بند کھڑکی کے پیچھے سے ۔۔۔ فاطمہ یوسف اَلعلی (کویت)

تحریر مُکرر، قیصر نذیر خاورؔ

 

(نوٹ: 2، اگست 1990ء کو عراق نے کویت پر حملہ کر کے دو دن میں اس پر قبضہ کر لیا تھا۔ یہ سات ماہ تک جاری رہا لیکن اس دوران ہی جنوری 1991ء کے وسط میں امریکی سربراہی میں اقوام متحدہ کی اتحادی فوج نے عراق پر حملے شروع کر دئیے۔ یہ ایک ماہ سے زیادہ جاری رہے اور بالآخر 25 فروری 1991ء کو اس اتحادی فوج نے امریکی سربراہی میں کویت کو عراقی قبضے سے آزاد کرا لیا تھا۔ کویتی عوام نے اس غاصبانہ قبضے کے خلاف مزاحمتی تحریک بھی شروع کی تھی۔ اس تحریک کی وجہ سے بہت سے کویتی سویلین مارے گئے۔ اعداد و شمار کے مطابق سب سے زیادہ اموات اس تحریک میں شامل عام عوام کی ہوئیں اور یہ لوگ زخمی بھی زیادہ ہوئے اور مزاحمتی تحریک سے جڑے لوگ ہی تھے جنہوں نے عراقیوں کے تشدد اور سفاکی کو سب سے زیادہ برداشت کیا تھا۔

فاطمہ یوسف اَلعلی کی یہ کہانی اسی تناظر میں لکھی گئی ہے اور اس کے افسانوی مجموعے ’Blood on the Moon‘ میں شامل ہے۔ اس مجموعے میں شامل تمام کہانیوں کا پس منظر یہی جنگ ہے۔

فاطمہ 1953ء میں پیدا ہوئی۔ قاہرہ یونیورسٹی کی تعلیم یافتہ ہے۔ عربی میں لکھتی ہے۔ کویت کی پہلی خاتون ناول نگار اور افسانہ نگار مانی جاتی ہے۔ اس کی کہانیوں کا مرکزی موضوع کویتی خواتین ہوتی ہیں۔ اس کا ناول ’Faces in the Crowd‘ کسی کویتی خاتون کا پہلا ناول گردانا جاتا ہے۔ اس کی کہانیوں کے کئی مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ اس کی کہانیوں کی خواتین کسی ایک طبقے سے تعلق نہیں رکھتیں بلکہ وہ کویتی معاشرے کی ہر پرت سے اپنے کردار وضع کرتی ہے۔ ’Her Face is a Nation‘ اور ’A Feminine Ending‘ اور ’Lismira and Her Sisters‘ اس کے نمایاں افسانوی مجموعے ہیں۔ اس کے افسانے انگریزی کے علاوہ فارسی میں بھی ترجمہ ہو چکے ہیں۔ چونکہ وہ ایک کٹر معاشرے میں رہتی ہے اس لئے اس کی تحاریر چھپ نہیں پاتیں اور اسے انہیں چھپوانے کے لئے خاصی دشواریوں کا سامنا رہتا ہے۔ اس سب کے باوجود، وہ پیچیدہ عرب معاشرے کی جنسی زندگی کو کھل کر صاف گوئی سے بیان کرنے کی ہمت رکھتی ہے۔ وہ اس علاقے میں امریکی مداخلت کی حامی نہیں ہے اور حکایاتی انداز اختیار کرتے ہوئے اس کو تنقید کا نشانہ بناتی ہے۔)

۔۔۔۔

 

یہ ساتویں رات تھی۔ ولی عہد اور اُس سرکار کے وزیر کے درمیان ہونے والی ملاقات کسی معاہدے کے بغیر ختم ہو گئی اور اس نے پریشانی و تشویش کی انتہا کو چھو لیا۔۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ اس نے ہم سب کو پریشانی سے بھی کہیں آگے جا کر خوف میں مبتلا ہونے کا خدشہ پیدا کر دیا تھا۔ جمعرات کی صبح دوستانہ نشریات، معاندانہ، امید بھری نشریات اور بار بار کئے جانے والے اعلامیوں نے ہمیں گزشتہ سیاہ رات کے سارے واقعات یاد دلا دئیے۔ یہ پہلی بار ہوا تھا کہ کویت کا نام ایسے الفاظ کے ساتھ جوڑا گیا تھا جو ہم برے خوابوں یا بخاری بے سدھی کیفیت میں بھی نہیں سوچ سکتے تھے، ’دست اندیزی‘، ’ غاصب‘ اور ’تسلط‘۔ مجھے تو یقینی طور پران اصطلاحوں کا درست مطلب بھی پتہ نہ تھا البتہ ’کسی دوسرے کے علاقے پر اچانک چڑھائی‘، ’غاصبانہ قبضہ‘ اور ’عراقی فوج کی در اندازی‘ جیسے الفاظ کی مجھے سمجھ تھی کیونکہ یہ عام خبریں پڑھنے والوں کے عمومی ذخیرہ الفاظ کا حصہ تھے۔

میں نے جو کچھ خبروں میں سنا تھا، اس کا خلاصہ کیا اور۔۔ اور۔۔ اس کے کان میں چِلا کر بتایا تاکہ وہ سمجھ سکے۔ اس کی آنکھوں میں گنگ اور نروس خوف کو دیکھ کر یہ احساس ہوتا تھا جیسے اس پر بجلی گری ہو۔ میں نے اس کی جانب حرکت کی اور جب میں نے دیکھا کہ اس کی آنکھیں مجھ پر گڑھی ہوئی ہیں تو میں نے اس کی گردن کو اس زور سے جھنجھوڑا جیسے کسی جانور کو ذبح کیا جا رہا ہو۔ اس کا خوف اور بڑھ گیا اور اس کی گھُوری مزید واضح اور منجمد ہو گئی۔ میں یہی چاہتی تھی، کہ وہ اتنی خوفزدہ ہو جائے کہ چاہے کچھ بھی ہو، اسے گھر چھوڑنے خیال بھی نہ آ سکے۔ میں نے اشاروں اور کچھ الفاظ کی مدد سے اسے یہ بتایا کہ ہمارے پاس زندہ رہنے کے لئے کئی دنوں کے لئے خوراک موجود تھی اور یہ کہ اس صورت حال کا کوئی نہ کوئی حل یقینی طور پر نکل آئے گا کیونکہ یہ لوگ ہمارے ملک پر یوں قابض نہیں رہ سکتے اور جھوٹ موٹ یہ ظاہر نہیں کر سکتے کہ ہم لوگ موجود ہی نہیں ہیں۔ ہم دونوں کو بس انتظار ہی کرنا تھا۔ میں نے آوازوں، جو اس کی بھاری، سوجی ہوئی زبان نے منہ سے نکالی تھیں یہ اندازہ لگایا کہ اسے اس بات کا خدشہ ہے کہ ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں اور یہ کہ میں اپنی تنخواہ بھی وصول نہیں کر پاؤں گی کیونکہ مجھے کام پر جاتے ہوئے خطرہ محسوس ہو گا۔

میں نے اشاروں اور الفاظ کے سہارے اسے بتایا کہ میں، خدا کا یقین کرو، جو ایک سکول میں ’سٹاف اسسٹنٹ‘ کے طور پر ایک سکول میں کام کرتی ہوں، وہاں چھٹیاں ہیں اور یہ کہ میں پچھلے ماہ کی تنخواہ گزرے ہفتے میں وصول کر چکی ہوں اور اگلے مہینے کے شروع ہونے پر اور اگلی تنخواہ ملنے کے دن خدا یقینی طور پر ہمارے لئے تن آسانی پیدا کرے گا۔ اس کے مرجھائے ہونٹوں پر ایک ٹیڑھی مسکراہٹ کا سایہ سا آیا۔ وہ چوکڑی مار کر بیٹھی، اپنی رانوں کا تَکنے لگی اور متوازن آہنگ و تواتر سے خدا کی حمد و ثنا میں مصروف ہو گئی گو اس کے الفاظ کی کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ لگتا تھا کہ وہ کچھ ایسے مخصوص الفاظ استعمال کر رہی تھی جو وہ خود اور اس کا خالق ہی سمجھ سکتا تھا۔

سیدھی بات ہے کہ میں نے بھی ویسا ہی کیا جیسا میں نے اپنی ماں کو کرنے کی ہدایت کی تھی، تاکہ وہ میری ہدایات کو نظرانداز نہ کر پائے۔ میں اس کے ساتھ بیٹھ گئی اور میں کبھی ریڈیو اور کبھی ٹیلی ویژن لگاتی اور ساتھ ہی ساتھ اس نزدیکی کھڑکی سے باہر بھی دیکھتی جو مرکزی سڑک پر کھلتی تھی۔ گو ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر الفاظ کی ندیاں بہے جا رہی تھیں لیکن مرکزی سڑک اور اس سے آ کر ملنے والی ساری ثانوی سڑکیں مکمل طور پر سنسان تھیں۔ کبھی کبھار، البتہ، ایک پولیس کار، فوجی گاڑی یا ایک آدھ عام گاڑی تیزی سے وہاں سے گزر جاتی لیکن مجھے وہاں کوئی عراقی نظر نہیں آیا۔ میں سوچتی کہ وہ کیسے ہوں گے۔ میں نے پہلے کچھ کو دیکھا تھا لیکن وہ حالات کچھ اور تھے۔ ان میں سے کچھ کی بچیاں بغداد سکول، جہاں میں کام کرتی تھی، میں پڑھتی تھیں۔ یہ عراقی آدمی سکول کے گیٹ کے پاس کھڑے اپنی بچیوں کا انتظار کرتے، ان میں سے کچھ اپنی کاروں، جن کے شیشے نیچے ہوتے، سے ٹیک لگائے بھی کھڑے ہوتے۔ یہ بالکل ویسے ہی والدین تھے جیسے کے کویتی۔ مجھے ان میں کوئی فرق نظر نہیں آتا تھا۔ اپنے عبا میں لپٹی جب کبھی کوئی عورت آ کر اپنی بیٹی کے لئے درخواست کرتی تو وہ نرم مزاجی اور انکسار کے ساتھ وہاں کھڑی ہوتی۔ جب وہ لفظ ’آئنی‘ برتتی تو مجھے پتہ چل جاتا کہ وہ عراقی ہے اور میں اس کی بیٹی اسے لا دیتی۔ لیکن موجودہ دست اندیزی کے بعد، جبکہ مجھے اس لفظ کا صحیح مطلب بھی معلوم نہ تھا میں سوچتی کہ کاروں سے ٹیک لگائے عراقی مرد یا عورتیں اب بھی میرے لئے ’آئنی‘ کا لفظ استعمال کریں گی۔

میں تقریباً ساری رات جاگتی رہی اور کھڑکی سے سڑک کو دیکھتی رہی۔ میں نے سینکڑوں بار گھڑی کو دیکھا کہ فجر کی نماز کا وقت ہوا کہ نہیں اور میں سوچتی کہ کیا کوئی یہ جرأت کرے گا کہ نزدیکی مینار پر چڑھ کر اذان دے۔ رات میں، میں نے کسی ’غاصب‘ کو نہیں دیکھا۔ چنانچہ میں اپنی یادداشت کے سہارے یہ جاننے کی کوشش کرتی رہی کہ ایک عراقی کی کیا خصوصیات ہوں گی لیکن میں کوئی خصوصی فرق تلاش نہ کر پائی سوائے اس کے کہ وہ کچھ الفاظ کا انتخاب مختلف طور پر کرتے تھے اور یہ الفاظ بھی خوشگواری اور اچھا اخلاق لئے ہوتے جیسے کہ ’آغاتی‘، ’آئنی‘ اور ’بابا‘۔ گو سورج کے لال تھال کا آتشیں کنارہ، جو ایک پگھلے برقی آرے کی مانند تھا، نمودار ہو چکا تھا لیکن فجر کی اذان دینے کے لئے موذن مینار پر نہیں چڑھا۔ میری ماں جہاں بیٹھی تھی وہیں سو گئی تھی اور میں نے اس پر چادر ڈالنے کو ضروری نہ سمجھا کیونکہ موسم ناخوشگوار حد تک گرم تھا۔ میں نے اپنے گھر میں لگے اکلوتے ائیر کنڈیشنر کو بند کرنے کا فیصلہ کیا کیونکہ مجھے اندازہ تھا کہ میں اتنے دینار اکٹھے نہ کر پاؤں گی کہ اگلے ماہ بجلی کا بِل ادا کر سکوں۔ مجھے یہ بھی خدشہ تھا کہ حکومت کو بھی شاید بجلی کی مسلسل فراہمی میں مشکلات کا سامنا ہو۔ چاہے وہ عراقیوں سے کتنے ہی خوفزدہ کیوں نہ ہوں لیکن ہر کویتی کا یہ فرض تھا کہ وہ اپنی سرکار کے ساتھ کھڑے ہوں۔ گو کسی کو پتہ بھی نہ چلنا تھا کہ میں نے ’اے سی‘ بند کر دیا تھا۔ ایسا تب ہی ممکن تھا جب وہ گھر گھر تلاشی لیتے لیکن ایسا نہیں ہونا تھا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ میں نے اب تک کسی کو بھی نہیں دیکھا تھا۔ مجھے سوچ آئی کہ اب جمعہ کی نماز کیسی ہو گی؟ مجھے ہمیشہ پتہ چل جاتا تھا کہ جمعہ کی نماز کا وقت ہوا چاہتا ہے، ایسے میں بھی جب میں نے کپڑے دھونے کی مشین لگائی ہوتی یا پھر میں اپنی بوڑھی ماں کو نہلا رہی ہوتی۔ اس کا آغاز ایک طرف سے آتی ’اللہ اکبر‘ کی صدا سے ہوتا جبکہ دوسرے سمت سے ’تعریف اسی خدا کی ہے‘ کی آواز ابھرتی۔ پھر مختلف موذن آگے پیچھے یہی وِرد کرتے ہوئے قرآنی آیات پڑھنے لگتے۔ ایسے لگتا جیسے جنت کے دروازے کھل گئے ہیں اور فرشتے حمد و ثناء میں مصروف ہیں۔ اس سمے، میں، مختلف لاؤڈ سپیکروں سے ابھرتی آوازوں کو سمجھ نہ پاتی کہ ان کا مطلب کیا ہے لیکن مجھے محسوس ہوتا جیسے میرے جسم کی کثافت لطافت میں بدل گئی ہے اور میرا جسم ہوا میں تیرنے لگا ہے، اڑنے لگا ہے اور اس میں اوپر، اور اوپر اٹھتا جا رہا ہے۔ مجھے لگتا کہ میں اور بھی بہتر طور پر دیکھ اور جان سکتی ہوں اور۔۔ اور ان لوگوں سے بھی محبت کر سکتی ہوں جنہیں میں نے پہلے نہ تو کبھی دیکھا اور نہ ہی ان سے ملی۔ میرا یہ احساس ہر لمحہ تقویت پکڑتا جاتا۔ اس جمعے کو، البتہ، علاقے میں زندگی کی وہ عمومی چہل پہل نہ تھی۔ وقفوں وقفوں سے، البتہ، کچھ آوازیں ابھرتیں جیسے شہد کی مکھی کے چھتوں سے بھنبھناہٹ ابھرتی ہے۔ ان میں تال میل بھی نہ تھا۔ یہ کچھ ایسی تھیں جیسے کسی عمارت کے کھنڈر سے ابھر رہی ہوں جس کے سوئے ہوئے مکینوں پر یہ دھم سے گر پڑی ہو۔

اور پھر ایک ہولناک آواز ایک دم سے میرے کانوں سے ٹکرائی، مجھے ایسے لگا کہ کسی نے ہتھوڑے سے میری کھوپڑی کو چیر دیا ہے۔ سارا گھر لرز اٹھا اور میرا خوف بھی بڑھ گیا۔ میں کھڑکی کی طرف لپکی۔ اوہ! یہ ایک ٹینک تھا۔۔ غلطی کا کوئی امکان نہ تھا۔۔ یہ بالکل ویسا ہی تھا جیسا کہ بہت سی فلموں میں ہوتا ہے۔ ہاں، البتہ اس پر عراقی جھنڈا بنا ہوا تھا اور ایک اس پر لہرا بھی رہا تھا۔ یہ ویسا ہی تھا جیسا میں نے ٹی وی کی سکرین پر دیکھا تھا۔ میں پردے کے پیچھے چھپ کر آنکھ بھینچے باہر جھانکنے لگی، کیا اس ٹینک سے ایک عراقی باہر کودے گا؟ اگر ایسا ہوتا ہے تو کیا وہ ’بابا‘، ’آغاتی‘ اور ’آئینی‘۔۔ کہے گا؟ یا پھر وہ ٹینک کی توپ سے لوگوں پر گولا داغے گا؟ کیا وہ کویتیوں کو نماز سے روکنے کے لئے آیا ہے؟ کیا خدا اس بات پر خوش ہو گا کہ کویتیوں کو جمعہ کی نماز نہ پڑھنے دی جائے؟ کیا خدا اس پر خاموش رہے گا؟ اگر وہ مسجدوں پر حملہ کرتے ہیں اور نماز ادا کرتے مردوں پر گولے برساتے ہیں تو کیا خدا ان سے ’حساب کتاب‘ کرے گا؟ لیکن ہمیں معلوم تھا کہ کوئی بتانے والا نہیں ہے کہ اگر خدا نے ہی کسی بندے، چاہے وہ کوئی بھی ہو، سے ’حساب کتاب‘ کرنا ہے تو کیا ہو گا۔

گھر ابھی تک لرز رہا تھا اور ٹینک اس چھوٹے سے چورا ہے پر، اپنے پیچھے کالے دھویں کے بادل بناتا چکر کاٹے جا رہا تھا۔ اس کی توپ اوپر کی طرف ابھری ہوئی تھی اور یوں گھوم رہی تھی جیسے چاروں اطراف کے لوگوں کو ہراساں کرنا چاہتی ہو۔ جب اس کی گرجدار آواز بند ہوئی اور دھویں کے بادل چھٹے تو ایک چھوٹی کار نظر آئی جو ٹینک کے پیچھے تھی۔ ٹینک کا ڈھکن اوپر اٹھا اور اس میں ایک آدمی چھلانگ لگا کر باہر نکلا۔ وہ تیزی سے کار کی جانب گیا اور فوجی انداز میں سلام کیا۔ میں نے اس کے جثے، نقش اور کپڑوں کا جائزہ لیا، وہ لازماً ایک عراقی ہی ہونا چاہیے تھا۔ کیا وہ غاصبوں کے ٹینک سے نہیں نکلا تھا؟ لیکن میں یہ کہہ سکتی تھی کہ وہ صالح تھا جس نے ہماری سابقہ آبادی میں پرورش پائی تھی اور اب وہ ہمارا ہمسایہ ہونے کے ساتھ ساتھ کویتی انفنڑی فوج میں ایڈجوننٹ تھا۔ مجھے ایسا تب بتایا گیا تھا جب دس سال پہلے وہ مجھ سے شادی کا خواہاں تھا۔ پھر میری ماں بیمار پڑ گئی اور میں نے شادی کے بارے میں سوچنا بند کر دیا تاکہ کوئی مرد اس کے لئے پریشانی کا باعث نہ بنے۔ فوجی نے ایک بار پھر سلام کیا۔ کار میں سے دو فوجی باہر نکلے اور ٹینک کے سامنے کھڑے ہو گئے۔ کار مڑی اور وہاں سے چلی گئی۔ تب پہلا فوجی ٹینک پر چڑھا اور اس نے خود کو اس کے اندر یوں اتارا جیسے وہ کسی کنویں میں اتر رہا ہو۔

مجھے حیرانی تھی کہ صالح کہاں تھا۔ کیا اس نے اب غائب ہو جانا تھا اور ہمیں ٹینکوں کا سامنا کرنے لئے چھوڑ جانا تھا؟ میں نے اسے آخری بار ایک روز قبل سورج غروب ہونے سے قبل دیکھا تھا۔ وہ سفید ’دشداشہ‘ پہنے دبے پاؤں جا رہا تھا۔ اس کا دشداشہ استری بھی نہیں ہوا تھا اور اس نے سر پر رو مال بھی نہیں باندھا ہوا تھا۔ میں نے پہلی بار یہ جانا کہ وہ سر سے گنجا تھا۔ میں اسے یوں دیکھ کر خوفزدہ ہو گئی تھی کہ اگر ایک فوجی یوں شہری لمبے لبادے، سر کے رو مال بِنا بھاگا جا رہا ہو تو ہمارا دفاع کون کرے گا؟ میرے دل میں یہ سوال اٹھا کہ کیا وہ اسی کام کے لئے بھاری ماہانہ تنخواہ لیتا رہا اور رنگ برنگے اور چمکیلے تمغے کندھوں اور بازوؤں پر سجائے رہتا، جو وہ اس وقت کر رہا تھا۔

چورا ہے کی دور والی طرف سے ایک لڑکا نمودار ہوا۔ اس نے، حتی الواسع کوشش کی کہ ٹینک سے دور رہے۔ اس نے چورا ہے کا چکر کاٹا۔ وہ عراقیوں کو یہ بتانا چاہتا تھا کہ ان سے ممکنہ حد تک دور رہتے ہوئے مسجد جانا چاہتا تھا۔ فوجیوں میں سے ایک نے اس کی جانب دو قدم بڑھائے۔ لڑکا چلتے رہنا چاہتا تھا یا اس کا خیال تھا کہ وہ اسی طرف واپس بھاگ جائے جدھر سے وہ آیا تھا کہ فوجی نے اسے آواز دی۔ میں نے اس کی آواز سنی لیکن مجھے یہ سمجھ نہ آیا کہ اس نے کیا کہا تھا۔ بہرحال لڑکا تذبذب کے عالم میں چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا فوجی کی طرف بڑھا۔ جب فوجی بھی اس کی طرف آگے بڑھا تو میں نے یہ دیکھا کہ اس کی پیٹی کے ساتھ ایک طرف ایک ریوالور اور دوسری طرف ایک بڑا سا چاقو لٹکا ہوا تھا۔ لڑکا رک گیا۔ اس نے باتوں اور ہاتھ کے اشاروں سے کچھ کہا۔ فوجی واپس ٹینک کی طرف مڑا جبکہ لڑکا اپنی جگہ ساکت کھڑا رہا۔ فوجی نے اپنے ساتھی، جو ٹینک میں گھات لگائے بیٹھا تھا، سے بات چیت کی۔ لڑکے کے دونوں ہاتھ سر پر تھے۔ فوجی اس کے پاس واپس گیا، اس نے ہاتھ میں کچھ پکڑ رکھا تھا، کیا؟ مجھے اندازہ نہ ہوا۔ جب وہ اور لڑکا ایک دوسرے کے قریب ہوئے تو فوجی نے اسے کچھ تھمایا، کیا؟ مجھے پھر بھی پتہ نہ چلا۔ لڑکے نے شکریے کے طور پر ہاتھ ہلایا۔ اس کا چہرہ زرد تھا۔ وہ مشکور بھی تھا اور اسی حالت میں وہ ایسے پیچھے ہٹا کہ گرتے گرتے بچا۔ فوجی ہنس رہا تھا۔ اس نے لڑکے کو نظرانداز کیا اور اپنے ساتھی کی طرف بڑھ گیا اور اس کے ساتھ کوئی شے آدھی آدھی بانٹی۔ وہ اسے کھاتے ہوئے ہنستے بھی رہے۔

تب مجھ یاد آیا کہ وہ لڑکا کون تھا۔ میں نے یہ سوچا بھی نہ تھا کہ وہ اتنی بزدلی کا مظاہرہ کرے گا۔ ایک دن میں ہی ہمارے مرد کیا سے کیا ہو گئے تھے؟ صالح گنجا تھا لیکن اس کا بھیجا ایسے بھوسہ بن گیا تھا جیسے وہ دھویں سے بھرے تہہ خانے میں نوکر ہو۔ میں اس لڑکے کی ماں کو جانتی تھی۔ وہ اس کا اکلوتا بیٹا تھا۔ وہ اسے پیدا کرنے کے لئے لندن گئی تھی کیونکہ اسے خدشہ تھا کہ وہ، کویت میں زندہ پیدا نہیں ہو گا۔ اس کا باپ کواپریٹو ایسوسی ایشن کا اہلکار تھا اور اس کی ماں میونسپلیٹی میں ایک وکیل تھی۔ جب وہ دوسرے لڑکوں کے ساتھ باہر نکلتا تو خود کو مور سمجھتا اور اکڑ اکڑ کر چلتا۔ جب انہوں نے گیند سے کھیلنا ہوتا تو اسے ہر بار کپتان ہی بننا ہوتا تھا۔ اب وہ ایک ایسی بلی کی مانند تھا جو بیت الخلاء میں پھسل گئی ہو۔ جمعے کی نماز کا وقت ہوا اور جنت کے دروازوں سے آتی صداؤں کے امتزاج کے بغیر ہی گزر گیا۔ جو لوگ نماز کے لئے آئے بھی، انہوں نے مسجدوں کے دروازوں یا گلیوں میں مجمع نہ لگایا اور یوں خاموشی سے نظریں بچا کر نکل لئے جیسے کسی کے جنازے سے گھروں کو لوٹ رہے ہوں۔ اس دوران ٹینک وہیں جما رہا۔

جب رات ڈھلی تو میں ماں کے لئے کھانا بنانے میں مصروف ہو گئی۔ میں یہ بھی سوچ رہی تھی کہ آنے والے دِنوں کے لئے خوراک کیسے حاصل کی جائے۔ اچانک فضا میں ایک گونج پیدا ہوئی جس کے ساتھ دھمک بھی پیدا ہوئی ایسے جیسے کوئی شے ملبہ بنی ہو۔ ہماری کھڑکی پر سرخ شعلوں چمکے اور ان کے عکس اس کے سامنے والی دیوار پر ابھرے۔ اس سے پہلے کہ میں باہر دیکھتی مجھے دور سے آتی فائرنگ کی آواز کے جواب میں تین گولیوں کے چلنے کی آواز آئی۔ ٹینک کے ماتھے پر لگی سرچ لائٹ جل اٹھی جس نے رات کو دن میں بدل دیا۔ لوگ ’واکی ٹاکیز‘ استعمال کر رہے تھے اور اس سے پہلے کہ سکوت طاری ہوتا بہت شور شرابا برپا ہوا۔ میں نے دیکھا کہ دوپہر کو نماز سے پہلے جہاں لڑکا کھڑا تھا وہاں ایک سفید ڈھیر پڑا تھا۔ یہ وہیں موجود رہا لیکن کوئی اس کے پاس نہ گیا۔ ایک گاڑی آئی اور چلی گئی۔ ایک اور بھی آئی اور چلی گئی اور پھر ایک اور بھی۔ اس کے بعد سامان اور فوجیوں سے لدا ہوا ایک ٹرک آیا۔ وہ سب ٹینک کے گرد جمع ہوئے۔ ویلڈنگ والی مشعلوں کے منہ سے لال اور سبز زبانیں باہر نکلیں۔ وہ کٹائی اور ویلڈنگ کرتے رہے لیکن یہ بات واضح تھی کہ ٹینک ناکارہ ہو چکا تھا اور اسے بڑے پیمانے پر مرمت کی ضرورت تھی۔ اگلی صبح سورج نکلنے سے پہلے ہی ٹینک کے جلے ہوئے حصے اور ویلڈ کئے ہوئے حصے واضح طور پر نظر آنے لگے لیکن وہ لڑکا، نوجوان مور، اپنی ٹیم کا کپتان، اکلوتا بچہ، وہ بچہ جو لندن میں پیدا ہوا تھا ٹینک کی ایک طرف مصلوب ہوا پڑا تھا۔ جس کے نیچے بچوں کی گیم کے ڈبے کے گتے کے ایک ٹکڑے پر آڑی ترچھی لکھائی میں لکھا تھا،

” جو بھی مقابلے کے لئے ہاتھ اٹھانے کا سوچے گا اس کا یہی حشر ہو گا۔‘‘

سورج نکلنے سے پہلے ہی وہاں ایک اور ٹینک پہنچ گیا اور اس نے ناکارہ ٹینک کے پیچھے ذرا پرے جگہ سنبھال لی۔ یوں دونوں کے درمیان ہوا کے لئے اک راہداری سی بن گئی تھی۔ میں نے اس نئے ٹینک پر کچھ زیادہ توجہ نہ دی کیونکہ میرا دھیان تو لڑکے کے سر پر تھا جو ناکارہ ٹینک پر الٹا لٹک رہا تھا اور ہوا اس کے بالوں کے ساتھ اٹکھیلیاں کر رہی تھی۔ میں نے محسوس کیا کہ اس کی آنکھیں مجھے حقارت سے گھور رہی ہیں، شاید اس لئے کہ میں نے اسے مور کہا تھا۔ میں یہ سوچتی ہی رہی کہ اس کے ساتھ مزید کیا ہونے والا تھا اور یہ کہ اس کی ماں اور باپ کہاں تھے۔

دونوں ٹینکوں کا درمیانی حصہ ایک ایسی آرام گاہ بن گیا تھا جس میں فوجی کھانا کھاتے اور چائے پیتے۔ انہوں نے وہاں ایک ٹوٹا پھوٹا جال تان کر سائبان سا کھڑا کر لیا تھا۔ میں نے ان پر نظر رکھی اور میں حیران تھی کہ وہ لڑکے کی گلتی سڑتی لاش کے پاس بیٹھے کیسے چائے کے گھونٹ بھر رہے تھے اور کھانا بھی کھا رہے تھے۔ میں نے خود سے سوال کیا کہ اگلے روز اس لڑکے کی لاش کی حالت کیا ہو گی، اور اس سے اگلے روز اس کا بچا ہو گا؟ کیا میرے اندر اسے دیکھنے کی ہمت ہو گی؟

اگلے روز میں نے اس جگہ کی طرف دیکھنے سے گریز کیا جہاں لڑکے کو مصلوب کیا گیا تھا، خاص طور پر اس وجہ سے بھی کہ فوجی اب قہقہے لگا رہے تھے، لطیفہ گوئی میں مصروف تھے اور اپنے سامنے پڑی چیزوں کو دیکھ رہے تھے۔ یہ فوجی ایک روز قبل چاک و چوبند انداز میں گھبرائے اور بوکھلائے ہوئے ادھر ادھر دیکھ رہے تھے۔ وہ اپنے سامنے لگے ڈھیر میں سے کوئی شے اٹھاتے، اسے کھولتے اور پسند نہ آنے پر ایک طرف پھینک دیتے۔ وہ اشیاء کو دیکھنے کے لئے اکٹھے ہوتے کچھ پر حیرانی کا اظہار کرتے اور پھر ایک طرف رکھ دیتے تاکہ انہیں دوسرے والے ٹینک میں لے جا سکیں۔ لیکن پہلے والے ٹینک کا کیا بننا تھا؟ اور انہوں نے یہ ڈھیروں اشیاء کہاں سے حاصل کی تھیں؟ تب میں خود کو نہ روک پائی اور میں نے اپنی گردن پہلے والے ٹینک کی طرف گھما دی۔ اس سے پیشتر کہ میں دیکھ پاتی، میرا گلا خشک ہو چکا تھا، میرا دل دھک دھک کر رہا تھا اور میرا جسم سکڑ گیا تھا۔ حیرانی کی بات یہ تھی کہ جہاں لڑکے کی لاش لٹکی ہوئی تھی، وہاں اب ایک سبز رنگ کا پرندہ الٹا لٹکا ہوا تھا جس کی گردن چاک تھی اور اس کے پر ناکارہ ٹینک کی ایک طرف کیلوں سے جڑے ہوئے تھے۔ مجھے اپنی آنکھوں پر اعتبار نہ آیا۔ میں نے انہیں زور سے رگڑا اور اپنا سر کھڑکی کے شیشے میں دے مارا کہ یقین کروں کہ جاگ رہی ہوں اور کوئی سپنا نہیں دیکھ رہی۔ میں جاگ رہی تھی اور لڑکا اب ایک سبز پرندہ تھا جس کے پروں میں کیل جڑے تھے جو اس تغیر سے پہلے اس کے بازو تھے۔ میں نے بار بار خود سے کہا کہ میں یہ سب تصور میں دیکھ رہی ہوں، ایک لڑکا ایک سبز پرندے میں کیسے بدل سکتا ہے جس کی آنکھیں ویسی ہی عاجزانہ اور حقارت سے بھری ہوں جیسی میں نے ایک روز قبل اس کی لاش میں دیکھی تھیں جو ٹینک کے ساتھ ٹنگی ہوئی تھی؟ ایسا تو نہ تھا کہ مجھے بھوک لگ رہی تھی کیونکہ میں اپنی عمومی خوراک کا ایک چوتھائی کھا کر خود کو تسلی دے لی تھی اور باقی اس لئے بچا لی تھی کہ میں اپنی ماں کو زیادہ کھانا دے سکوں۔ ایسا بھی نہ تھا کہ میں خوفزدہ تھی کہ وہ گھر میں گھس آئیں گے اور مجھ پر چڑھ دوڑتے ہوئے، سر پر ضربیں لگاتے، سیڑھیوں سے گھسیٹتے ہوئے نیچے لے جائیں گے اور مجھے تار تار کر دیں گے۔ میں نے پوری طاقت سے چِلا کر اپنی ماں کو بتایا کہ ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ یہ تو مٹھی بھر عراقی تھے جو ان کے گھر کے باہر چورا ہے پر تعینات تھے اور یہ کہ ایسا کہیں بھی ہو سکتا تھا۔ ایسا بھی نہ تھا کہ میں اس لڑکے کے لئے اداس تھی جو گزشتہ روز محتاط اور ندامت کے ساتھ جمعہ کی نماز پڑھنے کے لئے جا رہا تھا۔ اصل حقیقت تو یہ تھی کہ میں جاگ رہی تھی اور اپنے ہوش و حواس میں تھی۔ میں نے پرندہ دیکھا تھا اس کی آنکھیں دیکھی تھیں، اس کی کٹی ہوئی گردن دیکھی تھی، اس کا ایک طرف کو لٹکتا سر دیکھا تھا اور یہ سب اسی جگہ تھا جہاں لڑکا الٹا ٹنگا تھا۔ تب مجھے ایک اور جھٹکا محسوس ہوا لیکن مجھے اس پر کوئی حیرت نہ ہوئی۔

ناکارہ ٹینک کا رنگ دوسرے والے سے مختلف ہونے لگا۔ دونوں کو پیلے، سبز اور بھورے رنگوں سے اس طرح مسخ کیا گیا تھا کہ وہ ٹینک نہ لگیں۔ دوسرے والا ٹینک تو اپنے انہی رنگوں میں تھا لیکن دوسرا جس پر سبز پرندہ ٹنگا تھا اپنے رنگ چھوڑ رہا تھا اور ابلتی پیپ کا رنگ اختیار کر رہا تھا جس سے مجھے متلی محسوس ہونے لگی۔ میں چلمچی پر گئی اور تھوکا۔ پھر میں نے ریفریجییٹر کا دروازہ کھولا اور کچھ ایسا تلاش کرنے لگی جس سے میرے منہ کا ذائقہ بدل سکے۔ مجھے انگور کے تین دانے ہی مل پائے جو خالی ہوتی ایک دراز کے کونے میں پڑے ہوئے تھے۔

مجھے احساس ہوا کہ جیسے میں بھی کھڑکی کے ساتھ جڑ دی گئی ہوں۔ میں سبز پرندے اور پیپ رنگے گلتے سڑتے ٹینک سے اپنی آنکھیں ہٹا نہ پائی۔ مجھے معلوم نہیں کہ میں کب سوئی، میں نے اپنی آنکھیں کس طرح بند کیں یا مجھے کس نے کھڑکی سے ہٹایا اور رہائشی کمرے کے ایک کونے میں ماں کے پاس اوندھے منہ لٹا دیا۔ مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ میں کب تک سوئی رہی۔ میں تو اس وقت تشنج کا شکار ہوئی جب دھماکوں کی لہروں نے سب کچھ ہلا کر رکھ دیا۔ ایسا لگتا تھا جیسے آسمان سے پتھروں کی بارش ہو رہی ہو جو چھت پر لگی ٹنکی سے ٹکرا رہے تھے۔ اس سے پہلے کہ میں اٹھ کر دیکھتی کہ کیا ہو رہا تھا ایک یا دو منٹ کے لئے سب شور تھم گیا۔ پھر یک دم فوجی سائرن اور ایمبولینسوں کے ہارن بج اٹھے۔ انجنوں کا شور ہوا اور چند کاریں ایک قطار میں آ کھڑی ہوئیں۔ سپاہی جلتے ہوئے ٹینک کے گرد جمع ہو گئے۔ ان کے ہاتھوں میں آگ بجھانے والے آلات تھے جن کی کالی نالیوں سے بخارات اور کیچڑ جیسا ’فوم‘ مکروہ انداز میں ٹینک کے ڈھانچے کو لت پت کر رہا تھا لیکن ٹینک کو لگی آگ کسی طرح بھی قابو میں نہ آ رہی تھی۔ فوجیوں کو اپنی جانوں کا بھی خطرہ تھا کیونکہ ٹینک میں موجود بارود بھی پھٹ سکتا تھا۔ مجھے اس بات کی سمجھ تب آئی جب ٹینک کے اندر کا بارود پھٹ چکا تھا۔ گو کہ میں کانپ رہی تھی لیکن جب میں نے ان فوجیوں کو خوفزدگی کے عالم میں آگ بجھانے والے آلات چھوڑ کر بھاگتے ہوئے دیکھا تو میری ہنسی چھوٹ گئی۔ وہ تیزی سے خطرے والی جگہ سے دور بھاگ رہے تھے۔ وہ اس وقت تک واپس نہ لوٹے جب تک بارود کا پھٹنا بند نہ ہوا۔ اس وقت تک آگ کی شدت میں کمی آ چکی تھی اور دوسرا ٹینک بھی سیاہ ہو چکا تھا۔ وہ اپنی ہی جگہ پر بد شکل ہوا، زمین بوس ہوا، ایسے کھڑا تھا جیسے ایک بھیانک بھوت ہو۔ مجھے معلوم نہ تھا کہ ہوا کیا تھا لیکن یہ کالا بے ڈول ڈھیر یہ بتا رہا تھا کہ اسے تاک کر کتنے طاقتور بارود سے اڑایا گیا تھا۔ میں نے خوشی کے ساتھ دعائیہ انداز میں سرگوشی کی، ” تمہارے ہاتھ سلامت رہیں۔‘‘ کیا وہ ہاتھ ذخمی ہونے سے بچ گئے تھے یا ان کا بھی وہی حشر کیا گیا جیسا انہوں نے لڑکے کا کیا تھا؟ یہ کون ہو سکتا تھا؟ زیادہ انتظار کی ضرورت نہ تھی کیونکہ جیسے ہی سورج نے اپنے آتشیں تنبو کو ہم پرتا نا تو میرے لئے یہ جاننا آسان ہو گیا کہ یہ صالح خود تھا۔ میں نے اسے اس کے گنجے سر سے پہچان لیا تھا جسے میں زندگی میں پہلی بار دو تین دن پہلے ہی، جب وہ وردی میں نہ تھا، اور سر جھکائے سست چال سے اپنے گھر کی جانب بڑھ رہا تھا، دیکھا تھا۔ میں اس کے چہرے کے نین نقش نہ دیکھ سکی کیونکہ یہ سب برابر ہو چکے تھے۔ اس کا شکنوں بھرا سفید ’دشداشہ‘ خون کے لال دھبوں سے اٹا پڑا تھا۔ اس کا ہتھیار اس کی گردن سے لٹک رہا تھا اور اس کا جسم جلے ہوئے ٹینک کی توپ پر بازوؤں کے بل ٹنگا ہوا تھا۔ اس گرم دن آندھیاں کچھ کچھ وقفوں سے چل رہی تھیں۔ گو صحرا میں گرد کا کوئی طوفان نہیں تھا لیکن آسمان بھی صاف نہ تھا۔ اور جب گرد ملی تیز ہوا چلتی تو توپ سے لٹکا یہ جسم بسا اوقات ہوا میں آگے پیچھے ڈولتا جیسے کھیلتے ہوئے بچے درخت سے جھول رہے ہوتے ہیں۔ جبکہ باقی وقت میں جب گرد اس کے گرد بگولا بناتی تو وہ ایسا شخص لگتا جو آگ اور دھویں میں گھِرا ہو اور جو اس حصار سے نکلنے کی کوشش میں تو ہو لیکن نکل نہ پا رہا ہو۔ ایک تیسرا ٹینک آیا اور وہاں کھڑا ہو گیا۔ انہوں نے دوسرے جلے ہوئے ٹینک کی مرمت کرنے کی کوشش بھی نہ کی۔ یہ مکمل طور پر تباہ ہو چکا تھا۔ تیسرا ٹینک بھی دوسرے سے ہٹ کر کچھ ایسی جگہ پر کھڑا تھا کہ فوجیوں کو بیٹھنے کے لئے جگہ مل سکے۔ انہوں نے وہاں بیٹھ کر پہلے کی طرح ہی چائے پی اور خوراک کے ڈبے نگلے جو اب وافر مقدار میں وہاں موجود تھے کیونکہ کواپریٹو ایسو سی ایشن کا گودام لوٹا جا چکا تھا۔ میں نے اب یہ توقع کرنا چھوڑ دیا تھا کہ وہ ایسے عراقی الفاظ، جیسے آغاتی یا آئینی جیسے شائستہ الفاظ برتتے ہوں گے۔ وہ ایسا کیسے کر سکتے تھے جبکہ وہ میری خوراک نگلے جا رہے تھے اور میں کھڑکی کے چھپی انہیں دیکھتے ہوئے اپنی بھوک کو مٹھی بھر چاولوں سے خاموش رکھنے کی کوشش کر رہی تھی۔ یہ وہ چاول تھے جو مجھے ایک ڈبے میں رکھے ہوئے ملے تھے جنہیں میں وہاں رکھ کر بھول چکی تھی۔ میں نے اس ڈبے کو برسوں سے نہیں کھولا تھا، کم از کم اس وقت سے نہیں جب سے ہم اس گھر میں آئے تھے۔ شاید میں نے پرانے گھر میں انہیں اس لئے بچا کر رکھا تھا کہ یہ کسی آڑے وقت میں اس وقت کام آئیں گے جب خدا چاہے گا اور مجھے ہدایت دے گا۔

