ایک نظم
(عابد سہیل اور ندا فاضلی کے سانحۂ ارتحال پر)
یہ کیسا ماتم کدہ ہے
جانے یہ کیسی چیخیں
عجیب سا شور
اور اس میں یہ ایک کونے میں
اک میلی چادر میں لپٹی ہوئی خامشی
یہاں؟ یہ تو کچھ دن ہوئے
ابھی بمبئی (نہیں ممبئی) میں تھی
پھر لکھنؤ… اور پھر اب ممبئی میں یہاں؟
یہ اتنی گمبھیر خامشی
جانے کسی کے تعاقب میں ہے
کسے ڈھونڈتی پھر رہی ہے
مرے ساتھ اس چائے خانے میں کیا کر رہی ہے
یہ چائے کے ایک کپ میں کن ڈوبتے ستاروں کو گن رہی ہے
یہاں لوگ باتوں میں مصروف ہیں۔ ہنس رہے ہیں …مگر
اسے کیا ہوا؟
ہوش میں آؤ
میں اس کو سمجھا رہا ہوں
(اسی کی زباں میں)
مگر یہ مسلسل…
عجیب پاگل ہے
رو رہی ہے …
٭٭٭
پاس کی دوری
وہ سوتی ہے
اور میں اب تک جاگ رہا ہوں
اس کا سر تکیے سے ڈھلکا
میں نے آ کر
آہستہ سے پھر اس کا سر تکیے پر رکھا
میں نے دیکھا
اس کی پلکوں پر ایک ستارہ
میں نے دیکھا اس تکیے کے نیچے اک سچا موتی
وہ جو میری بانہوں کے حلقے میں سوتی ہے
وہ کیا جانے پاس کی دوری کیا ہوتی ہے
٭٭٭