نظمیں ۔۔۔ امجد اسلام امجد

 

مجھے اپنا ستارا ڈھونڈنا ہے

 

ستاروں سے بھرے اس آسماں کی وسعتوں میں

مجھے اپنا ستارا ڈھونڈنا ہے

فلک پر کہکشاں در کہکشاں اک بے کرانی ہے

نہ اس کا نام ہے معلوم، نہ کوئی نشانی ہے

بس اتنا یاد ہے مجھ کو

ازل کی صبح جب سارے ستارے

الوداعی گفتگو کرتے ہوئے رستوں پہ نکلے تھے

تو اس کی آنکھ میں اک اور تارا جھلملایا تھا

اسی تارے کی صورت کا

مری بھیگی ہوئی آنکھوں میں بھی اک خواب رہتا ہے

میں اپنے آنسوؤں میں اپنے خوابوں کو سجاتا ہوں

اور اس کی راہ تکتا ہوں

سنا ہے گمشدہ چیزیں

جہاں پہ کھوئی جاتی ہیں

وہیں سے مل بھی جاتی ہیں

مجھے اپنا ستارا ڈھونڈنا ہے!

٭٭٭

 

 

 

آشوبِ آگہی

 

کوئی بتلائے مجھے

میرے ان جاگتے خوابوں کا مقدر کیا ہے!

میں کہ ہر شے کی بقا جانتا ہوں

اڑتے لمحوں کا پتا جانتا ہوں

 

سرد اور زرد ستاروں کی تگا پو کیا ہے

رنگ کیا چیز ہے، خوشبو کیا ہے

صبح کا سحر ہے کیا، رات کا جادو کیا ہے

اور کیا چیز ہے آوازِ صبا جانتا ہوں

 

ریت اور نقشِ قدم، موج کا رم

آنکھ اور گوشہ لب، زلف کا خم

شام اور صبح کا غم

سب کی قسمت ہے فنا، جانتا ہوں

 

پھر بھی یہ خواب میرے ساتھ لگے رہتے ہیں

جاگتے خواب کہ جن کی کوئی تعبیر نہیں

کوئی تفسیر نہیں

صورتِ زخم ہرے رہتے ہیں

میرے ہاتھوں سے پرے رہتے ہیں

 

آگہی جہل سے بدتر ٹھہری

جاگتے خواب کی تعبیر مقدر ٹھہری

زندگی میرے لیے گنبدِ بے در ٹھہری

میں کہ آوازِ صبا جانتا ہوں

اڑتے لمحوں کا پتا جانتا ہوں

اور ہر شے کی بقا جانتا ہوں۔

٭٭٭

 

 

 

مری بات بیچ میں رہ گئی

 

تیرے اِرد گِرد وہ شور تھا،

مری بات بیچ میں رہ گئی۔

نہ میں کہہ سکا نہ تُو سُن سکا،

مری بات بیچ میں رہ گئی۔

 

مرے دل کو درد سے بھر گیا،

مجھے بے یقین سا کر گیا،

ترا بات بات پہ ٹوکنا،

مری بات بیچ میں رہ گئی۔

 

ترے شہر میں میرے ہم سفر،

وہ دُکھوں کا جمِّ غفیر تھا،

مجھے راستہ نہیں مل سکا،

مری بات بیچ میں رہ گئی۔

 

وہ جو خواب تھے مرے سامنے،

جو سراب تھے مرے سامنے،

میں اُنہی میں ایسے اُلجھ گیا،

مری بات بیچ میں رہ گئی۔

 

عجب ایک چُپ سی لگی مجھے،

اسی ایک پَل کے حِصار میں،

ہُوا جس گھڑی ترا سامنا،

مری بات بیچ میں رہ گئی۔

 

کہیں بے کنار تھی خواہشیں،

کہیں بے شمار تھی اُلجھنیں،

کہیں آنسوؤں کا ہجوم تھا،

مری بات بیچ میں رہ گئی۔

 

تھا جو شور میری صداؤں کا،

مِری نیم شب کی دعاؤں کا،

ہُوا مُلتفت جو مرا خدا،

مری بات بیچ میں رہ گئی۔

 

تری کھڑکیوں پہ جھُکے ہوئے،

کئی پھول تھے ہمیں دیکھتے،

تری چھت پہ چاند ٹھہر گیا،

مری بات بیچ میں رہ گئی۔

 

مری زندگی میں جو لوگ تھے،

مِرے آس پاس سے اُٹھ گئے،

میں تو رہ گیا اُنہیں روکتا،

مِری بات بیچ میں رہ گئی۔

 

تِری بے رخی کے حِصار میں،

غم زندگی کے فشار میں،

مرا سارا وقت نکل گیا،

مِری بات بیچ میں رہ گئی۔

 

مجھے وہم تھا ترے سامنے،

نہیں کھل سکے گی زباں میری،

سو حقیقتاً بھی وہی ہُوا،

مری بات بیچ میں رہ گئی۔

٭٭٭

 

 

 

خواب سراب

 

اب جو سوچیں بھی تو خوف آتا ہے

کس قدر خواب تھے جو خواب رہے

کس قدر نقش تھے جو نقش سر آب رہے

کس قدر لوگ تھے جو

دل کی دہلیز پہ دستک کی طرح رہتے تھے اور نایاب رہے

کس قدر رنگ تھے جو

بند گلیوں کے خم و پیچ میں چکراتے رہے

اپنے ہونے کی تب و تاب میں لہراتے رہے

پر کبھی آپ سے باہر نہ ہوئے

پھول کے ہاتھ میں ظاہر نہ ہوئے

دل کے گرداب میں ٹوٹے ہوئے پتوں کی طرح ہمہ تن رقص رہے

خوں بے نام ستاروں کی طرح عکس در عکس رہے

کیسے آدرش تھے جن کے سائے

سنسناتے ہوئے تیروں کی طرح چلتے تھے

ہست اور نیست کے مابین عجب رشتہ تھا

روح کی آگ بھڑکتی تو بدن جلتے تھے

وہ شب و روز تھے کیا

جب کسی خواہش بیدار کی طغیانی میں

وقت کی قید سے لمحات نکل جاتے تھے

خوں میں جب بھی سلگتا تھا ارادہ کوئی

آہنی طوق تمازت سے پگھل جاتے تھے۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے