چھوٹی آپا ۔۔۔ ابن کنول

بارہ برس کی طویل مدت کے بعد میں علی گڑھ جا رہا تھا۔ ساجدہ باجی نے بہت بہت لکھا کہ اگر تم نہیں آئے تو عمر بھر کے لیے لڑائی ہو جائے گی۔ ساجدہ باجی میری سب سے بڑی بہن ہیں۔ جب ہم علی گڑھ میں رہتے تھے تو ان کی شادی عمران بھائی سے ہوئی تھی۔ اب وہ اپنی لڑکی کی شادی کر رہے تھے اور ہم سب کو بلایا تھا، امی اور ابّا کے علاوہ ریحان اور اس کے بچّے بھی ساتھ جارہے تھے۔ ریحان اور سائمہ کی شادی کو کئی سال ہو گئے۔ میں اس سے بڑا ہونے کے باوجود ابھی تک تنہا تھا۔ کبھی اتنی فرصت ہی نہیں ملی کہ شادی کے بارے میں سوچتا۔

بمبئی سے جب ہم لوگ گاڑی پر سوار ہوئے تو مجھے ایک ایک کر کے سب ہی رشتہ داروں اور دوستوں کی باتیں یاد آنے لگیں۔ چچا جان! چچا جان کے تو اب بال بھی سفید ہو گئے ہوں گے۔ سعید! چچا جان کا لڑکا، جو میرے سامنے پانچویں کلاس میں تھا، اب تو پہچان میں بھی نہیں آئے گا اور خالہ امی تو بالکل ہی بڑھیا ہو گئی ہوں گی۔ کتنا پیار کرتی تھیں خالا امّی مجھے۔ جیسے میں ان ہی کا بیٹا ہوں۔ انھوں نے تو مجھے گود میں کھلایا تھا۔ بڑی آپا بھی تو مجھ سے کافی بڑی ہیں۔ ان کے بچّے بھی تو جوان ہو گئے ہوں گے۔ پچھلے سال مجھے انہوں نے سب کے فوٹو بھیجے تھے، کتنے بڑے ہو گئے ہیں۔

سب مجھے تو پہچانیں گے بھی نہیں، خالہ امی کی دو لڑکیاں مجھ سے بڑی تھیں، ایک کو میں بڑی آپا اور دوسری کو چھوٹی آپا کہا کرتا۔ چھوٹی آپا کا خیال آتے ہی مجھے ان کی سب باتیں یاد آنے لگیں۔ چھوٹی آپا مجھ سے دو ایک سال ہی بڑ ی تھیں۔ بچپن میں ہم دونوں ساتھ کھیلا کرتے تھے۔ چھوٹی آپا بڑی پیاری سی تھیں۔ اپنے گھر میں سب سے زیادہ خوبصورت۔ سب ہی انہیں چاہتے تھے۔ ’’چھوٹی آپا! ہم تو آپ ہی سے بیاہ کریں گے۔‘‘ اس وقت میں آٹھ سال کا تھا۔ ’’آپ ہماری دلہن بنیں گی نا‘‘۔ شادی کی بات پر وہ مجھے مارنے کے لئے دوڑتیں۔

’’کیوں رے، مجھ سے شادی کرے گا؟ میں تو تجھ سے بہت بڑی ہوں۔ روزانہ پٹائی کیا کروں گی۔‘‘

میں خالا امّی کے پیچھے چھپ جاتا۔ وہ مجھے پکڑنا چاہتیں۔ میں خالا امی کے چاروں طرف چکر لگاتا۔ وہ چور سپاہی کے کھیل کی طرح میرے پیچھے دوڑتیں پھر خالا امّی کہتیں۔

’’تمہاری چھوٹی آپا کے لیے ایسا دولہا لائیں گے جو ان کی خوب پٹائی کیا کرے۔ تمہیں بہت پریشان کرتی ہیں۔‘‘

’’نہیں خالا! میں جب ان کا دولہا بن جاؤں گا تو میں ہی پٹائی کر دیا کروں گا۔‘‘

’’ارے جاؤ، بڑے آئے پٹائی کرنے والے۔ اُلٹا لٹکا دوں گی۔‘‘ چھوٹی آپا چھت کی طرف اشارہ کر کے کہتیں۔

’’چل ہٹ! میرے بچّے کو الٹا لٹکائے گی۔!‘‘ خالا امّی انہیں یوں ہی ڈانٹ دیتیں۔ وہ مایوس ہو کر کہ میں اب ان کے ہاتھ نہیں آنے والا، دوسرے کمرے میں چلی جاتیں۔ تھوڑی دیر بعد میں بھی ان کے پاس چلا جاتا اور ہم دونوں میں پھر دوستی ہو جاتی۔ ہم دونوں کا ایک دوسرے کے بغیر کبھی دل نہیں لگتا، جب موقع ملتا میں ان کے یہاں چلا جاتا یا وہ ہمارے یہاں آ جایا کرتیں۔

بڑی آپا کی شادی کے وقت میری عمر دس سال تھی، بڑی آپا کی شادی بڑی دھوم دھام سے ہوئی تھی۔ نانا اور نانی اماں بھی گاؤں سے آئے تھے۔ شادی تو خوشی خوشی ہو گئی لیکن شادی کے چند مہینے بعد ہی خالو جان کا انتقال ہو گیا۔ اب خالا امّی اور چھوٹی آپا تنہا رہ گئیں۔ کچھ عرصہ بعد نانا ابّا، خالا امی اور چھوٹی آپا کو اپنے گاؤں لے گئے اور یہ لوگ گاؤں میں ہی رہنے لگیں۔ گاؤں میں آٹھویں جماعت تک ایک اسکول تھا، چھوٹی آپا نے وہیں سے آٹھویں پاس کیا اور پھر تعلیم کا سلسلہ منقطع ہو گیا۔

ہم لوگ ہر گرمیوں کی چھٹّیوں میں اس طرح گاؤں جایا کرتے جیسے کسی پہاڑی علاقے میں لوگ گرمیاں گزارنے جاتے ہیں۔ میں کچھ بڑا ضرور ہو گیا تھا لیکن چھوٹی آپا کے ساتھ پہلے ہی کی طرح کھیلتا۔ چھوٹی آپا تو کافی بڑی ہو گئی تھیں۔ ان کا پردہ بھی کرا دیا گیا تھا۔ ایک بار نانا ابّا کا خط آیا کہ ان چھٹیوں میں تم سب آ جاؤ۔ نزہت کی شادی انہی چھٹیوں میں کرنی ہے، چھوٹی آپا کی شادی کی خبر سن کر مجھے ایسی خوشی ہوئی جیسے میری ہی شادی ہو رہی ہو۔ میں دعا مانگنے لگا کہ اﷲ میاں جلدی سے میرے اسکول بند ہو جائیں اور میں گاؤں چلا جاؤں۔ چھٹّیاں ہوتے ہی میں نے شور مچانا شروع کیا۔ میری اس شدّت اصرار کے سبب امّی مجھے اور ریحان کو لے کر گاؤں چلی آئیں۔ شادی کے ابھی پندرہ دن باقی تھے لیکن تمام تیاریاں مکمل ہو چکی تھیں، نانا ابّا گاؤں کے بڑے زمینداروں میں سے تھے۔ پورے گاؤں میں ان کی بہت عزّت کی جاتی تھی۔ میں جب بھی گاؤں آتا تو مجھے یہاں رہ کر ایسا لگتا جیسے میں کہیں کا نواب ہوں۔ شہر سے جانے کے سبب سب لوگ میری بڑی عزّت کرتے تھے۔

نانا ابّا یہ شادی بڑی دھوم دھام سے کرنا چاہتے تھے تاکہ خالا امّی کو اس بات کا احساس نہ ہو کہ خالو کے انتقال کی وجہ سے چھوٹی آپا کی شادی اچھّی طرح نہ ہو سکی۔

کچھ ہی دنوں میں بہت سارے مہمان اکٹھے ہو گئے۔ نانا ابّا نے سب ہی کو بلایا تھا۔ نانا ابّا کا گھر بہت ہی بڑا تھا۔ بچّوں اور بڑوں کی افراط سے خوب رونق ہو گئی تھی۔ میں چھوٹی آپا کو اب بھی پریشان کرتا۔

’’بھئی یہ بڑا بُرا ہوا، سنا ہے اقبال بھائی کا رنگ اُلٹے توے جیسا ہے۔ آنکھیں بھی ڈیڑھ ہیں۔ کیوں خالا امّی کچھ لنگڑاتے بھی تو ہیں نا؟‘‘

میں خالا امّی سے زبردستی ہاں کہلواتا لیکن اب چھوٹی آپا دور ہی سے چانٹا دکھاتیں۔ مجھے مارنے کے لیے نہیں دوڑتیں۔ اقبال بھائی کے ذکر سے تو ایسے بھاگتیں جیسے لاحول سے شیطان بھاگتا ہے۔ بارات آنے سے کچھ روز قبل انہیں مائیوں بٹھا دیا گیا۔ اب تو ان کا باہر چلنا پھرنا بھی بند ہو گیا تھا لیکن میں اپنی شرارت سے باز نہیں آتا۔ انہیں کے پاس جا کر بیٹھتا، دودھ اور جلیبی میں سے اپنا حصہ لے لیتا، وہ بھی تو میرے بغیر نہیں کھاتی تھیں۔ نانی امّاں کہتیں۔ ’’ارے اندر نہیں گھستے۔ لڑکے تو باہر کھیلتے ہیں۔‘‘ لیکن اچھّے بچّے نانی اور دادی کا کہنا تھوڑے ہی مانتے ہیں۔ میں بھی تو اچھا بچہ تھا۔ اس لیے ان کی بات کا کوئی اثر نہیں لیتا اور وہ بھی تو مجھے چھیڑنے کے لیے کہتی تھیں۔

پھر ایک دن اقبال بھائی دولہا بن کر آ ہی گئے۔ ہم سب بارات کے استقبال کے لیے گاؤں کے چھوٹے سے اسٹیشن پر گئے تھے۔ میں نے انہیں شاید پہلی بار دیکھا تھا۔ وہ ہمارے کسی دُور کے رشتے سے بھائی وغیرہ ہوتے تھے۔ اقبال بھائی کو دیکھ کر مجھے بڑی مسرت ہوئی۔ جیسی چھوٹی آپا حسین تھیں، اقبال بھائی اتنے ہی اسمارٹ تھے۔ اچھے لحیم شحیم جو ان آدمی تھے۔ قد چھ فٹ سے کسی طرح کم نہ تھا۔ بھاری بھاری چہرے پر باریک مونچھیں۔ جیسے سرمہ کی سلائی سے بنائی گئی ہوں۔ ان کی جاذبیت میں اور بھی اضافہ کر رہی تھیں۔ چوڑی دار پاجامہ اور شیروانی میں وہ بالکل شہزادے معلوم ہو رہے تھے۔ بھری بھری پنڈلیوں کے نیچے پاجامے کی جمی ہوئی چوڑیاں کسی موٹی عورت کی چوڑیوں سے بھری ہوئی کلائیاں لگ رہی تھیں۔ گھٹنوں تک لٹکتے ہوئے بیلے اور گلاب کے پھولوں سے گندھے ہوئے سہرے کی لڑیاں ان کو اور بھی دلکش بنا رہی تھیں۔ میری تو ان سے بڑی دوستی ہو گئی۔ پھر میں ان سے ذرا دیر کے لیے بھی جدا نہیں ہوا اور ایک بار چھوٹی آپا کو جا کر بتا بھی آیا کہ اقبال بھائی کیسے ہیں۔

بارات ایک دوسرے مکان میں ٹھہرائی گئی تھی۔ وہیں پر کھانے وغیرہ کا انتظام تھا۔ نانا ابّا نے پوری بستی کو کھانے پر مدعو کیا تھا۔ نانا ابّا نے کہا تھا کہ میرے لیے تو اب یہ آخری شادی سمجھو۔ بوڑھا آدمی ہوں، نہ جانے کب چل بسوں۔ اور ہوا بھی یہی۔ چھوٹی آپا کی شادی کے کچھ سال بعد ہی نانا ابّا اﷲ کو پیارے ہو گئے تھے۔

میری خواہش تھی کہ اقبال بھائی، جنہیں میں نے دولہا بھائی کہنا شروع کر دیا تھا باجے کے ساتھ گھوڑے پر بیٹھ کر آئیں جس طرح شنکر بابو کے یہاں بارات آئی تھی۔ گھوڑے پر بیٹھ کر وہ کتنے اچھے لگتے۔ لیکن ہمارے بزرگوں کا عجیب رواج ہے۔ کہ باجے کی رسم کو شرعاً ناجائز کہتے ہیں۔ بھلا بتاؤ باجے میں کیا برائی ہے۔ شادی پر تو ناچنے والے بھی آئیں تو کم ہے۔

دوسرے دن بارات کو رخصت ہونا تھا۔ رخصت سے قبل اقبال بھائی کو سلامی کے لیے عورتوں میں بھیجا گیا۔ بیچارے اقبال بھائی شرماتے ہوئے اندر پہنچے۔ چھوٹی آپا کی سہیلیاں اور خاندان کی دوسری لڑکیاں، جو سب اقبال بھائی کی سالیاں کہی جا سکتی تھیں، ان کے استقبال کے لیے دروازے پر ہی کھڑی تھیں۔ سب نے اُنھیں ہاتھوں ہاتھ لیا۔ شادی کی یہ منزل دولہا کے لیے بڑی مشکل ہوتی ہے۔ اچھّے اچھّے تیز لڑکے بھی پناہ مانگ جاتے ہیں۔ لڑکیاں انھیں اندر لے گئیں۔ ایک کمرے میں فرش پر دری اور چاندنی بچھی ہوئی تھی جس کے دوسری جانب ایک کرسی رکھی تھی۔ اقبال بھائی کو اسی کرسی پر بیٹھنا تھا جوتے اتار کر چاندنی پر ہوتے ہوئے اقبال بھائی کرسی پر بیٹھ گئے۔ سب نے چاروں طرف سے گھیر لیا اور ہنسی مذاق کا آغاز کیا بلکہ کہنا چاہئے ستانا شروع کیا۔ بیچارے اقبال بھائی دلہن کی طرح خاموش بیٹھے رہے۔ کبھی ہاں یا نا کردیا کرتے۔ ایک لڑکی پان لے کر آئی اور انہیں زبردستی کھلانے لگی۔ اقبال بھائی کو معلوم تھا کہ پان کے اندر مٹھی بھر سے کم نمک نہ ہو گا۔ اس لیے وہ پان کھانے پر کسی طرح تیار نہ ہوئے۔ اُسی وقت نانی اماں راستہ بناتی ہوئی آئیں اور لڑکیوں کو ڈانٹتے ہوئے بولیں۔ ’’ارے لڑکیوں ہٹو یہاں سے، کیوں بیچارے کو پریشان کرتی ہو‘‘ جبکہ نانی امّاں نے اپنے دنوں میں جانے کتنے نئے دولہا بھائیوں کو پریشان کیا ہو گا۔ نانی اماں کے قریب آتے ہی اقبال بھائی سلام کرنے کے لیے اٹھے۔ لیکن انہیں لگا جیسے ان کی شیروانی کچھ بھاری ہو گئی ہے۔ انہوں نے ذرا سا گھوم کر دیکھا تو کمرہ قہقہوں سے گونج اٹھا۔ ان کی شیروانی کے ساتھ کرسی کا گدا سی دیا گیا تھا۔ نانی اماں سے کسی نے کہا کہ نانا آواز دے رہے ہیں تو وہ مجبوراً وہاں سے چلی گئیں اور لڑکیوں کو پھر آزادی مل گئی۔ جب اقبال بھائی مردانے میں جانے کے لیے اٹھے تو ایک جوتا بھی غائب تھا جس کے لیے کافی انتظار کرنا پڑا۔

رخصت کے وقت چھوٹی آپا ایک ایک سے مل کر خوب روئی تھیں اور جب میں ان سے ملنے گیا تھا تو وہ مجھے چمٹا کر کتنا روئی تھیں۔ میں بھی تو بہت رویا تھا۔ سب ہی مجھے سمجھا رہے تھے۔ دلہن بنی ہوئی چھوٹی آپا بڑی پیاری لگ رہی تھیں۔ دل چاہتا تھا کہ انہیں دیکھتے ہی رہیں۔ نانی اماں نے تو جانے کتنی بار بلائیں لے کر اُنگلیاں چٹخائی تھیں۔ پھر اس سرخ جوڑے میں لپٹی ہوئی چھوٹی آپا کو اس طرح پالکی میں رکھ دیا گیا تھا جیسے کسی مورتی کو ایک مندر سے دوسرے مندر میں رکھا گیا ہو۔ گاؤں میں پالکی کا رواج اب بھی تھا۔ پالکی میں بیٹھ کر اسٹیشن جانا تھا۔ اسٹیشن زیادہ دور نہیں تھا اس لیے باقی لوگ پیدل ہی گئے۔ جب پالکی دروازے سے چلی تو مٹھّی بھر بھر کے پیسے پالکی کے اوپر سے پھینک کر دلہن کا صدقہ اتارا گیا۔ گاؤں کے سب ہی بچّوں نے پیسے لوٹے تھے۔ چھوٹی آپا رخصت ہو کر سسرال چلی گئیں۔ ان کے جانے کے بعد مہمان ہونے کے باوجود گھر سونا سونا لگ رہا تھا۔ چھٹیوں کے بعد ہم سب واپس علی گڑھ چلے آئے،چھوٹی آپا سسرال کی ہو کر رہ گئیں۔ آہستہ آہستہ کئی سال گزر گئے۔ چھوٹی آپا جمال اور صوفیہ کی امّی بھی بن گئیں۔ وہ کبھی کبھی مہمانوں کی طرح ہمارے یہاں بھی آیا کرتیں اور ایک دو دن رہ کر واپس چلی جاتیں۔ میں بھی بچپن کی حدوں کو چھوڑ چکا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ادھر میں نے سلسلۂ تعلیم کو الوداع کہا۔ ادھر ابّا نے مجھے رحمان چچا کے ساتھ بمبئی روانہ کر دیا۔ رحمان چچا اور ابّا کی ایسی دوستی تھی جس کی شدّت کے اظہار کے لیے ’’لنگوٹیا یار‘‘ کی ترکیب تشکیل کی گئی تھی۔ ہم سب انہیں رحمان چچا کہا کرتے تھے۔ رحمان چچا نے کافی عرصہ پہلے بمبئی جا کر اپنا کاروبار شروع کیا تھا۔ اور رفتہ رفتہ اس کاروبار کو وسیع پیمانے پر پھیلا لیا۔ رحمان چچا اکیلے ہی تھے۔ ان کے ساتھ صرف بوڑھی والدہ رہا کرتی تھیں۔ شادی کی تھی مگر اولاد سے محروم رہے۔ اولاد سے تو محروم تھے ہی، چند سال بعد قدرت نے بیوی سے بھی محروم کر دیا۔ پھر انہوں نے دوسری شادی نہیں کی۔ اپنے کاروبار ہی کو سب کچھ سمجھا۔ مجھے اپنے ساتھ لے جانے کا مقصد یہ تھا کہ ان کی غیر موجودگی میں کاروبار کو سنبھالے رکھوں۔

بمبئی آنے کے بعد شروع میں تو تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد میں علی گڑھ جاتا رہا۔ پھر صرف عید پر جایا کرتا۔ آخری بار علی گڑھ اس وقت گیا تھا جب نانا ابّا کے انتقال کی خبر آئی تھی۔ انہی دنوں اقبال بھائی کی نوکری بھی علی گڑھ میں لگ گئی تھی اور وہ چھوٹی آپا کو لے کر علی گڑھ آ گئے تھے۔ چھوٹی آپا اب بھی اتنی ہی خوبصورت تھیں لیکن ان کی باتوں سے لگتا تھا کہ وہ بڑی ہو گئی ہیں۔ میں تین چار دن رکنے کے بعد بمبئی چلا آیا تھا۔ پھر پورے بارہ سال تک علی گڑھ نہ جا سکا تھا۔ رحمان چچا تو بہت بوڑھے ہو گئے تھے۔ تمام ذمہ داریاں میرے ہی اوپر تھیں۔ ابّا، امّی اور ریحان کو بھی بمبئی بلا لیا تھا۔

ایک دن اچانک علی گڑھ سے تار آیا دولہا بھائی کا انتقال ہو گیا تھا۔ ہم لوگوں کو یقین نہ آیا۔ اطلاع ملتے ہی ابّا علی گڑھ چلے گئے لیکن کام زیادہ ہونے کے سبب میں نہ جا سکا۔ پھر بھی میرا کام میں بالکل دل نہیں لگ رہا تھا۔ بار بار چھوٹی آپا کا معصوم چہرہ آنکھوں کے سامنے آ جاتا۔ اتنی جلد وہ بیوہ ہو جائیں گی! کسی نے سوچا بھی نہ تھا۔ ان کی پیاری پیاری باتیں اور اپنی شرارتیں یاد کر کے میرا دل بھر آتا۔ میرے بمبئی آنے کے بعد وہ صبیحہ کی امّی بھی بن گئی تھیں۔ صبیحہ کا نام بھی میں نے ہی لکھ کر بھیجا تھا۔ اقبال بھائی نے مجھے لکھا تھا کہ تمہاری چھوٹی آپا کا اصرار ہے کہ اپنی بھانجی کا نام تم ہی لکھ کر بھیجو۔ اقبال بھائی کچھ بیمار بھی تو نہ ہوئے تھے۔ بس اچانک خون کی قے کی اور ہمیشہ کے لیے چھوٹی آپا کو تنہا چھوڑ گئے۔

اقبال بھائی کے انتقال کے بعد مجھے چھوٹی آپا کے حالات معلوم ہوتے رہے۔ انہوں نے ٹیچرس ٹریننگ کرنے کے بعد ایک چھوٹے سے اسکول میں نوکری کر لی تھی۔

اور اب ایک طویل مدت کے بعد علی گڑھ جاتے ہوئے دل کو یہ خیال بار بار پریشان کر رہا تھا کہ ان چھوٹی آپا کو بیوگی کے لباس میں کیسے دیکھ سکوں گا، جنہیں دلہن کے جوڑے میں ایک دن رخصت کر کے آیا تھا۔ اسٹیشن سے سیدھے ساجدہ باجی کے گھر گئے۔ گھر میں خوب چہل پہل تھی۔ ہمیں دیکھتے ہی سب خوش ہو گئے خالا امّی بھی ساجدہ باجی کے یہاں موجود تھیں۔ وہ واقعی بڑھیا ہو گئی تھیں۔ سر کے بال بالکل سفید ہو گئے تھے۔ بیٹی کے غم نے کمر کو جھکا دیا تھا۔ مجھے دیکھ کر سینے سے لگایا جیسے کوئی ماں اپنے بچھڑے ہوئے بیٹے کو چمٹا لیتی ہے۔ میں نے چھوٹی آپا کے بارے میں معلوم کیا۔ وہ اپنے گھر پر تھیں۔ ایک بار پھر میرا دل ان سے ملنے کے لیے اس طرح بے قرار ہو گیا جیسے کبھی بچپن میں ان کے بغیر مجھے کہیں چین نہیں پڑتا تھا۔ تھوڑی دیر ٹھہرنے کے بعد میں ساجدہ باجی کے سب سے چھوٹے لڑکے یوسف کو لے کر چھوٹی آپا کے گھر چلا گیا۔

چھوٹی آپا کو دیکھ مجھے شاک سا لگا۔ وہ بالکل ہی بدل گئی تھیں۔ چہرے کی تمام تازگی ختم ہو چکی تھی۔ زردی مائل چہرے پر جھُرّیاں اُبھرنے لگی تھیں۔ آنکھوں سے ویرانی جھانک رہی تھی۔ ایسا لگتا تھا جیسے برسوں بیمار رہی ہوں۔ میرے قریب آ کر چھوٹی آپا نے میرے کندھے پر سر رکھ دیا اور سسکیاں بھرنے لگیں۔ پہلی بار جب کوئی عزیز پُرسے کے لیے آیا کرتا ہے تو اس سے مل کر اسی طرح رویا کرتے ہیں۔ شاید چھوٹی آپا روتے روتے تھک چکی تھیں۔ ان کی سسکیاں گھُٹی گھُٹی سی تھیں۔ لیکن زخم بالکل تازہ معلوم ہو رہا تھا۔ میں نے انہیں تسلّی دی۔ میں خود اپنے آپ کو سنبھال نہیں پا رہا تھا۔ یوسف کو صبیحہ اپنے ساتھ لے جا کر کھِلونے دکھانے لگی۔ میں اور چھوٹی آپا وہیں بیٹھ گئے۔ ان کا جی اتنا بھرا ہوا تھا کہ گفتگو کے دوران الفاظ الجھ رہے تھے۔ میرا دل چاہا کہ خوب روؤں۔ اتنے دن بعد چھوٹی آپا سے ملا لیکن کس حالت میں۔ میں تو انہیں ہنستا ہوا چھوڑ کر گیا تھا اور اقبال بھائی تو مجھے اسٹیشن تک پہنچانے آئے تھے۔ مجھے رہ رہ کر تمام باتیں یاد آنے لگیں۔ جب ہی یوسف دوڑتا ہوا آیا اور میری ٹانگوں میں گھس گیا، اس کے پیچھے پیچھے صبیحہ بھی تھی۔ جو دروازے پر ہی رک گئی۔ یوسف اس کی طرف دیکھ کر بولا۔

’’صبیحہ باجی، ہم تو آپ ہی سے بیاہ کریں گے۔‘‘ صبیحہ وہیں کھڑی کھڑی بولی۔ ’’مجھ سے بیاہ کرو گے۔ میں تو تم سے بہت بڑی ہوں۔ روزانہ پٹائی کیا کروں گی۔‘‘

مجھے لگا جیسے یہ یوسف نہیں، میں ہوں اور دروازے پر کھڑی صبیحہ نہیں بلکہ چھوٹی آپا ہیں۔ میں نے چھوٹی آپا کی طرف دیکھا۔ آج پہلی بار اس بات پر انہوں نے نگاہیں جھکا لیں۔ وہ مجھے مارنے کے لیے نہیں دوڑیں اور میں بھاگا نہیں۔ میں نے چھوٹی آپا کے چہرہ سے نگاہیں ہٹا کر یوسف سے کہا،

’’ہاں، ہاں!! بیٹے تیرا بیاہ صبیحہ سے ہی کریں گے‘‘۔

یوسف اس بات پر خوشی سے تالیاں بجا بجا کر اُچھلنے لگا اور صبیحہ کمرے کے اندر چلی گئی۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے