فینش ادب: ایک طائرانہ جائزہ ۔۔۔ قیصر نذیر خاورؔ

(تراجم کی 14 ویں کتاب ’’فائٹ کلب‘‘ میں شامل فن لینڈ کے ادب پر تعارفی مضمون)

 

بعض اوقات میں سوچتا ہوں

آسمان کس کی ملکیت ہے

دل کی دھڑکنوں کا مالک کون ہے

یہ پربت و کوہسار کس نے بنائے

اور وہ کون ہے جو مجھے اب تک بچپنے کی طرف دھکیل رہا ہے

( ’گندم کے لہراتے کھیت، الوداع‘ سے۔۔۔۔ ٹیمو کے مُوکا)

فن لینڈ آج کی دُنیا میں یورپین یونین کی ایک روشن خیال، جدید نارڈِک فلاحی ریاست ہے جہاں ننانوے فیصد لوگ پڑھے لکھے (پڑھ، لکھ سکتے ہیں اور روزمرہ کے عمومی متن سمجھ سکتے ہیں) ہیں اور ٹیکنالوجی کے اعتبار سے بھی یہ ایک ترقی یافتہ ملک ہے۔ مواصلاتی اعتبار سے بھی یہ ملک انٹرنیٹ اور دیگر ذرائع سے اپنے آپ میں اور بیرونی دنیا سے ایسے نتھی ہے جیسے انسانی جسم کا ہر خُلیہ دوسرے سے منسلک ہوتا ہے۔ جولائی 2019ء کی مردم شماری کے مطابق اس کی آبادی فقط پچپن لاکھ ستائیس ہزار ہے جبکہ اس کا رقبہ 338، 424 مربع کلو میٹر ہے، اوسطاً اس کے ایک کلو میٹر میں فقط 16 لوگ آباد ہیں، یوں یہ یورپین یونین کا سب سے کم گنجان آباد ملک ہے۔ یہ زیادہ تر جنگلات، جھیلوں اور قطب شمالی میدانوں پر مشتمل ہے جہاں انتہائی کم درجہ حرارت کی وجہ سے جھاڑیاں اور گھاس وغیرہ ہی اُگ پاتی ہیں۔ یہ ایک ایسا ملک ہے جہاں کی شہری آبادی قدرے انوکھی ہے اور اوسط درجے کے خاندان بھی ہر گرمیوں میں کئی کئی ہفتے جھیلوں اور ساحل سمندر کے کناروں پر ایسے ’کاٹجوں‘ میں گزارتے ہیں جہاں نہ تو پانی کی سپلائی ہوتی ہے اور نہ ہی اکثر جگہوں پر بجلی مُیّسر ہوتی ہے۔ فِن لینڈ کبھی سویڈش سلطنت کا حصہ تھا اور یہ عرصہ صدیوں پر محیط رہا ہے۔ اس کی ثقافت یقینی طور پر ’نارڈِک‘ ہے اور سکینڈینیوین رہن سہن کے طور طریقوں کی چھاپ اب بھی دیکھنے کو ملتی ہے، جیسے کافی، الائچی والے ’بن‘ اور لکڑی کے بنے لال روغنی گھر۔ لیکن ایسا بھی ہے کہ اس کی ایک سرحد روس سے بھی ملتی ہے اور اس کے روابط ’بالٹک‘ ریاستوں کے ساتھ بھی ہیں، اس لیے ان کے اثرات بھی فِن لینڈ کے کلچر اور سیاست میں سرایت ہوئے نظر آتے ہیں۔ ایسٹونین زبان کی طرح فینش بھی ’اُرالِک‘ (Uralic) زبان ہے۔ یہ نہ تو سکینڈینیوین ہے نہ سلواکی اور نہ ہی اِنڈو۔ یورپین ہے، یہی وجہ ہے کہ اس کا زبانی ’فوک لور‘ (folklore) جو سارے فینش ادب سے پہلے موجود رہا ہے، اس میں ہمسایہ ریاستوں کے فوک لور کے ریشے بھی ملتے ہیں۔ یہ فوک لور دیگر سے قطعی طور پر مختلف ہے اور یہ جادو بھرا ہے۔ فِن لینڈ کے رزمیے ’Kalevala‘ کے ہیرو ’وائی گنگز‘ (Vikings) سے تعلق نہیں رکھتے بلکہ وہ ’شَمَن‘ (Shaman) ہیں۔

اگر ہم ماضی میں جائیں تو فن لینڈ میں لکھے جانے والے ادب کی شروعات ہمیں 13 ویں صدی میں لے جاتی ہیں۔ ’نووگوروڈ‘ (Novgorod) سے ملا برچ بارک کا خط (Birch bark letter، جسے دستاویزات میں 292 نمبر دیا گیا ہے۔) وہ پہلی تحریر ہے جو ’Cyrillic‘، فینک زبان کے ایک لہجے، میں لکھی گئی تھی؛ یہ روس کے ’اولونیٹس‘ علاقوں میں بولی جاتی تھی۔ قرون وسطیٰ (1200ء تا 1523ء) میں جو تحاریر فن لینڈ میں لکھی گئیں اُن میں سے زیادہ تر سویڈش یا لاطینی میں ہیں۔ اس کے بعد سے فینش زبان آہستہ آہستہ پروان چڑھی۔ ایسے میں فن لینڈ کے بشپ اور لوتھرین اصلاح پسند ’مائیکل ایگریکولا (Mikael Agricola) وہ پہلا بندہ ہے جس نے ’انجیل کا ’عہد نامہ جدید‘ فینش زبان میں 1548ء میں ڈھالا تھا۔ اس نے فینش میں ایک قاعدہ بھی ’Abckiria‘ 1543ء میں شائع کیا لیکن فینش زبان کی گرائمر شائع ہونے میں لگ بھگ سو سال لگ گئے اور یہ 1649ء میں ہی سامنے آ سکی؛ اسے بشپ ’Aeschillus etraeus‘ نے تیار کیا تھا اور اس میں آٹھ فینش بجھارتیں بھی شامل کی تھیں۔

اس کے بعد 1783ء میں 300 سے زائد بجھارتوں کی ایک کتاب سامنے آئی جسے ایک مُعلم، جو بعد میں پادری بنا اور پھر نیچرل سائنسوں میں دلچسپی لینے لگا، ’Cristfried Ganander‘ (نومبر 1741ء تا فروری 1790ء) نے تالیف کیا تھا؛ اس کی کتاب ’Mythologia Fennica‘ بھی اہم ہے جو 1789ء میں اس کی موت سے ایک سال قبل سامنے آئی تھی: یہ اُس خطے کے لوک مذاہب پر ایک عمدہ حوالہ جاتی کتاب ہے، اس نے یہ کام الگ سے اس لیے کیا تھا کہ اُسے فینش دیومالائی قصے، لوک ادب میں اپنی جگہ اہم لگے۔ یہ رومن یا یونانی دیومالاؤں سے مختلف ہیں لیکن اُتنے ہی دلچسپ ہیں۔ ان میں زیادہ تر ان غیر الوہی مذاہب کے حوالے ہیں جن میں طرح طرح کے دیوتا اور دیویاں ہیں۔ سائنس کے حوالے سے بھی اس کی دو کتابیں ’دیہاتیوں کے گھریلو ٹوٹکے‘ اور ’جانوروں کی بیماریاں‘ بھی شائع ہوئیں، البتہ اس کی مرتب کردہ پہلی فینش لغت شائع نہ ہو سکی تھی۔

19ویں صدی کی ابتداء سے پہلے فینش میں جو بھی لکھا گیا وہ ’مذہبی‘ تھا، بعد ازاں جب فن لینڈ روسی سلطنت کا حصہ بنا تو فن لینڈ کے لوگوں میں تعلیم کی طرف رغبت بڑھی؛ اس نے لوگوں میں قوم پرستی کے رجحان میں بھی اضافہ کیا اور انہوں نے فن لینڈ کے فوک لور میں دلچسپی لینا شروع کی، یوں فینش زبان میں سرگرمیاں رواج پانے لگیں۔ فینش لوگوں کی قدیم نظموں کو اکٹھا کیا گیا، یوں ’Suomen kansan vanhat runot‘ کی 33 جلدیں سامنے آئیں (یہ اب آن لائن بھی موجود ہیں۔)۔ شاعری کی سب سے مشہور کتاب ’Kalevala‘ 1835ء میں شائع ہوئی۔

فن لینڈ کا پہلا ناول ’Seitsemän veljestä‘ (سات بھائی) 1870ء میں شائع ہوا۔ فینش زبان میں اسے ’الیکسس کیوی (Aleksis Kivi، اکتوبر 1834ء تا دسمبر 1872ء) نے لکھا تھا۔ یہ ادیب بلا کا شرابی تھا، عمر کے آخری حصے میں اسے ٹائیفائیڈ بھی ہو گیا اور اسے ہذیان (delirium) کے دورے بھی پڑنے لگے۔ وہ ’مالیخولیا‘ (melancholia) کا بھی شکار ہوا؛ اس کے معالجوں کا کہنا تھا کہ اس کی یہ حالت اس لیے ہوئی کہ اس کی، بطور ادیب عزت، مجروح ہوئی تھی۔ کھٹملوں سے پھیلے جرثوموں کی وجہ سے اسے انفیکشن (infection) بھی ہو گئی اور وہ 38 برس کی ہی عمر میں انتہائی غربت کی حالت میں فوت ہوا۔ اس کا یہ ناول اُس وقت کے جدید درمیانہ طبقے کی عکاسی کرتے ہوئے روایتی کسانوں کی صنعتی ترقی سے مخاصمت، جیسا کہ ریلوے کا فن لینڈ میں آنا اور ابھرتی ہوئی ’شہری‘ اتھارٹی کے تحت اپنے طبقے کی بقاء کی جنگ کے موضوعات کا احاطہ کرتا ہے۔

اس صدی کی خواتین ادیبوں میں ’مِنا کینتھ‘ (Minna Canth، مارچ 1844ء تا مئی 1897ء) ہے جس کا سارا کام ’عورتوں کے حقوق‘ کے لیے آواز اٹھاتا نظر آتا ہے۔ یہ ادیبہ وہ پہلی مصنفہ ہے جو ’جھنڈا بردار‘ ہے اور ہر سال 19 مارچ کو اس کے حوالے سے اس کے نام کا جھنڈا عمارتوں پر لہرایا جاتا ہے اور یہ دن فِن لینڈ میں سماجی برابری کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ ڈرامے ’Työmiehen vaimo‘ (محنت کش کی بیوی) اور ’آنا لیسا‘ (Anna Liisa) اس کی پہچان ہیں۔ اس کتاب میں اس کا افسانہ’Lapsenpiika‘ کم سن انّا کے نام سے شامل ہے۔

ٹیوو پکالا ( Teuvo Pakkala، اپریل 1862ء تا مئی 1925ء) بھی اس دور کا ایک اہم مصنف تھا جسے بچوں اور عورتوں کی خاکہ نگاری میں بھی ملکہ حاصل تھا۔ اس کے کئی افسانوں کے مرکزی کردار بچے ہی ہیں۔ اس کے افسانوں کے دو مجموعے ’Lapsia‘ (بچے) اور ’Pikku ihmisiä‘ (ننھے لوگ) اہم ہیں۔ یہ دونوں مجموعے بالترتیب 1895ء اور 1913ء میں شائع ہوئے تھے۔ بچوں اور عورتوں کی کردار کَشی کے علاوہ اسے بوڑھوں، معذوروں، غریب طبقوں کے افراد کے کرداروں پر بھی عبور تھا۔

فرانز ایمل سلانپا(Frans Eemil Sillanpää) کی کتاب ’منکسر وراثت‘ (Meek Heritage) 1919ء میں سامنے آئی۔ سلانپا کو 1939ء میں نوبل انعام سے بھی نوازا گیا۔ وہ اپنے ملک کی دیہاتی زندگی کو نہ صرف گہرائی سے سمجھتا تھا، وہاں کے لوگوں کی دھرتی سے وابستگی کو جانتا تھا بلکہ وہاں رہنے والے کسانوں کے رہن سہن کو قدرت کے حسین امتزاج کے ساتھ اپنی تحریروں میں جگہ دیتا۔ اس کا ایک افسانہ ’Järvi‘ جھیل کے نام سے اس کتاب میں شامل ہے۔

اسی دور کا فینش ادیب ’وینو لیِنا‘ (Väinö Linna، دسمبر 1920ء تا اپریل 1992ء) بھی اپنی جگہ اہم ہے۔ وہ اپنی ٹرائیولوجی ’Täällä Pohjantähden‘ (قطبی ستارے تلے) جو 1959ء اور 1963ء کے درمیان لکھی گئی، کی وجہ سے اپنا نام رکھتا ہے۔ یہ وہ زمانہ ہے جب 1917ء میں فِن لینڈ آزاد ہو کر خانہ جنگی کا شکار ہوا۔ ’منکسر وراثت بھی‘ اسی تناظر میں لکھی گئی۔ ’وینو لیِنا‘ نے اسی تھیم کو اپنے ناول ’گمنام سپاہی‘ (Tuntematon sotilas) میں برتا۔ یہ ناول بھی اس کا شاہکار مانا جاتا ہے، یہ فِن لینڈ اور روس کی اس جنگ کے تناظر میں ہے جو 1941ء سے 1944ء تک جاری رہی تھی؛ اسے ایک عام فینش سپاہی کے نکتہ نظر سے لکھا گیا ہے اور اسے ایک روایتی و رومانوی فینش سپاہی، جوعام طور پر فرمانبردار اور نجیب دکھایا جاتا ہے، سے ہٹ کر خوف اور بغاوت جیسے انسانی جذبات رکھنے والے سپاہی کو آزاد حیثیت میں دکھایا گیا ہے، یہ ایک جنگ مخالف ناول بھی ہے۔ یہ ناول 1954ء میں شائع ہوا تھا۔ اسے تین بار فلمایا گیا ہے، پہلے 1955ء، پھر 1985ء اور تیسری بار 2017ء میں۔

انہی کا ہم عصر ’میکا وَلتاری‘(Mika Waltari، ستمبر 1908ء تا اگست 1979ء) بھی ہے جو اپنے ناول ’سِنوہی مصری‘ (Sinuhe Egyptiläinen) کے لیے مشہور ہے۔ 1945ء میں شائع ہوا یہ ناول ایک تاریخی ناول ہے، یہ زمانہ قدیم کے مصر میں اس زمانے کو دکھاتا ہے جب وہاں 18 ویں بادشاہت کا فرعون اخینیتن (Akhenaten) تخت پر براجمان تھا اور کہا جاتا ہے کہ وہ دنیا میں پہلا حکمران تھا جو ایک خدا پر یقین رکھتا تھا۔ وہ 17 برس تک حکومت کرتا رہا اور 1336 قبل از مسیح فوت ہوا تھا؛ سِنوہی مصری وہ طبیب ہے جو اس ناول کا مرکزی کردار ہے اور جس کے علاج سے اخینیتن کی مرگی ختم ہو جاتی ہے۔ ’میکا وَلتاری‘ کے اس ناول پر ہالی ووڈ نے 1954ء میں ایک رنگین اور سنیما سکوپ فلم’The Egyptian‘ بھی بنائی تھی؛ یہ فلم اپنی جگہ ایک کامیاب فلم تھی۔ یہ ناول تاریخی صحت کے اعتبار سے اس کلچر اور زندگی کے قریب ترین مانا جاتا ہے جو ’اخینیتن‘ کے زمانے میں تھی۔ ’میکا وَلتاری‘ وہ فینش ادیب ہے جسے ادب کا ریاستی انعام پانچ بار دیا گیا تھا جبکہ ’پروفِن لینڈیا میڈل‘ برائے 1952ء ان کے علاوہ ہے۔

