‭‭‭‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬نظمیں ۔۔۔ اسلم عمادی‬‬‬‬‬‬

 

ایک عجب سا تذبذب

 

 

یہ سوچتا ہوں کہ کیوں ان کو فون کرتا ہوں

 

جو اپنے دائرہ میں گم ہیں، اپنی ذات میں مست

نہ ان کو فرصتِ گفتار ہے نہ مہلت و وقت

 

رعایتاٌ وہ مری بات سن تو لیتے ہیں:۔

جو ٹوٹے پھوٹے ادھورے جواب دیتے ہیں

 

کہیں یہ فون کی عادت مری فضول نہ ہو

کہ میری ذات انہیں دل سے ہی قبول نہ ہو

 

میں بھول جاؤں انہیں، دوستی کو خواب کروں

بجائے اس کے کہ یوں وقت کو خراب کروں۔۔۔!!!

٭٭٭

 

 

 

شہر آزردہ

 

جو اڑتے پھرتے پرندے تھے کھو گئے ہیں سب

سیہ درخت پہ نسیاں کے سو گئے ہیں سب

 

کوئی تو ہو کہ جو گم گشتگاں کا ذکر کرے

وہ سب کہاں گئے، کیوں دور ہو گئے ہیں سب

 

یہاں سخن ہے فقط : نوحہ، مرثیہ، واسوخت

شباب شوق غزل یوں بھی کھو گئے ہیں سب

 

چراغ گل ہوئے ساری فضا سرنگ بنی

نگاہ قید ہوئی، رہ گذار تنگ بنی

وطن کا حال عجب ہے، سبھی سراسیمہ

کہ اب ہوا بھی یہاں خشک و زرد رنگ بنی

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے