میری جنم بھومی میں
میرے دیس میں
میری دھرتی میں
کبھی چار موسم ہوتے تھے
اب اک ایسا موسم در آیا ہے
جس نے ان چاروں پر اپنا رنگ چڑھا دیا ہے
یہ نہ تو خوشی لایا ہے
نہ اداسی
اور نہ ہی کچھ اور
بلکہ یہ لایا ہے
اِک ایسا خوف
جو کبھی موسموں میں نہ تھا
خوابوں میں نہ تھا
خیالوں میں نہ تھا
میری جنم بھومی میں
میرے دیس میں
میری دھرتی میں
یہ خوف
سمندر پار
ہمارے بچوں کے
ان کے بچوں کے
دریچوں میں
ان کی ورک پلیسز میں
ان کے سکولوں میں
اور میرے گھر کے آنگن میں
میرے گیراج میں
میرے کمرے کے گلاس ڈور کے باہر
ایسے پانیوں کی طرح
جس میں آکٹوپس، آکٹوپس ہی تیر رہے ہوں
پھیلا ہے
کون باہر نکلے
بلکہ پاؤں ہی باہر دھرے
اور اپنے اَمیون سسٹم
اپنے پھپھڑوں
اپنے گردوں
اپنے وائٹل آرگنز پر
اس خوف کے نشان ثبت کرائے