غزلیں۔۔ صابرہ امین

دوستی جب بھی دل دکھاتی ہے

دشمنی ہم کو راس آتی ہے

 

پیار آتا ہے پھر عدو پر بھی

دوستی وہ ستم بھی ڈھاتی ہے

 

سر پہ پڑتی ہے جب مرے افتاد

مجھے قسمت بھی آزماتی ہے

 

زندگی کچھ نہیں بجز اس کے

سانس آتی ہے سانس جاتی ہے

 

کیا شفا دے گا وہ طبیب مجھے

جس کے آنے سے جان جاتی ہے

 

گردشِ بخت ہے، کہ اس کی یاد

یاد کرنے پہ یاد آتی ہے

 

روز دکھتے ہیں مجھ کو خواب نئے

پھر قیامت بھی روز آتی ہے

 

چاند روٹھا ہے میرے آنگن سے

تیرگی شب کی بڑھتی جاتی ہے

 

وہ خفا مجھ سے کب نہیں ہوتا

یہ گھڑی روز روز آتی ہے

 

جب اجڑتا ہے میرا دل، تو امید

اس میں بستی نئی بساتی ہے

٭٭٭

 

 

 

دل کا دروازہ وا کرے کوئی

مجھ میں آ کر رہا کرے کوئی

 

دل شکستہ ہوں، بے قرار ہوں میں

میرے حق میں دعا کرے کوئی

 

چاہتا ہے جو، سب اسے چاہیں

اور نہ چاہے تو کیا کرے کوئی

 

داستاں ہو گی داستانوں میں

کاش ہم سے وفا کرے کوئی

 

اور سہنے کی ہم کو تاب نہ ہو

درد اتنا دیا کرے کوئی

 

جب زمیں ہو نہ آسماں اپنا

خواہشِ زیست کیا کرے کوئی

 

ہم فنا ہو چکے محبت میں

اب تو محشر بپا کرے کوئی

 

دل تو گویا مرا سمندر ہے

اس میں دریا گرا کرے کوئی

 

جانے کیوں تم ہی یاد آئے ہو

جب بھی ہم سے ریا کرے کوئی

 

قہر بنتی ہے خامشی، جب بھی

ظلم حد سے سوا کرے کوئی

 

کر کے برباد اپنی ہستی کو

کیسے خود پر ہنسا کرے کوئی

 

جس طرح زیست ہم نے کاٹی ہے

اس طرح حوصلہ کرے کوئی

 

دل میں گہری جڑیں ہیں یادوں کی

ان کو کیونکر جدا کرے کوئی

 

داستاں عشق کی رقم ہو گی

کاش ہم سے وفا کرے کوئی

 

میری حالت نہ پوچھنا اس سے

جب بھی تم سے ملا کرے کوئی

 

رنجشیں پاس بھی نہ پھٹکیں گی

دل ذرا سا بڑا کرے کوئی

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے