غزل ۔۔۔ رئیس فروغ

آنکھیں جس کو دیکھ نہ پائیں سپنوں میں بکھرا دینا

جتنے بھی ہیں روپ تمہارے جیتے جی دکھلا دینا

 

رات اور دن کے بیچ کہیں پر جاگے سوتے رستوں میں

میں تم سے ایک بات کہوں گا تم بھی کچھ فرما دینا

 

اب کی رت میں جب دھرتی کو برکھا کی مہکار ملے

مرے بدن کی مٹی کو بھی رنگوں میں نہلا دینا

 

دل دریا ہے دل ساگر ہے اس دریا اس ساگر میں

ایک ہی لہر کا آنچل تھامے ساری عمر بتا دینا

 

ہم بھی لے کو تیز کریں گے بوندوں کی بوچھار کے ساتھ

پہلا ساون جھولنے والو تم بھی پینگ بڑھا دینا

 

فصل تمہاری اچھی ہو گی جاؤ ہمارے کہنے سے

اپنے گاؤں کی ہر گوری کو نئی چنریا لا دینا

 

یہ مرے پودے، یہ مرے پنچھی یہ مرے اچھے اچھے لوگ

مرے نام جو بادل آئے بستی میں برسا دینا

 

ہجر کی آگ میں اے ری ہواؤ دو جلتے گھر اگر کہیں

تنہا تنہا جلتے ہوں تو آگ میں آگ ملا دینا

 

ترے کرم سے یارب سب کو اپنی اپنی مراد ملے

جس نے ہمارا دل توڑا ہے اس کو بھی بیٹا دینا

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے