا تھا۔ اس کا لہجہ اتنا خالص بمبئی والا تھا کہ اسے سننا ہی اپنے آپ میں ایک لطف کی بات ہوا کرتی تھی، تس پر وہ باتیں بھی مزیدار کرتا تھا۔ پیشے کے اعتبار سے پینٹر تھا اور میرا روڈ کی کئی دکانوں کے بورڈ بھی اسی نے پینٹ کیے تھے مگر مجید صاحب کا شاگرد تھا کیونکہ شاعری بھی کرتا تھا اور وہ بھی خالص اسلامی مضامین سے لبریز۔ اس کا ایک شعر جو نجیب کو یاد تھا وہ کچھ یوں تھا کہ ’وہ جو ایمان کے دشمن ہیں بتا دو ان کو، کہ ابابیلیں کسی وقت بھی لوٹ آئیں گی‘ اس نے گجرات فسادات کے فوراً بعد ممبئی میں ہونے والے ایک مشاعرے میں جو غزل پڑھی اسے سامعین نے بہت پسند کیا اور اسی وجہ سے اب وہ اکثر مشاعروں میں بلایا جانے لگا تھا۔ اس غزل کے جو دو شعر بہت مشہور ہوئے وہ یہ تھے کہ
ہزار سازشیں اپنے خلاف کرتے رہیں
ہماری قوم کے بچوں کو صاف کرتے رہیں
تمہی بتاؤ کہاں تک یہ بات ممکن ہے
وہ جرم کرتے رہیں ہم معاف کرتے رہیں
ناصر یلغاری اس بار خبر لے کر آیا تھا کہ میرا روڈ کے مشاعرے کی فہرست جاری کر دی گئی ہے اور اس کا نام اس مشاعرے میں موجود ہے۔ جب نجیب ڈرائنگ روم میں آیا تب ناصر یلغار اپنے مخصوص انداز میں مجید صاحب کو نظر مراد آبادی اور نظیر روحانی کا تازہ قصہ سنا رہا تھا۔ نجیب کو دیکھ کر وہ اٹھا، اس سے مصافحہ کیا اور ’کیا بولتے چھوٹے استاد‘ کہہ کر اسے ہاتھ پکڑ کر اپنی بغل میں بٹھا لیا۔ پھر دوبارہ قصے کا آغاز کرتے ہوئے اس نے کہا۔ ’تم بھی سنو بھائے! بڑی پرلطف بات بتارا ہوں۔ یہ نظر ہے نا۔۔ ارے وہی نظر مراد آبادی ہلکٹ۔۔ اس نے پتہ ہے کیا کیا؟ (ہنستے ہوئے) ابھی ہوا کیا کہ اندھیری میں تھا مشاعرہ اور بھَوت دنوں سے وہ لگیلا تھا اپنے نظیر بھائی کے پیچھو۔۔۔۔ سالے کی نظر بڑی ڈارک ہے ہاں! ماننا پڑے گا۔۔ نظیر بھائی اپنے کیا، تھوڑے شریف آدمی ہیں۔۔ وہ بے چارے میرے کو بتا رے تھے، ارے بھوت رو رہے تھے یار۔۔ اللہ ایسے سانپ سے بچائے بھائے اپن سب کو(اس نے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے کہا) تو ہوا یہ کہ اندھیری کے مشاعرے میں شرکت کے لیے ساتھ میں گیا یہ نظیر بھائی کے۔۔ ابھی انہوں نے اس مشاعرے کے لیے دو بالکل تازہ غزلیں لکھی تھیں۔۔ بھائے سبھی چاہتے ہیں کہ مشاعرے میں کچھ نیا ہو۔۔ ابھی پبلک ڈیمانڈ بھی ہوتی ہے نا۔۔ وہ اچ گھسی پٹی غزلیں کب تک سنائیں گا کوئی؟ تو بے چارے لکھے ہوں گے کچھ اچھا۔۔ تو شامت آئی نا ان کی کہ بھائے وہ غزلیں دونوں دے دیے اس شیطان کو کہ تو سنبھال کے رکھ، میرے کو مشاعرے کے اینڈ میں دے دینا۔۔ بروبر؟ ابھی اس کی نیت تو بھائے ان کو پتہ نہیں تھی، تو یہ اپنا فل کونفیڈینڈٹ۔۔۔۔ ابھی کیا کہ صدر بھی یہی تھے نا مشاعرے کے۔۔ تو بھائے مشاعرہ شروع ہوا۔۔ یہ تو بے چارے شفقت والے آدمی ہیں ہی۔۔ اللہ اللہ۔۔ وہ نظر کو انہوں نے بالکل اینڈ میں اپنے سے تھوڑا پہلے پڑھوایا۔ اب وہ شیطان کیا کیا بھائے۔۔ آیا اور مائیک پر غزل پیش کرتا ہوں بول کے سیدھا دائیں دیکھا نہ بائیں۔۔۔۔ ان کی غزلیں پڑھنا شٹارٹ کر دیا۔۔۔۔ اب یہ تو اچھل گئے، تھوڑا ضبط کیے رہیں گے کہ چلو ایک غزل دھوکے سے پڑھ گیا، مگر جب وہ حرامی دوسری بھی ان کی غزل پڑھنے لگا تو بھائی ان کی تو آنکھ سے آنسو گرنے لگے۔۔ اب یہ لگے اس کو الٹا سیدھا بولنے۔۔ گالی والی بھی بک دیے ہوں گے۔۔ اب ہو یہ رہا تھا کہ آجو باجو کے شاعر ان کو پکڑے ہوئے تھے، یہ گالیاں بک رہے تھے کہ حرامی میری دونوں تازہ غزلیں پڑھ ڈالا تو۔۔ اب میں کیا پڑھوں گا۔۔۔۔ شیطان کی اولاد۔۔ ناہنجار۔۔ پتہ نہیں کیا کیا بولے۔۔ مگر وہ سنتا تب نا۔۔ لوگ ان کو پکڑے ہی رہ گئے کہ وہ ان کی دونوں غزلیں پڑھ کر کنوینر سے اپنا پیکٹ لے وے کر چمپت بھی ہو گیا۔۔۔۔ اتنا فسردہ ہوئے بھائے یہ کہ طبیعت بگڑ گئی ان کی۔۔ بتا رہے تھے کہ ٹینشن سے اتنی گیس بن گئی تھی، بی پی ہائی ہو گیا تھا کہ اگلے دن ہسپتال میں ایڈمٹ کرنا پڑا۔۔۔۔ تو یہ اتنا تو حرامی ہے۔۔ اچھا اتنا ہی ہوا ہوتا تو سمجھ بھی لیتے۔۔ پتہ ہے کیا کیا ہے اس نے؟‘
نجیب نے بے تحاشہ ہنستے ہوئے پوچھا۔۔ ’کیا؟‘
اس نے جواب دیا۔ ’ان کا تازہ غیر مطبوعہ مجموعہ کلام لے کر چمپت ہو گیا ہے حرامی۔۔ اور ہاتھ ہی نہیں آ رہا ہے ان کے۔ دو بار اس کے گھر پر ریڈ ڈال چکے ہیں وہ بے چارے۔۔،‘ ریڈ ڈال چکے ہیں سن کر نجیب ہنستے ہنستے دوہرا ہو گیا۔ ناصر یلغار بھی اس کے ساتھ ہنستے ہوئے کہنا لگا۔ ’ارے بھائی! تم ہنس رے ہو۔ اتنا پکا والا حرامی ہے یہ کہ جس پانڈو کی بیوی کو لایا ہے بھگا کر وہ اپنے ساتھ کچھ لوگوں کو لے کر آیا اسے ڈھونڈتے ڈھونڈتے۔۔ اس کو بھائی تین گلی سے ان لوگ نے گھیرا تو یہ حرامی چوتھی سے نکل کر بھاگ گیا۔‘ مجید صاحب بھی مسکرا رہے تھے اور ان کی بیوی بھی ہنس رہی تھیں۔ تھوڑی دیر بعد ہنسی کا یہ سیلاب رکا تو نجیب نے اس کے ہاتھ سے ایک کاغذ لے کر دیکھا۔ میرا روڈ کے مشاعرے کی فہرست تھی۔ فہرست میں مرزا امانت، قاری مستقیم اور طائر امروہوی تینوں کا نام تھا۔ ناصر یلغار کا نام بھی جلی حروف میں لکھا تھا۔ باقی بھی کئی شاعر تھے، مگر نجیب کو ان ناموں میں اپنے والد کا نام کہیں نظر نہ آیا۔ شاید ناصر اسی بات سے تھوڑا ناراض بھی تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ یوسف جمالی کے پاس جا کر اس بات پر احتجاج کرنا چاہیے کہ اتنے سینیر شاعر کو کیسے مشاعرے کی فہرست تیار کرتے وقت نظر انداز کر دیا گیا ہے اور مجید صاحب اسے سمجھا رہے تھے کہ ایسا کچھ بھی کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان کے چہرے پر کہیں بھی بے اطمینانی یا غصے کا شائبہ تک نہیں تھا۔ نجیب نے سنا، ناصر یلغار کہہ رہا تھا۔
’میں تو برسر مشاعرہ اپنا احتجاج درج کراؤں گا۔‘ نجیب نے دیکھا، باہر آسمان پر بادل بہت کم تھے، دھوپ میں تیزی نہیں تھی، اور آسمان کی نیلاہٹ میں پرندوں کی ڈار کہیں بہت اوپر اڑ رہی تھی۔ اتنی اونچائی پر جہاں سے زمین کے باشندے بہت چھوٹے دکھائی دیتے ہوں گے یا شاید دکھائی ہی نہ دیتے ہوں۔
٭٭٭
لائبریری کا بار اٹھانا اب وسیم کے لیے مشکل ہو رہا تھا۔ ادھر سوا مہینہ بیت گیا اور چار پانچ کتابوں سے زائد ایشو نہیں کرائی گئی تھیں۔ دوسرا ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ جو لوگ روزانہ لائبریری میں جمع ہوتے وہ برابر کی ایک دکان سے چائے پر چائے منگوائے جاتے۔ اور کئی بار ایسا بھی ہوتا کہ چائے کا بل یا اس کا کچھ حصہ وسیم کو ہی ادا کرنا پڑتا۔ اس کی شادی بھی لگ گئی تھی۔ اس نے لائبریری کو ایک مستقل کاروبار کی امید میں جمایا تھا مگر یہ کاروبار ناکام ہوتا دکھائی دے رہا تھا۔ اسے سمجھ میں آ چکا تھا کہ لوگوں کو نصابی اور مذہبی کتابوں میں زیادہ دلچسپی ہے۔ پھر جب لائبریری قائم ہوئی تھی تب اس نے یہ بھی سوچا تھا کہ اتنی کتابوں میں سے کچھ مذہبی کتابیں بھی ہوں گی، جن کو مسلمانوں کی آبادی شوق سے پڑھتی تھی، مگر مجید صاحب کی کتابوں میں ’کینسر کے علاج کا قرآنی نسخہ‘ یا ’شمع شبستان رضا‘ جیسی کوئی کتاب نہیں تھی۔ یہاں تک کہ وسیم کے پسندیدہ رسالے طلسماتی دنیا کا ایک بھی شمارہ ان کتابوں میں موجود نہ تھا۔ اول بات تو آج کی مصروف دنیا میں اتنی موٹی موٹی ادق الفاظ سے بھری ہوئی کتابوں کو پڑھنے کی فرصت ہی کسے تھی، اس کے بعد اگر کوئی کتاب کو کرایے پر لینا بھی چاہے تو اس کے ایک دو مضامین دیکھ کر ہی اس کی جان سوکھ جاتی ہو گی۔ وسیم نے ان کتابوں کو کئی بار خود کھول کھول کر پڑھنے کی کوشش کی تھی۔ شاید ہی کوئی ایسی کتاب ہو، جو اسے سمجھ میں آئی ہو۔ ان کتابوں میں غیر مانوس شاعروں کے شعری مجموعے تھے، مگر ان کی تعداد کم تھی اور شاعری پڑھنے کے بجائے نیا نگر میں سننا زیادہ پسند کی جاتی تھی۔ کچھ اردو تنقید، کچھ فارسی کے پرانے تذکرے، کچھ دقیق منطق و فلسفہ کی کتابیں، کچھ روسی ناولوں کے ٹائپ میں چھپے ہوئے اردو ترجمے اور ہمایوں، نقوش، نگار، فنون جیسے رسالوں کے بوسیدہ اور ضخیم شمارے۔ چنانچہ وسیم کو احساس ہوا کہ اس سے تو بہتر تھا کہ یہ کتابیں کارٹنوں میں بند تھیں۔ اس کی ساری محنت کا پھل بس اتنا ہی ملا تھا کہ ان کتابوں کو تھوڑی ہوا لگ گئی تھی۔ وسیم کو یہ بھی محسوس ہوا کہ اس کی لائبریری، لائبریری کم اور کوئی مسافر خانہ کا ہال زیادہ معلوم ہوتا ہے، جہاں صبح سے شام تک طرح طرح کے لوگ پڑھنے کے لیے لگائی گئی کرسیوں پر بیٹھ کر شاعری کی بحثوں میں الجھے رہتے۔ اپنے سکول کے زمانے میں وہ کبھی کبھار لائبریری جایا کرتا تھا۔ وہاں تو بڑا ہی پرسکون اور خاموش ماحول ہوا کرتا ہے۔ اسے یاد تھا کہ اگر کبھی وہ اپنے دوستوں کے ساتھ کسی بات پر بھولے سے بھی ہنسی مذاق کرتا تو اسے لائبریرین کی غصہ ور آنکھوں کا سامنا کرنا پڑتا۔ وہاں تو ایسی خاموشی چھائی رہتی تھی کہ سوئی بھی گرے تو آواز سنی جا سکے اور یہاں کا ماحول اس کے بالکل برعکس کسی مچھلی مارکیٹ کی طرح تھا۔ کوئی گاہک آ کر یہاں کتاب پڑھنا چاہے بھی تو کیا اتنے شور میں کتابیں پڑھنا اس کے لیے ممکن ہو سکتا تھا۔ وسیم نے اس سلسلے کو بند کرنے کے لیے ایک چھوٹی سی تختی بھی دکان کے برابر میں لا کر لگا دی تھی۔ جس پر لکھا تھا، خاموشی سے گزریے، یہاں لائبریری ہے۔ مگر اسے اندازہ تھا کہ جب راہگیروں کی نظر اس تختی پر پڑتی ہو گی اور وہ لائبریری سے اٹھتے ہوئے شور کو سنتے ہوں گے تو بے ساختہ مالک لائبریری کی بے وقوفی پر ہنس پڑتے ہوں گے۔ وہ جانتا تھا کہ اس نے خود کو ہی نہیں مجید صاحب جیسے شریف آدمی کو بھی ایک مصیبت میں ڈال دیا ہے۔ اب اگر وہ یہاں سے کتابیں اٹھا بھی لیں تو کہاں لے جا کر رکھیں گے۔ ان کے گھر کا دو ماہ کا کرایہ خود ہی نہیں گیا ہے۔ ان کے مالک مکان ملک کو وہ جانتا تھا، جو مجید صاحب کی مروت میں اکثر چپ رہتا تھا مگر اس نے اپنی گلینڈی بیوی کی مدد سے اس سے پہلے اپنے کئی فلیٹوں سے ایسے کرایہ داروں کو بے عزت کروا کر باہر نکلوایا تھا، جنہیں کرایہ دینے میں مشکل سے دس گیارہ دن کی دیری ہو جاتی تھی۔ اسے یہ سوچ کر ہیبت ہوئی کہ پتہ نہیں مجید صاحب جیسے عزت دار آدمی اس عورت کا سامنا کیسے کریں گے۔ اسے مجید صاحب پر ترس بھی آیا اور حیرت بھی ہوئی کہ اس طرح کوئی شخص کیسے اپنی زندگی گزار سکتا ہے؟ نہ کمائی دھمائی کی کوئی فکر، نہ بال بچوں کے مستقبل کا کچھ خیال۔ پتہ نہیں ان کے بچوں کی تعلیم کہاں تک ہوئی تھی اور اب تو وہ بھی شعر و شاعری کے اسی چکر میں پڑ کر خوار ہو رہے تھے۔ اسے خیال آیا کہ مجید صاحب کی ایک بیٹی بھی ہے، جو قبول صورت ہونے کے ساتھ ساتھ دن بدن جوان ہوتی جا رہی ہے۔ مجید صاحب کا یہی حال رہا تو وہ اس کی شادی کس طرح کریں گے؟ وہ سوچنے لگا کہ یہ آدمی نیا نگر آنے سے پہلے کیا کرتا رہا ہو گا؟ کیا یہ کہیں اور سے بھی بے عزتی سہہ کر نکلا ہے یا نکالا گیا ہے؟ کیا کبھی اس شخص نے اپنی پوری زندگی میں کوئی کام پیٹھ ٹکا کر یا محنت سے کیا بھی ہو گا یا پھر انہی موٹی موٹی کتابوں نے اس کی شخصیت کو اتنا کاہل الوجود اور مستقبل کی جانب سے بے بہرہ کر دیا ہے۔ اس کے دل میں مجید صاحب کی پچھلی زندگی کو جاننے کا تجسس بیدار ہوا، وہ زندگی جس پر مجید صاحب نے اپنے اب تک کے نیا نگر کے قیام میں ایک پردہ سا ڈال رکھا تھا۔ اس نے مرزا امانت سے ایک دو بار اس سلسلے میں جاننا بھی چاہا تھا مگر وہ بھی دوسروں کی طرح مجید صاحب کی پچھلی زندگی کے حالات و معاملات سے بے خبر ہی تھا۔ اس نے سوچا کہ مجید صاحب جوانی میں کیسے دکھتے ہوں گے، ان کی شادی کن حالات میں ہوئی ہو گی؟ ان کی بیوی کے گھر والے کیسے لوگ ہوں گے جنہوں نے ایک مجذوب قسم کے شاعر سے اپنی بیٹی بیاہ دی تھی۔ تبھی اسے مجید صاحب کی بیوی کی بھی یاد آئی۔ کیسے ان کی آنکھوں میں ہر وقت پریشانی کا پانی تیرتا رہتا ہے۔ وہ کتنی بولائی بولائی اور ہراساں رہتی ہیں۔ کیسے کوئی عورت مجید صاحب جیسے انسان کے ساتھ زندگی کی اتنی مشکلیں سہتے ہوئے اپنے بچوں کے مستقبل کو برباد ہوتا ہوا دیکھ سکتی ہے؟ بہر حال یہ باتیں اس کی سمجھ میں آئیں یا نہ آئیں مگر خسارہ اسے صاف سمجھ میں آ رہا تھا۔ چنانچہ اس روز وہ مجید صاحب کے گھر گیا، رات کا وقت تھا، قریب گیارہ بجے تھے۔ سب بچے سو چکے تھے۔ اس نے دستک دی تو دروازہ مجید صاحب کی بیوی نے کھولا اور بڑے پر جوش انداز میں اسے اندر آنے کی دعوت دی۔ قریب آدھے گھنٹے بعد آدھ کپ چائے کی پیالی پی کر وہ گھر سے باہر نکلا تو اس کے چہرے پر اطمینان تھا۔ اس نے مجید صاحب کو بتا دیا تھا کہ وہ اس ماہ کے آخر میں لائبریری بند کر کے سٹیشنری کی دکان کھولنا چاہتا ہے۔ مجید صاحب کے چہرے پر مایوسی کی ایک رمق تک نہیں ابھری، انہوں نے ایک لمبی سانس باہر چھوڑی، اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور دیوار سے ٹیک لگا کر دونوں ہاتھوں کی انگلیاں آپس میں گتھوئے چھت کی طرف دیکھا۔ وسیم سوچ رہا تھا کہ مجید صاحب نے رات کو جب بیوی کی بغل میں لیٹ کر انہیں یہ بات بتائی ہو گی تو اس مسکین عورت کے دل پر نہ جانے کیا گزرے گی۔ مگر وہ اس معاملے میں مجبور تھا۔ اس نے اٹھنے سے پہلے مروتا مجید صاحب کے ہاتھ میں پانچ سو روپے رکھ دیے تھے۔
٭٭٭
جشن مجید کی تیاریاں زوروں پر تھیں۔ بارہ دن بعد یہ جشن ہونا تھا مگر شاگردوں نے اپنی جانب سے شور و ہنگامے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی تھی۔ بہت کم لوگوں کو چھوڑ کر تقریباً سبھی ادیبوں اور شاعروں کو مدعو کیا گیا تھا۔ پروگرام کے چھوٹے بڑے پوسٹر بھی بنوائے گئے تھے اور انہیں نیا نگر کی مختلف دیواروں، کھمبوں اور کچھ آٹو رکشوں پر بھی چسپاں کیا گیا تھا۔ ہر طرف جشن مجید کا ذکر تھا۔ لوگوں کے چہروں پر خوشی تھی، اس میں کوئی شک نہیں کہ مجید صاحب کے شاگردوں نے اچھی خاصی رقم بھی خرچ کی تھی۔ اس جشن کے لیے ایک بڑا ہال بھی کرایے پر لیا گیا تھا۔ جس میں قریب دو سو لوگ جمع ہو سکتے تھے۔ پروگرام کو رات آٹھ بجے سے رکھا گیا تھا تاکہ لوگ آرام سے رات کا کھانا کھا کر شرکت کے لیے آ سکیں۔ شعرا اور مہمانوں کے چائے پانی کا خرچ نیا نگر کی ایک ادبی تنظیم نے اپنے ذمہ لیا تھا۔ اس میں شرکت کرنے والے شاعروں میں ممبرا سے دو بہترین غزل گو شعرا کو خاص طور پر مدعو کیا گیا تھا۔ فدا فاضلی شہر میں نہیں تھے، اور اس بات پر انہوں نے مجید صاحب کے کسی شاگرد سے بذریعہ فون افسوس کا اظہار بھی کیا تھا۔ مجید صاحب اپنے آس پاس دوستوں، شاگردوں کے ہجوم کو سمیٹے کسی عالم دین کی طرح استغراق کے عالم میں ڈوبے رہتے۔ شاید ان کے دل میں لائبریری کے جلد بند ہونے کا غم اور دوسری پریشانیاں گھر کیے ہوئے تھیں۔ ملک نے پچھلے روز تڑکے ہی اپنی بیوی کو بھیجا تھا، جس نے مجید صاحب کی بیوی سے بڑی بدتمیزی سے بات کی تھی۔ مجید صاحب کی بیوی کی آنکھیں رو رو کر سوجی ہوئی تھیں۔ انہوں نے منت سماجت کر کے ملک کی بیوی کو یقین دلانا چاہا تھا کہ کرایہ جلد ہی ادا کر دیا جائے گا مگر اس نے ایک نہ سنتے ہوئے صاف الٹی میٹم دے دیا تھا کہ اگر اگلے مہینے کی تین تاریخ تک کرایہ نہیں آیا تو وہ اپنے ساتھ کچھ لوگوں کو لے کر آئے گی، جو گھر کا سارا سامان اٹھا کر باہر پھینک دیں گے۔ اس نے صاف صاف کہا تھا کہ اگر تھوڑی سی غیرت بچی ہو تو یا تو کرایہ دے دو یا دو تاریخ تک خود ہی گھر خالی کرتے بنو۔ مجید صاحب کے ذہن میں ایک دفعہ یہ خیال بھی آیا تھا کہ وہ مرزا امانت اور قاری مستقیم کو ساری صورت حال سے آگاہ کر دیں اور ان سے کہیں کہ جشن پر ہونے والے تمام اخراجات کے بدلے اگر تمام شاگرد مل کر ان کے دو ماہ کا کرایہ ادا کر دیں تو شاید وہ آنے والی بے عزتی کے طوفان سے بچ جائیں۔ مگر اگلے ہی لمحے انہیں خیال ہوا کہ کس قسم کی بے ہودہ بات سوچ رہے ہیں۔ کیا ان کے گھر کا کرایہ ادا کرنا کسی اور کی ذمہ داری ہے؟ اور یہ لوگ جو پچھلے دو مہینوں سے اس جشن کی تیاری کر رہے ہیں، جنہوں نے محنت سے کمائے ہوئے اپنے روپیے مجید صاحب کی قدر شناسی کے طور پر خرچ کیے ہیں، ان کے سامنے اگر دست طمع دراز کر دیا جائے تو وہ کیا سوچیں گے؟ تب کیا وہ عزت سے رہ سکیں گے؟ کیا انہیں نیند آ سکے گی؟ انہوں نے غور کیا کہ کیا کوئی ایسا صاحب حیثیت شخص ہے جس سے وہ قرض کی کچھ رقم لے سکیں، مگر انہیں فوراً ہی احساس ہو گیا کہ ایسے جتنے بھی لوگ تھے، وہ پہلے ہی ان کے احسانات سے دبے ہوئے تھے۔ ہر ایک نے موقع بہ موقع ان کی مدد کی تھی، کبھی کوئی خاموشی سے مجید صاحب کے ہاتھ میں کچھ رقم پکڑا جاتا تو کبھی کوئی ان کی بیوی یا بچوں کی مٹھی میں۔ ان کے دماغ پر صرف یہی دھن سوار نہیں تھی، انہیں یہ بھی فکر لاحق تھی کہ لائبریری بند ہونے پر وسیم کے یہاں سے وہ کتابیں بھی اٹھانی ہیں۔ مان لو کہ وسیم اپنے ہی خرچ پر ان کتابوں کو مجید صاحب کی بتائی ہوئی جگہ پر چھوڑنے کو تیار ہو بھی جاتا ہے تو سوال یہ ہے کہ وہ ٹھکانہ کون سا ہو گا؟ بنیے کا بھی قرض اس ماہ ادا نہیں ہوا تھا۔ بڑے بیٹے کی تنخواہ آتے ہی وہ رقم اس طرف نکل جانی تھی، پھر بھی اگر اس رقم کو کرایے کے طور پر استعمال کرنے کا فیصلہ کر لیا جاتا تو کیا ملک کی بیوی ایک مہینے کا کرایہ ملنے پر آسانی سے راضی ہو جائے گی؟ وہ تو جب سے اس فلیٹ میں آئے ہیں، ہمیشہ ہی ان پر ایک یا دو ماہ کا کرایہ چڑھا ہی رہتا ہے۔ اور وہ مان بھی گئی تو پھر بنیے کو کہاں سے پیسہ دیا جائے گا اور اسے پیسہ نہیں دیا جائے گا تو بچے کیا کھائیں گے؟ الغرض ان کے سامنے دسیوں سوال تھے۔ انہوں نے ایک آہ بھر کر سوچا کہ اب اس گھر کو چھوڑنا ہی ہو گا، مگر وہ اسے چھوڑ کر کہاں جائیں گے۔ انہوں نے ان فکروں سے بچنے کے لیے آنکھیں کھولیں تو دیکھا کہ سامنے تھال میں کچھ لڈو رکھے ہیں، شاگرد آپس میں بیٹھے باتیں کر رہے ہیں اور ایک طرف وہ چھوٹا سا پمفلٹ رکھا ہے، جس پر جشن مجید کی تفصیلات موجود ہیں۔ انہوں نے پمفلٹ اٹھا کر دیکھا۔ نستعلیق خط میں بڑا بڑا ’جشن مجید‘ لکھا ہوا تھا۔ اس کے نیچے ایک سطر اور تھی، انہوں نے پڑھا۔ ’دنیائے ادب کے سب سے بڑے شاعر مجید شاہجہاں پوری کے جشن سالگرہ کے موقع پر‘ نیچے مشاعرے میں شرکت کرنے والے شاعروں کے نام لکھے تھے۔ پھر وقت اور مقام۔ مقام کے آگے جس ہال کا نام لکھا تھا، اس کو دو بار پڑھنے کے بعد مجید صاحب نے ایک شاگرد کو چپکے سے اشارہ کیا، وہ نزدیک آیا تو انہوں نے سرگوشی میں پوچھا۔
’کتنا کرایہ ہے اس ہال کا؟‘
’آٹھ ہزار‘ اس نے بھی دھیمے سے جواب دیا۔ مجید صاحب نے گہری لمبی سانس چھوڑی۔ انہوں نے حساب لگایا۔ دو مہینے کا کرایہ، بنیے کا قرض اور لائٹ بل۔۔ ملا کر کچھ اتنی ہی رقم ہوتی تھی یا اس سے کچھ کم۔
۰۰۰
نجیب نے تنویر کو بلا کر ایک خط اس کے ہاتھ میں پکڑایا۔ تنویر نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا تو نجیب نے ہولے سے اس کا ہاتھ دباتے ہوئے کہا۔
’شہناز کو دے دینا۔‘ تنویر کو اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا۔ اس نے دوبارہ پوچھا۔ ’کس کو؟‘ نجیب نے جواب دیا۔ ’شہناز کو۔۔ اور ہاں دھیان رہے، کسی اور کے ہاتھ نہ لگے یہ خط۔‘ تنویر خط لے کر باہر نکل گیا۔ اس کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔ بھائی صاحب، شہناز کو پسند کرتے ہیں؟ لیکن ایسا کب ہوا؟ کیوں ہوا؟ کیا انہیں میری آنکھوں میں شہناز کے لیے جو عشقیہ چمک ہے وہ کبھی دکھائی نہیں دی؟ لیکن پھر اسے خیال آیا کہ خود اسے بھی تو بھائی صاحب کی آنکھوں میں جھانکنے کی فرصت نہیں تھی۔ کیا شہناز اور بھائی صاحب کے درمیان معاشقہ پہلے سے چل رہا ہے؟ کیا وہ دونوں ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں۔ بالکل نہیں! ایسا ہوتا تو یہ بات چھپی نہیں رہ سکتی تھی، خاص طور پر اس سے، جو کہ ہر وقت سایے کی طرح شہناز کے آگے پیچھے رہا کرتا تھا۔ مگر پھر یہ سب کیسے ہوا؟ کیسے شہناز بھائی صاحب کی آنکھوں میں چڑھ گئی؟ وہ اس سوچ کی چوٹ سے بچنے کے لیے شاندار کامپلیکس میں لگی ایک بینچ پر بیٹھ گیا۔ بہت دیر تک اس کے دماغ میں تیز ہوائیں رقص کرتی رہیں۔ اسے محسوس ہو رہا تھا کہ اس کے ساتھ کوئی عجیب قسم کا مذاق ہوا ہے۔ اچانک اس نے ہمت کر کے لفافہ کو پھاڑ کر خط باہر نکالا اور اسے تیزی سے پڑھنے لگا۔ آدھا خط پڑھ کر اس سے مزید نہیں پڑھا گیا۔ اس نے واپس خط کو لفافے میں رکھا۔ اسے کیا کرنا چاہیے؟ کیا وہ اس خط کو کسی نالی میں پھینک دے؟ یا کہیں چھپادے اور بھائی صاحب سے کہہ دے کہ اس نے یہ خط شہناز کو دے دیا ہے۔ نہیں! وہ شہناز سے خط کے بارے میں پوچھ بھی سکتے ہیں۔ تنویر کی آنکھیں بھیگنے لگیں۔ اسے سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اتنے دنوں سے وہ اپنے بھائی کی محبت پر ڈاکہ ڈالنے کی کوشش کر رہا تھا یا اس کے ہاتھ میں تھما ہوا یہ خط اس کی محبت کے منہ پر اس کے بھائی کا ایک زوردار طمانچہ تھا۔ وہیں بیٹھے بیٹھے جھٹپٹا ہو گیا۔ بلڈنگ میں بنی چھوٹی سی مسجد سے مغرب کی اذان کی آواز بلند ہوئی۔ اس نے دیکھا برابر کے درخت پر ایک پرندہ اپنے پروں میں سر دیے سورہا تھا۔ قریب ہی کھمبے پر لگی ہوئی لائٹ فرش پر روشنی کا ایک دائرہ بنائے ہوئے تھی۔ اس ماحول میں اس کے دل کا بھاری پن مزید ابھر آیا۔ اسے لگا کہ تھوڑی دیر اور اگر وہ یہیں بیٹھا تو اس کے دماغ کی نسیں پھٹ جائیں گی۔ اس نے گھٹنوں میں سر رکھ دیا اور پھپھک کر رونے لگا۔ اچھی طرح رونے کے بعد اس نے سر اٹھایا۔ مسجد میں جا کر منہ ہاتھ دھویا اور ایک مضبوط ارادے کے ساتھ نسیم کے گھر جانے کے لیے لفٹ میں سوار ہو گیا۔ فلور پر سناٹا تھا۔ اس نے دروازے کی گھنٹی بجائی۔۔ ایک بار۔۔ دو بار۔۔ تین بار۔۔ پھر اسے لگا شاید سب لوگ کہیں گئے ہیں، مگر اندر لائٹ جل رہی تھی اور وہ جانتا تھا کہ جب نسیم کے گھر پر کوئی نہیں ہوتا تو گھر کی کوئی بھی لائٹ روشن نہیں ہوتی تھی۔ وہ لفٹ کی طرف پلٹ ہی رہا تھا کہ دروازہ کھلا۔ سردار نے دروازہ کھولا تھا۔ تنویر کو دیکھ کر اس کے چہرے پر ایک عجیب سی لہر نمودار ہوئی۔ اس نے بدن پر کچھ نہیں پہنا تھا، نیچے ایک سفید رنگ کا لوئر تھا، فلور پر لگے ہوئے بلب کی روشنی میں تنویر کو اس کے لوئر کی جیب کے اوپر ایک گیلا دھبا صاف دکھائی دے رہا تھا۔ دو منٹ کے توقف کے بعد جب سردار نے اسے اندر آنے کا راستہ دیا تو تنویر سمجھ چکا تھا کہ وہ غلط وقت پر آیا ہے اور اس وقت سردار اور نسیم کے علاوہ شاید گھر پر کوئی اور نہیں ہے۔ وہ ڈرائنگ روم میں ایک صوفے پر بیٹھ گیا۔ سردار اندر جا چکا تھا۔ اندر سے کچھ کھسر پھسر سنائی دی۔ اور تھوڑی دیر بعد تنویر نے جو دیکھا، اسے اپنی آنکھوں پر یقین ہی نہیں آیا۔ شہناز ایک بڑی سی ٹرے میں پانی کا گلاس رکھ کر اس کے پاس آئی۔ اس نے ٹرے کو میز پر رکھتے ہوئے تنویر کو سلام کیا اور سامنے بیٹھ گئی۔ تنویر نے پوچھا۔ ’نسیم آپی کہاں ہیں؟‘ اور جواب میں شہناز کی آواز اسے دور سے آتی ہوئی محسوس ہوئی۔
’آپی اور امی بازار گئے ہیں، بھائی کسی دوست کے گھر ہیں۔ شاید سب لوگ آدھ گھنٹے میں آ جائیں گے۔‘
تنویر نے ہاتھ میں پکڑے ہوئے لفافے کو جیب میں رکھا، پانی کے دو گھونٹ پیے اور اٹھ کھڑا ہوا۔ شہناز نے ایک شرارتی نگاہ اس لفافے کی طرف ڈالتے ہوئے پوچھا۔
’وہ کیا ہے؟ نسیم آپی کے لیے ہے؟ لائیے! میں دے دوں گی!‘
تنویر کچھ کہے بنا دروازے کی طرف گیا اور دروازہ کھول کر لفٹ کے بجائے تیزی سے سیڑھیاں اترنے لگا۔ پیچھے سے کوئی آواز نہیں آئی تھی۔
٭٭٭
شام کا چار بجا تھا کہ اچانک چلتا ہوا پنکھا رک گیا۔ مجید صاحب کی بیوی ڈرائنگ روم میں بیٹھی آٹا گوندھ رہی تھیں اور سامنے ان کی بیٹی ایک ٹانگ پر دوسری ٹانگ جمائے ہندی ڈائجسٹ مہکتا آنچل کی کوئی کہانی پڑھ رہی تھی۔ مجید صاحب کی بیوی نے پنکھے کی طرف دیکھ کر سوچا۔ ’اس وقت تو لائٹ کبھی نہیں جاتی۔‘ نیا نگر میں ویسے ہی لائٹ کم جاتی تھی۔ ممبئی شہر سے سٹے ہوئے اس علاقے میں لوڈشیڈنگ کی کوئی سمسیا نہیں تھی۔ مجید صاحب گھر پر نہیں تھے۔ اگلی شام کو جشن مجید منایا جانا تھا اور ادھر یار دوست انہیں لے کر کبھی کسی ریستوراں تو کبھی کسی چائے خانے پر بیٹھے رہا کرتے تھے۔ ایسا نہیں تھا کہ گھر کے کرایے یا بنیے کے قرض کی چنتا صرف مجید صاحب کو تھی، ان کی بیوی بھی جانتی تھیں کہ یہ مسئلہ کتنا بڑا ہے۔ مگر شاید اس قسم کے مسئلوں سے وہ پہلے بھی کئی بار دوچار ہو چکی تھیں۔ اس لیے انہوں نے اندیشہ مستقبل کے لیے کچھ خاص وقت مقرر کر رکھے تھے۔ جن میں سے وہ اوقات کافی اہم ہوتے، جب وہ مجید صاحب کی بغل میں لیٹی ہوا کرتیں اور طرح طرح کے اخراجات، قرضے اور پریشانیاں گنوایا کرتیں اور مجید صاحب آنکھیں بند کیے ان کی ہر بات پر ’ہمم ہمم‘ کہا کرتے۔ مگر فی الحال تو مجید صاحب کا اتا پتا نہیں تھا۔ ضرور اس وقت وہ اپنے شاگردوں سے گھرے ہوئے ہوں گے۔ ان کے لائق شاگرد جشن مجید میں پڑھی جانے والی غزلیں یہاں تک کہ خود مجید صاحب کی نذر کی جانے والی نظمیں بھی انہی سے ٹھیک کروا رہے ہوں گے۔ پچھلے دنوں نجیب کو اس کے ایک شاگرد نے مجید صاحب پر لکھا ہوا قطعہ سنایا تھا، جسے مجید صاحب کی بیوی نے بھی سنا تھا۔ اس نے ایک چھوٹا سا قطعہ لکھا تھا
وقت نے دیکھے ہیں کئی منصور
اور کئی بایزید دیکھے ہیں
اے زمانے مگر بتا مجھ کو
تو نے کتنے مجید دیکھے ہیں
مجید صاحب کی بیوی کو اس جیون میں تو صرف بھابھی، امی، امی جان سے ہی ہمیشہ مخاطب کیا جاتا تھا۔ وہ لوگ جہاں جہاں رہے تھے۔ ہر جگہ مجید صاحب کی وجہ سے انہیں بہت عزت ملی تھی۔ یہ الگ بات تھی کہ مجید صاحب کی زندگی غربت میں بسر ہوتی تھی۔ کھانے کمانے کا کوئی بندوبست کبھی ٹھیک سے نہ رہا تھا، مگر اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ انہی کی وجہ سے بیگم صاحبہ کو لوگوں نے ہمیشہ عزت و احترام سے نوازا۔ ملک صاحب کی بیوی جیسے لوگ تو دنیا میں بہت کم ہیں۔ یہ چند روز کے مکان مالک مجید صاحب کی عظمت کو نہیں سمجھ سکتے۔ مجید صاحب کی بیوی کو ان کی منکوحہ ہونے پر فخر محسوس ہوا۔ انہیں یاد آیا کہ کس طرح مجید صاحب کے شاگرد ان کے بھی آگے پیچھے پھرتے تھے، راستے میں کہیں سامان لاتے دیکھتے تو فوراً ان کے ہاتھوں سے جھولا لپک لیتے اور گھر تک پہنچاتے۔ جب بھی کوئی شاگرد مجید صاحب کے لیے کوئی تحفہ لاتا تو ان کی بیوی کو ہرگز نظر انداز نہ کرتا۔ انہوں نے مجید صاحب کے ایک دوست سے سنا تھا کہ سرسوتی اور لکشمی ایک ساتھ ایک جگہ واس نہیں کرتیں اور یہ بات سچ بھی ہے۔ وہ زیادہ پڑھی لکھی نہیں تھیں۔ ممکن تھا کہ وہ کسی امیر آدمی سے شادی کرتیں اور ہمیشہ گمنامی میں ایک راحت کی زندگی بسر کرتیں مگر کیا انہیں وہ احترام سے بھری نظریں، وہ سلام و آداب اور لوگوں سے ایسی محبت مل پاتی جیسی مجید صاحب کی بیوی ہونے کی وجہ سے ملی ہے؟ وہ یہی سب سوچ رہی تھیں۔ آٹا گوندھا جا چکا تھا۔ پیڑے بن گئے تھے۔ انہوں نے سوچا لائٹ اگر دیر تک کے لیے نہیں آئی تو اندھیرے میں روٹیاں بنانی مشکل ہوں گی، چنانچہ ابھی اس کام سے فارغ ہولینا زیادہ مناسب ہو گا۔
٭٭٭
نجیب گھر لوٹا تو اسے معلوم ہوا کہ گھر پر لائٹ نہیں ہے، جبکہ آس پاس کے سبھی گھروں میں روشنیاں ہو رہی تھیں۔ مجید صاحب گھر پر نہیں تھے۔ تنویر بھی کہیں غائب تھا۔ بہن، دوسرا بھائی اور امی ایک کمرے میں اوندھے گلاس پر موم بتی جما کر بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ سمجھ گیا کہ بجلی کاٹی جا چکی ہے۔ پورا گھر اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔ وہ منہ ہاتھ دھوکر اسی کمرے میں نیم دراز ہو گیا۔ کھانے کے لیے پوچھا گیا تو اس نے انکار کر دیا۔ وہ جلتی ہوئی موم بتی کو بڑے غور سے دیکھ رہا تھا، کچھ پتنگے، شمع کی لو سے الجھنے کے لیے بار بار اس کی سمت لپک رہے تھے۔ لو بھی کانپتی ہوئی ان کے ننھے منے جسموں پر حملہ آور ہو رہی تھی۔ مگر ایسا لگتا تھا کہ روشنی کے پیروں میں زنجیر بندھی ہے۔ اسے دو ایک شاگردوں کا کلام ٹھیک کرنا تھا، کام ضروری تھا کیونکہ کل جشن مجید کے موقع پر انہیں وہ منظوم عقیدت نامے پڑھ کر سنانے تھے۔ چنانچہ وہ ایک دراز سے دو چار فل سکیپ نکال کر موم بتی کی روشنی میں بیٹھ کر ان کے کلام پر نشانات لگانے لگا۔ اچانک اس نے اپنی امی سے پوچھا۔
’کس وقت کٹی ہے لائٹ؟‘
’شام چار بجے کے قریب‘ امی کے بجائے بہن نے جواب دیا۔ اس سے پہلے کہ وہ کوئی رد عمل دیتا۔ امی نے اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا۔ ’پریشان مت ہو بیٹا! کل کا جشن ہو جائے، تمہارے ابا پرسوں ضرور کوئی راستہ نکال لیں گے۔‘ نجیب اپنی امی کی طرف دیکھنے کی ہمت نہیں کر پایا۔
٭٭٭