جونی سکفٹسوِک ( Joni Skiftesvik، جولائی 1948ء۔۔۔۔،) نہ صرف ادیب ہے بلکہ سکرپٹ رائٹر بھی ہے۔ اس کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ’Puhalluskukkapoika ja taivaankorjaaja‘ (‘ککروندے’ کا عاشق اور ’آسمانوں’ کا مکینک) تھا جو 1983ء میں شائع ہوا تھا۔ اس کا پہلا ناول ’عمودی مدفون‘ (Buried vertically) 1984ء میں شائع ہوا تھا۔ اس کا پہلا ڈرامہ ’جینسن کی چاہت‘ (Jansson’s Temptation) 1989ء میں سٹیج ہوا تھا۔ ’Katsastus‘ (The Wedding Waltz) اس کی لکھی، 1980 کی دہائی کی ایک یادگار ٹیلی فلم ہے، اسے 1988ء میں نشر کیا گیا تھا۔ اس کا افسانہ Puhalluskukkapoika ja taivaankorjaaja‘ ’ککروندے’ کا عاشق اور ’آسمانوں’ کا مکینک کے نام سے اس کتاب میں شامل ہے۔

رعیا سئیکینین (Raija Siekkinen، فروری 1953ء تا فروری 2004ء) فینش ادب میں پہلی خاتون ناول نگار بھی مانی جاتی ہے۔ اس کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ’Talven tulo‘ (سردیوں کی آمد) 1978ء میں شائع ہوا۔ اس کا پہلا ناول ’Saari‘ (جزیرہ) 1988ء میں شائع ہوا۔ بچوں کے لیے اس کی پہلی کتاب ’Herra kuningas‘ (لارڈ کنگ) 1986ء میں سامنے آئی۔ اس کے تین افسانے ’ایک ننھا جھوٹ‘، ’متاع حیات‘ اور ’وقت کا تفاوت‘ کے نام سے اس انتخاب میں شامل ہیں۔

سنیکا ترکونین (Sinikka Tirkkonen) کے افسانوں کا پہلا مجموعہ 1985ء میں ’Halla‘ (کُہرا) چھپا تھا۔ 1988ء میں ’رونیبرگ‘ (Runeberg) انعام دلایا تھا۔ اسی برس اسے ادب کا ریاستی انعام بھی ملا تھا۔ اس کا ایک افسانہ ’شمال میں‘ اس انتخاب میں شامل ہے۔

ایوا ٹیکا (Eeva Tikka، جولائی 1939ء۔۔۔۔،) نے پہلی نظم تیرہ برس کی عمر میں لکھی تھی لیکن اس کی پہلی کتاب’Like maple leaves on the skin‘ ۱۹۷۳ء میں سامنے آئی۔ اس کی تحریریں روزمرہ کی زندگی، انسانی تعلقات اور شمالی کیرلیا (North Karelia) کے فطری حسن کی عکاس ہیں۔ اس کے چار افسانے ’کرچی کرچی ریزہ ریزہ‘، ’لڑاکا‘، ’اِک خط ہوا کے نام‘ اور ’دھیمی آنچ‘ اس کتاب میں شامل ہیں۔

’ساری ملکامیکی‘ (Sari Malkamäki، دسمبر 1962ء۔۔۔۔،)کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ’شیر کا کیک‘ (Tiikerikakku) پہلی بار 1994ء میں سامنے آیا۔ تب سے اب تک اس کی گیارہ کتابیں چھپ چکی ہیں جن میں دو ناول بھی ہیں۔ ساری ملکامکی کی تحاریر میں باپ اور بیٹوں، ماؤں اور بیٹیوں کے درمیان قربتوں اور فاصلوں کی کہانیاں کثرت سے دیکھنے کو ملتی ہیں۔ اس کے تین افسانے ’درخت‘، ’دوڑ کا آخری مرحلہ‘ اور ’اِک طویل خواب‘ اس انتخاب میں شامل ہیں۔

ٹووی آرو (Aro Tuuve، مئی 1973ء۔۔۔۔،) آج کے دور کی فینش ادیبہ ہے۔ وہ ادیبہ ہونے کے علاوہ فلموں کی نقاد ہونے کے ساتھ ساتھ فلموں کی تدوین بھی کرتی ہے۔ اس کے افسانوں کی پہلی کتاب ’Harmia heater‘ (Too bad for a radiator) 1999ء میں شائع ہوئی۔ اس انتخاب میں اس کے تین افسانچے ’ایک منظر‘، ’اِک بات سادہ سی‘، ’جیک کِلمور‘ اور ایک افسانہ’فائٹ کلب‘ شامل ہیں۔

جوہانا ہولسٹروم (Johanna Holmström، 1981ء۔۔۔۔،)سویڈش زبان میں لکھتی ہے۔ اس کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ’Inlåst och andra noveller‘ سن 2003ء میں شائع ہوا تھا۔ اس کا پہلا ناول ’Ur din längtan‘ (Out of your Longing) تھا۔ اس کتاب میں اس کا افسانہ ’طوفان‘ کے نام سے شامل ہے۔

ریکا اَلا۔ ماریا (Marja-Ala Riikka، اپریل 1967ء۔۔،) اب تک سات ناول، کئی افسانے اور ڈرامے لکھ چکی ہے۔ اس نے بچوں کا ادب بھی لکھا ہے۔ اس کے افسانوں کا مجموعہ ’Reikä‘ (Hole) کے نام سے 2013ء میں سامنے آیا۔ اس کا ایک افسانہ ’کرسمس کا آخری درخت‘ اس کتاب میں شامل ہے۔

اگرفِن لینڈ کی شاعری کو دیکھا جائے تو’آئنو لیئنو‘(Eino Leino، جولائی 1878ء تا جنوری 1926ء) ایک سرکردہ شاعر ہے۔ وہ جدیدیت اور لوک ادب کے امتزاج کو برتتے ہوئے عمدہ شاعری کرتا تھا؛ اس کا سٹائل ’Kalevala‘ اور لوک گیتوں جیسا ہے، فطرت، محبت اور مایوسی اس کی شاعری کے عام موضوعات ہیں۔ اس نے دانتے کی ’ڈیوائن کامیڈی‘ کو پہلی بار فینش زبان میں ترجمہ بھی کیا۔

’آٹو مینینن‘(Otto Manninen، اگست 1872ء تا اپریل 1950ء) آئنو لیئنو کے ہمراہ فینش جدیدشاعری کے بانیوں میں گنا جاتا ہے۔ اس نے ہومر، سوفوکلیس اور ابسن کے علاوہ دیگر عالمی ادب کے کلاسیکی ادب کو فینش میں ترجمہ بھی کیا؛ اسے قافیہ ردیف پر عمدہ عبور حاصل تھا اس لیے ’اوڈیسی‘ اور ’ایلیڈ‘ کے ترجمے لاجواب ہیں۔

’پینٹی ساریکوسکی‘ (Pentti Saarikoski، ستمبر 1937ء تا اگست 1983ء) ساٹھ اور ستر کی دہائیوں کا ایک مشہور شاعر تھا جس نے اپنی شاعری کے علاوہ جیمز جوائس کے ’یولیسس‘ کا ترجمہ بھی کیا۔ لوگ یولیسس کو سمجھ سکیں، اس کے لیے اس نے اپنی ہی ’diction‘ میں ہومر کی اوڈیسی کا ترجمہ کیا اور ’آٹو مینینن‘ کے اوڈیسی کے ترجمے پر انحصار نہ کیا۔ اس کے دیگر تراجم میں ارسطو اور جے ڈی شیلنگر کا کام بھی شامل ہے۔ اس کی چار نظمیں اس کتاب میں شامل ہیں۔

’پاوو ہاویکو‘ (Paavo Haavikko، جنوری 1931ء تا اکتوبر 2008ء) اور ’ایوا۔ لیئسا مینر‘ (Eeva-Liisa Manner، دسمبر 1921ء تا جولائی 1995ء) اہم نام ہیں جن کی شاعری پر ٹی ایس ایلیٹ اور ایذرا پاؤنڈ کا اثر نمایاں ہے۔ ساتھ میں جرمن اور فرانسیسی اثر بھی اس زمانے کی شاعری پر موجود ہے اور روایتی روسی اثر کم کم دکھائی دیتا ہے۔ ’پاوو ہاویکو‘ شاعر ہونے کے علاوہ ڈرامہ نگار اور انشاء پرداز بھی تھا۔ ’ایوا۔ لیئسا مینر‘ ڈرامے لکھنے کے علاوہ ترجمے بھی کرتی تھی؛ اس نے ’سفر، 1956ء‘ (Tämä matka) نامی نظموں کے مجموعے، شیکسپئیر، لیوس کیرول، ہرمن ہیسے اور فرانز کافکا کے ترجموں سے شہرت پائی۔

’ٹیمو کے مُوکا‘ (Timo K۔ Mukka، دسمبر 1944ء تا مارچ 1973ء) فینش ادب کا وہ جنگلی پھول کہلاتا ہے جس نے زندگی کی فقط 28 بہاریں دیکھیں لیکن اس نے 60 کی دہائی میں نغماتی نثر میں نو ناول لکھ ڈالے، ’ٹیبو‘ (Tabu) اور’فاختہ اور پوست‘(kyyhky ja unikko) اس کے دو اہم ناول ہیں۔ اس کا ناول ’Maa on syntinen laulu‘ (دھرتی ایک گناہ بھرا گیت ہے) 1973ء میں فلمایا بھی گیا۔ ’ٹیبو‘ مِلکا نامی ایک بلوغت پاتی لڑکی کی داستان ہے جس میں جنسی امنگیں جاگ رہی ہیں اور وہ ایک بڑی عمر کے آدمی کے ساتھ تعلق میں آ جاتی ہے اور اس کے بچے کی ماں بنتی ہے۔ آدمی آخر میں دونوں کو چھوڑ جاتا ہے۔ یہ نغماتی ناول بھی 1980ء میں فلمایا گیا۔ اس کا ناول ’Laulu Sipirjan lapsista‘ (سپیریان کے بچوں کا گیت، شائع شدہ 1966ء) بھی اپنی جگہ اہم ہے۔ ’ٹیمو کے مُوکا‘ دوستوفسکی طرح جوئے کا شوقین تھا۔ 1964ء میں وہ فوج میں بھرتی ہوا لیکن بعد میں اس نے ہتھیار اٹھانے اور حلف لینے سے انکار کر دیا۔ 1966ء میں وہ کمیونسٹ پارٹی میں بھی شامل ہوا۔ 1972ء میں اس کو دل کا عارضہ ہوا لیکن اس نے اپنی خود کو مارنے والی عادات نہ چھوڑیں۔ 1973ء میں رسالے ’Hymy‘ میں اس کے حوالے سے ایک تضحیک آمیز مضمون، ’تم پہلے سے ہی سولی پر لٹکے ہو‘، شائع ہوا جس نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور اسے دل کا شدید دورہ پڑا جو جان لیوا ثابت ہوا؛ ’Hymy‘ پہلے بھی چند برس قبل اس پر ایک مضمون، ’میں خود کو پیتا ہوں کہ مر سکوں‘، لکھ چکا تھا۔ ’ٹیمو کے مُوکا‘ نے افسانے نہیں لکھے ورنہ ایک یا ایک سے زیادہ اس انتخاب کا حصہ ہوتے لیکن اس کی نمائندگی کے لیے اس کتاب میں اس کے نغماتی ناول ’Laulu Sipirjan lapsista‘ (سپیریان کے بچوں کا گیت) سے ایک اقتباس ضرور شامل کیا گیا ہے۔

فینش شاعری دن بدن ردیف و قافیے سے دور ہوتی گئی اور اس نے وہ رنگ اختیار کیا جو ٹیمو کے مُوکا اور اس جیسے شاعروں کی نغماتی نثر کا تھا۔ یہ 21ویں صدی میں بھی اسی ڈھب پر گامزن ہے۔

21ویں صدی کے آغاز سے لے کر اب تک فینش ادب میں نارڈِک روایت اور جرم و سزا پر مبنی ادب میں کمی آئی ہے اور اب اس میں نئے رجحانات اور بلند نظری رکھنے والا ادب زیادہ ہے۔ بریخت (Bertolt Brecht) نے کبھی کہا تھا کہ فینش لوگ دو زبانوں کے ہوتے ہوئے بھی ادب میں کچھ زیادہ نہیں لکھ پائے، اس نے یہ جب کہا تھا، اُس وقت شاید یہ بات درست ہو گی لیکن آج فینش ادیب فینش، سویڈش اور سامی، تین زبانوں میں لکھ رہے ہیں۔ وہاں ہر سال تیرہ سے چودہ ہزار کتابیں شائع ہوتی ہیں جن میں لگ بھگ 4500 ٹائیٹل نئے ہوتے ہیں۔ مطالعہ کرنا فینش لوگوں میں ایک بڑا شوق گردانا جاتا ہے جس کی مدد کے لیے ملک بھر میں مفت لائبریریوں کا جال بچھا ہوا ہے اور ایک اندازے کے مطابق ہر بندہ سال میں کم از کم 20 کتابیں لائبریریوں سے ضرور مستعار لیتا ہے۔ اس صدی میں، ادیبوں میں جو اہم نام سامنے آتے ہیں ان میں، ’لینا کروہن‘ (Leena Krohn)، ’جوہانا سنیسالو‘ (Johanna Sinisalo)، ’سوفی اوکسینن‘(Sofi Oksanen)، ’پجٹِم سٹیٹووسی‘ (Pajtim Statovci)، ’لورا لِنڈسٹیڈ‘ (Laura Lindstedt)اور ’میکو رمینن‘ (Mikko Rimminen) اہم ہیں، یہ سب کے سب ’فِن لینڈیا انعام‘ یافتہ ہیں۔

اب فینش زبان، فِن لینڈ میں بنیادی اہمیت کی حامل ہے لیکن سویڈش زبان میں لکھنے کی روایت جوہان لڈوِگ رونیبرگ (1804ء تا 1877ء) کے زمانے سے ابھی تک قائم ہے۔ ٹووی جینسن (Tove Jansson) کی کومک (Comic) کتب کی اہمیت اپنی جگہ، ہنرک ٹیکانن(Henrik Tikkanen) اور کیجل ویسٹو (Kjell Westö) کے ناول بھی کم مقبول نہیں ہیں۔ ان کے علاوہ جوہانا ہوم سٹرام (Johanna Holmström) کی سائی۔ فائی اور فینٹسی فکشن فینش زبان میں لکھی گئی ایسی ہی فکشن سے کسی طرح بھی کم نہیں ہے۔ فینش زبان میں بچوں کے ادب کو بھی بہت اہمیت ہے۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے