کتابیات کی ترتیب کے سلسلے میں مشہور ادیب اور ادبی تاریخ ساز ڈاکٹر سلیم اختر کا بیان ہے اور کیونکہ اشاریہ سازی بھی اسی سبیل کا کام ہے، اس لحاظ سے اسے یہاں پیش کرنا مناسب ہی ہو گا۔
("کتابیات کی ترتیب”) آسان کام نہیں، حصول مواد کے لئے جانے کتنے دروازوں پر دستک دینی ہوتی ہے، کتنی چوکھٹوں کو سلام کرنا پڑتا ہے اور کتنی گرد پھانکنی پڑتی ہے، تب کہیں جا کر معیاری اور قابلِ اعتبار کتابیات ترتیب پاتی ہے”
اور جب بات توضیحی اشاریہ سازی کی ہو تو اس میں اتنی عرق ریزی کا مزید اضافہ ہو جاتا ہے کہ ہر ہر مضمون کا مطالعہ بھی ضروری ہے۔
سر سید جیسی نابغۂ روزگار ہستی کی مستقل تصنیفات ہی کم نہیں، اور اس پر ان کے بے شمار طویل اور مختصر بلکہ کچھ تو محض شذرے کی نوعیت کے مضامین کی فہرست سازی کا کام بھی دانتوں تلے چنے چبانے کا کام ہے، مگر الحمد للہ، یہ کام ہو چکا ہے۔ عائذہ قریشی 2005ء میں "اشاریۂ سر سید” کے نام سے یہ کارنامہ انجام دے چکی ہیں۔ بلکہ اسی کتاب کا پیش لفظ سلیم اختر نے لکھا ہے اور جس سے میں نے اس تبصرے میں اوپر اقتباس لیا ہے۔ رہا سوال ان منتشر مضامین (اور کچھ تقاریر) کی ترتیب کا، تو یہ کام بھی مولانا اسماعیل پانی پتی بطریق احسن انجام دے چکے ہیں۔ یعنی 1962ء سے 1965ء کے دوران سولہ جلدوں میں کتاب "مقالات سر سید” اور دو جلدوں میں "خطبات سر سید” شائع ہو چکی ہے۔ ان دونوں کو سر سید کی کلیات کہا جا سکتا ہے۔
اور اگر کوئی سر سید کے مضامین اور خطبات کی توضیحی اشاریہ سازی کرنا چاہے تو کافی "ہوم ورک” پہلے سے ہی دستیاب ہے،
زیر نظر کتاب صبیحہ بانو کی تصنیف کردہ ہے، اگرچہ یہ مکمل نہیں ہے، بلکہ انہوں نے کچھ ہی کتابوں میں شامل سر سید کے مضامین کا توضیحی مطالعہ شامل کیا ہے۔ ان کتب میں جن کے مضامین کا توضیحی اشاریہ ترتیب دیا گیا ہے، چار جلدیں تو وہی اسماعیل پانی پتی کی مرتب کردہ ہیں، یعنی جلد 1، 8،9 اور
12۔ ان کے علاوہ انتخاب مضامین سر سید، ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ بھی اس فہرست میں شامل ہے۔
ایک مبتدی کے لئے یہ فخر و انبساط کا موقع ہے کہ اس کی پہلی کتاب تحقیقی نوعیت کی ہے، جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ مصنفہ کا ارادہ اسی میدان میں اگلے اقدام کا ہے۔
اس کتاب کے مصنفہ کے بیان کے مطابق دو باب ہیں، پہلے باب میں جس کا عنوان ’’سر سید احمد خان حیات اور علمی و ادبی خدمات‘‘ ہے، کتاب کے صفحہ 11 سے 25 تک ہے، یعنی محض پندرہ صفحات پر مشتمل ہے، جب کہ دوسرا باب ’’سر سید احمد خان کے مضامین و مقالات کا توضیحی اشاریہ‘‘، جو کتاب کا نام ہی ہے، صفحہ 27 سے 131 تک ہے۔ اور یہی کتاب کا موضوع ہے۔ پہلے باب میں بقول سر سید کے ہی، ان کی لائف دی گئی ہے، اور ان کی علمی و ادبی خدمات کا ذکر معہ ان کی کتابوں کی فہرست دی گئی ہے۔
اصل کتاب، یعنی دوسرے باب میں ان چاروں مجموعوں کے مضامین کی تفصیل ہے۔ یہ کتاب اس لحاظ سے بہت مفید ثابت ہو سکتی ہے کہ اس سے سر سید کے گوناگوں موضوعات کا بیک نظر اندازہ کیا جا سکتا ہے اور یہ بھی کہ کسی معاملے میں، چاہے وہ دینی اور شرعی معاملہ ہو یا سائنسی اور میڈیکل. سر سید کے نظریات کیا تھے، اس کا پتہ لگ سکتا ہے۔ اس لحاظ سے زیر نظر کتاب ایک کامیاب کوشش ہے۔ بطور پہلی تصنیف کے، اسے مصنفہ صبیحہ بانو کے لئے بہت خوش آئند قرار دیا جانا چاہئے۔ اگرچہ مصنفہ نے اس بات کا اظہار نہیں کیا ہے لیکن قیافہ سے لگتا ہے کہ یہ ان کے ایم فل کا مقالہ ہے۔ پی ایچ ڈی کا معلوم نہیں کہ وہ اسی موضوع کو آگے بڑھاتے ہوئے مزید تحقیق کا ارادہ رکھتی ہیں یا کوئی اور موضوع منتخب کیا ہے (یا محض ایم فل پر ہی مطمئن ہو کر بیٹھ گئی ہیں!!)
ان کا ایک بزرگ ہونے کے ناطے میں ان کو ذیل میں بہت سے مشورے دے رہا ہوں، جن پر عمل کر سکیں تو ان کی آنے والی تصنیفات معیاری کہی جا سکیں گی۔
اس کتاب کے مواد کو معیار کے اعتبار سے شاید میں محض ایم اے کی تکمیل کے لئے کی گئی تحقیق کے طور پر قبول کر سکتا تھا، لیکن بفرض محال ان کے ایم فل کا ممتحن ہوتا تو اسے شاید ہی قبول کر سکتا۔ ایک معیاری کتاب کا پیمانہ تو بہت آگے کی چیز ہے! معیار کی بہتری کے لئے مصنفہ کو کتاب کے مواد کے علاوہ اس کی پیشکش پر بھی بہت توجہ مبذول کرنے کی ضرورت تھی اور اس کے ظاہری لے آؤٹ اور سٹرکچر پر بھی۔ زبان و بیان پر بھی کسی واقعی اہل علم سے اصلاح کروانے کی بھی۔ ویسے آج کل کی یونیورسٹیوں کا معیار بھی ایسا ہو گیا ہے کہ خود اساتذہ کو بھی درست زبان سکھانے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ اور سدھار لانا مشکل بھی ہے کہ آج کے یہی طلباء کل کے اساتذہ ہوتے ہیں۔ صبیحہ بانو کو بھی چاہیے تھا کہ نہ صرف زبان بلکہ املا کی اغلاط بھی اچھی طرح خود دیکھتیں یا دوسروں سے درستی کروا لیتیں۔ مثال کے طور پر محض ایک پیراگراف پیش ہے
’’سید احمد خان نے مزید لکھا ہے کہ ہندوستان کی اکثر مساجدوں میں بادشاہ سے عدل و انصاف کی حکومت، مذہبی فرائض میں دست اندازی، جان، مال کی حفاظت و دیگر عائیہ کلمات استعمال کئے جاتے تھے جو کہ حقیقت میں بادشاہ کے لئے نہیں بلکہ مسلمانوں کی بھلائی ے لئے ہوا کرتے تھے۔‘‘
اس پیرا میں "مساجدوں” کوئی لفظ نہیں، مسجدوں کہا جائے یا عربی کے مطابق مساجد۔ اس مکمل جملے سے کوئی واضح مفہوم بھی برآمد نہیں ہوتا، کہنا یہ تھا کہ.. ’’اکثر مساجد میں بادشاہ سے عدل و انصاف کی کی حکومت قائم کرنے کی درخواست، جان و مال کی حفاظت کی ضمانت کی التجا، مذہبی فرائض میں دست اندازی نہ کرنے کا عزم، …‘‘
اسی میں دعائیہ کی جگہ عائیہ، اور کے کی بجائے محض ے کمپوز کیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ ایک بنیادی کمی یہ بھی ہے کہ جہاں سر سید کے الفاظ ہوں، وہاں واوین دینا ضروری ہے، اس کتاب میں تو پتہ ہی نہیں چلتا کہ سر سید کا بیان کہاں ختم ہوا اور صبیحہ بانو کا کہاں شروع!
کتاب کے لے آؤٹ میں بھی کئی غلطیاں ہیں۔ مثلاً
ٹائٹل اور اندرونی سرورق کی عبارت یکساں ہونی چاہیے۔ ٹائٹل پر مصنفہ کا جو نام دیا گیا ہے اندر دیئے گئے نام سے مختلف ہے۔
٭٭٭