ہم عصر افسانہ نگاروں میں جن لوگوں نے اپنے منفرد لب و لہجہ کی وجہ سے اردو دنیا میں اپنی پہچان بنائی ہے ان میں ابن کنول کا نام سر فہرست ہے۔ ابن کنول کے افسانوں کی سب سے اہم خصوصیت جو ان کو دوسرے افسانہ نگاروں سے ممتاز کرتی ہے وہ ہے داستانوی رنگ و آہنگ۔ ابن کنول کے افسانوں پر داستانوی ادب کے اثرات بہت واضح ہیں۔ خود ابن کنول کو بھی اس بات کا اعتراف ہے۔ اس کی وجہ ان کی نظر میں یہ ہے کہ انہوں نے داستانوں کا گہرا مطالعہ کیا ہے۔ داستان ان کا پسندیدہ موضوع رہا ہے۔ اس وجہ سے داستانوی زبان ان کی لفظیات پر حاوی ہے۔
اسّی کی دہائی کے بعد لکھنے والے بہت سے افسانہ نگاروں نے داستانوی رنگ میں افسانے لکھے ہیں۔ عام طور پر انتظار حسین کو اس منزل کا راہ رو سمجھا جاتا ہے۔ مگر ابن کنول کا ماننا ہے کہ نئے افسانہ نگاروں کو انتظار حسین نے نہیں بلکہ براہ راست داستانوں نے متاثر کیا ہے۔ نئے لکھنے والوں میں سلام بن عبد الرزاق، حسین الحق، عبد الصمد، قمر احسن، ساجد رشید، انور خاں، شوکت حیات، سعید سہروردی، سید محمد اشرف، غضنفر اور انجم عثمانی سب کے یہاں کسی نہ کسی شکل میں داستانوی رنگ و آہنگ مل جاتا ہے۔ پاکستان میں انتظار حسین کے علاوہ انور سجاد، خالدہ حسین، رشید امجد، احمد داؤد اور آصف فرخی نے اپنے افسانوں میں داستانوی طریقۂ اظہار کو جگہ دی ہے۔ ان افسانہ نگاروں کے یہاں داستانوں سے استفادہ کی مختلف نوعیتیں ہیں۔ ابن کنول اپنے ایک مضمون ’اردو افسانہ اور داستانوی طرز اظہار‘ میں لکھتے ہیں :
’’۔۔ مختصر افسانہ نگاروں نے داستانوں سے مختلف انداز میں استفادہ کیا ہے۔ بعض نے اپنے افسانوں کے عنوانات اس طرح رکھے ہیں کہ ان پر داستانوں کا گمان ہوتا ہے۔ مثلاً ’’آئینہ فروش شہر کوراں‘‘، ’’سات منزلہ بھوت‘‘، ’’خار پشت‘‘، ’’چوپال میں سنا ہوا قصہ‘‘، ’’سر بریدہ آدمی‘‘، ’’من کا توتا‘‘، ’’داخل ہونا بے نظیر کا بیابان میں‘‘، ’’طلسمات‘‘ وغیرہ۔ کچھ افسانہ نگاروں نے داستانوں کے پر شکوہ اسلوب کو اختیار کر کے اپنے افسانوں میں داستانوی فضا تیار کی۔ بعض نے اسطور سازی کے عمل کو اپنایا۔ تمثیلی پیرائے میں بھی افسانے لکھے گئے اور جانوروں کو کردار بنا کر عصری مسائل کی طرف اشارہ کیا گیا، چھوٹی چھوٹی حکایتوں کے انداز پر افسانے لکھے گئے، داستانوں کی طرح مختصر افسانہ کو ضمنی کہانیوں کی شمولیت کے انداز میں بھی لکھا گیا۔ بعض افسانہ نگاروں نے داستانوں کے مافوق الفطرت عناصر اور طلسمی ماحول کے زیر اثر اپنے افسانوں میں طلسمی فضا پیدا کرنے کی کوشش کی۔‘‘
(داستان سے ناول تک، ابن کنول ص ۱۷۷)
ابن کنول نے اپنے افسانوں میں داستانوی رنگ و آہنگ قائم کرنے کے لئے ان میں سے تقریباً سبھی طریقوں کو برتا ہے۔
ابن کنول عموماً اپنے افسانوں کی ابتدا داستانوی زبان میں کرتے ہیں:
’’اچانک آفتاب کی تیز شعاعیں مانند پیکاں اس کی نگاہوں سے اتر کر پورے جسم میں پھیل گئیں اور اس کا بدن مثلِ بدر منیر پُر نور آئینہ خانہ بن گیا۔ اس کے اعضائے بدن سے کرنیں پھوٹنے لگیں۔۔۔۔ کئی برس تک مسلسل قطرہ قطرہ آفتاب اس کے بدن میں اترا تھا جس نے اس کے قلب تاریک کو کوہِ نور میں بدل دیا۔ اور اب وہ خوش تھا کہ امروز فردا وہ اپنی عمرِ گذشتہ کے سچے خوابوں کی دنیا میں پھر پہنچ جائے گا کہ جن سے رخصت ہو کر وہ چند برس پہلے ایک سفر سخت کے لئے حاکمِ وقت کے ہمراہ روانہ ہوا تھا کہ وہ بادشاہ وقت کی فوج کا ایک سپاہی تھا اور بادشاہ اپنے ملک کی سرحد پر آئے ہوئے دشمن کے مقابلے کے لئے دار الخلافہ سے اپنی فوج کے ساتھ چلا تھا۔‘‘
(جیت کسی کی، ہار کسی کی)
’’ہوا یوں کہ ایک روز جب آفتاب کی روشنی عالم آب و گل کو منوّر کر چکی تھی، بازار اور دکانیں معمول کے مطابق پر رونق ہونے لگی تھیں کہ فضا میں ایک عقاب تیز رفتار پرواز کرتا ہوا نظر آیا، قابل ذکر بات یہ تھی کہ اس کے پنجوں میں ایک مار سیاہ لٹکا ہوا تھا تھوڑی دیر تک وہ عقاب بازار کے اوپر منڈلاتا رہا۔ پھر یوں ہوا کہ وہ سانپ بازار میں خرید و فروخت کرتے ہوئے ایک شخص کی گردن پر جا پڑا۔ اس سے پہلے کہ وہ آدمی کسی کو مدد کے لئے پکارتا، سانپ نے اپنے زہریلے پھن سے اس کی پیشانی کو داغ دیا۔‘‘
(ہمارا تمہارا خدا بادشاہ)
’’جس وقت بادشاہ کے وصال کا وقت قریب آیا تو اس نے اپنے قریب ترین وزیروں کو اپنے پاس بلایا اور فرمایا:
’’عزیزو! تم سب بے حد عزیز ہو، ہماری زندگی کا سرمایہ ہو، ہم اپنے رب کے بعد تمہارے شکر گذار ہیں کہ تم نے ہماری زندگی کے سفر کو آسان کیا۔ ہر مشکل ساعت میں تم ہمارے مددگار ہوئے۔‘‘
(وارث)
’’بعد کئی صدیوں کے زید بن حارث کی آنکھوں میں آفتاب کی کرنیں چبھنے لگیں۔۔۔۔ :۔‘‘ (صرف ایک شب کا فاصلہ)
اور جب بادشاہ نے سفر سے مراجعت کی۔ دارالخلافہ میں پہنچ کر اس نے اپنے وزیر اعظم کو حکم دیا کہ کل دن کے پہلے پہر ہم دربار عام کریں گے۔۔۔۔‘‘ (پہلا آدمی)
’’اور پھر ابراہیم کے لئے خدائے بزرگ و برتر کا حکم ہوا کہ اے ابراہیم تم اپنی بیوی اور معصوم بچے کو اللہ کی راہ میں قربان کر دو۔۔۔۔:۔‘‘
(سویٹ ہوم)
یہ ٹکڑے مختلف افسانوں کے ابتدائی پیراگراف سے لئے گئے ہیں۔ ان سب میں خاص بات جو ہے وہ ان کا وہ لب و لہجہ ہے جو داستانوں کے لئے خاص مانا جاتا ہے۔ مسجع و پر شکوہ عبارت، مترادفات کا استعمال وغیرہ ان داستانوی طرز کے جملوں کے ذریعہ ابن کنول نے ایک خاص قسم کی فضا پیدا کر کے افسانوں کو رنگین بنا دیا ہے۔ قاری ان ابتدائی جملوں کو پڑھ کر داستانوں کی طلسماتی دنیا میں کھو جاتا ہے مگر جلد ہی وہ حال کی دنیا میں چلا آتا ہے جب اس کو معلوم ہوتا ہے کہ اس کے اندر سبھی مسائل وہی ہیں جو ہمارے ارد گرد ہیں۔ اس داستانوی دنیا میں بھی ہمارے جیسے لوگ رہتے ہیں۔ جو بھوک پیاس کی شدت محسوس کرتے ہیں۔ وہ بھی حالات کے ستائے ہوئے ہیں۔
کئی افسانوں میں ابن کنول نے داستانوی زبان و اسلوب صرف یہ بتانے کے لئے اختیار کیا ہے کہ زمانہ اگرچہ بدل گیا ہے مگر حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ مثال کے طور پر ’ہمارا تمہارا خدا بادشاہ‘؛ ’صرف ایک شب کا فاصلہ‘؛ ’وارث‘؛ اور ’صرف ایک دن کے لئے‘ وغیرہ جیسے افسانے حال کے سیاسی پس منظر میں لکھے گئے ہیں مگر ان کی زبان اور فضا قدیم داستانوی ہے۔ ’ہمارا تمہارا خدا بادشاہ‘ میں حکمراں طبقہ کی عیاری و مکاری ظاہر ہوتی ہے۔ وہ طبقہ جو عوام کے سامنے ان کا ہمدرد بن کر آتا ہے مگر وہ جن مسائل کو حل کرنے کا وعدہ کرتا ہے وہ خود اس کی پیدا کردہ ہوتی ہیں۔ وہ یہ سب کچھ اس لئے کرتا ہے تاکہ عوام کی ہمدردی حاصل کی جا سکے۔ آج بھی حکمراں پہلے بستیوں کو راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کرتے ہیں پھر ان کا ووٹ حاصل کرنے کے لئے ان کے پاس امداد لے کر جاتے ہیں۔
’صرف ایک شب کا فاصلہ‘ میں فضا داستانوی ہے مگر ایمرجنسی کے وقت کے حالات کی عکاسی کرتا ہے۔ اصحاب کہف کے واقعہ سے اس افسانہ کا خمیر تیار کیا گیا۔ لیکن مسائل عصر حاضر کے ہیں۔ اسی دنیا کے جس میں ہم اور آپ رہتے ہیں۔ اصحاب کہف جب تین سو سال کی گہری نیند سے بیدار ہوتے ہیں اور ان کو معلوم ہوتا ہے کہ اب ان کے ملک میں عوام کی منتخب حکومت ہے۔ عوام کو اظہار رائے کی آزادی ہے تو بہت خوش ہوتے ہیں۔ مگر ان کا بھرم اس وقت ٹوٹ گیا جب حکمراں جماعت نے ان چاروں کی مقبولیت کو اپنے لئے خطرہ محسوس کرتے ہوئے ان کو گرفتار کر لیا۔ ابن کنول نے نہایت ہوشیاری سے ایک مشہور و معروف اسلامی اسطور سے جمہوریت کی کھوکھلی تعبیروں کی حقیقت واضح کی ہے۔ اصحاب کہف کی روایت میں نوجوان بادشاہ وقت کے ظلم سے بچنے کے لئے غار میں پناہ لیتے ہیں۔ یہ نوجوان بھی بادشاہ وقت کے ظلم سے بچنے کے لئے غار میں پناہ لیتے ہیں۔ ان دونوں واقعات میں قدرے مشترک یہی بادشاہ کے ظلم سے بچنے کے لئے پناہ لینا ہے۔
یہی حال ’صرف ایک دن کے لئے‘ کا ہے۔ منتریوں کے دوروں میں اور بادشاہوں کے دوروں میں کوئی فرق نہیں۔ جب بھی کوئی وزیر کا کسی پسماندہ علاقہ کا دورہ کرتا ہے تو اس علاقے کی تمام غلاظتوں کو ڈھک دیا جاتا ہے۔ اگر ممکن ہو تو اس علاقے کی ساری جھگی جھوپڑیوں کو بھی صاف کر دیا جاتا ہے۔ تاکہ بادشاہ وقت کی نظر ان غلاظتوں کو دیکھ کر گندی نہ ہو۔ اگر چہ ان کے اس عمل سے ہزاروں لوگ بے گھر ہو جائیں۔
’وارث‘ میں اگرچہ بادشاہ اپنے جانشین کو چننے کے لئے امتحان لیتا ہے اور اس میں اسی کو کامیاب قرار دیتا ہے جو لوگوں میں پھوٹ ڈال کر حکومت کرنے کا ہنر جانتا ہے مگر یہ افسانہ موجودہ حکمرانوں کی ذہنیت سے بھی پردہ اٹھاتا ہے۔ موجودہ سیاسی منظرنامہ میں سیاسی پارٹیاں انہیں کو الیکشن میں ٹکٹ دیتی ہیں جو لوگوں کو دھرم اور ذات کے نام پر باٹنے اور لڑانے کا ہنر جانتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سیاست میں جرائم پیشہ افراد کی بھر مار ہو گئی ہے۔ ملک میں آئے دن گھوٹالے ہو رہے ہیں۔
پروفیسر عتیق اللہ لکھتے ہیں :
’’یہ افسانے سیاسی طنز کی مثال بھی ہیں۔ جیسے موجودہ پورا نظام انسانیت اخلاقی زوال کا شکار ہے۔ ’ہمارا تمہارا خدا بادشاہ‘ کے بادشاہ کی فکر مندی، وارث کے بادشاہ وقت کا ابو شاطر کو ولی عہد بنانے اور ’صرف ایک شب کا فاصلہ‘ میں خاتون بادشاہ وقت کی اجتماعی نس بندی کے اطلاق کے پیچھے ہمارے وقتوں کی سنگدلانہ سیاست کا آسانی کے ساتھ نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ابن کنول کی خلق کردہ ان نامانوس دنیاؤں کی دو یا دو سے زیادہ معنوی سطحیں ہیں، ان کا تعلق کس حد تک ہمارے وقتوں کے انسانوں کی دو چہرگی سے ہے یا جس حاکم وقت خاتون اور اس کے بیٹے کا تذکرہ ہے ان کے اصل نام کیا ہیں۔ ابن کنول نے تخصیص کو تعمیم کے رنگ میں پیش کر کے اپنی کہانیوں کو ہر طرف سے کھلا رکھا ہے۔ اپنے قاری کو یہ چھوٹ دے رکھی ہے کہ وہ اپنے طور پر اور اپنی بساط کے مطابق انہیں معنی دے سکتا ہے۔‘‘
(پروفیسر عتیق اللہ، ابن کنول کا پس حقیقت کو کسب کرنے کا فن، اردو اکیڈمی کے ایک سمینار میں پڑھا گیا غیر مطبوعہ مضمون)
بعض ناقدین نے داستانوی اسلوب میں لکھنے کی وجہ سے ابن کنول پر انتظار حسین کے اثرات کی بات کی ہے۔ لیکن ابن کنول نے اس سے انکار کیا ہے۔ اپنے ایک انٹرویو میں ابن کنول نے کہا ہے کہ انہوں نے داستانوں کو پڑھ کر کہانی یا افسانہ لکھنا سیکھا ہے۔ اس وجہ سے داستانوی اثرات ان کے یہاں براہ راست داستانوں سے آئے ہیں۔ ابن کنول نے ’بوستان خیال‘ اور دوسری داستانوں کو حرف بحرف پڑھا ہے۔ اسی سے انہوں نے کہانی سے کہانی نکالنے کا ہنر سیکھا ہے۔
ابن کنول رقمطراز ہیں :
’’بیسویں صدی کے اوائل تک داستانوں کا ماحول رہا۔ داستانیں باقاعدہ شائع ہوتی رہیں اور پڑھی جاتی رہیں، اس لئے اس دور کے افسانہ نگاروں کے اسلوب پر لاشعوری یا شعوری طور پر ہی داستانوں کا اثر آ گیا۔ البتہ آہستہ آہستہ داستانوں کی جگہ حقیقت پسندانہ قصے مقبول ہونے لگے۔‘‘ (داستان سے ناول تک ص ۱۷۷)
ابن کنول کے کئی افسانوں کا پلاٹ اساطیری روایتوں سے تیار کیا گیا ہے۔ اس کی ایک واضح مثال ’صرف ایک شب کا فاصلہ‘ ہے۔ اصحاب کہف کے واقعہ سے اس کا پاٹ تیار کیا ہے۔ اسی طرح ’سویٹ ہوم‘ میں حضرت ابراہیم کے اس واقعہ سے کہانی کا پلاٹ تیار کیا گیا ہے جس میں وہ اسماعیل علیہ السلام کو مکہ میں چھوڑ کر چلے جاتے ہیں اور دھیرے دھیرے ایک مکہ شہر آباد ہو جاتا ہے۔ ویسے ابن کنول نے اپنے افسانوں میں اسلامی روایات سے بہت کام لیا ہے۔ ’تیسری دینا کے لوگ‘ میں بزرگ نمودار ہو کر فساد سے تباہ حال لوگوں کو عزم و حوصلہ دیتے ہیں اور خود کشی کے ارادے سے باز رہنے کی تلقین کرتے ہیں اور تین سو تیرہ والے واقعے کی تلمیح سے ان تباہ حالوں کو عزم و حوصلہ عطا کرتے ہیں۔ اسی طرح کے بزرگ کا ظہور ’پہلا آدمی‘ میں بھی ہوتا ہے۔ ’ایک ہی راستہ‘ میں ایک بزرگ کسی ایک برائی کے ختم کرنے کی طاقت دیتے ہیں۔ اگرچہ اس قسم کے واقعات عام طور پر ہندو اساطیر میں ملتے ہیں۔ اس کو وردان کا نام دیا جاتا ہے۔ مگر صوفیانہ روایات میں بعض مسلم صوفیا سے بھی اس قسم کی روایات منقول ہیں۔ ’سویٹ ہوم‘ میں ابابیلوں کی تلمیح بھی بہت معنی خیز ہے۔ یہ اور اس جیسی اسلامی روایات اور تلمیحات سے ابن کنول نے کہانی کو نیا موڑ دیا ہے۔ عموماً ان واقعات کو برائی سے لڑنے اور جد و جہد کرنے کا سبق دینے کے لئے استعمال کیا ہے۔
کہانی سے کہانی نکالنا داستانوں کا ایک خاص اسلوب ہے۔ پنچ تنتر اور الف لیلہ پڑھنے والوں کو معلوم ہو گا کہ سیکڑوں کہانیاں ایک دوسرے سے الگ ہوتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے باہم مربوط ہیں۔ اس طرح کہانی در کہانی داستان آگے بڑھتی رہتی ہے۔ اس اسلوب کو ابن کنول نے اپنے کئی افسانوں میں کامیابی کے ساتھ برتا ہے۔ ابن کنول کا افسانہ ’’شام ہونے سے پہلے‘‘ تین کہانیوں پر مشتمل ہے۔ راوی کو بیرون ملک وداع کرنے سے پہلے اس کی دادی یاقوت سوداگر کا واقعہ سناتی ہے، بیوی بلقیس کا واقعہ سناتی ہے۔ اور باپ ابو جبار کا واقعہ سناتا ہے۔ بیوی اور دادی کے کہانی کا لب لباب یہ ہے کہ شام ہونے سے پہلے گھر آ جانا ورنہ ان کرداروں کی طرح پچھتانا پڑے گا۔ جبکہ ابو جبار کے واقعہ میں اس بات پر زور ہے کہ بغیر روپیہ پیسہ کمائے واپس نہ آنا ورنہ ابو جبار کی طرح پچھتانا پڑے گا۔
اس کے علاوہ ابن کنول کے افسانوں میں چھوٹی چھوٹی کہانیوں کے ذریعہ افسانہ کو دلچسپ بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ کئی جگہوں پر ان چھوٹی اور مختصر کہانیوں کے ذریعہ کہانی کو نیا موڑ بھی دیا گیا ہے۔ ’جیت کس کی اور ہار کس کی‘ میں خواجہ اسد کے جہاز ٹوٹ جانے اور اس کے ایک دوسرے جزیرے میں پہنچنے کے بعد پھر گھر پہنچنے کے واقعہ کو بیان کر کے یوسف کے شوق کو اور مہمیز دیا گیا ہے۔
’خوف‘ میں دادی جان بچوں کو چھوٹی چھوٹی کہانیاں سناتی ہیں کہ کس طرح دنیا میں سبھی جاندار آدمی سے ڈرتے ہیں۔ آدمی شیر سے بھی نہیں ڈرتا، ہاتھی کو قابو میں کر لیتا ہے آدمی کی دہشت ننھے عاطف پر اس قدر بیٹھ جاتی ہے کہ اسے جب معلوم ہوتا ہے کہ کوئی آدمی دروازہ کھٹکھٹا رہا ہے تو مارے خوف کے بے ہوش ہو جاتا ہے۔
’خوف‘ ہی کی طرح ’قصہ صرف کتابوں کا‘ میں بھی قصہ گو کے ذریعہ کہانی بیان کی جاتی ہے جس میں دو بھائیوں کی محبت کی داستان ہوتی ہے، دونوں ایک دوسرے کے لئے قربانی پیش کرنے کے لئے تیار رہتے ہیں۔ مگر حقیقی زندگی میں جب اسی جیسے حادثے سے دوچار ہوتے ہیں تو کہانی قصے کی باتیں صرف کتابوں میں رہ جاتی ہیں۔ چھوٹے بھائی کے لئے قربانی کا جذبہ ہارون اصلی زندگی میں اپنے اندر نہیں پاتا اور اپنے بھائی سے مخاطب ہو کر کہتا ہے:
’’اے عزیز از جان! تو مجھے بے حد عزیز ہے لیکن میں بے بس اور لاچارہوں خدا کے لئے میری خاطر تو اس قربانی کے لئے خود کو تیار کر لے۔‘‘
’مرتے ہیں آرزو میں مرنے کے‘ میں بھی دادی جان کے ذریعہ ایک کہانی کے ذریعہ افسانہ کا پلاٹ تیار کیا گیا ہے۔ دادی جان ایک ایسے خونی جزیرے کا ذکر کر رہی تھیں جہاں کوئی خونی دیو رہتا تھا۔ بادشاہ نے اعلان کیا تھا کہ جو اس جزیرے میں کام کرے گا اور جان دے گا اس کے گھر والوں کو زر کثیر دیا جائے گا۔ اس اعلان پر بہت سارے لوگ وہاں کام کرنے پر راضی ہو گئے۔ یوسف نے بھی یہ کہانی سنی اور حکومت کی طرف سے خطرناک علاقے میں تعیناتی کو یہ سوچ کر قبول کر لیتا ہے کہ اس کی ناگہانی موت پر جو روپئے ملیں گے اس سے اس کی بیٹیوں کی شادی ہو جائے گی۔ مگر وہ صحیح سلامت واپس آ گیا۔ گھر کے دوسرے افراد کو تو خوشی ہوتی ہے مگر وہ خوش نہیں ہے۔ اس لئے کہ اب اس کے گھر والوں کو وہ روپئے نہیں ملیں گے جس سے وہ اپنی بیٹی کی شادی کر سکے۔
اسی طرح اور بھی بہت سے افسانے ہیں جس میں کہانی کے ذریعہ یا تو کہانی کو نیا موڑ دیا گیا ہے یا کہانی کو دلچسپ بنایا گیا ہے یا پھر اسی کہانی پر افسانے کا پلاٹ تیار کیا گیا ہے۔
زبان اور اسلوب کے علاوہ ابن کنول نے اپنے افسانوں میں عام طور پر کرداروں کے نام بھی اساطیری روایتوں کے لحاظ سے رکھا ہے۔’جیت کسی کی ہار کسی کی‘ میں کردار کا نام یوسف ہے۔ حضرت یوسف کی طرح اس افسانہ کا مرکزی کردار بھی مرا ہوا مان لیا جاتا ہے مگر بعد میں گھر واپس آ جاتا ہے۔ ’وارث‘ میں کرداروں کے نام ابو عقیل، جانباز خاں، خرد مند اور ابو شاطر ان کی صلاحیتوں اور اعمال کے مطابق رکھے گئے ہیں۔ یہی حال ’صرف ایک شب کا فاصلہ‘ کا بھی ہے۔ ابن کنول نے اپنے بعض افسانوں کے نام بھی داستانوں کے طرز پر رکھا ہے۔ جیسے ’ہمارا تمہارا خدا بادشاہ‘ اور ’آنکھوں کی سوئیاں‘ وغیرہ۔
ابن کنول کے یہ سبھی افسانے جن میں داستانوی اثرات ہیں سن ۱۹۸۰ سے پہلے کے ہیں۔ ۱۹۸۰ کے بعد کے افسانوں میں داستانوی عناصر کم ہیں۔ اس کے باوجود چند الفاظ ایسے ہیں جو ان افسانوں میں بھی مل جاتے ہیں۔ جیسے ’اور پھر ایسا ہوا‘ اور ’اور پھر یوں ہوا‘ یہ جملے بھی داستانوں اثرات کی نشاندہی کر رہے ہیں۔
پریم چند کے ابتدائی دور کے افسانوں میں داستانوں اثرات ملتے ہیں۔ وہ اردو افسانے کا تشکیلی دور تھا۔ اردو افسانہ ابھی داستان سے الگ اپنی پہچان بنا رہا تھا۔ اس کے باوجود پریم چند اپنے بہترین افسانوں میں ان افسانوں کو جگہ دیتے تھے جن میں داستانوی اثرات ہیں۔ پریم چند نے اپنے بہترین افسانوں کے انتخاب میں تقریباً آدھے افسانے ایسے رکھے ہیں جن پر داستانوی رنگ غالب ہے۔ وہ داستانوی اثرات کو کمزوری نہیں مانتے تھے۔ ابن کنول کے افسانوں میں بھی داستانوی اثرات ہیں مگر یہ اثرات ان کے یہاں عمداً ہیں۔ اگر چہ بعد کے افسانوں میں یہ اثرات تھوڑے مدھم ہوئے ہیں مگر ان اثرات کی وجہ سے ابن کنول کے افسانوں کی زبان میں مٹھاس اور روانی پیدا ہوئی ہے۔ ابن کنول کے یہاں جو کہانی پن پر زور ملتا ہے وہ داستانوی اثرات کی دین ہے۔ معاصر افسانہ نگاروں میں کہانی پن پر جس قدر زور ابن کنول کے یہاں ہے کسی اور افسانہ نگار کے یہاں دیکھنے کو نہیں ملتا۔
پروفیسر عبد الحق ’بند راستے‘ کے افسانوں پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’بند راستے کے افسانوں میں فن کی فسوں کار تکنک اور مثبت فکر کا اوج و عروج کہانی کی روایت میں چراغ رہ گذر کے طور پر تسلیم کیا گیا۔ ان میں فن کے استقبال اور اضافے کی بڑی وسعت پائی گئی۔ ہماری افسانہ نگاری کا ایک معتد بہ حصہ مذموم اور پراگندہ خیالی کی بڑی مکروہ تصویر پیش کرتا ہے۔ حقیقت کے نام پر گھناؤنے فریب نے تخلیقی تحریم کو ہدف بنایا۔ ایسی فضا میں اقدار کا چراغ جلائے رکھنے والوں کا میں بڑا احترام کرتا ہوں۔ ان کی کہانیوں میں اقدار کی ارجمندی نے مجھے طمانیت بخشی ہے۔ ان کے افسانے اس لئے بھی دل کشی رکھتے ہیں کہ وہ قصہ اور کہانی کے لطف خاص سے بھر پور ہیں۔ کہانی جب قصہ پن سے خالی ہو کر نظریہ سازی یا فلسفہ طرازی کی بات کرتی ہے تو قاری پر تکدر طاری ہو جاتا ہے۔ ڈاکٹر ابن کنول نے اساطیری اسالیب بیان کی تجدید کو آگے بڑھا کر اپنی پہچان پیش کی ہے۔‘‘
(پروفیسر عبد الحق، داستان سے ناول تک، ص ۷)
پروفیسر عبد الحق نے ابن کنول کے افسانوں کی تین اہم خصوصیات پر روشنی ڈالی ہے۔ اقدار کی ارجمندی، قصہ پن سے بھر پور افسانے اور اساطیری اسالیب بیان کی تجدید۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے افسانہ نگاروں نے حقیقت بیانی کی آڑ میں ہر اس چیز کو صفحۂ قرطاس کی زینت بنا دیا ہے جس کو کم از کم ہمارا مشرقی معاشرہ قبول کرنے سے قاصر ہے۔ ناقدین نے بھی ان افسانوں کو اردو افسانے کا ماسٹر پیس ثابت کرنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی۔ کسی نے صحیح کہا ہے کہ ہمارے ناقدین نے حقیقت پسندی کے نام پر طوائفوں کی اس قدر تعریفیں کی ہیں کہ ان کے گراہکوں نے بھی شاید نہ کی ہو۔ ابن کنول افسانہ نگار کے ساتھ ایک ناقد بھی ہیں۔ انہوں نے اپنے افسانوں میں فحاشی کو جگہ دی ہے اور نہ ان کی تنقیدوں میں ان کے لئے کوئی جگہ ہے۔
در اصل کہانی یا قصہ پن داستانوی ادب کی جان ہے۔ داستان اگرچہ صرف کہانی قصہ ہی نہیں بلکہ تہذیبی مرقعے بھی ہیں۔ بقول ابن کنول ’داستانوں میں اگرچہ فرضی کہانیاں بیان کی جاتی ہیں لیکن ان داستانوں میں جو تہذیبی مرقعے ہیں، وہ سو فی صدی سچ ہیں‘ لیکن داستانوں میں پورا زور کہانی پر ہوتا ہے۔
افسانوں میں داستانوی طریقۂ اظہار آسان نہیں ہے۔ اس کے لئے فنی چابکدستی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ابن کنول نے اپنے ایک مضمون میں ان لوگوں کو جواب دیا ہے جو داستان طرازی کو سہل پسندی سے تعبیر کرتے ہیں :
’’۔۔ یہ کہنا سراسر بد دیانتی ہے کہ داستان طرازی آسان فن ہے۔ دوسرے جن افسانہ نگاروں نے داستانوی طریقۂ اظہار کو اختیار کیا ہے انہوں نے بیشتر افسانے اس تکنیک سے ہٹ کر لکھے ہیں۔ در اصل موضوع خود بخود تکنیک تلاش کر لیتا ہے اور افسانہ نگار کو یہ فیصلہ کرنے میں دیر نہیں لگتی کہ اپنی بات کہنے کے لئے کس طرز اظہار کو اپنایا جائے جو موضوع کا حق بھی ادا کر دے اور متاثر کن بھی ہو۔ ایسا نہیں ہے کہ داستانوی طریقۂ اظہار کو اپنا کر آج کا افسانہ نگار داستان، تمثیل یا حکایت کی طرف لوٹ رہا ہے۔ سچ یہ ہے کہ داستانوں سے کہانی کہنے کا فن سیکھ رہا ہے۔ میرا خیال ہے کہ افسانوی نثر سیکھنے کے لئے داستانوں کا مطالعہ ازبس ضروری ہے۔‘‘
(داستان سے ناول تک، ابن کنول، ص: ۱۷۹)
٭٭٭٭
بحوالہ: اردو ریسرچ جرنل