احمد پور شرقیہ سے لاہور تک کا سفر تھکا دینے والا تھا۔ خالد جب یتیم خانہ چوک کے پاس لاری اڈے پر اترا تو رات کے نو بج چکے تھے۔ پورے روشن چاند نے تاریک رات میں ہر طرف چاندنی بکھیر رکھی تھی۔ یہ دسمبر کے آخری دن تھے اور ہوا میں ٹھنڈ اتنی شدید کہ اس کی ناک اور گال بس سے باہر نکلتے ہی یخ ہو گئے اور اسے اپنے منہ سے نکلتا سانس بھاپ کی صورت میں دکھائی دے رہا تھا۔
”بھائی، معاف کرنا، یہاں قریب ہی کوئی رہنے کا سستا ٹھکانہ مل جائے گا؟‘‘
اس نے کنڈکٹر سے اپنا بکسا پکڑتے ہوئے پوچھا۔ کنڈکٹر، جو بس کی چھت پر چڑھا مسافروں کا سامان جلدی جلدی نیچے لٹکا رہا تھا، نے اسے کوئی جواب نہ دیا اور اپنے کام میں مصروف رہا۔ خالد وہیں کھڑا رہا۔ اس نے، گو، اونی سوئیٹر پہن رکھا تھا اور لوئی بھی لپیٹ رکھی تھی لیکن وہ بھر بھی سردی سے کانپ رہا تھا۔ اس کی جین تھی تو موٹی لیکن سردی کو روک نہیں پا رہی تھی اور اس کی ٹانگوں کو سن کر رہی تھی؛ اس کے خصیے بھی سکڑ کر کاٹھے اخروٹ بن چکے تھے۔ اس کے بوسیدہ جوتوں اور سوتی جرابوں کا بھی یہی حال تھا، اس کے پیروں کی انگلیاں سن ہو رہی تھیں۔
کنڈکٹر جب سارا سامان بس کی چھت سے نیچے اتار کر خود بھی نیچے اترا تو اس نے خالد کو اس کے پندرہ منٹ پہلے پوچھے سوال کا جواب دیا۔
” یہاں نزدیک تو کوئی ایسی جگہ نہیں ہے لیکن ملتان روڈ پر یتیم خانہ چوک کے دونوں طرف ہوٹل بھی ہیں اور کچھ لوگ اپنے گھروں میں بھی کمرے کرائے پر دیتے ہیں۔ ان میں فرحت ہاؤس سستا بھی ہے اور مشہور بھی۔ چوک میں کسی سے بھی پوچھو گے تو وہ تمہیں بتا دے گا۔۔ اس کی مالکن ایک عورت ہے۔‘‘
آخری جملہ کہتے ہوئے اس کے منہ پر مسکراہٹ تھی اور ایک آنکھ کا کونا بھی دبا ہوا تھا۔ اس نے یتیم خانہ چوک کی طرف اشارہ کیا۔ خالد نے اس کا شکریہ ادا کیا اور بکسا اٹھائے اس طرف چلنا شروع کر دیا جس طرف کنڈکٹر نے اشارہ کیا تھا۔ خالد پہلے کبھی لاہور نہ آیا تھا اور یہاں کسی کو بھی نہیں جانتا تھا۔ وہ اس شہر میں روزگار کے حوالے سے اپنی قسمت آزمانے آیا تھا۔
خالد نے اپنے علاقے کے نادرا دفتر سے چند ماہ پہلے ہی اپنا شناختی کارڈ بنوایا تھا۔ اس نے ابھی مڈل پاس ہی کیا تھا کہ اس کے والد کو فالج ہوا اور وہ بستر سے لگ گیا۔ خالد کو مجبوراً سکول چھوڑنا پڑا اور باپ کی کریانے کی دکان سنبھالنا پڑی۔ یہ دکان کیا تھی، چھوٹا سا کھوکھا تھا جو بازار میں اس جگہ سے کچھ دور ہٹ کر تھا جہاں بسوں کا اڈہ تھا۔ وہ ڈھائی سال سے اس دکان کو چلا رہا تھا، فارغ وقت میں وہ میۓتک کی کتابیں پڑھتا رہتا، ان سے دل اُوبتا تو کوئی ڈائجسٹ یا کتاب پڑھنے لگتا، وہ یہ کتابوں والی اس دکان سے مستعار لاتا جو بسوں کے اڈے کے پاس موجود تھی جہاں نصابی کتب اور سٹیشنری کے علاوہ دیگر کتب و رسائل وغیرہ بھی ملتے تھے۔ میٹرک کا نصاب اسے ازبر تھا لیکن وہ سائنس کے ساتھ میٹرک کرنا چاہتا تھا جس کے لئے اسے کسی ایسی اکیڈیمی کو پیسے دینے کی ضرورت تھی جو اس کا داخلہ اپنے نام پر بطور ریگولر طالب علم بھجوا سکے، وہ دکان سے اتنے پیسے بچا نہیں پا رہا تھا۔ وہ اپنے پانچ بہن بھائیوں میں سب سے بڑا تھا۔ اس کی ماں احمد پور شرقیہ کے ہی ایک زمیندار کے گھر کام کرتی تھی، وہ صبح جاتی اور شام پڑنے پر ہی گھر لوٹتی۔ خالد سے چھوٹی صغٰراں خود سے چھوٹے بہن بھائیوں کو سنبھالتے ہوئے گھر کا کام کاج، ہانڈی روٹی اور چارپائی سے لگے باپ کو سنبھالتی تھی۔ صغٰراں خالد سے سال بھر چھوٹی تھی اور اس نے پرائمری تک سکول میں بڑھا تھا۔ صابر تیسرے نمبر پر تھا اور آٹھویں میں تھا۔ دو چھوٹی بہنیں ابھی علاقے کے پرائمری سکول میں دوسری اور تیسری میں پڑھ رہی تھیں۔
جن دنوں، خالد اپنا شناختی کارڈ بنوا رہا تھا، انہی دنوں اس کا والد مناسب علاج نہ ہونے پر چل بسا۔ خالد نے ماں سے مشورہ کیا اور صابر کو سکول سے اٹھا لیا اور اپنے ساتھ دکان پر لے جانا شروع کر دیا۔ اس کا خیال تھا کہ وہ دو چار ماہ میں صابر کو دکان سنبھالنے کے قابل کر کے، دکان اس کے حوالے کرے گا اور خود قسمت آزمائی کے لئے کراچی، ملتان یا لاہور کا رخ کرے گا۔ یہی کارن تھا کہ خالد اب لاہور میں موجود تھا، لوگوں کا مشورہ ملتان اور کراچی کی نسبت لاہور کے لئے زیادہ تھا۔
یتیم خانہ چوک میں پہنچ کر اس نے ایک راہ گیر سے فرحت ہاؤس کے بارے میں پوچھا۔ راہ گیر خود مسافر تھا اور علاقے سے ناواقف، وہ خالد کو کچھ نہ بتا سکا، البتہ دو تین اور لوگوں سے پوچھنے پر اسے فرحت ہاؤس کا پتہ مل گیا۔ یہ ملتان روڈ پر واقع رسول پارک کی ایک بند گلی میں آخری مکان تھا، گلی تاریک تھی۔ لوہے کے کالے گیٹ کے ساتھ ستون پر پانچ واٹ کے بلب کی روشنی تلے ایک تختی پر مکان کا نمبر اور فرحت ہاؤس لکھا ہوا تھا۔ اس سے آگے پانچ چھ فٹ کا چھوٹا سا صحن تھا جس کے بعد مکان کی تین منزلہ تاریک عمارت اس کے سامنے تھی جس کے ماتھے پر چاند کی روشنی پڑ رہی تھی، ماتھے پر آگے کو بڑھی لکڑی کی محرابی کھڑکیوں، جن پر کندہ کاری ہوئی تھی اور رنگ برنگے شیشے جڑے تھے، جن میں سے اکثر ٹوٹے ہوئے تھے، کو دیکھ کر اندازہ ہوتا تھا کہ کبھی یہ مکان شاندار رہا ہو گا، لیکن اب یہ کھنڈر لگ رہا تھا۔ خالد نے گیٹ پر دستک دی۔ گھر پر خاموشی طاری رہی۔ چند منٹ بعد اس نے پھر دروازہ کھٹکھٹایا۔ اس بار سامنے نظر آنے والے ایک کمرے میں روشنی ہوئی جس میں خالد کو یوں لگا جیسے کھڑکی میں ایک پنجرہ لٹکا ہو جس میں ایک طوطا چونچ نیچی کئے ایسے بیٹھا تھا جیسے دانہ چُگ رہا ہو۔ دروازہ کھلنے کی آواز آئی اور اس نے ایک چوڑی چکلی فربہ عورت کو دروازے سے باہر آتے دیکھا، اس نے صحن کی بتی جلائی اور چلتی ہوئی گیٹ کے قریب آئی اور آواز لگائی،
