شموئل معصوم اور سادہ لوح افسانہ نگار نہیں ہیں بلکہ یہ افسانوں کے ساتھ کھل کر تجربہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے افسانے اور ناول لفظیاتی اور لسانی سطح پر قاری کو متاثر کرتے ہیں۔
شموئل پر جنسیت زدگی اور فحاشی کا الزام لگتا رہا ہے مگر ان کی جملہ سازی اور فقرہ طرازی اس قدر مناسب اور حسب حال معلوم ہوتی ہے کہ تجربے کی صداقت اور اصلیت کی دلیل ہوتی ہے۔
مجھے شموئل احمد کا انٹرویو پیش کرتے ہوئے بہت خوشی محسوس ہو رہی ہے۔
(بشکریہ صدف اقبال اور فیس بک عالمی اردو افسانہ فورم)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صدف اقبال:۔ شموئل صاحب یوں تو آپ نے اپنی کتاب اے دل آوارہ میں اپنے ذاتی اور تخلیقی سفر کو بیان کیا ہے لیکن فورم کے قارئین کے لئے کیوں نہ اس سوال سے شروعات کی جائے کہ آپ کے بچپن جوانی اور تعلیم کا سلسلہ کیا رہا؟ آپ نے اپنے تخلیقی سفر کا آغاز کب اور کیسے کیا؟
شموئل احمد:۔ میں طالب علم اوسط درجے کا تھا۔ لیکن یادداشت ایسی رہی کہ کوئی بھی عبارت نظر سے گذر جاتی تو من و عن ذہن میں محفوظ ہو جاتی۔ میری تعلیم مختلف اسکولوں میں ہوئی۔ والد مجسٹریٹ تھے۔ ان کا تبادلہ مختلف شہروں میں ہوتا رہتا تھا اور میرے اسکول بدلتے رہتے تھے۔ اردو کی تعلیم با قاعدہ نہیں ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ مجھ سے ابھی بھی املا کی غلطیاں سرزد ہوتی ہیں۔ میں نے نصابی کتابوں پر خاطر خواہ توجّہ نہیں دی اور شعر و ادب اور نفسیات کے مطالعہ میں لگا رہا۔ سائنس میری مجبوری تھی۔ والد مجھے انجنیئر دیکھنا چاہتے تھے اور میں حکم عدولی نہیں کر سکتا تھا۔ اس وقت انجنیئر ہونا اسٹیٹس سمبل تھا۔ میں نے سول انجنیرینگ میں ڈگری حاصل کی۔ واٹر سپلائی نٹ ورک اور ٹاور کے ڈیزائن میں دلچسپی لی۔ چیف انجنیئر کے عہدے پر پہنچا لیکن اپنی داخلیت میں پل پل مرتا رہا۔ میری روح ہمیشہ نا آسودہ رہی۔
صدف اقبال:۔ آپ نے اردو ادب کے تین ادوار کا مطالعہ اور مشاہدہ کیا۔ ترقی پسندی جدیدیت اور اردو ادب کا جاری منظر نامہ جسے ما بعد جدید عہد بھی کہا جا رہا ہے۔ آپ خود کو کس تناظر میں دیکھتے ہیں؟ اور ادب کی زمانی تقسیم ادبی تحریکوں کے حوالے سے کیا اہمیت رکھتی ہے؟
شموئل احمد:۔ ترقی پسندی کا دور اردو افسانے کا زرّیں دور تھا۔ اس دور میں بعض ایسے افسانے لکھے گئے جن کی حیثیت سنگ میل کی ہے۔ مثلاً آخری کوشش، آنندی، آدھے گھنٹے کا خدا، اپنے دکھ مجھے دے دو، بین وغیرہ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ افسانے نظریاتی وابستگی سے الگ ہیں۔ ترقی پسندی کے بعد جدیدیت کے دور میں بھی ادب کی توسیع ہوئی لیکن ہندوستان میں اردو افسانہ گمراہ ہوا۔ فاروقی کا سب سے بڑا کارنامہ تھا شب خون کا اجرا۔ ستّر کی نسل میں شب خون کا کریز تھا اور پوری نسل فاروقی کی ذہنی غلامی پر مجبور نظر آتی ہے ۷۳ میں جو اردو افسانے کا ورکشاپ سمینار ہوا اس کی روداد پڑھ کر میری گردن شرم سے جھک جاتی ہے۔ سمینار کے ایک اجلاس میں تین افسانہ نگار فاروقی کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے ہیں اور عرض کر رہے ہیں۔ ’میرے آقا مجھے بتایئے کہ افسانہ کس طرح لکھا جاتا ہے؟ کیا داخلی مونولاگ ہمارے لیئے مضر ہے؟ کیا بیانیہ میں بڑے افسانے کے امکانات نہیں ہیں؟ اور فاروقی ڈپٹ کر کہہ رہے ہیں کہ ہمیں آپ سے یہی شکایت ہے کہ آپ افسانے کو بہت سہل بنا دیتے ہیں اسے معمّہ بنایئے اور اس حل میرے لیئے چھوڑ دیجیئے۔ نئی نسل کی پوری کھیپ افسانے کو معمّہ بنانے میں لگ گئی۔ وارث علوی کے لفظوں میں افسانہ جب لنگڑا لولا اندھا بہرا ہو گیا تو فاروقی نے اس نسل کو یہ کہہ کر ریجیکٹ کیا کہ میں آپ کا ناقد نہیں ہوں، ہر نسل اپنا ناقد لے کر آتی ہے، آپ بھی اپنا ناقد ڈھونڈیئے۔ فاروقی نے صنف افسانے کو گلّی ڈنڈے جیسی حقیر چیز بتایا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب جدیدیت مر گئی تو فاروقی ما بعد جدید افسانے لکھنے لگے۔
لیکن جدیدیت کے دور میں اچھے افسانے بھی لکھے گئے۔ سریندر پرکاش کا دوسرے آدمی کا ڈرایئنگ روم، انور سجّاد کا کونپل، مین را کا ماچس وغیرہ اچھے افسانے ہیں۔ ۸۰ کی دہائی میں اردو افسانہ جدیدیت کے چونچلے سے آزاد ہوتا نظر آتا ہے اور افسانے کی واپسی تخلیقی بیانیہ کے ساتھ ہوتی ہے۔ منشا یاد غیاث احمد گدّی اور اقبال مجید جیسے افسانہ نگاروں کے یہاں بیانیہ نے موڑ لیا اور پرندے پکڑنے والی گاڑی، تج دو تج دو، تماشہ اور دو بھیگے ہوئے لوگ وجود میں آئے۔
صدف اقبال:۔ شموئل صاحب اردو افسانہ نگاری کے میدان میں آپ پہلے ہی ایک اہم نام بن چکے تھے لیکن افسانہ سنگھار دان کی ذہن جدید میں اشاعت کے بعد آپ کی مقبولیت عالمی سطح پر نمایاں ہو کر ابھری۔ سنگھار دان سے پہلے اور اس کے بعد آپ کے فنی رویے میں کوئی تبدیلی آئی؟
شموئل احمد:۔ نظریے وقت کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ فنّی رویّوں میں بھی تبدیلی آتی ہے۔ میں نے محسوس کیا کہ سلیس اردو فکشن کی زبان نہیں ہو سکتی۔ فکشن کی زبان اک ذرا کھردری اور عام بول چال کی زبان ہو گی۔ تشبیہات اور استعارے سے ضرور کام لینا چاہئے۔ فکشن میں علاقائی اثر نا گزیر ہے۔ آپ محسوس کریں گی کہ پاکستان اور ہندوستان کے افسانوی زبان میں فرق ہے۔ اقبال حسن خان اور مشتاق احمد نوری کے افسانے پڑھیں تو زبان کا فرق محسوس ہو گا۔ میرے افسانے سے اگر بہاریت نہیں جھلکتی تو بیانیہ ناقص ہے۔
صدف اقبال:۔ شموئل صاحب ایک عام خیال ہے کہ آپ افسانوں میں جنس اور جنسی نفسیات کو بطور چٹخارہ استعمال کرتے ہیں اور یہ موضوع آپ کی مرغوب غذا ہے۔ ایسا کیوں ہے کیا آپ جنس کے علاوہ زندگی کے دوسرے موضوعات کو غیر اہم سمجھتے ہیں؟
شموئل احمد:۔ میں نے اپنی زندگی میں کل تیس افسانے لکھے ہیں جن میں مشکل سے پانچ ایسے افسانے ملیں گے جن میں جنس کا رنگ گہرا ہے۔ کچھ افسانوں میں جنس کی ہلکی سی آمیزش ہے اور زیادہ تر افسانے ایسے ہیں جن میں جنس کیا عورت دور دور تک نظر نہیں آتی لیکن میرا قاری ان افسانوں کو یاد رکھتا رکھتا ہے جہاں جنس کا رنگ ہے اور چٹخارہ لیتا ہے۔ بہرام کا گھر، القمبوس کی گردن، چھگمانس، کاغذی پیراہن، باگمتی جب ہنستی ہے ایسے افسانے ہیں جہاں عورت دور دور تک نظر نہیں آتی لیکن ناقد بھی آنکھیں موندیں رہتا ہے۔ اصل میں نام نہاد دانشوروں نے اخلاقیات کا زہر دے کر سیکس کو مارنے کی کوشش کی ہے سیکس مرا تو نہیں زہریلا ہو کر زندہ ہے۔ میرے فسانے اسی زہر کی نشان دہی کرتے ہیں۔ ایک لڑکی اگر چست لباس میں سامنے سے گذر جاتی ہے تو نگاہیں اٹھ جاتی ہیں اور جذبات بھی مشتعل ہو سکتے ہیں لیکن آپ کی بہن جب اس طرح کا لباس پہنتی ہے تو آپ کی وہ کیفیت نہیں ہوتی۔ قصور چست لباس کا نہیں ہے۔ قصور اس زہر کا ہے جو آپ کی رگوں میں پھیل چکا ہے جسے چست لباس اجاگر کرتا ہے۔ میرے افسانے بھی یہی کام کرتے ہیں۔ قاری کے اندر اگر جنسی گھٹن ہے تو ظہار اور اونٹ جیسے افسانوں سے گذرتے ہوے اس کی جنسی بد عنوانیاں سامنے آنے لگتی ہیں اور وہ خود کو پارسا ثابت کرنے کے لیئے چیخنے لگتا ہے اور مجھے برا بھلا کہنے لگتا ہے۔ میں نے فرقہ پرستی، دہشت گردی، سیاسی اور سماجی بد عنوانیوں پر بھی قلم اٹھایا ہے۔ ان افسانوں پر ٹیلی فلمیں بھی بنی ہیں لیکن کیا کیجیئے گا لوگ مجھے بدنام کرتے ہیں کہ میں صرف سیکس پر ہی لکھتا ہوں۔
صدف اقبال:۔ افسانہ نگاری کے علاوہ آپ نے ناول نگاری کو بھی وسیلہ اظہار بنایا ہے۔ آپ کا ناول ندی اس ضمن میں موضوع بحث رہا ہے۔ کیا آپ ناول کو ایک طویل افسانے کے طور پر دیکھتے ہیں؟ یا ناول اور افسانے کی الگ الگ ترجیحات ہیں؟
شموئل احمد:۔ افسانہ اور ناول الگ الگ اصناف ہیں۔ افسانہ مشکل فن ہے۔ ناول میں میدان کا زیادہ حصّہ سامنے ہوتا ہے جہاں اپنی شہہ سواری کے جوہر دکھا سکتے ہیں۔ ناول میں بے کار کی باتیں بھی کھپ جاتی ہیں لیکن افسانہ تو مہارت کھوجتا ہے۔ ایک اچھا افسانہ موضوع سے ہٹ کر کچھ بھی قبول نہیں کرتا۔ اول کا مطلب ضخامت نہیں ہے۔ ساٹھ صفحات پر مشتمل بھی کامیاب ناول ہو سکتا ہے۔ ساٹھ صفحات پر مشتمل افسانہ طویل مختصر افسانہ ہو سکتا ہے ناول نہیں۔
صدف اقبال:۔ عالمی ادب کا منظر نامہ فکر کے انتشار کو پیش کرتا ہے۔ موضوعاتی سطح پر نئی نئی تاریخیت، ما آباد نو آبادیاتی ڈسکورس، لا مرکزیت اور ہر طرح کی تحریروں بشمول ادب کا صرف متن بن جانا آپ کے لئے کیا معنی رکھتا ہے؟ ایسے مباحث اور موضوعات کا اردو ادب کے تخلیقی رویے سے کوئی تعلق نظر آتا ہے آپ کو؟
شموئل احمد:۔ عالم میں انتشار ہے تو ادب اس منظر نامے کو پیش کرے گا۔ سوال یہ ہے کہ پیش کش کیسی ہے۔ یہ صحیح ہے کہ کوئی کچھ نیا نہیں لکھ رہا ہے۔ سب لکھا جا چکا اور ہم فقط اپنے کو دہرا رہے ہیں۔ مہابھارت کتھا سرت ساگر الف لیلی داستان اور شیکسپیئر کے ڈرامے کے بعد کوئی نیا کیا لکھے گا۔ لیکن میں یہ نہیں مانتا کہ ادیب مر گیا، کتاب مر گئی، متن مر گیا۔ نطشے نے کہا خدا مر گیا ہے۔ ہو سکتا ہے خدا مر گیا ہو اور اس کے بنائے اصولوں پر دنیا چل رہی ہو۔ لیکن ادیب ایسا خدا ہے جو مر نہیں سکتا۔ وہ اپنے عہد کا منظر نامہ بیان کرتا رہے گا۔
صدف اقبال:۔ منٹو اور شموئل احمد میں کیا فرق ہے اس سوال کے پس پشت وہی موضوعاتی اختصاص ہے۔ آپ نے بھی جسم اور جنسی نفسیات کو موضوع بنایا اور منٹو نے بھی۔ کیا یہ سمجھا جائے کہ آپ منٹو کے مقلد ہیں؟ آپ کی اپنی کوئی فنی شناخت نہیں؟
شموئل احمد:۔ مجھے پاگل کتّے نے نہیں کاٹا ہے کہ منٹو بننے کی کوشش کروں گا۔ ہر آدمی اپنی جگہ انوکھا ہے اور وہ جو ہے اگر ہو گیا تو بڑی بات ہوتی ہے۔ میں منٹو بن گیا تو بڑی بات نہیں ہو گی۔ میں شموئل بن گیا تو بڑی بات ہو گی۔ بڑا ادیب بننے سے اچھا ہے منفرد ادیب بننا۔ انفرادیت اپنے آپ میں بڑی ہوتی ہے۔ جنس میرا موضوع نہیں ہے جنس میرا وسیلہ ہے جس سے میں انسان کی داخلیت کی بازیافت کرتا ہوں۔ میں جنس کی جمالیات سے کام لیتا ہوں اور جسم کا حسن بیان کرتا ہوں۔ منٹو کے یہاں جنس کی جمالیات نہیں ہے۔ جنس اس کے یہاں کروڈ فارم میں ہے۔ وہ ایسے ایسے الفاظ استعمال کرتا ہے کہ میں یہاں دہرا نہیں سکتا۔ لیکن یہ کہانی کی ڈیمانڈ ہوتی ہے کہ مجھے اس طرح لکھو اور ایسے الفاظ استعمال کرو۔ منٹو کا مسئلہ کچھ اور تھا، ہمارا مسئلہ کچھ اور ہے۔ منٹو غلام ہندوستان میں پیدا ہوا۔ ہم نے آزاد ہندوستان میں آنکھیں کھولیں۔ منٹو کا مسئلہ تھا نیا قانون اور ٹوبہ ٹیک سنگھ۔ ہمارا مسئلہ ہے سنگھار دان اور مہا ماری۔ منٹو منگو کوچوان کے ہاتھوں انگریزوں کو پٹوا سکتا تھا لیکن ہم اپنا غبار کس پر نکالیں؟ ہمارا تو رہبر ہی رہزن بن گیا۔ منٹو کے لیئے جمہوریت کا مسئلہ نہیں تھا۔ ہمیں تو جمہوریت میں حسن کے بدلے داغ ملا ہے۔ جمہوریت کی پری بیٹھ گئی بالا خانے پر، بازار میں گمبد بنا لیئے اور اٹھائی گیرے سے ہم بستر ہوتی ہے۔ کرپشن کی مہاماری ہر طرف پھیل گئی اور ہم کتّے کی طرح زنجیر سے بندھے دیکھتے رہتے ہیں۔ منٹو کے زمانے میں فرقہ وارانہ فساد ایک حادثہ ہوتا تھا جو کہیں رو نما ہو جاتا تھا۔ آج فساد حادثہ نہیں ہے آج فساد ایک منصوبہ ہے جو نافذ کیا جاتا ہے۔ فساد آج سیاسی نظریہ ہے جو اقلیت کے گرد گھومتا ہے۔ آج ہم اپنی وراثت سے محروم کیئے جا رہے ہیں۔ منٹو کے زمانے میں جو فساد پر کہانیاں لکھی گئیں ان میں خون ریزی اور بربریت کا ذکر ملتا ہے۔ آج جو کہانیاں لکھی جا رہی ہیں ان میں فساد کے بعد پیدا شدہ حالات اور مسائل کا ذکر ہے اور اپنی وراثت سے محروم کیئے جانے کا خدشہ ہے۔ بابری مسجد جب ٹوٹی تو ایک فرقہ خوش تھا کہ دوسرے فرقے کو اس کی وراثت سے محروم کر دیا گیا ہے۔ برجموہن جب سنگھار دان لوٹتا ہے تو یہ سوچ کر خوش ہوتا ہے کہ نسیم جان بھلے ہی اس سے اچھا سنگھار دان خرید لے لیکن یہ موروثی چیز تو اس کو ملنے سے رہی۔ آج منٹو ہوتے تو کھول دو نہیں لکھتے، سنگھار دان لکھتے۔ ضروری نہیں ہے کہ آج منٹو ہوتے تو مجھ سے اچھی کہانیاں لکھتے یا میں منٹو کے زمانے میں ہوتا تو ان سے بری کہانیاں لکھتا۔ ہر عہد کے اپنے مسائل ہوتے ہیں جسے ہر ادیب اپنی عینک سے دیکھنا پسند کرتا ہے۔
صدف اقبال:۔ فکشن کی تنقید پر آپ کا ردّ عمل؟
شموئل احمد:۔ ناقص ہے۔ کم سے کم ہندوستان میں تو ایسا ہی ہے۔ اردو کا پیشہ ور نقّاد جو اردو کا استاد بھی ہے اس سے آپ کسی نئی بات کی امید نہیں کر سکتے۔ یہ بات گر چہ سب پر لاگو نہیں ہوتی لیکن کچھ بند دماغ کے لوگ بھی ہوتے ہیں۔ میں نے کہیں لکھا کہ۔۔ ’’کہ تخلیق کار کو کتابوں سے زیادہ آدمی کو پڑھنا چاہیئے کہ ہر آدمی کا چہرہ ایک کاغذ ہوتا ہے جس پر اس کی زندگی کی کہانی لکھی ہوتی ہے اور یہ کہ آپ ڈرایئنگ روم میں بیٹھ کر فلسفہ بھگار سکتے ہیں، مقالہ لکھ سکتے ہیں، افسانہ نہیں لکھ سکتے۔ افسانہ لکھنے کے لیئے ڈرایئنگ روم سے باہر نکل کر زمین پر چلنا پڑتا ہے اور اپنے شہر کو ہر رنگ میں دیکھنا پڑتا ہے۔ بے مغز ناقد جواب دیتا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آدمی کو پڑھنے کے لیئے ماہر نفسیات ہونا پڑے گا اور ماہر نفسیات ہی افسانہ لکھ سکتا ہے اور یہ کہ افسانہ ڈرایئنگ روم میں نہیں لکھا جائے گا تو کیا سڑک پر لکھا جائے گا۔ میں نے اس کمنٹ کو خوب انجوائے کیا۔ یہ بند دماغ کے لوگ ہیں۔ یہ جملے کو لغوی معنی کی روشنی میں دیکھتے ہیں۔ یہ نہیں سمجھتے کہ تخلیقیت کیا ہے اور جملہ کدھر اشارہ کر رہا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ مختلف ادب کا مطالعہ نہیں کرتے۔ یہ نہیں جانتے کہ گورکی کون ہے اور کسی اسکول کا منھ نہیں دیکھا لیکن ماں جیسا ناول لکھ گیا۔ یہ ویکم بشیر محمّد کو نہیں جانتے۔ یہ صرف اردو کا اخبار پڑھتے ہیں جس پر شوربہ گرا ہوتا ہے۔ میں سب کی بات نہیں کرتا۔ عاصم شہنواز شبلی اور شہاب ظفر اعظمی جیسے استاد بھی ہیں جو بہترین ذہن رکھتے ہیں اور تخلیقی تنقید کا نمونہ پیش کرتے ہیں۔ فورم کی مثال لیجیئے تو فرخ ندیم بہترین تنقید کرتے ہیں۔ ان کے تبصرے علمیت سے بھر پور ہوتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ یہ انگریزی کے آدمی ہیں اور وسیع مطالعہ کیا ہے۔ ابرار مجیب کا مطالعہ بھی بے حد وسیع ہے۔ ان کا تبصرہ بھی تخلیقیت سے بھر پور ہوتا ہے۔ اقبال حسن خان، وحید قمر اور نعیم بیگ وغیرہ بھی بہت پڑھتے ہیں اور خوبصورت تبصرہ کرتے ہیں۔ خواتین میں نسیم، سبین، صائمہ شاہ، کوثر جمال بھی اپنا جواب نہیں رکھتیں۔
صدف اقبال:۔’’بہرام کا گھر‘‘ فساد پر مبنی کہانی تھی۔ بنا سیکس کے تڑکے کے وہ مقبول ہوئی۔ آپ بنا سیکس کے اچھی کہانی لکھ سکتے ہیں۔ مگر آپ کے زیادہ تر افسانوں کی خمیر سیکس سے تیار کی گئی ہے۔ آخر آپ سیکس کے سحر سے آزاد کیوں نہیں ہوتے؟
شموئل احمد:۔ سیکس کے سحر میں میرے ناقد مبتلا ہیں، میں نہیں۔ کمال یہ ہے کہ کسی کو وہ کہانیاں یاد نہیں رہتیں جن میں سیکس نہیں ہے۔ سراب، باگمتی جب ہنستی ہے، چھگمانس وغیرہ کا لوگ ذکر اس لیئے نہیں کرتے کہ انہیں سیکس چاہیئے۔ جنس کی نفسیات پر مبنی میری کہانیاں اتنی پاور فل ہوتی ہیں کہ اس کی زد سے بچنا مشکل ہے۔ اس لیئے مجھ پر یہ الزام ہے کہ میں جنس کے سحر میں گرفتار ہوں۔
صدف اقبال:۔ آپ اپنے ادبی سفر سے کس حد تک مطمئن ہیں؟ شموئل احمد:۔ بالکل مطمئن نہیں ہوں۔ ہر تخلیق کار کی زندگی میں ایک تخلیق ان چھوئی رہ جاتی ہے۔ میری زندگی میں بھی یہ ان چھوئی تخلیق میرے ارد گرد ہوا میں لمس کی طرح موجود ہے۔ ذہن کے افق پر یہ کسی محبوب کی طرح کھڑی میرا انتظار کر رہی ہے۔ لیکن مجھ میں اتنی بصیرت ابھی پیدا نہیں ہوئی کہ اسے دیکھ لوں اور بانہوں میں بھر لوں۔ میرے اندر جو تخلیقیت ہے اس کا صرف دس فی صد حصّہ باہر آیا ہے۔
صدف اقبال:۔ آپ کے بعد اردو افسانے کی جو نسل سامنے آئی ان کے افسانوں کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ کوئی ایسا افسانہ جو آپ کو یاد رہ گیا ہو کیا آپ اس کا ذکر کرنا پسند کریں گے؟
شموئل احمد:۔ نئی نسل اچھا لکھ رہی ہے۔ ابرار مجیب کا افسانہ افواہ اور صدّیق عالم کا افسانہ جانور قابل ذکر افسانے ہیں۔ اور افسانے یاد نہیں آ رہے ہیں لیکن۔ خالد جاوید، صغیر رحمانی، ذوقی، شاہد اختر۔ اختر آزاد، احمد صغیر، قنبر علی وغیرہ اچھا لکھ رہے ہیں۔ رحمن عبّاس افسانے نہیں لکھتے لیکن نئی نسل کے ذہین ناول نگار ہیں۔
صدف اقبال:۔ آپ نے ’’اردو افسانے کی بے وفا عورتیں‘‘ عنوان سے ایک مضمون لکھا تھا۔ میرے سوال کا تعلق اس مضمون سے یہ ہے کہ کیا آپ کو اردو کی خواتین افسانہ نگاروں کے افسانے متاثر کرتے ہیں؟ اگر ہاں تو کیوں؟
شموئل احمد:۔ خواتین بہتر قصّہ گو ہوتی ہیں لیکن مجھے وہ افسانے اچھے نہیں لگتے جہاں نسوانی کردار مرد اساسی سماج کی جارحیت پر آنسو بہاتی ہے۔ خواتین کے افسانوں میں ان کی آہیں اور بے بسی کے نالے مجھے پسند نہیں ہیں۔ میں ان کے تیکھے تیور دیکھنا چاہتا ہوں جہاں مرد کی بربریت سے لوہا لینے کا حوصلہ نظر آتا ہے۔
صدف اقبال:۔ عصری افسانہ نگاری اور افسانہ نگاروں کے تعلق سے آپ کیا کہنا چاہیں گے؟
شموئل احمد:۔ اچھے افسانے لکھے جا رہے ہیں لیکن بڑا افسانہ نہیں لکھا جا رہا ہے۔
صدف اقبال:۔ آج کے چند اہم افسانہ نگاروں میں آپ کن لوگوں کو شمار کرنا چاہیں گے؟
شموئل احمد۔۔ نو کمنٹ، جس کا نام چھوٹ جائے گا اس سے مجھے گالیاں سنوانا کیوں چاہتی ہیں
صدف اقبال:۔ فیس بک پر پیش کردہ افسانوی ادب کے تعلق سے کچھ فرمائیں؟
شموئل احمد:۔ فیس بک پر دلچسپ افسانے شائع ہوتے ہیں۔ میں سب تو نہیں پڑھ پاتا لیکن دوستوں کے افسانے اور بالکل نئے لکھاری کے افسانے ضرور پڑھتا ہوں۔
صدف اقبال:۔ عالمی اردو افسانہ فورم کی اہمیت اور افادیت کیا ہے؟ کیا اس قسم کے فورم ادب کے فروغ میں کوئی کردار ادا کرتے ہیں؟
شموئل احمد:۔ عالمی اردو افسانہ ایک شاندار اور با وقار فورم ہے۔ افسانے کی توسیع میں یہ فورم بہت اہم کردار نبھا رہا ہے اور نئے اذہان کی تربیت بھی ہو رہی ہے۔ مجھے تو یہاں چند نہایت اچھے دوست ملے جن سے افسانوں پر گفتگو ہوتی رہتی ہے۔ میں جب اپنی کتاب۔۔ پاکستان ادب کے آئینے میں ترتیب دے رہا تھا تو فورم سے بہت مدد ملی۔ دو افسانے میں نے فورم سے لیئے اور یہاں کے دوستوں نے اس کتاب کے لیئے مضمون بھی لکھا۔ اس فورم پر جمہوریت ہے۔ میرے بدنام زمانہ افسانے اس فورم پر شائع ہو چکے ہیں اور مجھ پر یہاں پتھر بھی بہت برسائے گئے جواب میں کچھ دوستوں نے پھولوں کی بارش بھی کی۔ فورم کی ایک بات نہایت حوصلہ کن ہے کہ یہاں افسانوں کے میلے لگائے جاتے ہیں اور نئے لکھاریوں کو اپنی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کا موقع دیا جاتا ہے۔ میں فورم کی لمبی عمر کی دعا مانگتا ہوں۔
٭٭٭