عارفہ شہزاد کا ناول ’’میں تمثال ہوں‘‘ اردو میں ایک منفرد تخلیقی تجربے کا حامل ناول ہے۔ ناول نگار نے قاری کو کہانی کے تانے بانے میں اس قدر الجھا دیا ہے کہ وہ یہ فیصلہ ہی نہیں کر پاتا کہ یہ ناول ہے یا آپ بیتی؟ ناول بھی ہے یا محض نفسیاتی الجھنوں کی ایک نوٹ بک اور اس پر کسی معالج کے مشورے؟ اردو زبان کا قاری چوں کہ سیدھی کہانی پڑھنے کا تربیت یافتہ ہے، شاید اسی لیے اس الجھن نے زیادہ زور پکڑا۔ ناول نگار کا کمال یہ ہے کہ اس نے بیان اور بیانیہ ڈسکورس کے اندر الجھائے رکھا۔ اور مزے والی بات یہ کہ وہ ناول میں بار بار اس بات کا تذکرہ بھی کرتی دکھاتی دیتی ہے کہ اس تحریر کو ناول نہیں سمجھا جائے گا۔ مصنفہ نے اس الجھاوے کو بطور ٹیکنیک استعمال کیا کہ میری یہ ذاتی ڈائری، جسے ایک معالج نے لکھنے پر مجبور کیا، شائع ہو رہی ہے۔ ساتھ ہی اس میں اس معالج کے نفسیاتی مشورے بھی شامل کر دیے گئے ہیں تاکہ ناول کی مرکزی کہانی کو سمجھنے میں مدد مل سکے یا کم از کم قاری ان الجھنوں کا شکار نہ ہو جس کا شکار کہانی لگ رہی ہے۔ ہمارا قاری ابھی تک روایتی کہانی کے حصار سے باہر نہیں نکل پایا، اس لیے اسے تکنیک سے چڑ ہے۔ یہ کیسی عجیب بات ہے کہ ناول نگار نے خود جس طرف بار بار دھیان دیا، اس ناول کا قاری بھی اسی دھوکے میں آ کے اسے ناول تسلیم نہیں کرتا اور اسے سوانح سمجھ بیٹھتا ہے۔ مصنف نے اپنی کہانی کا ذکر اپنی دوسری معالج فارحہ، اپنی ساشل میڈیا پر بنے والی دوستوں رعنا، راحمہ۔۔۔۔ اور جونئیر اور سینئر ادبی دوست سے بھی ذکر کیا تو سب نے اسے مصنفہ کی سوانح سے تعبیر کیا۔ ناول میں کہانی کا یہی وہ پہلو ہے، جسے مصنفہ نے ایک تکنیک کے طور پر استعمال کرتے ہوئے قاری کو بھی یہ باور کروایا۔ اب دوسرا یہ سوال ہے کہ ایسا کیوں کیا گیا۔ مصنفہ نے کہانی کے ’کُل‘ کے اندر سے کوئی Thematic concept دینے کی بجائے Thematic Statements میں زیادہ الجھائے رکھا ہے۔ (یاد رہے کہ تھیم کی پیش کش میں ان بیانات(Statements) کا بہت دخل ہوتا ہے جو کہانی کے’موضوع‘ کو کھولنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔)
اردو فکشن کے تناظر میں یہ سوال بڑ ا اہم ہے کہ فکشن خصوصاً ناول کی ایک بڑی تعداد جنس اور جنسی لاشعوری محرکات ہی پر مشتمل کیوں نظر آتی ہے؟ شاید اس کی ایک وجہ ہمارے سماج کا وہ تشکیلی ڈھانچہ ہے، جس میں رسومات بطور ذہنی غلامی انسان کو ایسی زنجیروں میں جکڑ دیتی ہیں جس میں باطن اندر ہی اندر دم گھٹ کے مرنے لگتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ انسان جنس کی ضربوں سے مرنے لگتا ہے یا اسے اپنے گلے کا طوق بنا کے بازار میں نکل آتا ہے اور اس کی نفسی قوتوں کو شکست دیدیتا ہے۔
’’میں تمثال ہوں‘‘ کا موضوع بھی ایک ایسی جنس زدہ عورت کی کہانی ہے جو Polygamy رویہ رکھتی ہے۔ کیسی عجیب بات ہے، ہماری سماجی اقدار میں کثرتِ ازواج کا معنوی تصور بطور صنف صرف مرد کے ساتھ رائج ہے۔ عورت کا بطور Polygamic رویہ نہایت غیر اخلاقی ہی نہیں بلکہ فطری حوالوں سے بھی غلط سمجھا جاتا ہے۔ اس ناول کی کہانی کو اگر ایک مرد کی کہانی سمجھ کے پڑھا جائے (جو بہت آسانی سے تبدیل کی جا سکتی ہے) تو شاید اس ناول کی اہمیت نہ ہونے کے برابر رہ جائے۔
کہانی بنیادی طور پر دو حصوں پر مشتمل ہے۔ دونوں حصے کہانی کے تھیم کے تصور سے مکمل طور پر جڑے ہوئے ہیں۔ پہلا حصہ ایک ای میل سے شروع ہوتا ہے جو معالج کے ہدایت نامہ پر مشتمل ہے۔ نفسیاتی معالج مریضہ کو اپنی تمام کہانی بیان کرنے کو کہتا ہے جو مریضہ کے سات عشقوں کے واقعات پر مشتمل ہے۔ پہلے چھے عشق کے ۱۳ اوراق ہیں جب کہ آخری یعنی ساتویں عشق کے سات ورق ہیں۔ یوں کہانی کی مرکزی کردار تمثال بیس مختلف اوراق (ابواب) میں اپنی سوانح کو معالج کے سامنے کھولتی ہے۔ تمثال کا کردار ایک کج رَو جنسی رویے کے طور پر سامنے نہیں آتا بلکہ ایک ایسی عورت کا تصور ابھرتا ہے جو باقاعدہ اپنے نفسی لا شعور کی طنابوں کی پکڑ میں ہے اور Polygamy عورت کے طور پر اپنے کردار کو ادا کرنے میں سہولت محسوس کر رہی ہے مگر ساتھ ہی اس گناہ (Guilt) کے تصور سے بھی نجات نہیں حاصل کر پا رہی جو اسے دیمک کی طرح اندر ہی اندر سے چاٹ رہا ہے۔
دوسرا حصہ معالجین کی گفتگوؤں پر مشتمل ہے۔ کہانی کے اندر ان معالجین کے مشورے اور ان کی ہدایات بھی بہت معنی خیز اور نفسیاتی الجھنوں کو کھولنے میں بہت مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ بظاہر لگتا ہے کہ کہانی ختم ہو چکی ہے اور اپنے اس کہانی پر مختلف نفسیاتی جائزے شامل کر کے کہانی کو الگ کر دیا گیا ہے۔ حالاں کہ اصل کہانی ان مشوروں پر ہی مشتمل ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ تمثال کا کردار کہانی میں قید ایک بے جان پرزہ ہے جسے خود تمثال اسے اوروں کی طرح محض جذبے کی تسکین کی طرح استعمال کر رہی ہے۔ وہ اس ’’استحصال‘‘ کو سمجھنے کی صلاحیت تک سے محروم ہے مگر معالجین سے مشاورت کے بعد وہ اپنی نفسی الجھنوں کو زیادہ بہتر طریقے سے پہچاننے کی دعویٰ کرتی نظر آتی ہے۔ اسی لیے ڈاکٹر احسن کو کہنا پڑا: ’’آپ تجزیے پر تجزیے مت کروائیں۔ خود اپنے آپ کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ آپ وہ نہیں ہیں جو دوسرے کہتے ہیں۔ آپ وہ ہیں جو آپ کا اندر کہتا ہے۔‘‘
میرے خیال میں تمثال کے عشق سات نہیں بلکہ پانچ ہیں، پہلا عشق نہیں وہ سماجی رویہ ہے جس کی زد میں بعض اوقات مرد بھی ہوتے ہیں۔ یہ عشق نہیں بلکہ جنسی کج روی کا ایک عملی نمونہ ہے۔ تیسرا عشق جسے تمثال نے اپنی شادی کا تجربہ بتایا ہے، بھی عشق نہیں۔ ڈاکٹر احسن کے سوال نامے میں تمثال نے بڑی وضاحت سے اس کی طرف اشارے بھی کر دیے کہ وہ ایک خاندانی بندھن سے زیادہ کوئی وقعت نہیں رکھتا۔ اس ناول کا بنیادی نفسیاتی مسئلہ جس میں قاری الجھا رہتا ہے وہ یہی عشق ہے جسے تمثال ماننے سے انکاری ہے۔ یہ عشق اس کے تمام عشقوں کو کھا بھی رہا ہے اور ان کی طرف راستہ بھی کھول رہا ہے۔
یاد رہے کہ انسان کا سب کچھ اس کی تجرباتی زندگی ہے۔ یہ ایک ایسی کھڑکی ہے جہاں سے انسان سانس لیتا ہے۔ ورنہ سب کچھ عدم روشنی کا شکار ہو جائے۔ تمثال کا دوسرا عشق اصل میں اس کی زندگی کی ایسی کھڑکی ہے جہاں سے اسے سانس لینے میں سہولت محسوس ہوتی ہے۔ یہیں سے وہ باہر کا ’’منظر‘‘ دیکھتی ہے، ورنہ کمرہ تو تاریک تھا۔ جب وہ تاریکی سے اکتاتی ہے تو اسے یہ کھڑکی ہی نظر آتی ہے جہاں سے وہ باہر جھانک لے۔ جب شادی کے بعد راستہ بند ہو گیا اور تیسرے عشق کی گھٹن نے اس کی سانس لینے کی آزادی بھی مسدود کر دی تو اس نے اسی کھڑکی کو اپنا استاد بنا لیا اور اس سے سانس لینے کا ہنر سیکھنے لگی۔ یہ عشق نہیں بلکہ ایک زور دار قوت (thrusting Force) کے طور پر اس کے وجود میں گھس جاتا ہے۔ ایسے تجربے جو بند کھڑکیوں سے باہر جھانکنے کا اہتمام کرتے ہیں، ضرور نفسیاتی لا شعور میں محفوظ کسی یادداشت کا حصہ بن چکے ہوتے ہیں۔ اسی قوت نے دیگر راستوں کی طرف دھکیلا اور تمثال زندگی کی ڈھلوان پر ایک مدور پتھر (Rotular Stone) کی طرح لڑھکتی ہی گئی۔
تمثال کی زندگی میں ایک نفسیاتی مسئلہ اور بھی ہے، جس کی طرف تمثال کی بائیوگرافی میں بھی ذکر نہیں اور نہ ہی ڈاکٹر احسن نے سوال کیا، وہ جمالیات کا ہے۔ عشق کا نہیں تو کم از کم جنس کا بنیادی محرک جمالیات سے جڑا ہوا ہوتا ہے۔ تمثال نے ’’جمال‘‘ نامی کسی احساساتی تجربے کا ذکر تک نہیں کیا۔ ایسا لگتا ہے کہ جمالیات اور حسن و خوب تمثال کا مسئلہ ہی نہیں، محض جنس اس کا مرکز ہے۔ یوں ایک حیاتیاتی عمل کی ایک قبیح شکل سامنے آتی ہے۔ دوسرے عشق کی تصویر کشی کے بعد یہ تصویر سامنے آتی ہے کہ جیسے تمثال نے دوسرے عشق کو بطور ’جنسی لذت‘ نہیں بلکہ ایک ’جنسی عمل‘ قبول کیا۔ ساتویں عشق کی محرومی شاید اسی جنسی عمل کی عدم دستیابی سے ایک نفسیاتی عارضہ بنتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ اگر جنس کا جمالیاتی لذت سے ادغام ہوتا تو شخصیت میں کسی کج روی کی بجائے فن کارانہ بالا دستی کا تصور قائم ہوتا۔ شاید مرد کا Polygamic رویہ اسی لیے متحرک (Active) ہوتا ہے کہ وہ جمال کشی کا قائل ہو چکا ہوتا ہے۔ عورت کو بطور جنس کے نہیں ’لذت‘ کے اپنے قرب میں لانا چاہتا ہے۔ عورت بھی جب کثرتِ ازواج کا شکار ہوتی ہے تو وہ جنسی تلذذ کو اپنا محور بنانے کی کوشش میں سماجی حد بندی توڑنے کا کارِ مشکل انجام دینے لگتی ہے۔ ’تلذذ‘ جمالیات کا ایک رد عمل ہے۔ یوں جمالیات سے عورت بھی نہیں بچ پاتی۔ ظاہر ہے ایسے میں وہ دفاعی نہیں جارحانہ (Offensive) طرز سے معاملات کو حل کرنے لگتی ہے۔ یوں وہ جنسی لذت سے دوہری قوت حاصل کرتی ہے۔ عموماً دیکھا گیا ہے کہ جو عورت اپنی شخصیت میں Polygamic رویہ رکھتی ہے، وہ خواتین میں زیادہ جارحانہ نقطہ نظر رکھتی ہے۔ مگر یہاں تمثال کا معاملہ الٹ ہے، وہ صرف اُس کھلی کھڑکی کے سہارے زندہ ہے جو اسے دوسرے عشق کے وقت بند کمرے سے باہر جھانکنے کے لیے سہولت نظر آئی تھی۔ وہ جب بھی سانس لینے کی تکلیف سے گزرتی ہے، فوراً کھڑکی کی طرف لپکتی ہے اور سانس لینے کا حیاتیاتی عمل دوہرا کے لوٹ آتی ہے۔
مجھے اس ناول میں نفسیاتی الجھنوں کی ایک قطار نظر آئی جسے ڈاکٹر احسن نے بہت خوبصورتی سے حل کیا اور قاری کو زندگی کے گم شدہ اور ملفوف رویوں سے آگاہ بھی کیا۔ خاص طور پر ہم جنسیت میں فینٹسی کے تصور کی وضاحت۔ جب کہ دوسری معالج فارحہ سماج اور نفس کی کشمکش میں سماج کو ترجیح دیتی ہوئی نفسیاتی مسائل کو حل کرنے میں ناکام نظر آئی۔ فارحہ کے مشورے خود ایک نفسیاتی معالج کی ضرورت کا تقاضا کر رہے ہیں۔ ایسے لوگ معاشرے میں ان بیانیوں کے اسیر ہوتے ہیں جنھوں نے اذہان کی نبض کو ایسے گرفت میں لیا ہوتا ہے کہ موت کے علاوہ کوئی چیز ان کو نجات نہیں دلا سکتی۔ فارحہ جیسے لوگ (نفسیاتی زبان میں) خود رحم کے قابل ہوتے ہیں۔ تمثال نے بہت اچھا کیا کہ اس کی باتوں پر عمل نہ کر کے اپنی نفسی کیفیات کو مزید تکلیف سے بچا لیا۔
ناول کی کہانی سات عشقوں کے، آگ کے اردگرد سات چکروں سے بھی مشابہت رکھتی ہے۔ سات پھیروں میں دو جسموں کے ذریعے دو آتماؤں کے ملن کا تصور پایا جاتا ہے۔ ایک دوسرے کے لیے پریم، مان اور سمان دینے کی رسم ہے۔ ان سات پھیروں میں، اصل میں عورت اور مرد مل کر ایک دوسرے کی کامناؤں کو عمر بھر پورا کرنے کا عہد کرتے ہیں۔ ہندو فلسفۂ حیات میں عورت اور مرد کے آگ کے گرد یہ پھیرے ایک دوسرے کے لیے آشنا ہو جانے اور پویتر رہنے کا وچن کرنا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ تمثال جنس کے مجہولی رویوں میں، اندر ہی اندر ایک ایسی نفسی حالت سے گزری ہے جس نے اسے سات عشقوں کے پس منظر میں سات پھیروں کی آگ سے گزارا ہے۔ مگر تمثال وہ مورت پتنی ہے جس کا وجود کے پتی سے کوئی رشتہ قائم نہیں ہو پاتا اور آتما کا دکھ ختم ہونے کی بجائے ہر پھیرے پر مزید بڑھ جانے کا امکان پیدا ہوتا جاتا ہے۔
بنیادی طور پر فکشن کا اصول ہی یہ ہے کہ وہ زندگی کے کسی ایسے سوال کو سامنے لائے جو عام تجربے میں اضافہ بھی کرے اور اسے نئے تخلیقی رویوں سے آشنا بھی کروائے۔ ایسے فکشن کی خوبی یہ ہے کہ قاری لا شعوری محرکات کی لاتعداد کیفیات پر ناول ختم کرتا ہے تو اس کے سامنے نفسیاتی اور جنسی سوالوں کا ایک انبار ہوتا ہے۔ جس کے حل کرنے کی کوشش کی بجائے ان سے آگہی کے طویل مراحل طے کر لیتا ہے۔
ناول کا موضوع اور ٹریٹمنٹ منفرد ہونے کی وجہ سے اسے اردو میں اچھا ناول کہا جا سکتا ہے
٭٭٭