”کون ہے؟‘‘
”جی، میرا نام خالد ہے، میں ضلع بہاولنگر کے قصبے احمد پور شرقیہ سے آیا ہوں۔ بسوں کے اڈے سے مجھے آپ کا پتہ ملا ہے۔ مجھے شب بسری کے لئے جگہ درکار ہے۔‘‘
یہ سن کر اس موٹی عورت نے گیٹ میں ایک طرف بنا چھوٹا دروازہ کھول دیا۔
”اندر آ جاؤ۔‘‘
خالد کو وِکٹ گیٹ سے سر جھکا کر اندر داخل ہونا پڑا، وہ دراز قد تھا ویسے وہ عورت بھی ٹھگنی نہ تھی۔ اس نے کپڑوں پر ایک اونی شال لپیٹ رکھی تھی۔ جیسے ہی خالد اندر داخل ہوا، عورت نے وِکٹ گیٹ کو بند کیا اور اس دروازے کی طرف بڑھنے لگی جس سے وہ باہر آئی تھی۔ اس کے کولہے بھاری تھے جو اس کے چلنے پر بُری طرح تھرتھرا رہے تھے۔ وہ ایک پاؤں دبا کر رکھ رہی تھی۔ خالد بھی اس کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔ اندر ایک چھوٹی سی راہداری تھی جس کے ایک کونے میں ایک چھوٹی میز اور ایک کرسی رکھی تھی دوسری جانب سیٹرھیاں اوپر جا رہی تھیں۔ وہ عورت اس میز کے پاس جا کر رک گئی۔ اس نے چادر اتار کر میز پر رکھی اور اس پر پڑے رجسٹر کو کھولا اور خالد کی طرف بڑھا دیا۔ تب خالد نے دیکھا کہ اس کے کولہوں کی طرح اس کی چھاتیاں بھی بڑی تھیں۔ اس کا رنگ گورا تھا اتنا زیادہ جیسے اس نے منہ اور گردن پر میدے کا لیپ کیا ہو۔ ’وہ عمر میں خود اس سے کم سے کم دگنی تو ہو گی’، خالد نے اندازہ لگایا، وہ سونے کے لباس میں تھی۔
”اس پر اپنا نام، پتہ وغیرہ لکھو۔‘‘
خالد ہچکچاتے ہوئے بولا، ”آپ کرایہ کیا لیں گی؟‘‘
”ایک سو بیس روپے روز۔۔ اس میں ناشتہ شامل ہے۔‘‘
خالد نے ذہن میں حساب جوڑا، ‘مہینے کے چھتیس سو روپے’، یہ اسے زیادہ لگے۔ اس نے جیب میں اس پرچی کو ٹٹولا جس پر اس بندے کا نام اور دفتر کا پتہ لکھا ہوا تھا، جس سے اس نے اگلے روز جا کر ملنا تھا، یہ اسے اس کے ایک ہمسائے نے دیا تھا۔ اس کے ہمسائے کا خیال تھا کہ وہ خالد کو کوئی ملازمت دلانے اور رہنے کے لئے کسی ٹھکانے کا بندوبست کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتا تھا۔
‘چلو آج کی رات تو یہاں گزارتا ہوں، باقی کل دیکھا جائے گا۔’، خالد نے سوچا اور رجسٹر کے ساتھ دھاگے سے بندھے بال پوائنٹ سے اس کے کھلے ہوئے صفحے پر اپنا نام اور پتہ لکھنے لگا۔ اس صفحے پر پہلے سے ہی تین نام اور پتے لکھے ہوئے تھے۔
غنی بشیر و فاروق بشیر
ڈاکخانہ خاص، شاہ پور، یو سی۔ 41، تحصیل حاصل پور، ضلع بہاولنگر
عفت بیگ
ڈاکخانہ خاص، چک 124/ 6 – R، فقیر والی، ضلع بہاولنگر
خالد نے نام اور پتہ لکھ کر جیب سے شناختی کارڈ نکالا اور نمبر پڑھنے لگا تاکہ یہ نمبر بھی رجسٹر پر لکھ سکے۔
”رہنے دو، اس کی ضرورت نہیں۔‘‘، عورت بولی۔
خالد نے کارڈ جیب میں واپس رکھ لیا۔
”کیا تم اڈے سے سیدھے یہیں آئے ہو؟‘‘
”جی ہاں، اس سے پہلے کہ سردی مجھے جما دیتی، میں کسی ایسی گرم جگہ پہنچنا چاہتا تھا جہاں میں آرام سے سو سکوں۔‘‘
”اس کا مطلب ہے کہ تم نے کھانا نہیں کھایا ہو گا؟‘‘، عورت نے اپنے دائیں ہاتھ سے گردن اور بائیں بغل کو کھجاتے ہوئے کہا۔
”مجھے بھوک نہیں ہے۔۔ ہاں البتہ میں سونا ضرور چاہتا ہوں۔،، دن بھر کے سفر نے مجھے بری طرح تھکا دیا ہے۔‘‘
”مجھے اندازہ ہے۔۔ لیکن کچھ کھائے بغیر سونا بھی مناسب نہیں۔ میں کھانا کھا چکی ہوں۔،، ورنہ۔۔ ہاں۔،، میں تمہیں ڈبل روٹی کے ساتھ آملیٹ اور چائے بنا دیتی ہوں۔،، میں صبح ناشتے کے لئے انڈے اور ڈبل روٹی کچھ دیر پہلے ہی لائی ہوں۔،، خیر۔۔ چلو پہلے میں تمہیں تمہارا بستر دکھا دیتی ہوں۔ تم اپنا سامان وہاں رکھ کر منہ ہاتھ دھو لو۔‘‘
عورت راہداری میں اوپر جاتی سیڑھیوں کی طرف بڑھی۔
”میرے لئے یہ تردد کرنے کی ضرورت نہیں۔ میں بس سونا چاہوں گا۔‘‘، خالد نے عورت کے پیچھے پیچھے سیٹرھیاں چڑھتے ہوئے کہا۔ اس نے اب واضح طور پر محسوس کیا کہ وہ دایاں پاؤں دبا کر اڈوں پر رکھ رہی تھی اور اس کا دایاں کولہا بائیں کے مقابلے میں ذرا چھوٹا اور کم بھاری تھا۔
”تم کتنے سال کے ہو؟‘‘، عورت نے پوچھا۔
”اگلے برس مئی میں انیس کا ہو جاؤں گا۔‘‘
”غنی بھی اٹھارہ کا تھا، فاروق بھی۔۔ وہ دونوں جڑواں تھے لیکن ان کی شکلیں آپس میں ملتی نہ تھیں۔،، شاید ماں کے رحم میں دو الگ الگ تھیلوں میں رہے ہوں گے۔۔ ہاں البتہ عفت عمر میں ان سے تین سال بڑا تھا۔ پر تینوں تمہاری طرح ہی جوان اور خوبرو تھے۔‘‘
جڑواں۔،، شکلیں نہیں ملتی تھیں، رحم میں دو الگ الگ تھیلیاں۔،،، خالد کو کچھ سمجھ نہ آیا۔
وہ اوپر کی منزل پر پہنچ چکے تھے۔ عورت نے ایک کمرے کے دروازے کا ہینڈل گھمایا، کمرے کی بتی جلائی۔ اندر ایک پلنگ بچھا تھا جس کے گدے پر سفید چادر بچھی ہوئی تھی اور اس پر ایک سفید غلاف چڑھا تکیہ اور گہرا نیلا موٹا لحاف بھی پڑا تھا۔ پاس ہی ایک تپائی پڑی تھی جس کے ساتھ ایک کرسی بھی دھری تھی۔ سامنے غسل خانے کا ادھ کھلا پٹ تھا، اندر البتہ تاریکی تھی۔
”لو، یہاں اپنا سامان رکھو اور منہ ہاتھ دھو کر نیچے آ جاؤ۔ اتنے میں، میں تمہارے لئے آملیٹ اور چائے بناتی ہوں۔،،‘‘، اس سے پہلے کہ خالد اسے منع کرنے کے لئے کچھ کہتا، عورت دھب دھب کرتی سیڑھیاں اترتی نیچے چلی گئی۔
خالد نے اپنا بکس بستر کے پاس پڑی تپائی پر رکھا، اس میں سے تولیہ نکالا، لوئی اتار کر بستر پر رکھی اور غسل خانے میں چلا گیا، کمرے میں جلی بتی کی روشنی سیدھی غسل خانے میں بھی پڑ رہی تھی اور اتنی تھی کہ اس نے غسل خانے کی بتی بھی نہ جلائی۔ اس نے چلمچی میں نلکا کھولا اور منہ دھویا، اسے اندازہ ہوا کہ وہ راستے کی گرد سے اٹا ہوا تھا، اسے اپنے چہرے پر ٹھنڈے پانی کا چھینٹا اچھا لگا اور اس نے منہ پر پانی کے پانچ چھ چھینٹے مارے اور چہرے کو مَل کر صاف کیا۔ پھر اس نے قمیض کی آستینیں چڑھائیں اور بازوؤں کو بھی کہنیوں تک دھویا۔ بال پانی سے تر کیے اور تولیے سے رگڑ کر منہ، بازو اور بال خشک کئے، اسے تازگی کا احساس ہوا اور ساتھ یہ بھی محسوس ہوا کہ وہ بھوکا تھا، وہ آستینیں نیچے کئے بغیر ہی غسل خانے سے نکلا، کمرے کی بتی بند کی، نیچے اترا اور اس کمرے میں گیا جہاں بتی جل رہی تھی۔
یہ ایک کشادہ کمرہ تھا جس کے ایک طرف باورچی خانہ تھا، عورت وہاں کھڑی آملیٹ، ڈبل روٹی کے چار سلائس اور چائے ایک ٹرے میں رکھ رہی تھی۔ کمرے کے دوسری طرف ایک اور کمرے کا دروازہ تھا جو بند تھا۔ وہ اس کمرے میں بچھی ڈائننگ ٹیبل کے پاس ایک کرسی پر بیٹھ گیا، سامنے آتش دان کی مچان پر کئی پرندے موجود تھے، مینا، کوئل، بلبل، کبوتر، فاختہ اور دو گلہریاں بھی تھیں، یہ دیکھنے میں جیتے جاگتے لگتے تھے لیکن مکمل طور پر ساکت تھے، ایسے جیسے کسی بچے نے کھیل ہی کھیل میں انہیں ’سٹیچو‘ کر دیا ہو۔ اس کی نظر کھڑکی کی طرف گئی جہاں طوطا پنجرے میں موجود تھا اور جسے وہ اندر آنے سے پہلے دیکھ چکا تھا، وہ ہنوز سر جھکائے بیٹھا تھا۔
عورت نے ٹرے میز پر رکھی۔ ڈبل روٹی اور آملیٹ اس کے سامنے رکھا اور دو کپوں میں چائے دانی سے چائے انڈیل کر ان میں چینی ڈالی اور چمچ ہلا کر ایک کپ بھی اس کے سامنے رکھ دیا پھر اس نے دوسرا کپ اٹھایا اور میز کے پاس پڑی اس کرسی پر جا بیٹھی جو خالد کے بالکل سامنے والی جگہ پر تھی۔ وہ اسے مسلسل گھور رہی تھی۔ خالد نے بھی اسے ایک دو بار نظر بھر کر دیکھا، وہ انگیا کے بغیر تھی، اسے لگا جیسے اس کی دائیں چھاتی کی قوس بھی بائیں کے مقابلے میں چھوٹی ہو۔ آملیٹ کی مہک اس کے ناک کو چڑھی اور وہ کھانے میں جُت گیا۔
”تم نے رجسٹر پر اپنا کیا نام لکھا ہے؟‘‘، اس نے چائے کی چسکی لیتے ہوئے کہا۔
”خالد‘‘
”خالد۔۔ واقعی!۔۔ کیا تم اپنے ازلی ہونے پر یقین رکھتے ہو؟‘‘
’’ازلی؟‘‘
’’ہاں، ازلی۔۔ خالد کا مطلب تو یہی ہوتا ہے۔۔‘‘
” اوہو، اچھا، مجھے پہلے یہ نہیں پتہ تھا۔۔ نہیں۔،، میں ازلی کیسے ہو سکتا ہوں۔ ازلی تو بس خدا کی ذات ہے۔۔ میں تو اب تک ایسا کچھ بھی نہیں کر پایا جس پر میں فخر ہی کر سکوں۔،،‘‘، وہ خجالت سے بولا۔
’’ہاں تم ٹھیک کہتے ہو، کوئی ازلی نہیں ہوتا۔۔ غنی، فاروق اور عفت بھی تمہاری طرح جوان اور خوبرو تھے۔۔ پر۔۔‘‘
”مجھے آپ کا رجسٹر دیکھ کر اندازہ ہوا کہ غنی، فاروق اور عفت صاحب بھی یہاں ٹھہرے۔ وہ کب گئے؟ وہ میرے علاقے کے ہی ہیں۔،، اب وہ کہاں ہیں؟۔۔ میں ان سے ملنا چاہوں گا۔۔ شاید وہ میرے کچھ کام آ سکیں۔،،‘‘
خالد نے ڈبل روٹی کے آخری ٹکڑے سے بچا کچھا آملیٹ اکٹھا کیا اور نوالہ بنا کر منہ میں ڈالتے ہوئے کہا۔
”ہاں ہاں، کیوں نہیں۔،، وہ تیسری منزل پر ہیں۔‘‘
”جب میں اندر آ رہا تھا تو آپ کے طوطے نے مجھے دھوکے دیا، میں اسے زندہ سمجھ بیٹھا تھا لیکن اب اس کمرے میں دوسرے پرندے دیکھ کر مجھے اندازہ ہوا ہے کہ یہ انتہائی مہارت سے حنوط کئے گئے ہیں۔ انہیں دیکھ کر یہ اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ ان میں بھوسہ بھرا ہوا ہے۔‘‘
”مجھے جو جاندار اچھا لگتا ہے، میں اسے پال لیتی ہوں اور اس کے مرنے پر اسے خود ہی حنوط کر کے اپنے ہی گھر میں سجا لیتی ہوں۔‘‘
”آپ خود حنوط کرتی ہیں؟‘‘
”ہاں، میں نے یہ فن اپنے والد سے سیکھا ہے۔ وہ حنوط کرنے کے فن کے ماہر تھے۔ ان کے حنوط کردہ چرند پرند ان کے کمرے میں اب بھی محفوظ ہیں۔،، انہیں مادہ چرند پرند اچھے لگتے تھے۔ ان کا کمرہ بھی تیسری منزل پر ہے۔‘‘
خالد نے جب چائے ختم کی تو عورت اٹھی، اس نے ٹرے میں کپ اور پلیٹیں واپس رکھیں، وہ زیادہ تر اپنا بایاں ہاتھ استعمال کر رہی تھی۔ اس نے ٹرے اٹھانے سے پہلے خالد کے ننگے بازوؤں پر ہاتھ پھیرا پھر آنکھیں بند کر کے اس کے چہرے کو دونوں ہاتھوں سے ٹٹولا۔ خالد کے جسم کے بال کھڑے ہو گئے، اس کے خون میں ابال اٹھا اور اس کا جسم ہولے سے لرز گیا۔
”غنی اور فاروق کی جلد بھی بچوں جیسی تھی۔۔ اور تمہاری بھی کچھ ایسی ہی ملائم ہے۔ عفت کی البتہ کچھ کھردری تھی۔‘‘، عورت نے آنکھیں کھولتے ہوئے کہا۔
خالد اٹھا اور آتش دان کی مچان پر پڑے پرندوں کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا اور اپنی انگلیوں سے ان کے پروں کو باری باری سہلانے لگا، اسے پروں کے نیچے مہین جلد محسوس ہوئی، اس نے فاختہ کے پر ہٹائے تو اسے نیچے سرمئی جلد نظر آئی اور بھوسہ بھی محسوس ہوا۔
عورت ٹرے باورچی خانے میں رکھ کر واپس آئی اور خالد کے پاس آ کر ایک بڑی جمائی لیتے ہوئے بولی،
”سونے کا وقت بیتا جا رہا ہے۔ چلو جا کر سوئیں۔ کل کا دن یقیناً ایک مصروف دن ہو گا۔ میرا کمرہ وہ ہے۔‘‘، اس نے بند دروازے کی طرف اشارہ کیا۔
خالد یہ سن کر پلٹا اور راہداری کی سیٹرھیاں چڑھنے لگا۔
عورت اسے اوپر جاتے ہوئے دیکھتی رہی، پھر اس نے تمام جلی بتیاں بجھا دیں۔
٭٭٭