یادش بخیر! پی ای سی ایچ ایس کالج کراچی میں داخلہ لیا کہ یہ ہمارا بلکہ پی ای سی ایچ ایس میں رہائشی تمام لوگوiiں کا خاندانی کالج تھا، یہاں تک کہ اس کی شہرت کراچی کے دور دراز علاقوں میں اس طرح پھیل گئی تھی کہ ہر بچی اور تمام والدین کی خواہش ہوا کرتی تھی کہ یہاں داخلہ مل جائے، حالانکہ اس کالج کا شمار مہنگے ترین کالجز میں ہوتا تھا۔ اس کی ایک خاصیت یہ تھی کہ ہر سال بلڈنگ فنڈ کے نام پر ایک بڑی رقم وصول کی جاتی تھی۔ طالبات کہا کرتی تھیں کہ یہ کالج مکمل ہو گا اور نہ اس فنڈ سے جان چھوٹے گی۔ پرنسپل صاحبہ ٹیکس دینے سے بھی بچی رہیں گی۔ ہر تقریب کے موقع پر آمنہ مجید ملک دورانِ خطاب اقبال کا یہ شعر پڑھا کرتیں اور سٹیج کے پس منظر میں یہ شعر بڑے سے بینر پر لکھا ہوتا۔
پھلا پھولا رہے یارب! چمن میری امیدوں کا
جگر کا خون دے دے کر یہ بوٹے میں نے پالے ہیں
‘‘اس میں طالبات اور ان کے والدین کا بھی تو خون شامل ہے، اس کا تذکرہ ہی نہیں’’
ان سب کے باوجود سبھی کی خواہش اس کالج سے وابستگی کی تھی۔ کالج کے بڑے نام میں بہت کچھ کمال بیگم آمنہ مجید ملک کا بھی تھا کہ جو کالج کی مالک تھیں۔ بوٹا سا قد، سفید ساری اور سفید بالوں کا جوڑا خوب پھبتا تھا اور چلت پھرت میں نوجوانوں کو مات کرتی تھیں۔ رکھ رکھاؤ ایسا کہ طالبات ایک جانب تو انھیں ماں کی طرح مشفق پاتیں اور دوسری جانب وہ ان کی شیر کی نگاہ سے بھی آگاہ تھیں اور کسی بھی قسم کی کوتاہی سے بچنے کی کوشش کرتیں۔ پھر ان کی شخصیت کا سحر سر چڑھ کر بولتا تھا، کرنل مجید ملک کی وفات کے بعد بھی ان کے حلقۂ احباب کو منتشر نہ ہونے دیا، جن میں سر فہرست فیض صاحب تھے جنھوں نے ‘‘شام شہر یاراں ’’کا انتساب مجید بھائی اور آمنہ بہن کے نام کیا تھا۔۔۔۔۔ اور بھی بہت سے اہل قلم، شاعر، ادیب اور دانشور، کبھی مشاعرے، کبھی غالب کی صد سالہ برسی تو کبھی یومِ اقبال کے سلسلے میں منعقد ہونے والی تقریبات میں شریک ہوتے اور نو خیز طالبات اپنے درمیان ان بڑے ناموں کو پا کر خوشی سے پھولے نہ سماتیں، اسما احمد اپنی آواز کا جادو جگاتیں، اس زمانے میں افشاں احمد جونئیر سیکشن میں تھیں، لیکن ہاتھ میں رولر ہوتا اور بڑی جماعت کی لڑکیوں کو آگے لگایا ہوتا۔ پی ٹی وی کے سہیل رعنا کے بچوں کے موسیقی کے پروگرام ’’کلیوں کی مالا میں‘‘ ان کے سر بکھرتے رہتے اور پھر
میرے بچپن کے دن، کتنے اچھے تھے دن
گا کر انھوں نے شہرت کی بلندیوں پر قدم دھرے۔ مہدی حسن فیض کی موجودگی میں گلوں میں رنگ بھرے الاپتے تو چہار جانب پھول کھل جاتے۔ رونا لیلیٰ نے بھی یہیں اپنی تعلیم مکمل کی۔ بات ہو رہی تھی شعر و ادب، سیاست اور فنون لطیفہ کے بڑے ناموں کی، حمایت علی شاعر، شبنم رومانی، زیڈ اے بخاری، سرور بارہ بنکوی، جمیل الدین عالی، راجو جمیل، افتخار عارف، قریش پور، عبید اللہ بیگ، لیڈی نصرت اے ہارون، لیڈی دولت ہدایت اللہ، بیگم خورشید مرزا اور شوکت پرویز ان سب سے یہیں ملاقات ہوئی، ایسے یاد پڑتا ہے کہ این میری شمل اور رالف رسل بھی اس گروہ میں شامل تھے اور جو مناظر بہت اچھی طرح ذہن نشین ہیں ان میں ایک تو کلثوم( ایلس) فیض سے متعلق ہے کہ وہ شعبہ فنونِ لطیفہ کی سربراہ تھیں اور سارا دن برش اور رنگوں سے انھیں سروکار تھا اور طالبات انھیں گھیرے رہتیں اور ان کی گلابی اردو کے مزے لیتیں، نرسری کلاس کی بچیوں سے انھیں بہت محبت تھی، انھیں بھی بہت وقت دیتیں۔ دوسرے منظر میں صادقین اپنی تمام تر آشفتگی اور اسرار کے ساتھ وادیِ الہام میں فروکش سفید کرتے پاجامے میں ملبوس کالج ہال میں جہاں لائبریری بھی قائم تھی، دن دن بھر سیاہ رنگ سے سفید کینوس پر فیض کے اشعار کو تجسیم عطا کرتے رہتے اور ہم آتے جاتے اور خالی گھنٹے میں ان کی کام میں محویت کا نظارہ کرتے، ان کی تصاویر کو دیکھتے ہوئے طالبات کالج فوٹو گرافر سے اپنی تصاویر کھنچواتیں اور بہت خوش ہوتیں۔ اس وقت انھیں احساس بھی نہ ہوتا کہ تخلیق کار، شاعر اور مصور کو گرد و پیش میں بچھے جال اور اس میں پھنسے پھڑپھڑاتے مجبور و بے کس عوام، ناتواں مزدور اور معاشی استبداد کے ظلم و ستم اٹھاتے کسان، جاگیردارانہ فرسودہ نظام اور زمیندار و جاگیردار وڈیروں کے درمیان مزارع کی رشتۂ زیست بر قرار رکھنے کی سعی و تگ و دو کیا کیا خون آشام کہانیاں سناتی ہے۔ احتجاج، مزاحمت یا مصالحت کب کون سا راستہ اختیار کرنا پڑ جائے:
مقام فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے
متاع لوح و قلم چھن گئی تو کیا غم ہے
کہ خونِ دل میں ڈبو لی ہیں انگلیاں میں نے
زباں پہ مہر لگی ہے تو کیا کہ رکھ دی ہے
ہر ایک حلقۂ زنجیر میں زباں میں نے
یہ حسیں کھیت پھٹا پڑتا ہے جوبن جن کا
کس لیے ان میں فقط بھوک اگا کرتی ہے
ایسے اشعار میں سرخ کھلتے مہکتے گلابوں کی گنجائش نہیں ہاں تھور کے پودے پوری شد و مد کے ساتھ اپنا تعارف کرواتے۔ تھور کیونکر صادقین کی زندگی میں داخل ہو کران کے ذہن و دل کو اپنی آماج گاہ بناتا ہے، اس کی بھی توجیہ پیش کی جا سکتی ہے۔ صادقین پاکستان آئے تو انھیں بنجر زمینوں اور ویرانیوں سے واسطہ پڑا۔ کیکٹس کے پودے اور خار دار جھاڑیوں کے جھنڈ چہار سو پھیلے ہوئے تھے۔ نئے وطن میں مسائل زیادہ اور وسائل بہت کم تھے۔ کیکٹس ہر قسم کے موسم میں نمو پا لیتا ہے اور زندہ رہتا ہے، انسان بھی کیکٹس کی مانند ان مشکل حالات، ناموافق موسم میں جینے کا ہنر جانتا ہے۔ کیکٹس پر ہمیشہ بہار کا موسم رہتا ہے۔ موت و خزاں سے بے نیاز رہتا ہے، یہ پودے، ہمیشہ ان کی تنہائی کے ساتھی رہے اور پھر جب انھوں نے یکسوئی کے خیال سے کراچی کے ایک جزیرے میں برش قلم سے شہکار تخلیق کرتے ہوئے وقت گزارا اور یہ وقت ان کی تمام زندگی پر محیط ہو گیا، ان کے موئے قلم سے بننے والے شاہ کاروں میں اس پودے کو مرکزیت حاصل ہو گئی۔ تھور خود رو پودا ہے، صادقین بھی اللہ کے کرم سے اپنے استاد آپ رہے۔
تھوہر سے متعلق پہلا خیال دوزخ کا جنم لیتا ہے، کیا صادقین ان لوگوں کے لیے مصوری کرتے ہیں جن کے لیے زندگی نے جہنم کا روپ دھار لیا ہو، مجھے یاد ہے ایک مرتبہ میں نے ڈاکٹر فرمان فتح پوری سے جدید شاعری کی بے معنویت کا شکایتاً ذکر کیا تھا‘‘۔۔۔۔ آج کے شاعروں کو دیکھیں، کھال کے موزے بننے کا تذکرہ، انسانی کھالوں کا نوک دار درختوں پر لٹکے ہونے کا ذکر۔۔۔۔ یہ کیا شاعری ہے، تو انھوں نے بہت سہولت سے جواب دیا تھا۔ ‘‘زندگی میں جب بے معنویت اتنی بڑھ جائے تو شعر میں مفاہیم و مطالب کی تلاش کیوں اور دوسری بات یہ کہ جب گرد و پیش میں یہی کچھ دکھائی دے رہا ہو تو گل و سر و سمن کے تذکرہ کی توقع نادانی ہے۔’’
صادقین کے باب میں مسلم شمیم کہتے ہیں :
‘‘وہ ایک حساس سماجی شعور اور گہری بصیرت کے حامل تخلیق کار تھے اور اسی لیے انھوں نے اپنے فن کو صرف صوری اجتہاد تک محدود نہیں رکھا تھا بلکہ اسے معنویت کی وہ گہرائی بھی عطا کر رکھی تھی جو روح عصر اور سماجی شعور کی علامت بن کر ابھرتی ہے۔ ان کی مصوری کے مختلف ادوار اور پیٹرن ہیں جن میں انسانی خطوط اور اشکال نامانوس ہیولے نظر آنے لگتے ہیں۔ وہ در اصل اس روحانی کرب اور اذیت کی نشان دہی کرتے ہیں جن سے ان کا عہد اور معاشرہ گزر رہا ہے اور دوچار ہے۔ انسانی جسموں پر تنی ہوئی نوک دار کانٹوں کی پوشاک اور سروں پر منڈلاتے ہوئے کووں اور گدھوں کی علامتیں اس صورتِ آشوب کی ترجمان ہیں جن کی بازگشت ان کے ہم عصر ادب اور فکر و فن میں بھی سنائی دے رہی ہے۔ ’’ْ۱
میں خانۂ زر دار سجاؤں کیسے
افسانہ، حقیقت کو بتاؤں کیسے
موجود ہیں زندہ خار آخر تصویر
ان کاغذی پھولوں کی بناؤں کیسے
منصور آفاق صادقین کی مصوری کے بنیادی استعاروں اور علامتوں کا تجزیہ کرتے ہیں :
‘‘تھور کا پودا صادقین کی مصوری میں ایک اہم ترین استعارے کی حیثیت رکھتا ہے۔ صادقین خود تھور کے پودے کے بارے میں کہا کرتے تھے یہ ناموافق موسموں میں بھی شاہانہ انداز سے موجود رہتا ہے۔ یہ ناساز گار حالات سے نبرد آزما انسانی زندگی کے لیے فتح کی علامت ہے ایک زمانے میں میں اسے اپنی ذات پر منطبق کیا کرتا تھا پھر اسے پورے سماج پر منطبق کرنے لگا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ صادقین نے تھور کے پودے کو انسانی شکل عطا کر دی۔ ’’۲
صادقین ڈرائنگ روم پینٹر نہیں ہیں۔ پھولوں تتلیوں اور خوب صورت سر سبز مناظر کی بجائے ان کی تصویروں میں کیکٹس، مکڑیاں، سانپ دکھائی دیتے ہیں۔ انھیں رنگ و نور کی برسات کے برعکس غربت میں پسا، افلاس زدہ جد و جہد کرتا انسان زیادہ متوجہ کرتا ہے۔
حیرت انگیز امر یہ ہے کہ صادقین کی تصاویر، مایوسی، قنوطیت، کرب، درد مہجوری اور غموں کیا تھاہ گہرائیوں میں ڈوبنے کی کتھا نہیں سناتیں، ان میں نامساعد حالات کا مقابلہ کرنے، محنت و مشقت کی رائگانی کو فیض رساں بنانے کی خواہش اور ستاروں پر کمند ڈالنے کی آرزوئیں اپنی جھلک دکھاتی ہیں۔ آہن گر، مزدور، کسان سبھی حالات بدلنے کا عزم رکھتے ہیں۔ نیل گوں فلک کے خلائے بسیط میں، زمان و مکان کی وسعتوں میں رقص کناں مہر و مہ و انجم، سیارے، ستارے، زہرہ، ناہید، الارض، مشتری، ثریا، پروین، زحل، خورشید و عطارد ان کی مصوری کے طاقت ور کردار ہیں۔
مہر و مہ و انجم کا محاسب ہے قلندر
ایام کا مرکب نہیں راکب ہے قلندر
( علامہ اقبال)
ان کے آیاتِ قرآنی کی خطاطی کے جوہر ہم پر بعد میں کھلے، سورہ رحمن کے حوالے سے کی گئی خطاطی ملکی سرحدوں کو عبور کرتی بین الاقوامی افق پر چھا گئی۔ ایک مرتبہ انھوں نے بتایا کہ میں کم از کم ہزار آٹوگراف بکس پر بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھ چکا ہوں، ملا کر دیکھ لو، ہر بسم اللہ جداگانہ انداز میں لکھی گئی ہو گی۔ یہاں مجھے استاد الاساتذہ، دہلوی طرزِ نستعلیق کے بانی، عہدِ شاہجہانی کے مشہور خطاط عبد الرشید دیلمی جو ایرانی طرز خطاطی میں بے مثال ہیں، کے روحانی شاگرد، جناب یوسف دہلوی کی یہ بات یاد آئی کہ فنِ خطاطی جگر کا لہو مانگتا ہے، یہ دو چار دنوں کا قصہ نہیں اس میں ایک ایک دائرے، شوشے یا کشش پر برسوں محنت کی جاتی ہے، تب کہیں جا کر انسان حدِ کمال تک پہنچتا ہے۔
‘‘ جتنی مرتبہ لکھوا دو، مجال ہے کہ کسی دائرے، کشش یا شوشے میں فرق نظر آئے۔ نیز اگر آنکھوں پر پٹی باندھ کر بھی لکھا لیا جائے تو وہ بھی ایسا ہی ہو گا جیسا بغیر پٹی لکھا ہوا۔ ’’۳
مجھے خیال آیا کہ دو اساتذہ فن ہیں، دونوں اپنے انداز خطاطی کے سفر کے درجۂ کمال کو پہنچے ہوئے ہیں، ایک کے نزدیک سر مو فرق نہ ہونا، انتہائے فن ہے اور دوسرے کے نزدیک ہر عبارت جدا گانہ انداز میں رقم ہونا ان کی لا محدود صلاحیتوں کا ثبوت ہے۔ حروف کی بناوٹ میں نت نئے تجربات نے صادقین کے فن کو تنوع اور جدت عطا کی۔
بات ہو رہی تھی پی ای سی ایچ ایس کالج میں صادقین کی مصوری اور خطاطی کی۔ یہیں ہم پر آشکار ہوا کہ مصوری اور شاعری صادقین کے لیے ایک دوسرے کے مترادف ہیں۔
ایک بار میں ساحری بھی کر کے دیکھوں
کیا فرق ہے شاعری بھی کر کے دیکھوں
تصویروں میں اشعار کہے ہیں میں نے
شعروں میں مصوری بھی کر کے دیکھوں
اور لوح و قلم کا یہ وارث ہمہ وقت اپنے کام میں منہمک نظر آتا۔ ہم کبھی فیض کے اشعار ان تصویروں کی مدد سے سمجھنے کی کوشش کرتے کبھی صادقین کی لکیروں میں، قوسوں میں، دائروں میں مصوری کو اوجِ کمال پر دیکھتے۔ گل و گلزار کی بجائے آڑی ترچھی عمودی اور افقی لکیریں ایک نئے مصورانہ اسلوب سے متعارف کرواتی ہیں۔
عاشق کے لیے رنج و الم رکھے ہیں
شاہوں کے لیے تاج و علم رکھے ہیں
میرے لیے کیا چیز ہے، میں نے پوچھا
آئی یہ صدا لوح و قلم رکھے ہیں
ڈاکٹر عطش درانی صادقین کے خطاطی طرز کی وضاحت یوں کرتے ہیں :
‘‘صادقین نے خطِ دیوانی کو لرزاں، لٹکے انداز میں اجاگر کیا اور اس کے ارد گرد لہراتے خار، جھاڑ بکھیر دیے۔ سیاہ گہرے اور تاریک رنگ اس کا خاصا تھا، حرف کو آخر بیضوی صورت میں ڈھال کر کشش کو مزید کھینچ کر اور حرف کے گرد ایک احاطہ سا وضع کر کے اس نے اپنی انفرادیت پیدا کر لی۔ اس نے بیج تو خطِ شکستہ سے ہی لیا تھا، رنگ دیوانی کا تھا، الف سے پہلے ایک ہک پیدا کرنا مگر‘‘د ’’‘‘ر ’’‘‘و ’’کے آ خر میں اسے اوپر بیضوی صورت دینے کی بجائے لمبی بیضوی اور لہروں پر تیرتے حروف کی شکل عطا کی۔ یہ اسلوب اس کی جڑ و بنیاد ٹھہرا۔ آپ اس لیجنڈ کو کہیں بھی پہچان سکتے ہیں کہ اس کا ہر حرف کے بارے میں طے شدہ اصول واضح نظر آتا ہے۔ ’’۴
کچھ وصلیاں اور سجا لایا ہوں
بالکل ہی نئے جوڑ بنا لایا ہوں
استادوں کی قید ریاضی میں تھے وہ
اس قید سے ابجد کو چھڑا لایا ہوں
اور پھر اس فنکار نے اللہ کی جانب سے ودیعت کردہ اس صلاحیت کو اپنا خون جگر بخش دیا۔ انھیں تمغۂ امتیاز (۱۹۷۰) اور ستارۂ امتیاز (۱۹۸۵) صدارتی تمغۂ حسن کارکردگی اور بعد از مرگ نشان امتیاز سے نوازا گیا۔ بین الاقوامی سطح پر بھی ان کے فن کی عظیم الشان پذیرائی ہوئی اور مختلف حکومتوں اور اداروں کی جانب سے ان کی خدمات کے اعتراف میں اعزازات پیش کیے گئے۔
فرانس میں پاکستانی پکاسو کے نام سے مشہور صادقین کو ۵۳ دیوار گیر مصوری کے شاہکار اور پندرہ ہزار پینٹنگز کے اعلیٰ نمونے عالم گیر شہرت عطا کر گئے۔ دنیا بھر میں جہاں بھی انھوں نے تصاویر بنائیں، تحفتاً وہیں چھوڑ آئے۔ کبھی اپنے ہمراہ لے کر نہ آئے۔
صادقین نے خود تو اپنے فن پاروں کو بہت کم فروخت کے لیے پیش کیا لیکن ان کے نام سے جعلی تصاویر بنا کر بیچنے والوں نے لاکھوں کمائے۔ رقم کا حصول کبھی ان کا مطمع نظر نہ رہا۔ ان کے متعلق یہ جملہ مشتاقان فن کے درمیان گردش کرتا رہا کہ صادقین نے جتنا کام زندگی میں کیا اس سے کہیں زیادہ مرنے کے بعد کیا۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ ان نقلوں کی نمائشیں اصل بتا کر دبئی، کینڈا، انگلینڈ اور پاکستان میں بھی کی جاتی رہی ہیں۔
اور ان کی اصلی تصاویر کے ساتھ کیا معاملہ ہوا، راقمہ کے لیے یہ سانحہ دل شکستگی کا سبب بنا کہ یہ تمام تصاویر اس کے سامنے ذہنِ صادقین سے وصلیوں پر منتقل ہوئی تھیں :
‘‘اعلیٰ ترین وصف یہی تھا کہ وہ دانستہ دھوکہ کھایا کرتا تھا تاکہ دوسرا خوش ہو جائے۔ فیض کے اشعار کا مرقع بنایا جسے ان کے ایک جوان آشنا یا رفیق یا ملازم نے بیچ کھایا نہیں بلکہ بیچ کر شادی کر لی اور ملک سے باہر چلا گیا۔ واپس آیا توتو صادقین کا تبصرہ یہ تھا میری پینٹنگ سے اس کی ضرورت پوی ہو گئی یعنی شادی۔ فیض کے اشعار کے مرقع دوبارہ نہ بن سکے۔ نیک نیتی کی برکات شمار نہیں کی جا سکتی۔ اس ایک شادی سے ابتدا ہوئی اور آج شام ‘‘صحن صادقین’’ میں کسی نہ کسی کی ضرورت پوری ہو رہی ہے یعنی شادی ہو رہی ہے۔ سبحان اللہ۔’’۵
مصورانہ خطاطی میں شاکر علی، آذر زوبی، گل جی، حنیف رامے اور اسلم کمال نے کمال حاصل کیا۔ صادقین نے تنِ تنہا اتنا کام کیا کہ ایک ادارہ بھی برسوں میں نہیں کر سکتا تھا، وہ خطِ شکستہ اور خطِ دیوانی سے کام لیتے دکھائی دیتے ہیں۔ انھیں اپنے قلم پر، اپنے برش پر، اپنی انگلیوں پر اور اپنے بلند تخیل پر فخر تھا اور سب سے بڑھ کر کام میں انہماک اور جگر کو خون کر دینے کا حوصلہ تھا، آخر کو وہ بن مقلہ، امیر یعقوب، عماد الحسینی، پیر پنجہ کش کے قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔
بن مقلہ وزیر نے بھی خدمت کی ہے
یاقوت امیر نے بھی خدمت کی ہے
پھر پردۂ لولاک میں خطاطی کی!
تھوڑی سی فقیر نے بھی خدمت کی ہے ۶
ہیں قاف سے خطاطی میں پیدا اوصاف
ابجد کا جمال جس کا کرتا ہے طواف
بن مقلہ ہو یاقوت ہو یا ہو یہ فقیر
ہم تینوں کے درمیان اسما میں ہے قاف
بن مقلہ ۸۸۶ء۔ ۹۴۰ء تین خلفائے عباسیہ کا وزیر، آباء و اجداد کا تعلق شیراز سے تھا لیکن بن مقلہ کی پیدائش بغداد کی ہے، غیر معمولی ذہانت و فطانت اور علم کے سبب نابغۂ روزگار، علم فقہ، تفسیر، قرات، تجوید، کتابت و مراسلت کا ماہر، عربی ادب پر دستگاہ،، انشا پردازی، شاعری اور خطاطی میں بے مثل خطوطِ ششگانہ کا موجد ثلث، نسخ، توقیع، ریقاع، محقق اور ریحان نے بہت جلد قبولیتِ عامہ حاصل کر لی۔ سیاست سے گہرا تعلق رہا، مقتدر باللہ، قاہر باللہ اور راضی باللہ کے عہد میں محلاتی شازشوں کے سبب عروج و زوال کے کئی مراحل جسم و جاں پر گزرے۔ قید و بند کی صعوبتیں کم نہ تھیں کہ دایاں ہاتھ جس نے کیا کیا اعجاز رقم نہ کیے تھے، کاٹنے کا حکم صادر ہوا، بعد ازاں وہ زبان بھی کھٹکنے لگی کہ جو اس کی ذہانت و فطانت اور تبحر علمی کا اظہار تھی، اسے بھی کاٹ دیا گیا۔ لیکن کیا زمانہ اس کی علمیت اور اس کی صلاحیتیوں کو، اس کی خطاطی کے لیے کی گئی خدمتوں سے صرفِ نظر کر سکا ہے اور عصرِ موجود میں فقیر صادقین کی خطاطی کی لیے کی گئی ریاضت و خدمت کا اعتراف آنے والا زمانہ ہی کرے گا۔ وہ جو مہینوں سالوں نئے تصورات و تخیلات کو مرئی روپ دینے کے لیے معتکف ہو جاتے ہیں، انھیں زندگی میں اعزاز و اکرام کا منتظر ہی رکھا جا تا ہے۔
ہم حسن پرستی کے قرینوں کے لیے
ہو جاتے ہیں معتکف مہینوں کے لیے
تصویر بناتے ہیں خود اپنی خاطر
اور شاعری کرتے ہیں حسینوں کے لیے
تخلیق میں معتکف یہ ہونا میرا
اب تک شب ہستی میں نہ سونا میرا
خطاطی ادھر ہے تو ادھر نقاشی
وہ اوڑھنا میرا، یہ بچھو نا میرا
تو پی ای سی ایچ ایس کالج میں صادقین کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ فیض کو دیکھنے، سننے اور ملنے کا موقع ملا یعنی صرف اتنا موقع جتنا کہ طالبات کے ہجوم میں دو چار جملے اور یہ جملے بھی تحفۂ گراں مایہ۔۔۔۔ ہاں شعر سے لگاؤ بڑھ رہا تھا۔ اچھے اشعار یاد ہو جاتے تھے یا انھیں ذہن نشین کرنے کی شعوری کوشش کی جاتی تھی۔ جن اشعار کو صادقین نے مصوری کے لیے منتخب کیا، اس دور میں وہ ازبر ہو چکے تھے۔
پی ای سی ایچ ایس کالج بھی زمانے کے نشیب و فراز سے گزرا۔ ملکی سیاسی حالات نے یہاں بھی اپنا اثر دکھایا۔ ایک وقت ایسا آیا کہ اسے بھی قومیا لیا گیا۔ فیس معاف ہوئی تو وہی جماعت جس میں چالیس پینتالیس طالبات ہوتی تھیں وہاں سوا سو، ڈیڑھ سو طالبات موجود ہوتیں۔ پھر وہ وقت بھی آیا جب اسلام کے نام پر دس سال حکومت کرنے والے نے ہر شے کو مشرف بہ اسلام کیا۔ دوپٹہ سر سے نہ سرکے، کھیل تماشے، مینا بازار ہوں یا دیگر اہم دنوں کی تقریبات سب موقوف، یعنی ہم نے جو کچھ دیکھا اور فخر محسوس کیا کہ ہم ان بڑے ناموں کے عہد میں نہ صرف زندہ ہیں بلکہ انھیں دیکھ رہے ہیں، سن رہے ہیں اور گاہ بہ گاہ دو ایک جملے بھی ان سے براہِ راست بولنے کا شرف حاصل کر لیتے ہیں، ہمارے بعد آنے والی نسل اس سے محروم رہی۔ کوئی آٹھ دس سال پہلے دل میں ہڑک اٹھی اپنی مادرِ علمی کو دیکھنے کی، کراچی گئی، اپنی کچھ کتب بھی لیتی گئی۔ پرنسپل صاحبہ سے ملاقات ہوئی، بہت اچھا لگا لیکن بہت کچھ بدل چکا تھا، وسیع و عریض میدان جہاں میلے سجا کرتے تھے، اب تعمیرات کی زد میں تھا۔ وہ جگہ جہاں صادقین کی موجودگی ہم سب کے لیے ایک کشش کا باعث ہوا کرتی تھی کہ غیر ممکن ہے کہ کالج آتے ہوئے یا واپسی پر وہاں کا پھیرا نہ لگایا جائے۔ اب نہ وہاں صادقین نہ مصوری کے شاہکار۔۔۔۔ سبھی گردشِ زمانہ کی نذر ہوئے لیکن صادقین کا نام اور کام ایسا ہے کہ اسے وقت کی دھول کبھی دھندلا نہ سکے گی۔ پی ای سی ایچ ایس کالج کے در و دیوار میں رچی بسی مہک مجھے محسوس ہوتی رہی، مجھے اپنے آپ میں محو، سفید لباس میں ملبوس، سیاہ رنگ میں ڈوبا برش تھامے اکڑوں بیٹھا وہ شخص نظر آتا رہا۔
صادقین کے ارتکاز، یکسوئی اور اپنے کام میں انہماک اور دنیا داری سے بے نیازی کا یہ عالم تھا کہ جب کسی تخلیق کا سودا سرمیں سما جاتا تو گرد و پیش کی ہوش نہ رہتی، خود فراموشی کی کیفیت میں بھی وہ کمال کا جادو جگاتے۔ قلم ہوتا یا برش، لگا تار بہتر بہتر اور بعض روایات میں ہے کہ چوراسی گھنٹے کام کرتے۔ حیرت ہوتی کہ بسا اوقات ان کا برش اس قدر تیزی سے حرکت کرتا کہ ہم گنتی گننے پر مجبور ہو جاتے کہ دیکھیں کتنے سیکنڈ میں ان کا ہاتھ تھکتا ہے لیکن تھکن یا سستی کا لفظ ان کی لغت میں موجود ہی نہ تھا۔ بولتے بہت کم تھے یوں محسوس ہوتا تھا کہ ان کے نزدیک باتیں کرنا وقت کا زیاں ہے۔ ظاہر ہے طالبات کے ساتھ انھوں نے کیا باتیں کرنا تھیں، لیکن اس زمانے میں بھی میں سوچتی تھی کہ کوئی اور شاعر ہوتا، اتنی طالبات اس کے گرد ہوتیں تو ہر جانب لفظوں کی قوس قزح پھیلی ہوتی۔
خالصتاً فارسی صنفِ سخن ترانہ، دو بیتی المعروف رباعی، فارسی شاعری کا باوا آدم رود کی، رباعی کا اولین شاعر، بابا عریاں طاہر، سرمد شہید، ابو سعید ابو الخیر، فرید الدین عطار، حافظ و سعدی نے فارسی رباعی گوئی میں کمال نام پیدا کیا۔ اردو میں میر، سودا، درد، انیس، غالب، ذوق، مومن، حالی، امجد حیدر آبادی اور اقبال معتبر ٹھہرے اور اسی راہ کے مسافر صادقین بھی آگاہ تھے کہ رباعی گوئی بازیچۂ اطفال نہیں، اس کے لیے بہت ہنر مندی اور چابک دستی کی ضرورت ہے۔ اساتذۂ فن کے نزدیک رباعی کہنے کے لیے اک عمر کی ریاضت درکار ہے، شاعر کو رباعی گوئی کے لیے چالیس سال کی عمر تک پہنچنا لازم ہے پھر وہ اس صنف کے ساتھ انصاف کر سکے گا۔ یعنی یہ کوئی غزل نہیں ہے کہ گیارہ پندرہ برس کے بالکے کہتے پھریں اور بسا اوقات اس عمر میں بھی اچھے شعر نکالنے لگیں۔ صادقین کی رباعی دیکھیے کہ وہ بھی اس اصول کی بابت اپنا مطمع نظر پیش کر رہے ہیں۔
جاگا ہوا رہ کے سو چکا ہوں اس سال
اک عمر تھی جس کو کھو چکا ہوں اس سال
اب کیوں نہ رباعیاں بھی کہہ کر دیکھوں
چالیس برس کا ہو چکا ہوں اس سال
روٹھا جو جمال ہے منایا میں نے
اک جشن وصال ہے منایا میں نے
اس عمرِ عزیز کا رباعی کہہ کر
چالیسواں سال ہے منایا میں نے
اس سے پہلے کہی گئی رباعیاں خود صادقین کے نزدیک اس قابل نہ تھیں کہ انھیں محفوظ کیا جا تا۔
شب میری تھی، رات میری، دن تھا میرا
آیا ہوا خود مجھ پہ ہی جن تھا میرا
کتنی ہی رباعیاں تھیں لکھ کر پھاڑیں
اٹھارہ برس کا جب کہ سن تھا میرا
بچپن میں تجھے یاد کیا تھا میں نے
جب شعر کا کب لفظ سنا تھا میں نے
اس پر نہیں موقوف رباعی تجھ کو
ہر روز ہی تختی پہ لکھا تھا میں نے
اس صنف پہ عاشق تھا گواہی دو نجوم
تختی پہ لکھا کرتا تھا جب تھا معصوم
طفلی میں رباعیاں کئی تھیں مجھے یاد
کیا لفظ غزل ہے یہ نہیں تھا معلوم
جب طبعیت رباعی کہنے پر مائل ہوئی تو پانچ ماہ صرف رباعی کہتے رہے۔ خاکے طغرے، خطاطی، تصاویر سبھی سے کنارہ کش رہے۔ لیکن اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اردو شاعری کو خوبصورت ۱۱۱۱ رباعیاں عطا کر دیں۔
‘‘اس زمانے میں کام کے دوران صادقین کبھی موڈ میں ہوتے تو ہمیں رباعیات سنانے بیٹھ جاتے اور ایک دن تو ہم سب اچنبھے میں رہ گئے کہ ان کی رباعیات کا مجموعہ نہ صرف چھپ کر آ گیا تھا بلکہ غالب لائبریری میں ان کے دستخط کے ساتھ فروخت بھی ہوا۔ اور قبولِ عام کی سند بھی حاصل کی۔۔ صوری طور پر اس مجموعے کی خاصیت یہ ہے کہ اس کتاب کی لوح، عنوانات، رباعیات حتیٰ کہ پرنٹ لائن تک کی کتابت صادقین کے مو قلم کا نتیجہ ہے۔ ان کی جدت پسند طبعیت کا عکس جلد بندی تک میں نظر آتا ہے اردو کی یہ پہلی کتاب ہے جس کی جلد ٹاٹ سے بنائی گئی ہے۔’’۷
صادقین سولہ برس کی عمر سے شاعری کر رہے تھے۔ پہلا مجموعہ کلام‘‘جزو بوسیدہ’’ کے نام سے موجود ہے۔
‘‘رباعیات کہنے میں بھی ان کو کمال حاصل تھا اور دوسرے شعرا کی طرح انہوں نے صرف منہ کا ذائقہ بدلنے کی لیے ہی رباعیات نہیں کہیں بلکہ اسے فن کے طور پر برتا، یہی وجہ ہے کہ ان کی رباعیات میں بے ساختہ پن ہے، تسلسلِ خیال، فکری ارتکاز اور زبان و بیان کی بے ساختگی و وارفتگی پائی جاتی ہے۔ صادقین کے ہاں شاعری اور مصوری میں کوئی زیادہ فرق نہیں ہے چنانچہ مصور صادقین اور شاعر صادقین ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔’’۸
جاناں کے جمال کا جو کچھ ہو ادراک
ہو جاتی ہے اظہار کی صورت بیباک
لیلائے خیالات کا تن ڈھانپنے کو
ہیں طغرہ و تصویر و رباعی پوشاک
جمالِ محبوب اور جلال رب کائنات کے حصار میں مقید ڈھائی سے تین ہزار رباعیاں کہنے والے صادقین مصورانہ جزئیات سے کام لیتے ہوئے ایسا شاہکار تخلیق کرتے ہیں کہ جس میں عقیدت سے کہیں زیادہ محبت اور محبت سے بڑھ کر عقیدت و احترام کی آمیزش دکھائی دیتی ہے
میں نے، تھی جگہ خالی، تو لکھیں آیات
دیکھیں لٹیں جب کالی تو لکھیں آیات
آیات کو دیکھا تو بنائے مکھڑے
مکھڑوں پہ نظر ڈالی تو لکھیں آیات
دوسری جانب جاگیر داروں، وڈیروں، نو دولتیوں، فنونِ لطیفہ سے نابلد امیر سیٹھوں کی نوازشات، قابلِ قبول نہیں ہاں فن کے پارکھ، ذوق جمال اور شوقِ کمال کے اہل، کے لیے سبھی کچھ حاضر ہے۔
خوں اپنا بہانے کو ہے حاضر فنکار
اس بات پہ لیکن وہ نہیں ہے تیار
جاسوس جہاں کھیل رہے ہوں پتے
ہو ایسی کمیں گاہ میں اس کا شہکار
ہے ذوقِ جمال کو جگانے کے لیے
یہ چیز، دلوں میں ہے سجانے کے لیے
کس سے کہوں، تصویر نہیں ہوتی ہے
عشرت گہہ زر دار سجانے کے لیے
۱۹۷۴ء میں سعودیہ کے شاہ خالد اور یران کی ملکہ فرح دیبا نے ان کی خدمات مستعار لینے کی خواہش ظاہر کی تو ان کی بے نیازی کا وہی عالم رہا جو ہمیشہ سے ان کے ساتھ مخصوص تھا۔
یہ خام نگاہی کا اڑاتی ہے مذاق
ہاں ظلِ الٰہی کا اڑاتی ہے مذاق
یہ میری برہنگی بھی جانے کیا ہے
جو خلعتِ شاہی کا اڑاتی ہے مذاق
برگ و بار سے لدی شاخ کا جھکنا تو دیکھا، سنا تھا؛ صادقین پر یہ مثال صادق تھی۔ دنیا بھر کے اہم میوزیم میں ان کے شہکار موجود ہیں، حتیٰ کہ پیرس کی بی نائیل نمائش کا بین الاقوامی اعزاز بھی ان کے پاس تھا۔ نیویارک کے میٹرو پولیٹن میوزیم، کینیڈا کے رائل میوزیم میں پرماننٹ ڈسپلے، ابو ظہبی پاور ہاؤس، شانزے لیزے، سٹیٹ بنک لائبریری کراچی میں بے شمار کام، جن میں وقت کا خزانہ، ٹریژر آف ٹائم، کا معرکۃ الآرا شاہکار بھی شامل ہے، پنجاب یونی ورسٹی لاہور، عجائب گھر لاہور، منگا ڈیم، نیشنل میوزیم کراچی، فیصل مسجد اسلام آباد، فرئر ہال (صادقین آرٹ گیلری) کراچی کہ جہاں میورل بناتے بناتے اچانک گرے اور جانبر نہ ہو سکے، کس کس جگہ کا نام لیجیے کہ جہاں ان کے فن پارے تحفتاً موجود نہیں۔ وہ کہا کرتے تھے کہ میرا فن شکرانۂ خدا ہے، برائے فروخت نہیں، کوئی اس کی قیمت ادا کر ہی نہیں سکتا۔
‘‘صادقین کے لیے عظمتیں ایک بوجھ کا درجہ رکھتی تھیں، جوں جوں یہ بوجھ بڑھتا جاتا تھا، وہ کچھ اور بھی منکسر المزاج دکھائی دیتے تھے۔ وہ اپنے نام کے ساتھ حقیر، فقیر، پر تقصیر، خاطی اور عاصی نہ جانے کیا کیا لکھتے تھے، انھوں نے اپنے لیے کچھ مخصوص القاب بھی تجویز کر رکھے تھے جیسے المجہول، الجاہل، المہمل، المریض، المحتاج، المحکوم، الخاطی، المقروض، المجبور، المفلس وغیرہ ’’۹
صادقین انڈیا گئے تو حکومت ہند نے انھیں پورے اعزاز کے ساتھ ان کے آبائی شہر امروہہ لے جانے کا اہتمام کیا، ہاتھی پر سوار صادقین اپنے آبائی گھر پہنچے، اندرا گاندھی کی جانب سے اس گھر کی چابیاں ان کی نذر کی گئیں جو صادقین نے شکریے کے ساتھ یہ کہ کر لوٹا دیں کہ یہ گھر اہل امروہہ کے لیے ہے، اسے کتب خانے کی صورت دے دی جائے تا کہ یہاں کے باسی مستفید ہو سکیں۔ ۱۰
صادقین انڈیا پندرہ روز کے ویزے پر دہلی گئے تھے لیکن انھیں انڈیا میں جہاں چاہیں جب تک چاہیں قیام کا پروانہ مل گیا۔ چودہ ماہ قیام کے دوران بے شمار کام کیا۔ بہت فرمائشیں پوری کیں یہاں تک کہ ایک صاحب کو ان کے اس شعری مجموعے کا سرورق بھی بنا کر دے دیا جس کا ابھی نام تک تجویز نہ ہوا تھا نہ اشعار پردۂ ظہور میں آئے تھے۔
‘‘ایک دن ایک صاحب بڑے خشوع و خضوع کے ساتھ اپنے مجموعۂ کلام کا سرورق بنوا رہے تھے، صادقین کسی کام سے اندر گئے تو میں نے پوچھا آپ بڑی عجلت میں صادقین سے اپنے مجموعۂ کلام کا سرورق بنوا رہے ہیں، مجموعۂ کلام کب تک چھپوائیں گے؟ بولے ‘‘صاحب! فی الحال تو میرے پاس ایک تخلص ہے اور اس مجموعۂ کلام کا نام ہے۔ شاعری تو سرورق بننے کے بعد شروع کروں گا۔۔۔۔ کل کلاں کو واقعی شعر کہنے لگ جاؤں تو صادقین کو کہاں ڈھونڈتا پھروں گا۔ یوں بھی اچھا شعر اور برا وقت پوچھ کر نہیں آتے۔’’۱۱
ان چودہ ماہ میں صادقین کا سرکاری، غیر سرکاری، ادبی و مذہبی ہر سطح پر برش و قلم سے سروکار رہا، ہزار ہا شائقین کو آٹو گراف دیے فرمائشیں پوری کیں، یہاں تک کہ ایک نمائش کے دوران میں ایک خاتون آیت لکھوا کر لے گئیں، دوسرے روز نمائش گاہ میں اس خوشخبری کے ساتھ موجود تھیں کہ اپنے بیمار بھائی کے سرہانے کے نیچے آیت رکھی اور بھائی صبح بھلا چنگا تھا، سوچیے کہ صادقین کا کام کتنا بڑھ گیا تھا۔۔۔۔۔اور ان کے اصل کام کی تفصیل کے لیے بھی دفتر چاہیے۔ حیدر آباد دکن کے نیشنل جیو فزیکل ریسرچ لیبارٹری میں عالیشان میورل، علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی، بنارس یونی ورسٹی کے میورل، دہلی انسٹیٹیوٹ آف اسلامک سٹڈیز کے لیے اسمائے حسنیٰ کے ایک سو سات کینوس، کس کس کا ذکر کیجیے۔۔۔۔
مجتبیٰ حسین اس مرد قلندر کی زماں و مکاں سے بے نیاز ہو کر رنگوں، خطوں اور قوسوں میں ہمہ وقت مصروف انگلیوں کی بدلتی ساخت سے پریشان تھے۔
‘‘صادقین کے سیدھے ہاتھ کی انگلیاں لگاتار کام کرنے کی وجہ سے ٹیڑھی ہو گئی تھیں۔۔۔ ایک دن میں نے کہا آپ کچھ دن اپنی انگلیوں کو آرام کیوں نہیں دیتے۔ بولے مائیکل انجیلو کی گردن محض اس لیے ٹیڑھی ہو گی تھی کہ وہ شبانہ روز یورپ کے گرجا گھروں کو پینٹ کرتا تھا میری تو صرف انگلیاں متاثر ہوئی ہیں۔ گردن تو ٹیڑھی نہیں ہوئی۔’’۱۲
امروہہ کی گلیاں، محلے اور اپنے محلے کے وہ گھر جو اپنے گھر کے علاوہ ان کی مصوری کے لیے وصلی کا کردار ادا کرتے تھے، اور جن کے درو دیوار سیاہ کرنے پر بزرگوں سے لعنت ملامت سننے کو ملا کرتی تھی، اب سبھی ان کے لیے دیدہ و دل فرش راہ کیے ہوئے تھے۔
دوسری جانب کوئے ملامت سے سنگ زنی، نام نہاد دوستوں کا حسد، اقربا کی رنجشِ بے جا اور بونوں کا ان کی دراز قامتی سے خائف رہنا، یہ اپنوں کا وطیرہ رہا۔ حاسدوں، بد خواہوں نے تصاویر کی نمائش پر پا بندی لگا دی، مخالفین نے کیا کیا نہ پینترے بدلے کیا کیا ذہنی اذیت کے سامان کیے گئے، لیکن صادقین نے انھیں جواب دینا گوارا نہ کیا کہ وہ اس سطح سے خائف تھے کہ جن پر ان کے مخالفین قدم دھر چکے تھے۔ صادقین وہ واحد مصور کہ جن کی مصوری کے شہ پاروں کی نمائش پر بم پھینکے گئے۔ کفر کے فتوے جاری کیے گئے، لیکن صادقین کا حال ایسا تھا کہ آپ باز آئیں ملامت سے میری۔۔ شوق بڑھتا ہے ملامت سے میرا۔ حرف ملامت نے ہمیشہ مہمیز کا کام دیا۔
پھولوں کی ملی بلخ سے تھالی مجھ کو
بغداد میں زیتون کی ڈالی مجھ کو
لاہور میں دی گئی ہے اے دوست
خطاطی کے اعزاز پہ گالی مجھ کو
لاہور میں اگر کسی رسوائے زمانہ نے ان کا دل دکھایا ہے تو لاہور میں ان سے محبت کرنے والے بھی بہت تھے اور اپنے دس سالہ قیام لاہور میں انھوں نے بھی اس علمی ادبی اور ثقافتی شہر لاہور سے محبت کا عملی ثبوت پیش کیا۔
اس شہر کو کچھ اور سجایا میں نے
ابجد کا نیا طور بنایا میں نے
خطاطی میں بغداد کے آئینے میں
لاہور کو لاہور دکھایا میں نے
ادبی و تمدنی و سماجی و تہذیبی و مذہبی تاریخ میں واعظ و مفتی، ملا و زاہد کا خاکہ کھینچا بھی جاتا ہے اور اڑایا بھی جاتا ہے۔ خود پرستی، انانیت، ریا کاری اور منافقت کے سبب ان کی خوبیاں بھی خامیوں کے پیچھے جا چھپتی ہیں۔
یہ تو نہیں قدرت کا اشارہ نہ ہوا
میں پھر چلا سوئے کفر یارا نہ ہوا
اسلام سے بندے کا مشرف ہونا
اسلام کے مفتی کو گوارا نہ ہوا
حرف غیرت مٹا گیا ہے پانی
نقشِ وحشت بنا گیا ہے پانی
سن کر مری تصویروں کے دو اک عنوان
ملاؤں کے منہ میں آ گیا ہے پانی
ہر نقش میں تھا جلوۂ ایماں ساقی
آ کر ہوئے مایوس و پریشاں ساقی
کل میری نمائش میں بڑے مولوی آئے
یہ سن کے کہ تصویریں ہیں عریاں ساقی
اب بہت عرصہ بعد جب جون ایلیا کو پڑھنے کا موقع ملا ہے تو انھیں پڑھتے ہوئے ذہن بار بار صادقین کی طرف جا رہا ہے کہ اگر انھیں اپنے امروہے کے اس شاعر کے کلام کو مصور کرنے کا موقع ملا ہوتا تو فیض کے اشعار کے ہم پلہ مصوری مشتاقانِ فن کو دیکھنے کو ملتی۔ جون کا ہر شعر بولتا ہوا، دکھتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ صرف ایک غزل کے چند ایک اشعار دیکھیے اور تصور کیجیے کہ صادقین انھیں تصویری پیکر میں ڈھالتے تو کیا صورت سامنے آتی۔
عمر گزرے گی امتحان میں کیا
داغ ہی دیں گے مجھ کو دان میں کیا
مجھ کو تو کوئی ٹوکتا بھی نہیں
یہی ہوتا ہے خاندان میں کیا
بولتے کیوں نہیں مرے حق میں
آبلے پڑ گئے زبان میں کیا
یوں جو تکتا ہے آسمان کو تو
کوئی رہتا ہے آسمان میں کیا
یہ مجھے چین کیوں نہیں پڑتا
ایک ہی شخص تھا جہان میں کیا
امروہہ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہاں ہر پیدا ہونے والا بچہ جب بولنا شروع کرتا ہے تو شعر کہتے ہوئے وارد ہوتا ہے۔ امروہہ سے صادقین کی محبت مجتبیٰ حسین نے بے حد خوبصورتی سے بیان کی ہے۔ صادقین نے انھیں ملاقات کے لیے مزار غالب آنے کی دعوت دی کہ اس وقت صادقین کی غالب سے ملاقات طے تھی۔ مجتبیٰ صاحب نے فرمایا کہ غالب سے ملاقات ہو چکی ہو تو کناٹ پیلس چل کر کسی بڑھیا ریسٹورنٹ میں بیٹھتے ہیں لیکن انھوں نے بستی نظام الدین اولیا کے ریستوران میں بیٹھنے کو ترجیح دی کہ اس کا مالک امروہہ کا ہے یوں غالب کے بعد امروہہ صادقین کی دوسری کمزوری یا طاقت کہیے بن کر سامنے آیا۔
‘‘۳۳ برس بعد وہ ہندوستان آئے تھے۔ ان برسوں میں دنیا کا شاید ہی کوئی ملک ایسا بچ رہا ہو جہاں وہ نہ گئے ہوں، لیکن ہر جگہ اپنے امروہہ کو وہ اپنے ساتھ لے گئے۔ میں نے ان کی کتاب‘‘رقعاتِ صادقینی’’ پڑھی ہے، جس میں وہ اپنے بھائی کے نام لندن، پیرس، واشنگٹن، نیویارک، ماسکو اور نہ جانے کن کن شہروں سے خط لکھتے ہیں تو تو ان بڑے شہروں کے بیچ اپنے امروہہ کو پھیلا دیتے ہیں۔ ان ۳۳ برسوں میں امروہہ ان کے اندر آباد ہو کر پھلتا پھولتا رہا اتنا شاید وہ ہندوستان میں بھی نہیں پھولا پھلا۔۔۔۔’’۱۳
شاعر، خطاط، فنون لطیفہ کے بڑے بڑے نام اس سر زمین سے تعلق رکھتے ہیں۔ سید صادقین احمد نقوی کی ہزاروں گزوں پر محیط خطاطی اور ان گنت مصوری کے شاہکار، موضوع انسان اور اس کی وسیع و عریض کائنات، یہ کائنات کسی خاص زمان و مکان سے وابستہ نہیں، اس کا تعلق ہر زمین اور ہر زمانے سے ہے۔ خود آگاہ صادقین کو کبھی کسی سے اپنے ہونے کی گواہی طلب کرنے کی ضرورت و خواہش نہیں رہی۔
خود اپنے طریقے میں قلندر میں ہوں
خود اپنے سلیقے میں ہنر ور میں ہوں
خود اپنے بنائے ہوئے آئینوں میں
خود گیر ہوں، خود نگر ہوں، میں خود گر ہوں
جامعہ کراچی میں پہلا دن، مجنوں گورکھ پوری مغربی تنقید کا پرچہ پڑھانے آئے تو اولین تاثر، کالج میں صادقین اور یہاں جامعہ میں مجنوں صاحب، عصر موجود کی نابغۂ روزگار ہستیاں۔۔۔۔۔ دونوں منحنی، مرنجاں مرنج، دبلے پتلے، مجنوں صاحب ادبی قد کاٹھ میں کتنے ہی قد آور کیوں نہ ہوں۔ صادقین سے دبتا ہوا قد، گوری رنگت۔۔۔۔ بظاہر تو یہ موازنہ جسمانی ہیئت کا نظر آتا ہے لیکن میں اس ان تھک محنت، مستقل مزاجی، اپنے مقصد سے لگن، کام میں محویت جو گرد و پیش کا ہوش ہی نہ بھلا دے بلکہ اپنے آپ سے بھی بیگانہ کر دے، نیند، لباس، خوراک یہ سب چیزیں فروعی معلوم ہونے لگیں اور جب مقصد پایہ تکمیل کو پہنچ جائے تو بے داغ تکمیلیت لیے کوئی شہکار منصۂ شہود پر آ کر طالبان مصوری اور مشتاقانِ ادب کو حیرت زدہ کر دے۔۔۔۔ اور وہ جو صادقین نے زندگی کے بارے میں کہا تھا:
‘‘یہ مت سمجھو کہ زندگی بس تختۂ گل ہے۔۔۔۔۔محنت اور مشقت ہے، خلش اور جستجو ہے، ایک درد ہے، ایک عرق ریزی ہے۔ ایک جہاد ہے، ایک تگا پوئے دمادم ہے، ایک فکر ہے ایک جد و جہد ہے، بسترِ گل نہیں ہے’’۱۴
تو مجنوں صاحب کو بھی دو سال قریب سے دیکھنے، ان سے پڑھنے، زندگی کے قرینے سیکھنے، ادب آداب، تہذیب و شائستگی کے مفاہیم سمجھنے میں مدد ملی۔۔۔۔۔۔
ان اجنہ کو دیکھنے کے مواقع تو قدرت نے خوب مہیا کیے لیکن ان سے کچھ سیکھنے کے لیے بھی تو خود میں کچھ صلاحیت ہونا چاہیے، ہاں یہ کہہ سکتی ہوں کہ محنت کی عادت، سستی اور کاہلی سے نفور، ہمہ وقت مصروفیت۔۔۔۔۔۔ شاید انہی اساتذہ کی دین ہے۔
حوالہ جات:
۱۔ مسلم شمیم، صادقین، ایک خلاق، ایک مفکر، مشمولہ الاقربا، جولائی۔ ستمبر، ۲۰۱۲ء، ص ۵۲۔ ۵۳
۲۔ منصور آفاق، صادقین کی بصری فرہنگ اور تھور، مشمولہ جنوری۔ مارچ ۲۰۱۳ء، ص۱۱۰
۳۔ محمد راشد شیخ، دہلوی طرزِ نستعلیق کے موجد، مشمولہ اخبار اردو، دسمبر۔ جنوری ۲۰۸۱ء، ص ۱۸
۴۔ ڈاکٹر عطش درانی، اقبال، کتابیں، سرورق اور نقشِ کمال، مشمولہ الاقربا، اکتوبر، دسمبر ۲۰۱۸ء، ص۲۰۔ ۲۱
۵۔ پروفیسر نجم الہدیٰ، علیگ، صادقین صرف مشرقی، مشمولہ قلم دوست، کراچی، مارچ۲۰۰۹ء، ص ۵۵
۶۔ طاہر رشید، خطاطی، مشمولہ اخبارِ اردو، اسلام آباد، دسمبر، جنوری ۲۰۱۸ء، ص ۳۲
۷۔ محسن بھوپالی، نقد سخن، کراچی، نہال پریس، مارچ، ۱۹۹۸ء، ص۱۰۴
۸۔
"voice of America” urdu http://www.voanews.com/urdu/ne ws/a-25-2009-02-09-voa35.html ٓ
۹۔ چہار سو، جنوری فروری ۲۰۱۵ء، ص ۱۰
۱۰۔ کشور ناہید، ایک روزن، ۶ اگست ۲۰۱۷ء
۱۱۔ چہار سو، جنوری فروری ۲۰۱۵ء، ص ۹
۱۲۔ ایضاً، ص ۱۱
۱۳۔ ایضاً، ص ۸
۱۴۔ عنبرین عباس، صادقین جی سے بھلایا نہ جائے گا، عشبہ پبلشنگ انٹر نیشنل، ۲۰۰۹ء ص ۱۰
٭٭٭