پورے شہر میں خوف و ہراس برسات کے بادلوں کی طرح چھا گیا تھا، ہر شخص حیران و پریشان تھا کسی کو یہ معلوم نہیں تھا کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ اس آسمانی عذاب کا سبب کیا ہے؟ کیوں ہر روز ایک شخص کی زندگی کی ختم ہو جاتی ہے۔
ہوا یوں تھا کہ ایک روز جب آفتاب کی روشنی عالم آب و گل کو منور کر چکی تھی، بازار اور دکانیں معمول کے مطابق پر رونق ہونے لگی تھیں کہ فضا میں ایک عقاب تیز رفتار پرواز کرتا ہوا نظر آیا۔ قابل ذکر بات یہ تھی کہ اس کے پنجوں میں ایک مارِ سیاہ لٹکا ہوا تھا تھوڑی دیر تک وہ عقاب بازار کے اوپر منڈ لاتا رہا۔ پھر یوں ہوا کہ وہ سانپ بازار میں خرید و فروخت کرتے ہوئے ایک شخص کی گردن پر جا پڑا۔ اس سے پہلے کہ وہ آدمی کسی کو مدد کے لیے پکارتا، سانپ نے اپنے زہریلے پھن سے اس کی پیشانی کو داغ دیا، ابھی کوئی دوسرا شخص اس کے قریب بھی نہ پہنچا تھا کہ عقاب زمین کی طرف جھپٹا اور سانپ کو اپنے پنجوں میں دبا کر غائب ہو گیا۔ یہ سب کچھ اتنی تیزی سے ہوا کہ کوئی شخص بھی کوئی رائے قائم نے کر سکا اور اس حادثہ کو محض ایک اتفاق سمجھا گیا۔
لیکن․․․․․․․․․․․․․
روز فردا پھر ایک عقاب اُس شہر پر منڈلاتا ہوا دکھائی دیا۔ جس کے پنجوں میں مارِ سیاہ دبا ہوا تھا اور جب وہ عقاب شہر کے وسط میں پہنچا تو اس کے پنجوں سے نکل کر وہ سانپ ایک شخص کی گردن پر آ گیا۔ پھر وہی ہوا کہ اس نے اس آدمی کو ڈس لیا اور عقاب سانپ کو اپنے پنجوں میں دبا کر نظروں سے اوجھل ہو گیا۔
اسے بھی اتفاق ․․․․․․․ دوسرا اتفاق کہا جا سکتا تھا لیکن دوسرا اتفاق اہل شہر کے لیے تشویش کا باعث بھی بنا۔
اور جب تیسرے روز بھی یہ حادثہ پیش آیا تو تمام افراد شہر کو اپنی گردنوں پر سانپ اور سروں پر عقاب اڑتے ہوئے محسوس ہونے لگے۔ صاحب دانش غور و خوض میں مشغول ہوئے کہ ابا تفاق نہیں ہے۔ اتفاق مسلسل نہیں ہوتا۔ پورے شہر میں اجتماعی مشورے ہونے لگے، مفتیان شہر نے اعلان کیا کہ اس شہر میں گناہ بڑھتے جا رہے ہیں۔ شاید یہ خدا کے عذاب کی ایک شکل ہے کہ اس سے پہلے بھی آسمانی پرندوں نے کنکریاں برسائی تھیں اور جو لوگوں کے سروں میں اُتر گئی تھیں۔ اے لوگو! عبادت گاہوں کی طرف رجوع کرو۔ شاید اس بلائے آسمانی سے نجات ملے۔ شہر کی عورتوں نے اپنے شوہروں کی جان کی امان کے لیے اپنے سروں کو برہنہ کر کے خدائے ذوالجلال کے روبرو دست دعا بلند کیے۔
بازار بے رونق ہونے لگے۔ لوگوں کی آمد و رفت کم ہو گئی۔ پھر چند لوگوں نے یہ طے کیا کہ آئندہ جب بھی عقاب اپنے پنجوں میں سانپ لے کر آئے گا تو اسے کسی طرح ہلاک کر دیں گے۔ پھر یہی ہو اکہ جب عقاب نے اپنے پنجوں سے سانپ کو آزاد کیا تو اس کی گھات میں بیٹھے ہوئے لوگوں نے اس پر حملہ کر دیا۔ لیکن عقاب ان کے حملہ کی زد سے بچ کر نکل گیا تاہم ان سب نے اس سانپ کو ہلاک کر دیا جو بازار میں موجود ایک شخص کی گردن میں لپٹ کر اس کی پیشانی کو اپنی زہریلی زبان سے چوم چکا تھا۔ سانپ کو ہلاک کرنے کے بعد سب نے اطمینان کا سانس لیا کہ اب اہل شہر اس عذاب سے نجات پا گئے تھے۔ سب نے خوشیاں منائیں۔ عبادت گاہوں میں سجدہ ہائے شکر ادا کیے گئے۔ بازار میں گھومتے افراد کے چہروں پر ایک بار پھر خوشی کی چمک لوٹ آئی۔
اگلی صبح بہت سکون رہا، لوگ اپنے گھروں سے نکل کر بازاروں میں پہنچے، خوف تقریباً ختم ہو چکا تھا۔ لیکن یہ کیا؟
اچانک پھر آسمان پر عقاب پرواز کرتا ہوا دکھائی دیا۔ اس کے پنجوں میں بدستور سانپ دبا ہوا تھا اسی لمحہ عقاب کے پنجوں میں دبا ہوا سانپ ایک شخص کی گردن پر گرا اور اس نے اپنے زہر کو اس شخص کی پیشانی پر اگل دیا۔ عقاب نے اُسے اپنے پنجوں میں اُٹھا لیا لیکن قبل اس کے کہ وہ لوگوں کی نظروں سے روپوش ہوتا ایک نوجوان نے بڑھ کر اپنی بندوق سے اس کو نشانہ بنایا اور نتیجہ یہ ہوا کہ عقاب اور سانپ دونوں ہی زمین پر آگرے۔ افراط خوشی سے لوگوں نے نوجوان کو کاندھوں پر اُٹھا لیا کہ اس کی خاص دماغی، چستی اور چالاکی کے سبب ایک عذاب اہل شہر کے سروں سے ٹل گیا۔ اس روز گزشتہ روز سے زیادہ خوشیاں منائی گئیں کہ اب عقاب بھی ختم ہو چکا تھا۔
پھر کئی روز تک سکون رہا، نہ کوئی عقاب آیا اور نہ سانپ کسی کے اوپر گرا، سب خوش تھے، بازاروں اور دکانوں پر رونق ہونے لگی تھی اور لوگ گذرے ہوئے حادثوں کو بھولتے جا رہے تھے لیکن پھر ایک دن․․․․․․․․․․․
آسمان پر کئی عقاب بیک وقت پرواز کرتے ہوئے نظر آئے۔ سب کے پنجوں میں مار سیاہ دبے ہوئے تھے۔ اور جب وہ ایک مجمع کے اوپر پہنچے تو انہوں نے پنجوں میں دبے ہوئے سانپوں کو چھوڑ دیا اور سانپوں نے کئی لوگوں کی پیشانیوں کو زہر آلود کر دیا۔ عقاب پھر سانپوں کو لے کر غائب ہو گئے تھے۔
اس بار خوف ہوا کی طرح گلیوں اور گھروں میں گھس گیا تھا، ہر شخص پریشان تھا کہ اس کا بچنا مشکل ہے لوگوں نے اپنے گھروں کے دروازے اور کھڑکیاں بند کر لیے تھے بازاروں میں گھومنے والوں کی تعداد کم ہو گئی تھی۔ اس رات تمام اہل شہر ایک جگہ جمع ہوئے اور بہت دیر تک سوچتے رہے کہ اس عذاب سے نجات کا طریقہ کیا ہے۔ عقل حیران تھی، دست و پا بے بس تھے۔ شاید سانپ ان کا مقدر بن گئے تھے۔ ہر شخص اپنی گردن پر سانپ کی گرفت محسوس کر رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟
سانپ انہیں کی گردنوں پر کیوں گرتے ہیں جن کے سروں پر اونچے مکانوں کی چھتیں نہیں ہوتیں۔ جن کو زندگی کا تمام سفر پیدل طے کرنا ہوتا ہے۔ جو موسوں کی تبدیلیوں کو اپنے جسموں پر برداشت کرتے ہیں۔ سوچتے سوچتے جب ان کے ذہن تھک گئے تو سب نے فیصلہ کیا ہم سب جہاں پناہ کے روبرو جا کر اپنی اس مصیبت کا حال بیان کر یں گے اور اس سے درخواست کریں گے کہ وہ ہمیں اس عذاب سے نجات دلائے کہ خدا نے رعایا کی سر پرستی و محافظت اس کے ذمہ کی ہے۔
دوسرے روز تمام اہل شہر ایک جلوس کی شکل میں جہاں پناہ کی رہائش گاہ پر پہنچے اور اپنا حال بیان کیا۔ جہاں پناہ ان سے محبت اور شفقت سے پیش آئے اور کہا۔
’’ہم جانتے ہیں کہ ہماری رعایا ایک عذابِ آسمانی میں گرفتار ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ اس کے پیچھے کن لوگوں کا ہاتھ ہے اور ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ تم سب ہماری اولاد کی طرح ہو ہم تمہارے لیے فکر مند ہیں۔ اور کوشش کریں گے کہ تم لوگوں کو جلد اس مصیبت سے نجات ملے۔ ہم نے اپنے وزیروں کی ایک جماعت کو اس کی تحقیقات کے لیے متعین کیا ہے۔‘‘
جہاں پناہ کی اس بات سے سب خوش ہوئے کہ وہ اسے اپنا نا خدا جانتے تھے۔ سب نے بیک زبان جہاں پناہ کے اقبال کی بلندی کا نعرہ لگایا اور دعائے خیر دی۔ پھر اپنے اپنے گھروں کو لوٹنے لگے۔ ابھی چند ہی قدم آگے بڑھے تھے کہ جہاں پناہ کے عالیشان محل کے چاروں دروازوں سے چار بلند پرواز عقاب اپنے پنجوں میں سیاہ سانپوں کو دبائے ہوئے نکلے اور مجمع کے اوپر چھا گئے۔ آئی ہوئی رعایا نے علم غیض و غضب میں جہاں پناہ کی طرف دیکھا وہ اب بھی کہہ رہا تھا ’’تم سب ہماری اولاد کی طرح ہو۔ ہم تمہارے لیے فکر مند ہیں۔‘‘
٭٭٭