میں نے اسی روز سورج ڈھلنے سے پہلے یہ بھی دیکھ لیا تھا کہ جلے ہوئے ٹینک کا رنگ بھی کالے سے، پیپ جیسے قابل نفرت زردی مائل سبز رنگ میں تبدیل ہو رہا ہے۔ مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا اور میں نے کہا،

’’یہ نا ممکن ہے۔ شاید یہ مجھے ایسا اس لئے دِکھ رہا ہے کہ سیاہ ہوئے ٹینک کی جگہ بدل گئی ہے اور غروب ہوتے سورج کی شعاعیں اس سے اس رنگ میں منعکس ہو رہی ہیں۔‘‘

اس خیال نے مجھے کچھ دیر اور کھڑکی میں کھڑا رہنے دیا تاکہ میں اس کا مشاہدہ غور سے کر سکوں۔ میں نے ہر شے کو بخوبی جائزہ لیا اور خود سے کہا،

’’شاید یہ آگ بجھانے والے آلات کے بچے کھچے فوم کی وجہ سے ہے۔“

بہرحال یہ بات واضح ہو گئی کہ ٹینک کے رنگ بدلنے کا عمل ویسا ہی عمل ہے جس کے تحت صالح کا جسم بھی پروں والے اس سبز پرندے میں بدل گیا ہے جو ٹینک کی توپ پر لٹکا ہوا تھا۔ مجھے یہ یقین ہو گیا کہ وہ صالح ہی تھا کیونکہ اس کے پر خون کے دھبوں سے بھرے ہوئے تھے جبکہ اس کے سر کے بال یوں نُچے ہوئے تھے کہ سر گنجا لگتا تھا۔

میری توجہ سامنے والی کھڑکی کی طرف سے اس وقت ہٹی جب میں نے پچھلی طرف والی کھڑکی پر وقفے وقفے سے دستک کی آواز سنی۔ ایک نظر نہ آنے والے بندے کا ہاتھ کھڑکی میں سے کبھی روٹی لئے ابھرتا اور کبھی اس ہاتھ میں کچھ دینار ہوتے یا چینی یا پھر کھانا پکانے والا تیل کا ڈبہ۔ مجھے تعجب ہوا کہ میں بدلے میں انہیں کیا دے سکتی ہوں۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ ان کا ایک ساتھی زخمی ہے جسے چھپنے کے لئے جگہ اور تیمار داری کی ضرورت ہے اور چونکہ ہمارے گھر سے چیک پوسٹ واضح طور پر نظر آتی ہے اس لئے یہ ان کے مقصد کے لئے موزوں ہے۔ ان کا یہ بھی خیال تھا کہ عراقی فوجی اپنے ارد گرد کے نزدیکی گھروں کو اپنے لئے خطرناک نہیں سمجھتے تھے۔ مجھے معلوم نہ تھا کہ میں کیا کروں۔ وہ مجھ سے صرف یہ چاہ رہے تھے کہ میں مغرب اور عشاء کی نمازوں کے درمیانی عرصے میں گھر کے پچھلے دروازے کا تالا کھلا رکھوں۔

مجھے یہ کچھ زیادہ مشکل نہ لگا۔ میں نے دروازے کا تالا کھول دیا اور واپس ماں کے پاس آ گئی تاکہ اسے بانہوں میں لے کر جھُلا سکوں۔ میں، گو، کانپ رہی تھی لیکن مجھے ایک بار بھی یہ خیال نہ آیا کہ میں دروازے کو دوبارہ تالا لگا دوں۔ جیسے ہی موذن نے مغرب کی اذان دینے کے لئے ’اللہ اکبر‘ کہا دو لڑکیاں بھاری بھرکم کپڑے پہنے اندر داخل ہوئیں۔ اس سے پہلے کہ میں اٹھ کر انہیں خوش آمدید کہتی ان کے لبادے فرش پر گر چکے تھے اور دو جوان آدمی میرے سامنے تھے۔ ان میں سے ایک جوان کے جسم پر کئی جگہیں خون آلود پٹیوں میں جکڑی ہوئی تھیں۔ اس نے کہا کہ میں اسے اَل حکم کہہ سکتی ہوں، گو یہ اس کا اصلی نام نہ تھا۔ اور یہ کہ وہ صفائی کرنے والے ایک ادارے کا مالک تھا اور وہ اس وقت زخمی ہو گیا تھا جب اس نے اپنی کمیونٹی سے چوہوں اور آوارہ بلیوں سے پاک کرنا اپنا فرض جانا۔ مجھے اس کے لئے صرف یہ کرنا تھا کہ اسے ایک کمرے میں رکھوں اور اس کی کمر اور گردن کے ان جلے ہوئے حصوں پر دن میں دو بار مرہم لگاؤں جہاں اس کا اپنا ہاتھ نہیں پہنچ پاتا۔ میں نے یہ ذمہ داری قبول کر لی۔ اس ذمہ داری کی وجہ سے میں نے خود کو آزادی کے لئے لڑنے والی سمجھ لیا تھا اور میں سخت ذہنی دباؤ کے باوجود خوش بھی تھی۔ مجھے یہ قبول کرنے میں کوئی عار نہیں کہ میں نے زندگی میں پہلی بار کسی مرد کی پشت دیکھی۔ پہلے کچھ دن تو میں جھجکی، ڈری بھی اور میرے ہاتھ اس وقت کانپے بھی جب میں روئی کو مرہم میں بھگو کر اس کی جلد پر لگاتی۔ وہ، لیکن میرے حوصلے کو بڑھاتا اور کہتا کہ زخم کو زور سے دبانے سے مت ڈرو، یوں اس سے پیپ نکل جائے گی۔ اس کے اس جملے سے مجھے چورا ہے پر کھڑے رنگ بدلتے اور گلتے سڑتے ٹینک یاد آ جاتے۔ یہ ہمارے گھر سے پچاس میٹر کی دوری پر ہی تو تھے لیکن اب مجھے انہیں دیکھنے کی فرصت ہی نہ تھی کیونکہ میں نے ایک اہم ذمہ داری سنبھال لی تھی۔

مجھے معلوم نہیں کہ کتنا عرصہ لگا تھا لیکن اَل حکم کے زخم بالآخر بھر گئے۔ اب وہ چلنے پھرنے کے قابل ہو گیا تھا اور اس کی ساری پٹیاں بھی اتر چکی تھیں۔ اس نے اپنے ساتھیوں کے پاس واپس جانے کا فیصلہ کیا۔ جانے سے پہلے اس نے مجھے ایک تحفہ دیا تاکہ میں اسے یاد رکھ سکوں۔ یہ اب بھی میرے پاس ہے اور میں اسے اپنا سب سے قیمتی اثاثہ سمجھتی ہوں۔ یہ وہ دستانے تھے جو وہ اس وقت استعمال کرتا تھا جب وہ مزاحمت کاروں میں تقسیم کرنے کے لئے بارود تیار کرنے کے لئے مختلف کیمیاوی اجزاء کو آپس میں ملاتا تھا۔ ان سے ہولناک کیمیاوی بو آتی تھی لیکن میرے لئے یہ عنبر اور کستوری جیسی خوشبو تھی۔

گھر میں ایک بار پھر صرف میں اور میری ماں رہ گئے تھے۔ میں نے ایک بار پھر سوچنا شروع کر دیا کہ میں چٹخنی لگی کھڑکی کے پیچھے سے باہر جھانکنا شروع کر کے اپنا وقت گزاروں لیکن مجھ میں یہ احساس جاگا کہ مجھے باہر جانا چاہیے اور اَل حکم اور اس کے جتھے کو ڈھونڈنا چاہیے اور ان سے کوئی نئی ذمہ داری، جسے وہ مناسب گردانیں، لینی چاہیے۔ تب میں نے دیکھا اور میں یہ نظارہ کبھی نہیں بھول سکتی جس نے، ساری ابدیت کے ساتھ، مجھ میں گلیوں میں نکل جانے، خوشی سے گانے اور رقص کرنے کا سماں باندھ دیا تھا۔ جب میں نے احتیاط کے ساتھ کھڑکی میں سے جھانکا تو میں یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ چورا ہے پر تباہ شدہ ٹینکوں کی قطار میں واضح طور پر اضافہ ہو چکا ہے۔ شاید وہ سات تھے، یا شاید ستر، میں انہیں گن نہ پائی کیونکہ کھڑکی ایسی جگہ پر نہ تھی کہ میں قطار کے آخر تک دیکھ سکتی۔ وہ سب پیپ زدہ تھے اور ان پر سبز رنگ کے مختلف النوع پرندے بندھے ہوئے تھے، جن میں کچھ نر اور کچھ مادہ تھے۔ ان میں سے کچھ تو ابھی بچے ہی تھے۔ یہ جنوری کا ایک سرد دن تھا۔ تازہ ہوا کا ایک جھونکا آیا اور اس نے پہلے سے موجود ہوا کو تر و تازہ کر دیا جب یہ ٹینکوں کی قطار پر پہنچا تو وہ آپس میں مدغم ہو کر ایک بڑے، خوفناک ٹڈے میں بدل چکے تھے جو گل سڑ رہا تھا اور جسے دیکھ کر قے آتی تھی۔ اس کی ہیئت فریبی اور قابل نفرت تھی جس نے ہم میں خوف پھیلا دیا تھا۔ ٹھنڈی باد نسیم نے اس کے پھولے ہوئے ڈھانچے کو تباہ کر دیا تھا اور اس کی جلد وہیں الگ ہو کر نیچے گر رہی تھی جہاں وہ کھڑا تھا۔ یہ کچھ ایسا ہی تھا جیسے سانپ کی کینچلی زمین پر پڑی ہو جس سے صحرائی ہوا کھلواڑ کرتی ہے اور اسے جھاڑیوں کے درمیان آگے پیچھے اچھالتی رہتی ہے۔ اسی دوران سبز پرندے بھی اڑ کر آسمان سے باتیں کرنے لگے۔ ان کی فردوسی چہچہاہٹ ہر طرف گونجنے لگی جسے میں تو سن ہی رہی تھی، ہماری کمیونٹی کے ہر کونے میں بھی ان کی چہک کی باز گشت لہرانے لگی۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے