غالب کی شاعری اور آج کی پاپولر شاعری ۔۔۔ ناصر عباس نیرؔ

غالب نے میر کے دیوان کو ’گلشن کشمیر‘ کہا تھا، جب کہ خود کو گلشن نا آفریدہ کا عندلیب کہا تھا۔ ایک حقیقی طور پر موجود گلشن کے عندلیب کے گیت اور نالے کچھ اور ہوتے ہیں، جب کہ نا آفریدہ گلشن کے عندلیب کے نغمے اور نالے کچھ دوسرے ہوتے ہیں۔

تجربے اور تصور کی گرمی ہی میں نہیں، نشاط و رنج میں بھی فرق ہوتا ہے۔ وہی فرق جو قید اور آزادی میں ہے، پاؤں میں پڑی زنجیر اور کھلے پروں میں ہوتا ہے، جو کناروں میں مقید دنیا اور بے کنار، امکانات کی دنیاؤں میں فرق ہوتا ہے۔ وہی فرق جو حسی دنیا کی اسیری اور تخیلی دنیا کی آزادی میں ہے۔

غالب نے اپنی شاعری کا نیا آسمان بنایا اور خود اس کی حدوں کو توڑا بھی۔ دشت امکاں کو محض ایک نقش پا دیکھا۔ جس دشت کے تصور ہی سے، تخیل کے پر جلتے ہوں، اسے محض ایک قدم سمجھنا، صرف غالب کے شعری تخیل میں ممکن تھا۔

اہم بات یہ تھی کہ یہ نقش قدم بھی خود آدمی کا تھا۔ غالب نے شاعری کے جس آسمان کی تخلیق کی، وہ اپنی نوعیت ونہاد میں بشری تھا۔ غالب نے اپنے آسمان شعر میں دیوتاؤں کو نہیں بسایا۔ بلکہ دیوتا ؤں نے انسانوں کے لیے جس دنیا کو پسند کیا، اس پر غالب نے جرأت مندانہ سوالات قائم کیے۔ آدمی کو اپنی زبان میں، اپنا استغاثہ پیش کرنے کا حوصلہ دیا اور استغاثہ پیش کرنے کے کئی پیرائے بھی سکھائے: سادہ، رمزیہ، طنزیہ، ظریفانہ، پیراڈاکسیائی، آئرنی کا حامل، تمثالی اور نہ جانے کیا کیا۔

میری قسمت میں غم گر اتنا تھا

دل بھی یارب کئی دیے ہوتے

جلاد سے ڈرتے ہیں نہ واعظ سے جھگڑتے

ہم سمجھے ہوئے ہیں اسے جس بھیس میں جو آئے

کبھی شکایت رنج گراں نشیں کیجے

کبھی حکایت صبر گریز پا کہیے

رہے نہ جان تو قاتل کو خوں بہا دیجے

کٹے زبان تو خنجر کو مرحبا کہیے

جس زبان میں غالب جیسا شاعر موجود ہے، اس میں آج کی پاپولر شاعری، عجب پیراڈاکس کو پیش کرتی ہے۔ بلکہ ایک مضحکہ خیز تقابل کو۔

ہمیں یہ کہنے میں باک نہیں کہ آج کی پاپولر شاعری، شاعری کی بھدی نقل (mimicry) ہے۔ وہ شاعری ہونے کا دھوکا دیتی ہے، شاعری ہے نہیں۔ نیولبرلزم میں جو کچھ بھی ’پیدا‘ کیا جاتا ہے، اسے بیچا جا سکتا ہے، بیچنے کے طریقے یعنی لوگوں کے دلوں میں چھپی حماقتوں کو پہچاننے کا فن آنا چاہیے۔

اس کے خریدار لمبی لائنیں بنائے، پہروں کھڑے رہ سکتے ہیں۔ زبان کا ذائقہ ہو، شکم کی بھوک ہو، یا ذہن کی لذت، جب یہ ہوس پرستانہ طور پر مطلوب ہوں تو اعلا و ادنا کا فرق باقی نہیں رہتا۔ لیکن یہ واضح کرنے کی اشد ضرورت ہوتی ہے کہ شاعری کیا ہوتی ہے، اچھی، معقول، عمدہ، معتبر اور بڑی شاعری کیا ہوتی ہے اور اس کے مطالعے کا ثمر کیا ہوتا ہے۔

اچھی شاعری، کیسے آدمی کے دل و ظرف و ذہن کو بدلتی ہے اور بڑی شاعری کیسے، اسے مسرت و بصیرت کی انوکھی دنیاؤں میں لے جاتی ہے اور زندگی کے اساسی تجربے کو بدل دیتی ہے۔ زبان، شکم اور ذہن کی لذت بجائے خود بری نہیں، ان کے لیے اعلا چیزوں کو چھوڑ کر معمولی چیزوں کی طرف جانا، برا ہے، سخت برا۔ خود آدمی کے لیے، سماج اور کلچر کے لیے۔ ہم سب کے لیے۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے